لفظ ’’عشق‘‘ روزمرہ کی اصطلاح اور معانی میں بھی استعمال ہوتا ہے، لیکن رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عشق ایک وسیع اور خصوصی جذبۂ عقیدت کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ لغت کے لحاظ اور معنی کے طور پر لفظ ’’عشق‘‘ کی تعریف گہری محبت یعنی (Great Passion) ہے، لیکن عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں لفظ ’’عشق‘‘ نہایت وسیع معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔
شاعرِ مشرق علامہ محمد اقبالؒ لکھتے ہیں ’’عشق کسی شے کو اپنے اندر جذب کر لینے اور اپنا جزوِ حیات بنا کر اپنا لینے کا نام ہے‘‘۔ مغربی مفکرین نے بھی عشق کی اسی قسم کی تعریف کی ہے۔
برٹرینڈ رسل کے خیال میں حیاتِ انسانی میں رنگینی اور دلچسپی کا وجود دو قدروں سے ہے: ایک علم اور دوسرے عشق۔ مشہور ماہر نفسیات سگمنڈ فرائیڈ بھی زندگی میں دو قوتوں کو بنیادی اہمیت کی حامل قرار دیتا ہے: ایک تخریبی قوت یعنی موت، اور دوسری تعمیری قوت جو عشق ہے۔
اردو زبان کے دو عظیم شاعر، شاعرِ مشرق علامہ محمد اقبالؒ اور الطاف حسین حالیؒ نے عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر انتہائی گہرائی اور گیرائی سے اپنے اپنے کلام میں اظہار کیا ہے۔ شاعرِ مشرق علامہ محمد اقبالؒ نہ صرف بلند پایہ مفکر اور عظیم المرتبت شاعر تھے بلکہ وہ بہت بڑے عاشقِ رسولؐ بھی تھے۔ ان کی منظومات، خطوط اور دیگر نثر پارے اس امر کے شاہد ہیں کہ انہیں حبیبِ خدا اور محبوبِ کبریا حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات و صفات مجموعۂ کمالات سے بے پناہ محبت تھی۔ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نام نامی اسم گرامی سنتے ہی آبدیدہ ہو جاتے تھے۔ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سوانحِ حیات کا بغور مطالعہ کیا تھا جس کی بنا پر ان کے موروثی عشقِ رسولؐ میں بہت زیادہ پختگی اور وارفتگی کی مثال پیدا ہو گئی تھی۔ شاعرِ مشرق علامہ محمد اقبالؒ کی شاعری کے تار و پود میں عشقِ رسولؐ کا جذبہ اس قدر رچا بسا تھا کہ جس طرح سونے کی انگوٹھی میں ہیرے کا نگینہ جڑا ہو۔
سچے عاشقِ رسولؐ کے سامنے جب نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر ہوتا ہے تو اس کی دلچسپی اور دلجمعی دیکھنے والوں کو تعریف پہ مجبور کر دیتی ہے۔ عاشق کے سامنے جب محبوب کا ذکر ہوتا ہے تو وہ جذبات پہ قابو نہیں رکھ سکتا۔ یہی سلسلہ شاعرِ مشرق علامہ محمد اقبالؒ کا بھی تھا، جب ان کے سامنے ’’اسمِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ آتا یا ان کے کان اس اسمِ مبارک کو سنتے تو ان کی آنکھوں سے بے اختیار آنسو رواں ہو جاتے اور دل بے تاب و بے قرار ہو جاتا۔
فقیر سید وحید الدین روزگار فقیر میں لکھتے ہیں: ’’ڈاکٹر صاحب کا دل عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے گداز کر رکھا تھا۔ زندگی کے آخری زمانے میں تو یہ کیفیت اس انتہا کو پہنچ گئی تھی کہ ہچکی بندھ جاتی تھی اور وہ کئی منٹ تک مکمل سکوت اختیار کر لیتے تھے تاکہ اپنے جذبات پر قابو پا سکیں اور گفتگو جاری رکھ سکیں۔ (روزگار فقیر جلد اول ص ۹۴-۹۵ ، مطبوعہ سپننگ ملز کراچی ۱۹۶۴ء)
علامہ محمد اقبالؒ کا یہی عشقِ رسول ہمیں ان کی اردو اور فارسی شاعری میں بھی نظر آتا ہے۔ اپنی شاعری کو فیضانِ رسولؐ قرار دیتے ہوئے وہ کہتے ہیں:
تب و تاب دل از سوز غم تست
نوائے من ز تاثیر دم تست
ترجمہ: ’’میرے دل میں جو گرمی اور بے تابی ہے آپؐ کے سوز غم کی بدولت ہے۔ میرے نالے آپ ہی کی توجہ کا فیضان ہے۔‘‘
دوسری جگہ فرماتے ہیں:
مرا ایں سوز از فیض دم تست
بتاکم موج مئے از زم زم تست
خجل ملک جم از درویشی من
کہ دل در سینہ من محرم تست
ترجمہ: ’’مجھے جو سوز عطا ہوا ہے وہ آپؐ ہی کا فیضان ہے۔ میرے انگوروں کی بیل میں جو شراب ابل رہی ہے وہ آپؐ ہی کے زمزم سے نکلی ہے۔ میری درویشی سے مملکتِ کسریٰ و جمشید بھی شرماتی ہے کیوں کہ میرے سینے میں جو دل ہے وہ آپؐ ہی کے اسرار کا محرم ہے۔‘‘
میرا قیام بھی حجاب، میرا سجود بھی حجاب
شعراء کرام اپنے کلام میں زیادہ تر جذبۂ محبت کی شدت اور ذاتی حالات پر زور دیتے ہیں، بہت کم شعراء جذبات کی شدت کے ساتھ ساتھ بلندئ افکار اور جدتِ خیالات کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ شاعرِ مشرق علامہ محمد اقبالؒ بہترین شاعر ہونے کے علاوہ بلند مرتبہ فلسفی اور مفکر بھی تھے، اس لئے انہوں نے بڑی خوبصورتی سے گہرے جذبات کو اعلیٰ افکار کے ساتھ اس طرح ملا دیا کہ ان کی شاعری کو نئی آب و تاب میسر تھی۔ وہ اپنے جذبات اور عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی جھلک عالمِ دنیا کو اس انداز سے پیش کیا کرتے تھے کہ دنیا محوِ حیرت ہو جاتی۔ رحمتِ عالم اور سرکارِ دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں اس طرح نعت سرا ہوتے:
آیہ کائنات کا معنی دیر بایاب تو
نکلے تری تلاش میں قافلہ ہائے رنگ و بو
لوح بھی تو قلم بھی تو، تیرا وجود الکتاب
گنبدِ آبگینہ رنگ تیرے محیط میں حباب
عالم آب و خاک میں تیرے ظہور سے فروغ
ذرہ ریگ کو دیا تو نے طلوعِ آفتاب
شوکتِ سنجر و سلیم تیرے جلال کی نمود
فقرِجنیدؒ و بایزید ؒتیرا جمالِ بے نقاب
شوق ترا اگرنہ ہو میری نماز کا امام
میرا قیام بھی حجاب، میرا سجود بھی حجاب
جبرائیل بھی آئینہ رسالت کا جوہر
شاعرِ مشرق علامہ محمد اقبالؒ کی نظروں میں عشقِ رسولؐ ہی حاصلِ دنیا و دین تھا، اور اس کا سرچشمہ وہ ذاتِ اقدس ہے جس کے طفیل سارے عالم کی تخلیق ہوئی اور جس کی وجہ سے یہ دنیا قائم ہے۔ علامہ محمد اقبالؒ کے ان اشعار کو پڑھیے اور محسوس کیجیے کہ شاعر نے جب یہ اشعار کہیں ہوں گے تو اس کے دل کی کیا کیفیت ہو گی:
جہاں از عشق و عشق از سینہ تست
سروش از مئے دیرینہ تست
جز ایں چیزے نمی دانم ز جبریل
کہ او یک جوہر از آئینہ تست
ترجمہ: ’’دنیا عشق کی دولت سے قائم ہے اور عشق کی دولت آپؐ کے سینہ مبارک سے حاصل ہوتی ہے۔ اس عشق میں سرور اس شرابِ کہن سے پیدا ہوتا ہے جو آپؐ نے کشید فرمائی اور پلائی۔ مجھے جبرئیل کی بابت بھی صرف اتنا معلوم ہے کہ جبرئیل بھی آئینۂ رسالتؐ کے ایک جوہر کا نام ہے۔‘‘
مری دانش ہے افرنگی، مرا ایماں ہے زُناری
شاعرِ مشرق علامہ محمد اقبالؒ کا عشقِ رسول اس کمال پر پہنچا ہوا تھا کہ بسا اوقات فرطِ جذبات سے مغلوب ہو کر وہ اپنی اور مسلمانانِ عالم کی بے بسی و بے کسی کی فریاد براہ راست رحمت للعالمین کے حضور کرنے لگتے تھے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا گویا آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم آپ کے روبرو تشریف فرما ہیں اور آپ ان فریاد رسی کی التجا کر رہے ہیں۔ جیسا کہ اس شعر سے معلوم ہوتا ہے:
تو اے مولائے یثرب! آپ میری چارہ سازی کر
مری دانش ہے افرنگی، مرا ایماں ہے زُناری
کرم اے شہہ عرب و عجم کہ کھڑے ہیں منتظر کرم
وہ گدا کہ تونے عطا کیا ہے جنہیں دماغِ قلندری
دگرگوں کرد لادینی جہاں را
ز آثار بند گفتند جاں را
ازاں فقرے کہ با صدیق داری
پشورے آور ایں آسودہ جاں را
ترجمہ: ’’ساری دنیا کو لادینی نے دگرگوں کر دیا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ دنیا والے روح کو بھی جسم کے آثار میں شمار کرنے لگے ہیں۔ جو فقر آپؐ نے حضرت ابوبکر صدیقؓ کو بخشا تھا اس سے ہماری بے حس روحوں میں سوز و حرکت پیدا فرما دیجیے۔‘‘
علامہ اقبالؒ کی سوچ و فکرِ اطاعتِ رسولؐ
آج ہم مسلمان عشق رسول کا دعویٰ تو کرتے ہیں لیکن ہمارا کردار اس کے برعکس ہے۔ دعوئ عشق اس وقت تک مکمل نہیں ہوتا جب تک اتباع و اطاعت محبوب نہ ہو۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر فعل و عمل پر نظر رکھتے اور دل و جان سے ان کی تقلید کرتے تھے۔ حضرت عبد اللہ بن عمرؓ جب حج کو جاتے تو بلا کسی ظاہری سبب کے جا بجا رکتے، یا اٹھتے بیٹھتے جاتے۔ کسی نے اس کی وجہ دریافت کی تو آپؓ نے جواب دیا کہ میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو سفرِ حج میں جس جگہ جس حالت اور جس انداز میں دیکھا، میں چاہتا ہوں کہ ان طریقوں پر جوں کا توں عمل کروں۔ اسی طرح عبد اللہ بن مسعودؓ ایک مرتبہ جمعہ کے لیے مسجد میں آئے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت خطبہ دے رہے تھے۔ یکایک ان کے کان میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز آئی کہ بیٹھ جاؤ! حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ اس وقت دروازے پر تھے، سنتے ہی وہیں بیٹھ گئے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جب آپ کو بیٹھے دیکھا تو فرمایا اے ابن مسعود! آگے آجاؤ۔
علامہ اقبالؒ نے سیرتِ رسولؐ و صحابہؓ کا بغائر مطالعہ کیا تھا۔ وہ جانتے تھے کہ بغیر اطاعتِ رسولؐ کے قربتِ رسولؐ بلکہ قربتِ خدا بھی ممکن نہیں ہے، وہ فرماتے ہیں:
در اطاعت کوش ائے غفلت شعار
می شود از جبر پیدا اختیار
ناکس از فرماں پذیری کس شود
آتش ار باشد ز طغیاں خس شود
ترجمہ: ’’اے غافل! اطاعت میں سرگرم رہ۔ اسی جبر ہی سے تو اختیار کا رتبہ حاصل ہوتا ہے۔ اتباع اور فرماں برداری سے نااہل بھی اہل بن جاتے ہیں۔ آگ بھی ہو تو اس کے شعلے بجھ جاتے ہیں۔‘‘
شاعرِ مشرق علامہ محمد اقبالؒ نے سنتِ رسولؐ کی پیروی کو اپنا شیوۂ حیات بنا لیا تھا۔ ’’جوہرِ اقبال‘‘ میں ایک عجیب اور بصیرت افروز واقعہ بیان کیا گیا ہے، جس سے علامہ اقبالؒ کے جذبۂ شوق و اطاعتِ رسول کا اندازہ ہوتا ہے۔ لکھتے ہیں کہ پنجاب کے ایک دولت مند رئیس نے ایک قانونی مشورے کے لیے اقبال اور سر فضل حسین اور ایک دو مشہور قانون دان اصحاب کو اپنے ہاں بلایا، اور اپنی شاندار کوٹھی میں ان کے قیام کا انتظام کیا۔ رات کو جس وقت اقبال اپنے کمرے میں آرام کرنے کے لیے گئے تو ہر طرف عیش و تنعم کے سامان دیکھ کر، اور اپنے نیچے نہایت نرم اور قیمتی بستر پا کر معاً ان کے دل میں یہ خیال آیا کہ جس رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی جوتیوں کے صدقے میں آج ہم کو یہ مرتبے حاصل ہوئے ہیں ، اس نے بوریے پر سو کر زندگی گذار دی تھی۔ یہ خیال آنا تھا کہ آنسوؤں کی جھڑی بندھ گئی۔ اسی بستر پر لیٹنا ان کے لیے نا ممکن ہو گیا۔ اٹھے اور برابر کے غسل خانے میں جا کر ایک کرسی پر بیٹھ گئے، اور مسلسل رونا شروع کر دیا۔ جب ذرا دل کو قرار آیا تو اپنے ملازم کو بلوا کر اپنا بستر کھلوایا، اور ایک چارپائی اسی غسل خانے میں بچھوائی۔ اور جب تک وہاں مقیم رہے، غسل خانے ہی میں سوتے رہے۔ یہ وفات سے کئی برس پہلے کا واقعہ ہے۔ (محمد حسنین سید۔ جوہرِ اقبال۔ ص ۳۹-۴۰، مطبوعہ مکتبہ جامعہ دہلی ۱۹۳۸ء)
بولہبی اور بے دینی
علامہ محمد اقبالؒ کی زندگی اور ان کی شاعری عشقِ رسولؐ کے جذبے سے مملو ہے۔ ذاتِ محمدیؐ تک رسائی کو ہی وہ سراپا دین قرار دیتے تھے۔ اس کے علاوہ سب کچھ ان کی نظروں میں بولہبی اور بے دینی ہے:
بہ مصطفی بہ رساں خویش را کہ دین ہمہ اوست
اگر بہ او نرسیدی تمام بولہبی است
ترجمہ: ’’حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی بارگاہ سے خود کو متصل کر لو کیونکہ دینِ اسلام کی اساس حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں۔ اگر تو وہاں تک نہیں پہنچ پاتا، تو تیرے تمام اعمال بولہبی (کفر اور اسلام دشمنی کی علامت) ہیں۔‘‘
علامہ محمد اقبالؒ فرماتے ہیں کہ اگر حق اور سچ کے طالب ہو تو نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ سے اپنا ناطہ جوڑ لو اور ان کے اسوۂ حسنہ کی پیروی کرو کیونکہ آپ کا اسوۂ حسنہ ہی مکمل دین ہے۔
دین خود کو کسی خاص ملک جماعت یا قومیت سے متصل کرنے کا نام نہیں یہ تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے مضبوط قلبی اور روحانی تعلق قائم کرنے کا نام ہے اگر ان کے اسوۂ حسنہ سے روگردانی کرو گے تو کسی لادینی قوت کا ایجنڈا پورا کرو گے جو سراسر بولہبی کے زمرے میں آتا ہے اور بولہبی اسلام کے خلاف کھلی جنگ ہے۔ ایک اور جگہ فرماتے ہیں:
ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تاامروز
چراغ مصطفوی سے شرار بولہبی
عشقِ رسولؐ کا معیار تقلیدِ رسولؐ
شاعرِ مشرق علامہ محمد اقبالؒ نے جس عظیم ترین انسانی ہستی کی مدح سرائی کی اس پر اللہ تعالی اور اس کے فرشتے صلوٰۃ و سلام بھیجتے ہیں۔ ایسی بے نظیر ہستی کی شان دیکھئے کہ خود خالقِ کائنات اس کا گرویدہ ہے۔ دنیا کی تاریخ کے اوراق الٹتے جائیں، آپ کو کہیں رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم جیسی ہمہ جہت، مجموعۂ کمالات، مونس و غم خوار اور انقلابی شخصیت نظر نہیں آئے گی، جس میں تمام ظاہری اور باطنی خوبیاں بدرجہ اتم موجود ہوں۔ بلاشبہ آپ کی رسالت تمام دنیا والوں کیلئے بہترین نمونۂ عمل اور اسوۂ کامل کی حامل ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تمام امیر و غریب حاکم و محکوم، سپہ سالاروں، سیاستدانوں، مصلحین، مفکرین قانون سازوں اور رہنماؤں وغیرہ کیلئے اسوۂ حسنہ کی حیثیت رکھتے ہیں، جیسا کہ ارشادِ خداوندی ہے ’’لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنۃ‘‘ تحقیق تمہارے لئے رسول اللہ بہترین نمونہ عمل ہیں۔
قارئین کرام! شاعرِ مشرق علامہ محمد اقبالؒ اور عشقِ رسولؐ کے عنوان پہ لکھنے اور ان کے نعتیہ کلام کا مکمل جائزہ لینے کیلئے کئی صفحات درکار ہیں۔ نعتِ پیغمبرؐ نے ان کے کلام پر ابدیت اور ان کے عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر مہر ثبت کر دی ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ شاعرِ مشرق کے کلام کے متن میں قرآنی تعلیمات اور عشقِ رسولؐ کی روح بولتی ہے تو یہ مبالغہ نہیں۔
شاعرِ مشرق علامہ محمد اقبالؒ کے نزدیک عشقِ رسولؐ کا معیار تقلیدِ رسولؐ ہے جیسا کہ وہ خود فرماتے ہیں: مسلمانوں کا فرض ہے کہ اسوۂ رسول کو مد نظر رکھیں تاکہ جذبۂ تقلید اور جذبۂ عمل قائم رہے۔ (میلاد النبیؐ کے موقع پر تقریر ۱۹۲۶ء)