آپ کو یاد ہو گا کہ تقسیمِ ہند کے بعد اردو کا چلن سکولوں وغیرہ میں سرکاری طور پر ختم کر دیا گیا تھا اور پھر دستورِ ہند کی دفعہ ۳۴۳ کے تحت یہ طے پایا تھا کہ حکومتِ ہند کی سرکاری زبان ہندی ہو گی جو دیوناگری رسم الخط میں لکھی جائے گی، اور پھر ۱۹۵۱ء میں دفعہ ۳۴۵ کے تحت ہندی کو یو پی کی سرکاری زبان بنا دیا گیا اور اردو کے وجود کو نظرانداز کر دیا گیا۔ ہم اردو والوں نے پنڈت کشن پرشاد کول صاحب کی زیرقیادت دستخطی مہم کا آغاز کیا اور لسانی تعصب کی تلواروں کی چھاؤں میں دستخطی مہم کامیابی سے ہمکنار ہوئی تھی۔ وقت گزرتا گیا اور اردو کا کاروان چلتا رہا، اور جس ریاست میں اردو کا وجود سرکاری طور پر ختم ہو گیا تھا اس کو درجہ آٹھ تک ذریعۂ تعلیم بنانے کی اجازت مل گئی، اور اب ہماری مانگ ہے کہ دسویں درجہ تک اردو کو ذریعہ تعلیم تسلیم کر لیا جائے، اردو کورس کی کتابوں کو شائع کرنے کا ایسا بندوبست کیا جائے کہ وہ سیشن شروع ہونے سے پہلے پورے صوبے میں بآسانی دستیاب ہو سکیں وغیرہ۔
مگر ان مراعات کو عملی جامہ پہنانے میں جن دقتوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے وہ کام کرنے والے ہی جانتے ہیں، یہ صرف ہمارے ساتھ حکومت ہی کا برتاؤ نہیں ہے، سرکاری دفتروں میں درخواست کے ساتھ ساتھ جانا پڑتا ہے تب جا کر کام ہوتا ہے۔ اردو والوں کے حالات کچھ زیادہ سخت ہیں مگر محنت اور لگن سے کام ہو جاتے ہیں۔ اس لیے سب اردو دوستوں سے اپیل ہے کہ حکومت نے اردو کو جو مراعات دی ہیں ان کو اپنے حلقوں میں بروئے کار لانے کی ذمہ داری اب اردو والوں کی ہے۔ اردو سے محبت کے معنی ہیں کہ اس کی عملی خدمت کی جائے۔
حکومت اردو کو دوسری سرکاری زبان تسلیم کرنے کے بعد اپنی ذمہ داریوں سے ایک حد تک سبک دوش ہو جائے گی اور اردو کا چلن دوبارہ شروع صرف اسی صورت میں ہو سکتا ہے کہ اترپردیش کے ہر گوشہ میں ان مراعات کو عملی جامہ پہنایا جائے۔
اس کے علاوہ ہماری مانگ یہ بھی ہے کہ ہر تحصیل میں کم از کم دو اردو میڈیم سکول سرکار اپنے خرچ سے چلائے۔ مگر اس میں قباحت یہ ہے کہ پھر وہ بھی ہمارے لیے ایک مسئلہ بن جائے گا، مثلاً بی ٹی سی (بیسک ٹیچرز سرٹیفیکیٹ) سینٹروں کو لیجئے، یہ بیسک ٹریننگ کالج (اردو) انجمن کی درخواست پر ٹیچروں کو اردو تعلیم دینے کے لیے وجود میں آئے تھے اور اب یہاں سب مضامین پڑھاتے ہیں سوائے اردو کے۔ ان کالجوں کی لائبریری کے لیے حکومت اب تک دو تین لاکھ روپے تو دے ہی چکی ہو گی مگر ایک پیسے کی بھی اردو کتابیں نہیں خریدی گئی ہیں۔ اگر ان میں سے کوئی کالج جن کی تعداد ۴ ہے، مجھے اپنے متعلقہ لائبریری میں کسی ایک سال کی مالی امداد سے اردو کی کتابوں کے خریدنے کی رسید اور کتابیں دکھا دے تو میں اپنا بیان واپس لے لوں گی اور معافی مانگ لوں گی۔
ان حالات کے پیشِ نظر ہمارا مطالبہ ہے کہ بی ٹی سی پاس شدہ ٹیچروں کو عام ٹیچر تصور کیا جائے اور اس میں محکمۂ تعلیم کو کوئی قباحت بھی نہیں ہو گی، صرف سائن بورڈ ہی تو بدلنا ہو گا۔ اس تمام جدوجہد سے بچنے کے لیے ہمارا مطالبہ ہے کہ ہر تحصیل میں کسی اچھے دو اردو مکتبوں یا پرائیویٹ اردو اسکولوں کو حکومت اپنا لے۔ ٹیچروں وغیرہ کی تنخواہ دے تاکہ حکومت کے تعاون سے یہ مکتب یا سکول اپنا معیارِ تعلیم بلند کر سکیں اور پھر جلد ہی ان کو اردو میڈیم ہائی سکول میں تبدیل کر دیا جائے۔
اس جگہ اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ صوبہ میں اس وقت ۸۱۴ گرانٹ یافتہ مکاتب ہیں اور ہم ان مکاتب کی کھوج کر رہے ہیں جن کو پہلے گرانٹ ملی تھی اور اب بند ہو گئی ہے تاکہ ان کی گرانٹ پھر سے جاری کرائی جا سکے۔ اس کے علاوہ ہم نے حکومت سے یہ بھی طے کیا ہے کہ ان امداد یافتہ مکاتب کا انتظام موجودہ ناظم صاحبان کے ہاتھ میں پہلے کی طرح رہے اور اگر حکومت کا دخل ذرا بھی ہوا تو اردو تعلیم کا مقصد فوت ہو جائے گا۔
اس کے علاوہ سرکاری جی او نمبر x17-110-59 / 10453 مورخہ ۲۱ اگست ۱۹۵۹ء کی رو سے اردو میں رجسٹریاں بیعنامہ بغیر ہندی ترجمہ لگائے جا سکتے ہیں اور اس پر عمل سب سے پہلے قاضی عدیل عباسی مرحوم ایڈووکیٹ نے بستی میں کیا اور جب تک وہ زندہ رہے اس پر عمل ہوتا رہا۔ میں قاضی صاحب کی مثال ادھر بار بار دے رہی ہوں تاکہ ہمارے وکیل صاحبان اس طرف توجہ فرمائیں اور عدالتوں و کچہریوں میں اردو کا چلن پھر سے عام ہو جائے۔ میں جانتی ہوں کہ اب یہ کام آسان نہیں ہے لیکن ہمیں اگر اپنی مادری زبان سے محبت ہے تو یہ کرنا ہو گا۔
ایک بڑی کامیابی انجمن کو یہ ہوئی، جس کو بروئے کار لانے کے لیے یو پی کے ہر کونے میں محبانِ اردو کو سرگرم عمل ہونا چاہیئے، وہ یہ کہ حکومتِ ہند پورے ملک میں جہالت کے خلاف ایک تعلیمِ بالغاں مہم چلاتی ہے، تامل، تلگو، بنگالی وغیرہ، غرضیکہ شیڈول ۸ میں شامل ہر زبان کے لوگ اس مہم میں شرکت کر رہے ہیں سوائے اردو کے، انجمن کی کوششوں سے اردو ڈائریکٹوریٹ سے ایک خط نمبر کیمپ/بسیک/زبان 3-2683-2780 مورخہ ۱۴ ستمبر ۱۹۸۹ء کو ہر بسیک شکشا ادھیکاری کے نام جاری ہو گیا ہے کہ وہ ۱۵ دن کے اندر اندر ڈائریکٹر اردو کو بتائیں کہ ان کے حلقے میں کس قدر اردو تعلیمِ بالغاں کی کلاسیں کھولی جا سکتی ہیں۔ ظاہر ہے بسیک شکشا ادھیکاری صاحبان اس طرف کچھ خاص توجہ نہ دے پائیں گے اس لیے یہ کام اب محبانِ اردو کا ہے کہ وہ بالغوں اور ان کے بچوں کے لیے اردو کلاسیں کھلوانے کے لیے بسیک شکشا ادھیکاری صاحبان کو خود ہی لکھ دیں کہ ان کے حلقے میں کن کن محلوں میں اندازًا کتنی کلاسیں ان پڑھ مردوں، عورتوں اور بچوں کی کھل سکتی ہیں۔ اس کے بعد چپ نہیں بیٹھنا ہے انہیں یاددہانی کرانا ہے۔ جی ایس اے اور ضلع کے تعلیم بالغان افسر سے بھی ملنا ہو گا (کہ) اس تجویز پر عمل کیا؟ مثلاً مجھے آج ہی اطلاع ملی ہے کہ لکھنؤ شاخ کے ایک سرگرم کارکن جناب جمال علوی نے اس تجویز پر عمل کیا اور بدقت تمام ان ضلع کے تعلیم بالغان افسر سے تعلیم بالغان کتابوں کے Kits دیئے مگر اس میں اردو کی کوئی کتاب نہیں تھی۔ اب اس کی شکایت بھی جناب نرائن دت تیواری جی سے کی جا رہی ہے۔ توقع ہے کہ جلد ہی اردو کا سیٹ Kits بھی تیار ہو کر اردو والوں کی خدمت کے لیے آجائیں گے، مگر ہر طرف سے اردو کٹ کی مانگ کی ضرورت ہے۔
یہ سب کام پورے صوبے میں عملی جامہ پہن سکتا ہے بشرطیکہ آپ حضرات خود دلچسپی لیں۔ اب وہ زمانہ گیا جب کچھ مقامات پر انجمن کے کارکنوں نے ایک ایک سکول میں اردو جاری کرانے کے لیے پچیس تیس سال تک محنت کی ہے۔ اب تو ہر مقام کے اردو نواز حضرات کو سرگرمِ عمل ہونا چاہیئے۔ قالین پر بیٹھ کر غمِ اردو کو بیان کرنا بھی اپنا ایک مقام رکھتا ہے مگر اب وقت ہے عملی اقدام کا تاکہ حکومت کے نافذ کردہ قوانین کو عملی جامہ پہنایا جا سکے۔
مزید معلومات ’’ریاستی انجمن ترقی اردو‘‘ اترپردیش جی ۳/۴ رپورنک کالونی لکھنؤ سے حاصل کیجئے۔
(بشکریہ دیوبند ٹائمز)