ثقافتی زوال کا رجائیہ نوحہ

پروفیسر میاں انعام الرحمن

’’چلو جگنو پکڑتے ہیں‘‘ کلیم احسان کا دوسرا شعری مجموعہ ہے۔ اس مجموعے میں اس شعری روایت کی ’’ترفیع‘‘ جھلکتی ہے ، جو میرو ناصر کے ادوار سے گزر کر موسمِ گل کی حیرانگی میں رونما ہوئی اور خود اس مجموعے میں جا بجا بکھر گئی :

دل ہمارا اجاڑ بستی میں 

ایک خالی مکان لگتا ہے

مریدِ میر، رفیقِ حزن کہتا جا رہاہے:

مرا دیوان ہوتا جا رہا ہے

کہ غم آسان ہوتا جا رہا ہے

ہو سکتا ہے بعض اصحاب کو اس سے اتفاق نہ ہو کہ شعروسخن کے دیپ ، خونِ جگر سے جلتے ہیں اور خونِ جگر ’’روحِ غم‘‘ ہے۔ کم از کم راقم کی نظر میں تو پر مسرت لمحوں کی اچھل کود ، ہوا کے اس جھونکے کی مانند ہے ، جو آیا اور گزر گیا، جبکہ روحِ غم کی یہی ’’روح‘‘ ہے کہ شدت اور تیز بہاؤ کے باجود بھی ’’نقش گری‘‘ سے محترز نہیں رہ سکتی ۔اگر یقین نہیں تو بہتے پانی کے اس نقش پر غور کیجئے جو وہ ’’پتھر‘‘ پر بھی ثبت کر دیتا ہے ۔ روحِ غم اور بہتے پانی ، دونوں کی فطرت میں نقش گری لکھی ہے (بہاؤ اور ٹھہراؤ کے باعث)۔

محبت روگ بنتی جا رہی ہے 

مجھے سرطان ہوتا جا رہا ہے

یہاں تک تو اس مجموعے میں دبستانِ میر کا بکھراؤ ہے ،اس سے آگے سبھاؤ شروع ہو جاتا ہے ۔کلیم کے پہلے شعری مجموعے ’’موسمِ گل حیران کھڑا ہے ‘‘ میں بھی ایسی علامات جھلملا رہی تھیں ، جن سے معلوم ہوتا تھا کہ غم کی ترفیع بہت سبھاؤ سے ہو گی ، مثلاً:

مرے باہر خموشی چھا گئی ہے 

مرے اندر کبوتر بولتے ہیں 

راقم نے اس شعر کے ضمن میں لکھا تھا کہ: 

’’ کبوتر معصومیت اور جمال کا آئینہ دار ہے ۔ کبوتر امن کا پرندہ ہے ۔ کبوتر کا استعارہ ، شاعر کے مزاج کی شائستگی اور انسان دوستی کا مظہر ہے ۔ لیکن کبوتر کا صرف اندر بولنا اور باہر خاموشی ، بہت معنی خیز ہے۔برِ صغیر کی شعری روایت میں کبوتر قاصدکی علامت ہے۔ ہر اعتبار سے مترشح ہوتا ہے کہ شاعر امن کا پیغام رکھتا ہے، لیکن اس کا اظہار نہیں کر پارہا ۔ امن کا جذبہ اس کے اندر پھڑ پھڑا رہا ہے، لیکن ہمارا شاعر بے بسی محسوس کرتا ہے۔ معروضی واقعیت کی منفی صورتِ حال نے کلیم کی شعری فعلیت کو شعرِعالیہ کی سطح پر اظہار کے اعتبار سے شدید متاثر کیا ہے ۔صوفیانہ نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو شاعر، معرفت کے بعد لوگوں کی طرف واپسی کا سفر اختیار نہیں کر سکا (ایسا اکثر دیکھنے میں آیا ہے)۔ محولہ بالا شعر ، کتاب کے عنوان سے بھی مناسبت رکھتا ہے ۔ حیرانی کی انتہا خاموشی کا سبب بنتی ہے اور موسمِ گل کو کبوتر سے قریبی نسبت ہے۔یوں موسمِ گل اور کبوتر شاعر کی باطنی آواز کو ظاہر کرتے ہیں اور حیرانی و خاموشی، معروضی جبر کو‘‘۔

اب کلیم کے نئے مجموعہ کلام میں ’’جگنو‘‘ ایک ایسا استعارہ ہے، جو مذکورہ بے بسی کی ترفیع بن کر ابھرا ہے۔جگنو صرف روشنی نہیں، بلکہ قابلِ رسائی روشنی ہے ، ایسی روشنی ہے جو مستعار نہیں لی گئی ۔ اقبال نے بھی جگنو کی زبان سے کہلوایا تھا کہ :

اللہ کا سو شکر کہ پروانہ نہیں میں 
دریوزہ گرِآتشِ بیگانہ نہیں میں 

(اقبال کے تصورِ خودی کے سیاق و سباق میں آتشِ بیگانہ سے احتراز سمجھ میں آتاہے اور جگنو سے نسبت بھی)۔ کیونکہ آتشِ بیگانہ ’’شخصی شعلگی‘‘ کو ہوا نہیں دے سکتی ، اسی لئے ہمارے شاعر نے بھی کہہ دیاہے :

وہ مجھے راستہ دکھاتا ہے ! 

مری مٹھی میں ایک جگنو ہے

مٹھی میں جگنو وہ روشنی ہے جو اپنی ہے، ذاتی ہے ۔ اہم بات یہ ہے کہ جگنو ہتھیلی پر نہیں، کیونکہ ہتھیلی ’’لینے‘‘ کی علامت ہے اور مٹھی ’’دینے‘‘ کی۔ اس سے انانیت کا تاثر بھی ابھرتا ہے، لیکن آپ جانتے ہیں کہ پیدائش کے بعد بچے کا ہاتھ ’’ مٹھی ‘‘ ہوتا ہے، جس میں جگنو جگمگ جگمگ کر رہا ہوتا ہے ۔ یوں کلیم کی انانیت ، ایک بچے کی انانیت معلوم ہوتی ہے: 

جو خوشبو کے سفر میں ساتھ مجھ کو لے کے نکلی تھی
وہ لڑکی ایک تتلی تھی میں اک چھوٹا سا بچہ تھا

یہاں خوشبو کا سفر ’’ پہلی محبت‘‘ کا استعارہ بھی ہے ، تتلی اور بچے نے اسے اجلا اجلا کر دیا ہے ۔

جگنو کے حوالے سے ایک اور بات قابلِ غور ہے کہ اس لفظ کے ذکر سے ہی کھیت کھلیان، شجر، پگڈنڈی اور ہریالی وغیرہ کا منظر ذہن کے افق پر پھیلتا چلا جاتا ہے ۔ اس طرح جگنو ایک ایسی ثقافت کی علامت بن جاتا ہے جو خاکی اور دیہی ہے ، جس میں ایک طرف شیشم کی ٹہنیوں سے گونجتی چہچہا ہٹیں اور پیپل تلے بنے ہوئے ’’ چونتے‘‘ ہیں ، تو دوسری طرف البموں میں سنبھال سنبھال کر رکھی ہوئیں اپنے پیاروں کی دل گداز یادیں ، اور ان پر مستزاد ، ماں کی محبت !! راقم کی نظر میں کلیم کی شاعری ، دراصل اسی ثقافت کی تباہی کا وہ ’’ نوحہ‘‘ ہے ، جس میں ماں کی محبت سے سرشار ایک بچہ ریں ریں کرتا ہے، روتا بسورتا ہے لیکن ماں سے یہی محبت ’’جگنو‘‘ بن کر اس بچے کو نہ تو مایوس ہونے دیتی ہے اور نہ ہی ایسے کتھا رسس کا باعث بننے دیتی ہے ، جس سے شخصی شعلگی مدھم پڑ جائے۔ (ماں ! مذکورہ ثقافت کی بھی علامت ہے)۔ کلیم کا یہ شعر راقم کے نقطہ نظر کو مزید تقویت دیتا ہے :

تمہارا کھیل تھا نادان بچو!
مگر چڑیا کو دیکھو مر رہی ہے

ہاں! بے جگنو ثقافت میں چڑیا مر ہی جاتی ہے۔ یہاں اپنی یاداشت پر دستک دے کر اس لوک کہانی کو ذہن میں لائیے جو (ذرا سے اختلاف سے) تقریباً ہر سماج میں پائی جاتی ہے ، جس میں جگنو ، چڑیا کو گھر چھوڑنے جاتاہے۔جگنو درحقیقت کسی سماج کی ’’داخلی روشنی‘‘ کی علامت ہے اور چڑیا ان خارجی اداروں اور رویوں کی علامت ہے جن سے انسان ، انسان بنتا ہے ۔ہمارا شاعر واضح طور پر آگاہ کر رہا ہے کہ ان رویوں کی اصل روح ختم ہوتی جا رہی ہے ، خالی خولی ڈھانچے سے رہ گئے ہیں ، ان کے اندر زندگی کی لہر دوڑانے والی روشنی مفقود ہوگئی ہے ، زندگی پر موت طاری ہو گئی ہے۔جب جگنو نہ رہے تو چڑیا بے سمت ہو کر آخر کیسے گھر پہنچ سکتی ہے؟ علومِ حا ضرہ کی خلعتوں میں ملبوس ’دانشور‘ شاید کلیم کا یہ نکتہ نہیں سمجھ سکتے۔

اسی شعر میں مضمر اہم نکتہ یہ ہے کہ چڑیا مری نہیں، مر ’’ رہی ‘‘ ہے اور گدھ منڈلانے شروع ہو گئے ہیں۔ یعنی ابھی کھیل ختم نہیں ہوا ، ہم لوگ ثقافت کو ’’بے جگنو ‘‘ کرنے کا کھیل جاری رکھے ہوئے ہیں تاکہ چڑیا(گھر کا رستہ بھول کر) مر جائے اور کھیل ختم ہو جائے ۔ یہاں ہمارا شاعر ہمیں دعوت دیتا ہے :

چلو جگنو پکڑتے ہیں

یہ دعوت سماج کو اس کی روح لوٹانے کی دعوت ہے، وہ ثقافت لوٹانے کی دعوت ہے جو ارضی ہے، خاکی ہے، دیہی ہے اور اپنی ہے ۔یوں سمجھیے کہ زندگی پر سے موت کو ہٹانے کی دعوت ہے ۔یہیں پر یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ شخصی شعلگی،کلیم کے تصورِ خودی کو ’’ متعین صورت‘‘ میں سامنے لاتی ہے۔ یہ صورت اول و آخر ، مذکورہ ثقافت کی ہی صورت پذیری ہے اور بس۔ (گویا کہ کلیم دبستانِ میر سے انتہائی وابستگی کے باوجود ’’ اقبالی رجائیت‘‘ سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکا)

اس مجموعے پر سرسری نظر ڈالنے سے ہی نہ صرف مذکورہ ثقافت کی صورت پذیری کے عناصر جھلملانے لگتے ہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اس ثقافت کی تباہی و انحطاط کے مختلف شیڈز اور پہلو بھی، ترفیعی سبھاؤ میں بکھراؤ کا سماں پیدا کر دیتے ہیں، مثلاً اسی غزل کے یہ شعر دیکھیے:

چلو باغوں کو چلتے ہیں 
چلو جگنو پکڑتے ہیں 
ستارے، پھول اور شبنم 
ہمارا دکھ سمجھتے ہیں

یہ دونوں شعر بطور’’قطعہ‘‘ بھی لیے جا سکتے ہیں ۔آخری مصرعے نے معنویت اجاگر کر کے امریکن شاعرہ Maya Angelou کی نظم Woman Work کی یاد تازہ کر دی ہے۔ مایا نے بھی خواتین کی روزمرہ کی بے کیف مصروفیت کا رونا رو کر عناصرِ فطرت کی آغوش میں پناہ لینے کی خواہش کی ہے۔ اس کے ہاں بھی بے کیف مصروفیت سے مراد ، زندگی کی روح سے دوری ہے۔ ہمارا شاعر بھی اسی بے کیف مصروفیت سے شاکی ہے۔ اسے یہ دکھ ہے کہ :

یہاں پر جاگنا ہی جاگناہے 
یہاں پر رات ہوتی ہی نہیں ہے 

اسی قبیل کا یہ شعر بھی ملاحظہ کیجئے، جس میں ’ مِیری لہجے ‘ کی چاشنی بھی موجود ہے :

اک لہو سا ہے آنکھوں میں ٹپکا ہوا 
جیسے صدیوں سے جاگے ہوئے لوگ ہیں

مایا کی نظم میں اس Stanza نے بے کیفی کے مقابل کھلتی ہوئی ، تبدیلی کی کلی کو کملا دیا ہے :

Fall gently, snow flakes
Cover me with white
Cold icy kisses and
Let me rest tonight

(ترجمہ): اے برف کے گالو! دھیرے گرو

اور مجھ کو دبا ڈالو سفید 

ٹھنڈے برفانی بوسوں میں

کرنے دو مجھے آرام ام شب

معلوم ہوتا ہے کہ مایا آج کی رات آرام کرنے کی خاطر ،اپنے آپ کو سفید ٹھنڈے برفانی بوسوں سے ڈھانپنا چاہتی ہے، وہ برف کی چادر اوڑھنا چاہتی ہے، لیکن برف زندگی کی علامت نہیں ہے اس لئے مایاآرام کرنے کی آڑ میں، در حقیقت موت کی آغوش میں جانا چاہتی ہے۔ مسلسل جاگنے کی پاداش میں ، روزمرہ کی بے کیف بے روح زندگی سے اکتا کر۔ لیکن ہمارے شاعر نے بے کیفی کی انتہائی حدوں کو چھونے کے باوجود رجائیت کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔ وہ کہتا ہے کہ ستارے ، پھول اور شبنم ہمارا ’دکھ‘ سمجھتے ہیں ۔کلیم روح سے عاری رویوں میں زندگی کا لہو دوڑانے کے لئے، ان میں رچاؤ پیدا کرنے کے لئے، باغوں میں چلنے کی بات کرتا ہے ، جگنو پکڑنے کی بات کرتا ہے یعنی زندگی کی روح کو Possess کرنے کی بات کرتا ہے ۔ وہ برف کی چادر اوڑھنے کی بجائے روشنیوں میں نہانے کی بات کرتا ہے :

سورج کو میرے سر پہ کھڑا کر دیا گیا 
یعنی مری سزا بھی اجالوں کے ساتھ تھی

اس مجموعے میں شامل ایک غزل لمبی ردیف کے باعث کافی دلچسپ ہو گئی ہے ، اس میں طرفگی اس اعتبار سے آئی ہے کہ غزل کے فطری اپج کے مطابق ہر شعر کا اپنا الگ سے معنی تو موجود ہے ہی ، اس کے ساتھ ساتھ نظم کے مزاج کے مطابق ایک ہی خیا ل یا پھر ایک خیال کے مختلف پہلوؤں کی بافت و بنت بھی اس میں جھلک رہی ہے۔ اسے ’’ نظمیہ غزل ‘‘ کہا جا سکتا ہے ، ملاحظہ کیجئے:

دل کی باتیں لکھ کر میں نے غیر مکمل چھوڑ رکھی ہیں 
کتنی غزلیں لکھ کر میں نے غیر مکمل چھوڑ رکھی ہیں
کتنے ورق ہیں سادہ جن کو با لکل سادہ رکھ چھوڑا ہے
کچھ پر سطریں لکھ کر میں نے غیر مکمل چھوڑ رکھی ہیں 
جی چاہا ہے آج پرانے کاغذ کھول کے بیٹھ رہوں 
جن میں یادیں لکھ کر میں نے غیر مکمل چھوڑرکھی ہیں 
تم بھی جانو مجھ کو تمہاری دید کی کتنی حسرت ہے 
اپنی آنکھیں لکھ کر میں نے غیر مکمل چھوڑ رکھی ہیں 
جیسے لکھتے لکھتے کوئی گہرا صدمہ پہنچا ہو !
پاگل سوچیں لکھ کر میں نے غیر مکمل چھوڑ رکھی ہیں 

اس مجموعہ کلام میں پہلے شعری مجموعے کے بہت سے حوالے بھی، یادوں کی گھمبیرتا سے لے کر خوف کی پرچھائیوں تک، تکرار کی حد تک موجود ہیں۔ ہمارے شاعرکا فکری کینوس، اسلوبِ بیان ، تراکیب اور استعارے ، انسانی احوال و ظروف سے پرے نہیں ہٹے ،کہ اس کی فطرت خاکی ہے ۔اسی وجہ سے کہیں سالاربکتا دکھائی دیتا ہے ، کہیں ضرورتوں کے اگے ہوئے جنگل سے پالا پڑتا ہے، خالی جیب کا ذکر ہوتا ہے ، کہیں کاسہ و کشکول توڑنے کے لئے کسی صاحبِ توقیر کی کھوج نظر آتی ہے اور کہیں لفظوں کے زیاں پر ، عامیانہ سخن طرازی پرطنز و تنقید کے تیر برستے دکھائی دیتے ہیں۔ بلاشبہ کلیم کے کلام میں ایسی گیرائی، گہرائی اور تنوع ہے کہ اس کا احاطہ چند صفحات میں کرنا ناممکن ہے۔اس مجموعہ کلام کی مجموعی فضا کے پیشِ نظر یہ کہنا بھی مشکل نہیں کہ ہمارے شاعر کے اظہار کا بنیادی حوالہ ’ثقافتی زوال ‘ کے ارد گرد گھومتا ہے، لیکن اس اظہار میں نا امیدی کا پہلو غالب نہیں آیا، بلکہ اس ثقافت کی بازیافت کا جگنو جگہ جگہ جگمگ جگمگ کر رہا ہے۔ اب آپ ہی بتائیے ! راقم اسے ثقافتی زوال کا رجائیہ نوحہ نہ کہے تو اور کیا کہے؟


زبان و ادب

(فروری ۲۰۰۵ء)

تلاش

Flag Counter