۲۱ دسمبر ۱۹۸۹ء کو میونسپل کارپوریشن گوجرانوالہ کے جناح ہال میں منعقدہ افغانستان کے مختلف محاذوں پر جہاد میں شریک نوجوانوں کی تنظیم ’’حرکۃ المجاہدین‘‘ کے جلسۂ عام میں سید سلمان گیلانی نے یہ ترانہ پیش کیا۔
حرکۃ المجاہدین، آفرین و آفرین
عَلم اٹھا قدم بڑھا، نہ غیرِ حق سے خوف کھا
تیری مدد کرے خدا، خدا پہ تو بھی رکھ یقیں
حرکۃ المجاہدین، آفرین و آفرین
نہ کوئی عذرِ لنگ کر، تو کافروں سے جنگ کر
زمین ان پر تنگ کر، نہ مل سکے اماں کہیں
حرکۃ المجاہدین، آفرین و آفرین
لگا وہ ضرب کفر پر، اٹھا سکے نہ پھر وہ سر
مٹے گا ایک روز شر، کہ خیر کا ہے تو امیں
حرکۃ المجاہدین، آفرین و آفرین
نجیب سے نہ بات کر، اٹھ اس سے دو دو ہاتھ کر
رسید ایک لات کر، گرے گا یونہی یہ لعیں
حرکۃ المجاہدین، آفرین و آفرین
تو حوصلے بحال کر، تو کفر سے قتال کر
نہ کوئی قیل و قال کر، یہ سوچنے کی جا نہیں
حرکۃ المجاہدین، آفرین و آفرین
تو حق کی ترجمان ہے، تو دیں کی پاسبان ہے
جو تیرا نوجوان ہے، وہ جرأتوں کا ہے امیں
حرکۃ المجاہدین، آفرین و آفرین
حیات کیا ممات کیا، یہ پوری کائنات کیا
نہیں خدا کے ہاتھ کیا، تو پھر یہ کیوں چناں چنیں
حرکۃ المجاہدین، آفرین و آفرین
تو عہدِ رب پر رکھ نظر، کٹے جو راہِ حق میں سر
بہشت اس کا ہے ثمر، ہے صاف آیتِ مبیں
حرکۃ المجاہدین، آفرین و آفرین
کہاں غلط یہ بات ہے، خلیل تیرے ساتھ ہے
خدا کا تجھ پہ ہاتھ ہے، تو اس کے در پہ رکھ جبیں
حرکۃ المجاہدین، آفرین و آفرین
پیامِ حق سنائے جا، ترانہ میرا گائے جا
یہ کفر کو بتائے جا، کہ یہ ہے طرزِ مومنیں
حرکۃ المجاہدین، آفرین و آفرین
خدا کا لطف عام ہو، جہاں میں اونچا نام ہو
تجھے میرا سلام ہو، مجاہدین کی سرزمیں
حرکۃ المجاہدین، آفرین و آفرین