ہمارے ہاں عام تاثر یہی ہے کہ ہمارے عہد کے بچے شریر زیادہ اور ذہین کم ہو گئے ہیں ،حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے ۔ میرا گمان یہ ہے کہ آج کے عہد کے بچے حقیقی معنوں میں اکیسویں صدی کے بچے ہیں ۔ ان بچوں کی ذہانت، فطانت اور کارکردگی ہی اس گھمبیرتا کا شکار سماج میں جینے کا حوصلہ دیتی ہے۔ ہمارے ہاں ارفع کریم اور ملالہ یوسف زئی جیسے بچوں نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا عالمی سطح پر منوایا ۔ دہشت، خوف ، فرقہ واریت اور مقلدانہ جاہلیت کے اندھیروں میں یہ قابل فخر بچے ہی ہیں جو روشنی کی کرن اور ہمارے روشن مستقبل کی نوید دکھائی دیتے ہیں۔
گذشتہ روز میرے دوست، عظمت رفتہ کی روایات اور لگن کے حامل استاد برادرم پروفیسر میاں انعام الرحمن جو گورنمنٹ کالج گوجرانوالہ کے شعبہ ء سیاسیات سے وابستہ ہیں، میرے ہاں آئے ۔ میاں انعام الرحمن ہنس مکھ، خوش گفتار، حلیم الطبع، علمی و ادبی مزاج، تحقیقی و تنقیدی انداز اور اجتہادی فہم و فکر رکھنے والے حسن کردار کا ایسا متوازن نمونہ ہیں کہ ان کی آمد و اقعتامیرے لیے ایسے ہی تھی جیسے چپکے سے ویرانے میں بہار آجائے ۔میں کئی ہفتوں سے اپنے نو سالہ بیٹے عبدالمعید کی علالت کے باعث ہسپتالوں کے چکر لگا کر تھکا تھکا اور مایوس تھا۔ یقین مانیے، میاں انعام الرحمن جیسے پاکباز اور نیک سیرت اور مخلص دوست کی اچانک آمد سے ایسے ہی تھی جیسے بے وجہ بیمار کو قرارآ جائے ۔ دل باغ باغ ہوا تو انہوں نے فوراً اپنا ہاتھ اپنے ہینڈ بیگ کی طرف بڑھایا اور کتاب نکال کر فخریہ مسکراہٹ سے کہا: شیخ صاحب! یہ میری بیٹی کی کتاب ہے ۔ میرا ماتھا ٹھنکا کہ میاں صاحب کے بچے تو ابھی چھوٹے ہیں، پرائمری یا ثانوی سطح کے طالب علم ہیں۔ میں نے بصد شکریہ ان کی گیارہ سالہ بیٹی فاطمہ انعام کی کہانیوں کی کتاب ’’کہانی کی دنیا‘‘ وصول پائی۔
میاں انعام الرحمن خود علمی و ادبی مجلات میں لکھتے ہیں۔ ایک اخبار میں عرصہ تک کالم نگاری بھی کی۔ الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ سے ان کی کتب بھی چھپ کر داد و تحسین وصول کر چکی ہیں ۔ میں یہی توقع کر رہا تھا کہ میاں صاحب کی کوئی نئی کتاب چھپ کر آئی ہو گی، لیکن ان کی بیٹی فاطمہ انعام کی کتاب وصول پا کر زیادہ خوشی ہوئی کہ میاں انعام الرحمن نہ صرف اپنے حصے کا علمی و ادبی کام کر رہے ہیں بلکہ انہوں نے اپنے گھرانے کی علم دوستی کی روایت کو بحسن و خوبی نئی نسل تک کامیابی سے منتقل کر دیا ہے ۔ یہی ایک صالح باپ کی معراج ہے کہ وہ اپنا علمی و فکری اثاثہ بھی اپنے بچوں کو سونپنے میں کامران ٹھہرے۔ میاں انعام الرحمن مبارکباد کے مستحق ہیں۔ ان کی یہ کامرانی مجھ سمیت بہت سے والدین کے لیے لمحہ فکریہ اور قابل تقلید ہے ۔
’’کہانی کی دنیا‘‘ ایک کتاب نہیں بلکہ میرے لیے ایک نئی دنیا کا دروا کرنے کا ذریعہ تھا۔ ہمارے ہاں عمومی خیال یہ ہے کہ سرکاری سکول نالائق بچوں کا مرکز ہیں جہاں تدریس و تعلیم میں تربیت و تخلیق کا فقدان مثال بن چکا ہے، مگر ننھی گڑیا کی اس کتاب نے میرا یہ مفروضہ بھی غلط ثابت کر دیا ۔ میاں انعام الرحمن سرکاری ملازم ہیں اور اپنے تمام بچوں کو سرکاری سکول میں پڑھا رہے ہیں ۔ میں نے جب بھی انہیں بچوں کو ’’انگریزی میڈیم‘‘ یا ’’برانڈڈ اسکول‘‘ میں داخل کروانے کا مشورہ دیا، وہ ہمیشہ گویا ہوئے کہ اگر میں اور میرے جیسے لوگ اپنے بچوں کو سرکاری اسکولوں میں نہیں بھجوائیں گے تو سرکار اور ریاست پر ہمارا یقین اور کمزور ہوتا رہے گا۔ میاں صاحب کی صاحبزادی فاطمہ انعام گورنمنٹ ایف ڈی اسلامیہ گرلز ہائی اسکول گوجرانوالہ میں کلاس ششم کی طالبہ ہیں۔ سرکاری اسکول ان کی تخلیقیت اور تخلیقی تحریروں کے لیے ذہن تیار کرنے میں رکاوٹ نہیں بنا، بلکہ اس کے تخلیقی حوصلے کو جرات بخشنے کا ذریعہ بنا۔ فاطمہ انعام کی اس کتاب سے سرکاری اسکولوں کے حوالے سے میرے خیالات میں ارتعاش پیدا ہوا ہے۔
کہانی کی دنیا میں کل پینتالیس کہانیاں ہیں۔ فاطمہ انعام نے پہلی کہانی پانچویں جماعت میں لکھی جس پر اس کے علم پرور والد نے اسے ڈائری تحفے میں دی۔ اس سے ننھی کہانی کار کے عزم میں مزید بلندی پیدا ہوئی اور اس نے پانچویں جماعت میں ہی پندرہ کہانیاں لکھ ڈالیں۔ چھٹی جماعت میں اس نے مزید تیس کہانیاں لکھیں او رپھر ڈائری ختم ہو گئی ۔ میاں صاحب کے گھر کا ماحول کتنا ادب دوست ہے اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ بڑی بہن کی ڈائری ختم ہونے پر چھوٹی بہن نابغہ رحمن جو جماعت دوم کی طالبہ ہے، اس کی تجویز پر کہانیاں کتابی شکل میں چھاپنے کا فیصلہ ہوا۔
پینتالیس مختصر کہانیوں کے موضوعات میں تنوع نمایاں ہے۔ یہ ہماری روایتی نانی اماں کی محیر العقول ماورائی کہانیاں نہیں ہیں بلکہ موضوعات اور اسلوب عیاں کرتا ہے کہ کہانی کار کا شعور سماجی سطح سے جڑا ہوا ہے جو خوش آئند بات ہے ۔ فاطمہ انعام کا اسلوب اور زبان بچوں کے روز مرہ سے مزین ہے ۔ زبان کا روز مرہ کہانیوں کو دلکش او ر دلچسپ بناتا ہے ۔ سنڈریلا، مکی ماؤس اور Tweety جیسے کئی کردار مستقل ہیں ۔ ایک کردار لے کر مستقل کئی کہانیاں لکھنا ، کہانی نویسی کا مغربی اسٹائل ہے ۔ یہ انداز تحریر بتاتا ہے کہ ہماری ننھی مصنفہ جدید طرز تحریر سے آشنا ہے ۔ یہ اس طرف بھی اشارہ کرتا ہے کہ ہمارے سرکاری سکولوں کے بچے بھی جدید رجحانات سے آگاہ ہیں۔ فاطمہ انعام کی فکر اور تحریر پر ان کے گھر کے علمی ماحول کا اثر بھی صاف دکھائی دیتا ہے ۔
ہمارے ہاں کہانی لکھنے کا رجحان کم ہوتا جا رہا ہے ۔ پاکستان میں بچوں کے لیے لکھنے والے بڑے تو ہیں، تاہم بچوں کا کہانیاں لکھنے کی روایت بہت کمزور ہے ۔ اخبارات میں بچوں کے صفحات پر کئی بچوں کی چند کہانیاں تو چھپتی ہیں، لیکن بچوں کی لکھی کہانیوں کو کتابی شکل میں پیش کرنا عام نہیں ہے ۔ فاطمہ انعام کی کہانیوں کی یہ کتاب اس روایت کا اچھا آغاز ہے جس پر وہ مبارکباد اور خراج تحسین کی مستحق ہیں۔ ان کی کہانیاں پڑھنے کے بعد میرے دل سے فوراً نکلا کہ کاش فاطمہ انعام کی ڈائری ابھی ختم نہ ہوتی اور ہمیں مزید کہانیاں پڑھنے کو ملتیں۔
فاطمہ نے اپنے حصے کا کام کیا اور میاں انعام الرحمن نے اسے کتابی شکل میں چھپوا کر کار خیر انجام دیا ہے ۔ کتاب کا انتساب فاطمہ نے اپنی دادو اور حمنہ ماما کے نام کیا ہے ۔ کتاب دیکھ کر بیٹی کی تربیت میں دادو اور حمنہ ماما کا کردار بھی ہم سب کے لیے مثالی ہے ۔ اﷲ تعالیٰ سے دعا ہے کہ فاطمہ انعام کی تربیت کرنے والے اہل خانہ اور اساتذہ کو اجر عظیم دے اور فاطمہ انعام کے زور قلم میں اور اضافہ کرے ۔ یہ کتاب تمام اسکولوں کی لائبریری میں ہونی چاہیے۔ کتاب کی قیمت صرف 100 روپے ہے۔ ننھے بچوں کے لیے یہ کتاب اچھا تحفہ اور انعام ہے ۔ والدین بھی یہ کتاب اپنے بچوں کو دے کر تخلیق، تحریر، عزم اور حوصلے کی پوری روایت اپنے بچے کے ہاتھ میں تھما سکتے ہیں اور اسے پڑھ کر ان کا بچہ کچھ لکھے تو سمجھ لیجیے کہ ان کا بچہ بھی ڈائری کا تقاضا کر رہا ہے۔