عظیم آباد کی ادبی و علمی مجلسوں میں وہ ہر جگہ شمع محفل نظر آتے، شعراء و ادباء سب انہیں تسلیم کرتے، اور انہیں صدر نشیں کا مقام حاصل تھا، اس وقت عظیم آباد شعر و ادب میں دہلی و لکھنؤ کی طرح اردو کا اہم مرکز تھا، نوابان و رؤسائے شہر کی نگرانی و سرپرستی میں شعر و ادب کی مجلسیں منعقد ہوتیں اور ان امراء کی طرف سے ان کی حوصلہ افزائی کی جاتی، گھر گھر مشاعرے ہوتے اور عوام الناس ان میں ذوق و شوق سے شریک ہوتے، اس وقت یہاں جو اہلِ کمال تھے اور جن کے دم سے یہاں کی ادبی بہار قائم تھی، ان میں مولانا عبد الغفور شہباز، علامہ عبد الحمید پریشان، حافظ فضل حق آزاد عظیم آبادی، مولانا عبدالغنی وارثی اور مولانا سید رحیم الدین استھانوی کے نام نمایاں تھے، ان کے علاوہ خانقاہ کے بزرگوں اور دیگر مشائخ کا ایک بڑا حلقہ تھا، جن کے وجود سے یہ شہر آباد تھا، اگرچہ خانقاہوں سے جن سے یہ شہر معمور ہے ان کے مراسم کا پتہ نہیں چلتا۔ علامہ شوق نیموی اسی حلقہ کے ایک نامور رکن بلکہ صدر نشیں تھے، شاد عظیم آبادی کا حلقہ اس سے الگ تھا، دونوں میں علمی معرکہ آرائی کا بازار گرم رہتا۔ شہر عظیم آباد کے معروف مورخ سید بدر الدین بدر عظیم آبادی، جنہوں نے ان کو دیکھا تھا، لکھتے ہیں:
’’پٹنہ کے شعر و سخن کے معرکے بڑی حد تک ان کے دم سے بہت دنوں تک جاری رہے، مشاعروں میں کسی شاعر کو ٹوک دینا، زبان اور لفظ کی صحت کا جھگڑا اٹھانا ان کے لئے آئے دن کی باتیں تھیں‘‘۔31
حلیہ و مزاج
بدر الدین عظیم آبادی نے اپنی کتاب میں ان کا سراپا پیش کرتے ہوئے اور ان کے دیگر اوصاف ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے:
’’درمیانہ قد، سانولا رنگ، داڑھی نہ لانبی نہ خشخشی، بلکہ قرینے کی درمیانی، معمولی مگر صاف ستھرا لباس، گفتگو میں متانت، یہ تھے مولانا محمد ظہیر احسن شوق نیموی … مرحوم جو پٹنہ کی علمی اور ادبی انجمنوں میں اور تمام مشاعروں میں اکثر محشر بدوش نظر آتے تھے، وضع سیدھی سادی تھی، ظاہر میں عالمانہ تکبر کا پتہ نہ تھا، مگر جب بپھر جاتے تو ہر بات میں عالمانہ تبحر جھلکنے لگتا، کہیں پر گرفت کرتے تو آخر دم تک نہ چھوڑتے، نئی پرانی منطقی دلیلیں پیش کر کے خاموش کر دیتے‘‘۔
اس کے بعد انہوں نے ان کے مذہبی مناظروں پر بھی روشنی ڈالی ہے، لکھتے ہیں:
’’حضرت شوق کی طبیعت کی جولانی علمی انجمنوں کو اور شعر و سخن کی محفلوں کو بھی ان کی جولاں گاہ بنائے رکھتی تھی، مذہبی مسائل پر جیسی ان کی زبان چلتی ویسا ہی ان کا قلم بھی چلتا تھا، مذہبیات سے متعلق ان کی متعدد تصنیفیں ہیں، شعر و ادب کے متعلق بھی اور صحت زبان کے اصول پر بھی انہوں نے بہت سی کتابیں لکھی ہیں جن سے ان کے مسلم الثبوت استاد اور بلند پایہ محقق ہونے کا پتہ چلتا ہے‘‘۔32
ان کے فرزند مولانا فوقانی نے ان کا حلیہ ان الفاظ میں ذکر کیا ہے:
نحیف بدنہ لا بطویلہ ولا بقلیلہ اسمر لونہ کثیر لحیتہ۔33
(وہ دبلے پتلے تھے، نہ بہت لمبے نہ بہت پستہ، داڑھی گھنی تھی اور رنگ سانولا۔)
ان کے ایک اور معاصر جنہوں نے شاید بچپن میں ان کی زیارت کی ہو گی، جناب فصیح الدین بلخی عظیم آبادی ہیں، انہوں نے بھی ان کے حلیہ اور اوصاف و کمالات پر اجمالی روشنی ڈالی ہے جو دوسری کتابوں میں نہیں ملتی، لکھتے ہیں:
’’آپ کی وضع قطع میں کوئی نمائش نہ تھی، طبیعت میں سادگی بہت تھی، علماء کی وضع پر معمولی قسم کے کپڑے زیب تن ہوتے تھے، رنگ سانولا، قد میانہ اور داڑھی معمولی وضع کی تھی، گفتگو میں متانت بہت تھی، اشعار پر تاثیر لہجے میں پڑھتے تھے اور فرط جوش میں اکثر اٹھ اٹھ جاتے تھے‘‘۔
لیکن اس کے ساتھ ان کے اندر دوسروں کا اعتراف بھی موجود تھا، عظیم آباد کے مشہور شاعر جناب شاد عظیم آبادی سے ان کے پورے حلقہ کو رقابت تھی، اور شاد کی بعض اغلاط پر ہی پورا گروہ مل کر ایک ہفتہ وار اخبار الپنچ نکال رہا تھا، جس میں شاد سے علمی معرکہ آرائی اور چھیڑ چھاڑ مسلسل جاری رہتی، حضرت شوق کا تعلق ان کے حریف حلقہ سے تھا، اس لئے وہ بھی کبھی کبھی شاد پر نقد کرتے لیکن ہفتہ وار الپنچ کے جو شمارے موجود ہیں ان کے صفحات میں ان کی تحریریں زیادہ نہیں ملتیں، لیکن اس کے ساتھ ہی انہیں شاد کے کمالات کا اعتراف بھی تھا، بدر الدین عظیم آبادی لکھتے ہیں:
’’حضرت شوق نیموی کی طبیعت جنگجو ضرور تھی اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا، مگر ان کے دیکھنے والوں کو میں نے کہتے سنا ہے کہ وہ بڑی حد تک انصاف پسند اور ملنسار بھی تھے، اگر بحث و مباحثہ کی تلخی مٹ جاتی تو اپنے مخالفین کے کمال کا اعتراف بھی کرتے تھے، چنانچہ جب حضرت شاد عظیم آبادی سے ۱۹۰۲ء میں میل ملاپ ہوا اور بادشاہ نواب صاحب مرحوم کے مشہور چھ طرحی مشاعرہ میں پٹنہ کے مختلف گروہ کے کل شعراء دلی کدورتوں کو صاف کر کے اس مشاعرہ میں شریک ہوئے، تو حضرت شوق نیموی نے اس مشاعرے میں جو رباعی پڑھی وہ میرے بیان کی پورے طور پر تصدیق کرتی ہے، رباعی یہ ہے:
ہے اہل کمال سے یہ پٹنہ آباد
شاگرد کے شاگرد یہاں ہیں استاد
کامل ہیں یہاں کے سیکڑوں اہل سخن
یہ ہیں، وہ ہیں، یہ شاد ہیں وہ آزاد‘‘۔34
بدر الدین عظیم آبادی کے بقول ان کے مضامین بھی اس دور میں اخبارات میں شائع ہوتے رہے، اودھ پنچ لکھنؤ، الپنچ عظیم آباد جیسے اخبارات کے وہ مستقل مضمون نگار رہے، لیکن ان مضامین کی تفصیل نہیں ملتی۔ ان کے مذکورہ بالا اور معاصرین کے اعتراف کی توثیق خود ان کی تحریر سے بھی ہوتی ہے، شاد کے ساتھ ان کے قدیم حریف جلال لکھنوی سے بھی ان کی معاصرانہ چشمک تھی اور ادبی معرکہ ہو چکا تھا، لیکن بایں ہمہ انہوں نے اپنی خود نوشت میں اس پورے واقعہ کو ذکر کر کے اخیر میں لکھا:
’’چوں کہ میری تحریر سے ایک عالم حضرت جلال سے بد اعتقاد ہو گیا ہے، اور تالیف و تصنیف میں انہوں نے جو خون جگر کھپایا ہے اس کی بے قدری ہو رہی ہے، میں اس کو پسند نہیں کرتا کہ انصاف کا خون ہو، اور ان کا دل بالکل کھٹا ہو جائے، بفحوائے ’’عیب گو جملہ بگفتی ہنرش نیز بگو‘‘ صاف صاف کہے دیتا ہوں کہ حضرت جلال کی تالیفات سے اگر کوڑا کرکٹ دور کر دئے جائیں تو جواہرات سے تولنے کے قابل ہو جائیں‘‘۔35
اس سلسلہ میں ان کے نامور معاصر صفیر بلگرامی نے بھی، جو آرہ میں مقیم تھے، ان کا اجمالی ذکر کیا ہے، اور حضرت نیموی کو اپنا دوست بتایا ہے، اور جلال لکھنوی کے تذکرہ میں لکھا ہے:
’’اس سلسلہ میں ہمارے دوست مولوی ظہیر احسن شوق نیموی عظیم آبادی نے جو کچھ جھگڑا ان سے کیا وہ ایک مزاحاً جھگڑا تھا، ورنہ مولوی صاحب کو بھی ان کی استادی میں شک نہیں ہے، اور اس سال انہوں نے لکھ کر چھپوا بھی دیا ہے‘‘۔36
ادبی معرکے
ان کے ادبی معرکوں میں سب سے مشہور معرکہ تو جلال لکھنوی سے ہوا تھا، جس کی تفصیل ان کی خودنوشت میں موجود ہے، جس کی گونج ایک مدت تک دنیائے ادب میں سنائی دیتی رہی، لیکن ایک معرکہ دبستان عظیم آباد کی ادبی تاریخ کا بھی بہت اہم حصہ ہے، یہاں حضرت شاد سے جن اہلِ علم کو اختلاف تھا، جو ان کے نظریات سے متفق نہیں تھے ان میں حضرت شوق بھی تھے، اور ان کے ساتھ حافظ فضل حق آزاد بھی تھے، جنہوں نے اپنے ان تمام رفقاء کے ساتھ مل کر الپنچ اخبار نکالا تھا، لیکن پھر اتفاق کہ خود حضرت شوق و حضرت آزاد میں معرکہ کا میدان گرم ہوگیا، فضل حق آزاد کی سوانح نگار ڈاکٹر روحی مجید حسن لکھتی ہیں:
’’آزاد اور شوق نیموی کے معرکے کا زمانہ جون ۱۸۹۵ء ہے، اس معرکے کی ساری تفصیلات الپنچ کی فائلوں میں ملتی ہیں، کیوں کہ اس بار بھی حسبِ دستور الپنچ کے صفحات ہی کو میدانِ رزم بنایا گیا، یہ ان دنوں کی بات ہے جب شوق نیموی کے علم و فضل اور زبان دانی کا شہرہ بہار اور بہار سے باہر دور دور تک پھیل چکا تھا، شوق کے لسانی معرکے جلال لکھنوی کے سلسلہ میں کافی مشہور ہوچکے تھے، اس وقت تک آزاد بھی بحیثیت نظم نگار منفرد مقام حاصل کر چکے تھے، شوق نے زبان دانی کے زعم میں کہیں یہ دعویٰ کیا کہ ان کی شاعری عیوب و اغلاط سے پاک ہے، اور یہ بھی کہا ’’جس کا جی چاہے مجھے میری لغزشوں سے مطلع کرے‘‘۔ اس چیلنج کے ساتھ انہوں نے آزاد کے کلام پر اعتراضات کا سلسلہ جاری کر دیا، آزاد نے اس کے جواب میں شوق کی مثنوی سوز و گداز کو تختۂ مشق نقد بنایا، اب یہ سلسلہ قائم ہوگیا، آزاد نے حسبِ عادت شوق کی ہجو بھی لکھی … یہ سلسلہ جاری تھا کہ شوق کے کسی شاگرد واصل نے آزاد پر شوق کی شاگردی کا الزام رکھ دیا، اور اس سلسلہ میں کئی بے بنیاد باتیں اپنے دل سے گڑھیں، مثلاً یہ کہ آزاد پہلے شوق کے خاصے معتقد تھے، اور وہ برابر بغرضِ اصلاح شوق کے گھر جایا کرتے تھے، آزاد کی بہت سی نظمیں شوق کی اصلاح شدہ ہیں … مگر اب شوق کی بے پناہ مقبولیت کے پیش نظر آزاد شوق سے حسد کرنے لگے ہیں، اور اس جذبۂ رقابت کے زیر اثر وہ نہ صرف شوق کی استادی سے انکار کرتے ہیں بلکہ شوق کے مقابلہ پر اتر آئے ہیں، وغیرہ وغیرہ۔‘‘
آگے لکھتے ہیں:
’’آزاد کی غیور طبیعت ان الزامات کو کیسے گوارا کر سکتی تھی، انہوں نے فوراً ایک جوابی قطعہ لکھا جو الپنچ ۶ جون ۱۸۹۵ کے صفحہ ۵ پر شائع ہوا۔ ملاحظہ فرمائیے، آزاد کہتے ہیں:
ہوں بندۂ حق منکر و ملحد نہیں واللہ
میں منحرف خالق واحد نہیں واللہ
آزاد کو کیا کہتے ہو تم شوق کا شاگرد
الزام کبھی اس پہ یہ عائد نہیں واللہ
اور ساتھ ہی ساتھ نثر میں انہوں نے تمام بے بنیاد الزامات کا بالتفصیل جواب دیا، اور انہیں بدلائل غلط ثابت کیا، اور آخر میں لطیف طنز کیا، ان الفاظ میں … ہاں اب سمجھے، یہ دعویٰ دخل مقدر ہے، یعنی میں اس صحبت کی بنا پر دعوائے استادی نہ کر سکوں، سو میں اطمینان کامل کئے دیتا ہوں، نہ میں کسی کا شاگرد ہوں نہ میرا کوئی شاگرد ہو گا‘‘۔37
حضرت شوق کے علومِ اسلامیہ کے تلامذہ میں تو شاید ایک دو کے علاوہ کوئی نام نہیں ملتا لیکن ادبیات و اصلاحِ سخن کے لئے ان کے استفادہ کرنے والوں میں ان کے شہر و صوبہ اور ملک کے کئی باکمالوں کے نام ہیں۔ ان میں باہر کے لوگوں میں دو نام بہت اہم ہیں، ایک مولانا ابوالکلام آزاد کا نام جنہوں نے ان کے ادبی و لسانی رسائل کا مطالعہ بھی کیا تھا اور ان سے اصلاح بھی لی تھی۔ دوسرا نام قلعہ معلیٰ دہلی کے ایک شاہزادہ زبیر کا نام ہے۔ ان کے علاوہ شمالی ہند کے دسیوں کاملانِ ادب ہیں جنہوں نے ان سے اصلاح لی ہے، ان کا ذکر انہوں نے اپنی خود نوشت میں کیا ہے، جس کی تفصیل ان کے تلامذہ کے ذیل میں آئے گی۔
نظریات و افکار
حضرت شوق جس وقت عظیم آباد میں مقیم تھے، اس وقت علمائے شریعت سے بھی ان کا شہر عظیم آباد تھا، مولانا سید نذیر حسین محدث دہلوی کے تلامذہ کے ایک گروہ شہر و مضافات میں یکجا ہوگیا تھا، جس کے ذریعہ فقہ حنفی کے مسائل کی تردید میں جابجا رسائل و مضامین نکلتے رہتے تھے۔ حضرت شوق پکے حنفی اور فکری اعتبار سے مکمل صوفی الفکر تھے، مناظرانہ طبیعت پائی تھی، اس لئے قدرتی طور پر ان سے مناظروں، مباحثوں اور ان موضوعات پر تحریروں کا صادر ہونا عین ممکن تھا، وہ ایسے ماحول میں بالکل خاموش رہ جاتے نا ممکن تھا۔ یوں بھی شہر کے علماء احناف جن میں خانقاہوں کے اکابرین تھے اس تحریک کے تئیں خاموش تھے۔ علامہ شوق نیموی کے علاوہ قاضی عبد الوحید فردوسی تھے جنہوں نے فقہ حنفی کا محاذ سنبھال رکھا تھا، لیکن قاضی صاحب کے یہاں سنجیدہ علمی تحریر سے زیادہ ہجوگوئی پر زور تھا، وہ مولانا احمد رضا خاں کے خلیفہ تھے اور انہیں کے نقش قدم پر تھے، اس لئے سنجیدہ علمی مضامین کے بجائے ذاتیات و شخصیات کو موضوع بناتے، انہوں نے مسلسل بیس سال پٹنہ سے ماہنامہ تحفہ حنفیہ نکالا جس میں ان کے قلم سے علمی تحریریں بہت کم نظر آتی ہیں، اسی لئے فکری ہم آہنگی کے باوجود علامہ شوق نیموی کی ایک بھی تحریر اس کے شماروں میں نہیں نظر آتی، حالاں کہ وہ وہی دور ہے جب حضرت شوق کے قلم سے فقہ حنفی کی تائید میں رسائل نکل رہے تھے۔ اس سے یہ قیاس کرنا مشکل نہیں کہ حضرت شوق مناظرانہ طبیعت کے باوجود شخصیت و آدمیت کے احترام کے پوری طرح قائل تھے، اور کسی طرح کی غیر سنجیدہ تحریر سے پوری طرح گریز کرتے تھے۔ ان کے بیشتر علمی رسائل انہیں معرکوں کی یادگار ہیں اور فقہ حنفی اور تصوف پر اعتراضات کے جوابات ہیں، جن کے مطالعہ سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ وہ بڑے پختہ صوفی بھی تھے اور حنفی بھی۔ اور اپنی قدیم اقدار کو بچانے اور ان کا دفاع کرنے میں انہوں نے بہت کچھ طاقت صَرف کی۔تفقہ میں وہ علامہ عبدالحی فرنگی محلی کے شاگرد ہونے کے باوجود کسی طرح مصالحت کے قائل نہیں تھے۔ اور فقہ حنفی کے ہر اعتراض کا عالمانہ جواب دے کر ہی خاموش ہوتے تھے۔ لیکن اس کے باوجود ندوۃ العلماء کی تحریک میں ان کا نام کہیں نظر نہیں آتا جب کہ اس تحریک میں بیشتر ان کے خواجہ تاش یعنی حضرت گنج مراد آبادی کے خلفاء و مستفیدین ہی شریک تھے، اور پٹنہ اس تحریک کا اہم مرکز تھا۔
پٹنہ کے علاوہ ان کا قیام اور تدریس سے متعلق ایک بحث
کہا جاتا ہے کہ انہوں نے ترہٹ کے علاقہ میں آواپور (موجودہ ضلع سیتا مڑھی) کے مدرسہ شرعیہ میں بھی تعلیم دی تھی، لیکن نہ انہوں نے اپنی خودنوشت سوانح میں کہیں اس کا ذکر کیا ہے نہ ان کے کسی سوانح نگار کے یہاں اس کا ذکر ملتا ہے۔ تاریخ مدرسہ اشرف العلوم کنہواں (سیتامڑھی) کے مرتب نے اس سلسلہ میں مفروضہ اعتراض نقل کر کے اس کا جواب دینے کی کوشش کی ہے، اور بعض شواہد پیش کئے ہیں، لکھتے ہیں:
’’بعض اہلِ قلم کو حضرت علامہ شوق نیموی کے مدرسہ شرعیہ آوا پور سیتا مڑھی میں تدیسی خدمت انجام دینے میں شبہ ہے، وجہ اس کی یہ ہے کہ حضرت کی سوانح متعدد حضرات نے لکھی ہے، جس میں آوا پور میں تدریسی خدمات کا کسی نے بھی ذکر نہیں کیا، لیکن یہ صرف انہیں کے ساتھ نہیں ہے، بلکہ اس ادارہ کے دوسرے خادم التدریس حضرت مولانا عبدالاحد صاحب جالوی والد بزرگوار حضرت قاضی مجاہد الاسلام علیہ الرحمہ کی سوانح میں بھی آواپور کے اس مدرسہ میں ان کی تدریسی خدمت کا ذکر نہیں ملتا ہے، حقیقت یہ ہے کہ اس سلسلہ میں زبانی نقل کا زیادہ دخل ہے، اور جس کے نقل کرنے والے آج بھی بحمد اللہ بقید حیات ہیں، اس نوخیز ادارہ میں پڑھنے والے حضرت مولانا صوفی رمضان علی علیہ الرحمہ، حضرت مولانا عبدالعزیز صاحب بسنتی علیہ الرحمہ، حضرت مولانا جمال الدین خستہ مکیاوی، حضرت مولانا دل جان صاحب عرف چنگل شاہ، حضرت مولانا محمد جان صاحب بچھارپوری علیہ الرحمہ جیسے جبال علم ہیں، جن میں سے ہر ایک نے علم دین کی نشر و اشاعت کے کتنے ہی مدارس قائم کئے، جن کے خوشہ چیں آج بھی موجود ہیں، انہیں خوشہ چینوں میں حضرت مولانا محمد آفاق صاحب القاسمی سابق پرنسپل اسلامیہ عربک کالج مظفر پور دامت برکاتہم کی ذات گرامی بھی ہے، موصوف نے اپنی غیر مطبوعہ نقوش حیات میں اپنے اساتذہ سے سن کر یہ بات نقل کی ہے کہ حضرت علامہ ظہیر احسن شوق نیمویؒ یہاں مدرس تھے، اس سے خلاف واقعہ کا شبہ کم رہ جاتا ہے، اس لئے کہ حضرت مولانا محمد آفاق صاحب قاسمی کا وطن مالوف بھی آواپور ہے اور وہیں قیام پذیر ہیں، عمر ۸۵ سے متجاوز ہے … سوانح نگاروں کے تذکرہ نہ کرنے کی وجہ یہ ہے کہ یا تو انہوں نے تحقیق نہیں کی ہوگی یا یہ کہ اس ادارہ نے بہت جلد اپنا وجود کھو دیا‘‘۔38
لیکن اس کے باوجود بھی یہ کہنا مشکل ہے کہ انہوں نے ایک طویل عرصہ تک وہاں خدمت انجام دی ہو، زیادہ سے زیادہ چھ ماہ یا ایک سال تک وہاں رہنے کا امکان ہے، ان کے متعدد تلامذہ اس علاقہ کے تھے ممکن ہے کہ ان کی دعوت پر وہ وہاں گئے ہوں اور چند ماہ یا ایک سال کے قریب وہاں ان کا قیام رہا ہو، ورنہ ان کی پوری زندگی پٹنہ ہی میں گذری، اور وہ یہاں پوری طرح سرگرم عمل رہے، یہیں طویل دور قیام میں ان کی تمام فقہی و علمی تصانیف منظر عام پر آئیں، یہیں انہوں نے آثار السنن جیسی کتاب کی تصنیف کا کام انجام دیا، اور یہیں اٹھارہ انیس سال کے قیام کے بعد وفات پائی، اور ان کا جسد خاکی شہر سے ان کے وطن نیمی لے جایا گیا جہاں ان کی تدفین ہوئی، اس دوران انہوں نے کہاں کہاں کا سفر کیا اس کی کوئی تفصیل نہیں ملتی، نہ اس کا کوئی اشارہ ملتا ہے کہ لکھنؤ و دہلی مشاعروں اور علمی مجلسوں میں وہ شریک ہوتے تھے یا نہیں۔ انہوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ کتبِ حدیث کی تلاش و جستجو کے لئے حجاز و شام کے سفر کا ارادہ ہے، لیکن یہ ارادہ بھی تشنہ تکمیل ہی رہا۔ ان کے شیخ حضرت گنج مراد آبادی بھی لکھنؤ سے قریب ہی تھے، ان کی خدمت میں حاضری کے لئے بھی کچھ چند اسفار تو ضرور ہوئے ہوں گے۔
روحانی استفادہ اور ان کے شیخ
ان کے شیخ حضرت مولانا فضل رحمٰن گنج مراد آبادی تھے، جن کی خدمت میں پہلی حاضری کا ذکر تو گذر چکا جس میں وہ بیعت ہوئے تھے، لیکن پھر ایسا لگتا ہے کہ مسلسل ان کی حاضری ہوتی رہی، اور تکمیل تعلیم کے بعد جب حضرت والا کی خدمت میں حاضر ہوئے تو ان سے اجازت حدیث کی گذارش کی، انہیں اپنے شیخ سے غایت درجہ کی محبت تھی، اسی لئے ان کی منقبت میں ایک طویل قصیدہ بھی کہا اور جب ان پر ایک اہل حدیث عالم نے اعتراض کیا تو اس کے جواب میں المقالہ الکاملہ کے نام سے پورا رسالہ لکھا، اس کے آغاز میں لکھتے ہیں:
’’اما بعد، امیدوار رحمت رب ہادی محمد ظہیر احسن نیموی عظیم آبادی عرض کرتا ہے کہ ہمارے پیر و مرشد جامع شریعت غرا، مجمع طریقت بیضاء، عمدۃ الاولیا، زبدۃ الاصفیاء ولایت مآب قطب الاقطاب، معدن ایقان، مخزن عرفان حضرت سیدنا و مولانا فضل رحمن مدظلہ المنان کی ذات بابرکات بھی عجب نعمت الہی ہے، خدا نے مستجاب الدعوات ایسا بنایا ہے کہ آپ کی دعا سے ہزاروں کی مرادیں حاصل ہوگئیں، سیکڑوں کامیاب ہوگئے، گنج مرادآباد جو حضرت کی جائے سکونت ہے آپ کے وجود باجود سے اسم بامسمیٰ ہوگیا، بات کی بات میں شہرۂ آفاق ہوگیا، عوام تو عوام سیکڑوں علمائے کرام آپ کے مرید ہیں، لاکھوں مشتاق زیارت ہیں، آپ کا طریقہ نقشبندیہ ہے جس کی مدح و ثنا میں خامہ و زبان عاجز و حیران ہے، اور زبان قاصر البیان‘‘۔39
اپنے سفرنامہ بنگال میں بھی ایک صاحب کا جو حضرت والا کے مستفیدین میں تھے بڑی عقیدت سے ذکر کرتے ہیں، ایک جگہ لکھتے ہیں:
’’مولانا ذوقی صاحب فقیر کے برادر طریقت ہیں، حضرت پیر و مرشد مولانا فضل رحمٰن گن مرادآبادی قدس سرہ سے ان کو بھی بیعت ہے‘‘۔40
حضرت مولانا سید تجمل حسین دسنوی نے حضرت گنج مرادآبادی کے اہم مستفیدین میں ان کا ذکر کیا ہے، لکھتے ہیں:
’’مولوی ظہیر احسن صاحب نیموی مناظر صاحب تصنیف۔‘‘41
حضرت مونگیری کی سوانح میں بھی ان کا ذکر آیا ہے، اور کہا جاتا ہے کہ وہ حضرت گنج مرادآبادی کے بعد ان سے وابستہ ہوئے تھے، ہو سکتا ہے کہ ان کو حضرت مونگیری نے خلافت بھی دی ہو۔42 کیوں کہ ان کے فرزند ایک صاحب کے بارے میں لکھتے ہیں کہ وہ طریقت میں حضرت نیموی کے مرید طریقت تھے، یعنی جناب مولوی عبدالعزیز ساکن اشرف پور عظیم آباد، جنہوں نے حضرت نیموی کی تاریخ وفات بھی کہی تھی، وفات کے ذیل میں اس کا ذکر ہے۔
ویسے حضرت شوق عمر کے اس مرحلہ کو نہیں پہنچے تھے کہ بحیثیت شیخ ان کی شہرت ہوتی، اس لئے بھی ممکن ہے کہ ان کی سوانح کا یہ پہلو اتنا نمایاں نہ ہو سکا۔
لیکن علمی و ادبی مشاغل کے ساتھ اوراد و اذکار کے پوری طرح پابند تھے، اور ان کی تقریر میں بھی بہت تاثیر تھی، ان کے مختلف واقعات سے جو انہوں نے اپنے سفرنامہ بنگال میں ذکر کئے ہیں اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔
وفات
حضرت شوق نے عین عالمِ شباب میں وفات پائی، ان کے فرزند کے بقول ۱۷ رمضان شریف ۱۳۲۲ھ مطابق ۲۵ نومبر ۱۹۰۴ء روز جمعہ وقت خطبہ ایک بج کے دس منٹ پر بعمر ۴۴ سال ہلالی واقع ہوا، چنانچہ آپ کے مرید طریقت جناب مولوی عبدالعزیز مرحوم ساکن اشرف پور نے یہ شعر لکھا:
ایک بج کر دس منٹ پر روح اقدس آپ کی
دار فانی سے ہوئی رخصت سوئے دارالسلام
فصلی، ہجری، عیسوی تاریخ یوں لکھ دے عزیز
عبر غم، شوق سخنور، مرشد ذی الاحترام (۱۳۱۲فصلی) (۱۳۲۲ھ) (۱۹۰۴ء)43
ان کے انتقال ملک کے اور لوگوں نے بھی مرثیے کہے، مضامین کا رواج نہ تھا، اس لئے مضامین نہیں نظر آتے، لیکن اس وقت عظیم آباد کے مشہور اخبار الپنچ نے جس سے ان کا تعلق تھا، ان کی وفات پر ان کا پروز ماتم کیا، اور جو اس کے مدیر خیر رحمانی دربھنگوی نے جو تحریر لکھی وہ خونِ دل میں انگلی ڈبو کر لکھی، اسے وفیاتی تحریر کے بجائے نثری مرثیہ کہا جائے تو بالکل درست ہوگا:
’’انتقال پر ملال حضرت شوق نیموی:
آج ہم نہایت غم و الم کے ساتھ عالم باعمل فاضل بے بدل جامع معقول و منقول منبع فقہ و اصول کامل الفن صاحب آثار السنن حضرت مولانا حکیم ظہیر احسن صاحب شوق نیموی محدث عظیم آبادی کے انتقال کی خبر شائع کرتے ہیں، جن کا وصال ۱۶ رمضان ۱۳۲۳ھ کو جمعہ کے دن ٹھیک جمعہ کے وقت ہوا، پہلے آپ کو بخار آیا، پھر طحال ہوئی، ضعف بڑھتا گیا، ساتھ ہی آپ کو زندگی سے مایوسی بھی تھی، آپ کے خاندان میں اکثر موتیں اسی عارضہ سے ہوئی تھیں، آپ کے خاندان کا کوئی مریض طحال سے جاں بر نہ ہو سکا بس یہی وجہ تھی کہ آپ کی زبان سے اکثر کلمات یاس نکل جایا کرتے تھے، آپ قریب قریب ڈیڑھ سال تک بیمار رہے، اس درمیان میں تبدیل آب و ہوا کے لئے راجگیر بھی تشریف لے گئے، مگر کچھ فائدہ نہ ہوا، ابھی ابھی بغرض علاج اپنے عزیز ڈاکٹر محمد صدیق کے یہاں کندھولی، مظفرپور چلے گئے تھے، آج دوسرا ہفتہ ہے ان کا ایک عنایت نامہ اس ناچیز ایڈیٹر کے پاس آیا تھا کہ بیماری طول کھنچتی جاتی ہے، زندگی کا اعتبار نہیں، گو دو روز سے طبیعت ہری ہے اور ہر طرح سے افاقہ معلوم ہوتا ہے، اس لئے میں چاہتا ہوں کہ میرا کلام میری زندگی ہی میں چھپ جائے، مجھے تم پر بھروسا ہے، اپنے اہتمام سے چھاپ دو، ہم نے کلام مانگ بھیجا مگر اس کا کچھ جواب نہ آیا، یکایک یہ جگر خراش اور روح فرسا خبر ملی کہ آپ مظفر پور سے عظیم آباد (شاہ کی املی) چلے آئے، یہاں طبیعت بگڑنے لگی، اور یہاں تک بگڑی کہ تیمارداروں اور متعلقین کا سارا کھیل بگاڑ گئی اور مرحوم کی ساری بگڑی بنا گئی، انا للہ وانا الیہ راجعون۔نماز جنازہ یہیں ہوئی، نماز میں لوگوں کی کثرت تھی، لاش آپ کے مولد موضع نیمی میں پہنچائی گئی، آپ کی عمر ۳۷ سال کی تھی، آپ نے فارسی کی درسی کتابیں اور عربی کی ابتدائی کتابیں یہیں پٹنہ میں پڑھیں پھر غازی پور تشریف لے گئے اور وہاں عربی درسی کتابیں تمام کیں، اور لکھنؤ میں فارغ التحصیل ہوئے، اور یہیں دستار فضیلت باندھی گئی، آپ کے علم و فضل، زہد و اتقا کا شہرہ نہ اسی صوبہ بہار و بنگال تک محدود تھا بلکہ پچھم میں بھی آپ خاص اثر رکھتے تھے، آپ کو حضرت مولانا فضل الرحمٰن [کذا، صحیح فضل رحمن] مرادآبادی قدس سرہ سے بیعت تھی، نہایت محنتی اور کاسب آدمی تھے، دینیات میں آپ کی بیش بہا تصانیف رد السکین، اوشحۃ الجید، حبل المتین اور (حدیث میں) آثار السنن نہایت ہی قابل قدر کتابیں ہیں، اردو لٹریچر میں، ازاحۃ الاغلاط، سرمۂ تحقیق، اصلاح، ایضاح، مثنوی، سوزوگداز، معرکۃ الآرا تصانیف ہیں، جنہوں نے آپ کی استادی منوا دی، پورب سے پچھم تک سب نے آپ کو مان لیا، آپ کی مذکورہ بالا کتابیں شائع ہو چکی ہیں، اور ملک و قوم نے اس کو وقعت کی نگاہ سے دیکھا ہے، اس کے علاوہ آپ کا ضخیم دیوان غیر مطبوعہ ہے، جس کے چھاپنے کی باتیں ہو رہی تھیں، اس جامعیت، اس قابلیت، اس ذہانت اور اس ذکاوت کا اس عظیم آباد میں تو کیا اس صوبہ میں نہیں، اور قرینہ ہے کہ ایسا با مذاق صوفی مشرب محدث عظیم آباد میں جلد پیدا ہو سکے گا، عظیم آباد آپ کی وفات پر جتنا ماتم کرے بجا ہے، صوبہ بہار آپ کے وصال پر جتنا غم کرے جائز ہے، آپ نے اس سن و سال میں تحصیل علم بھی کی، سیاحت بھی کی، اور اس قدر تصانیف بھی، بیشک آپ کی ذات غنیمت ہی غنیمت تھی، خدا مرحوم کے متعلقین کو صبر جمیل عطا فرمائے، اور آپ کو اعلیٰ علیین میں جگہ دے، آپ کے احباب تو چاہتے ہیں کہ مولانا کی یادگار میں ان کا دیوان ہی چھپوا دیں‘‘۔44
ان کی یاد میں زیادہ قصائد تو نہیں ملتے، جو اس دور میں عام پر مضامین کی جگہ رائج تھے، لیکن ایک بڑا دلدوز مرثیہ عظیم آباد کے ایک دوسرے نامور شاعر مبارک عظیم آبادی کا ہے، جو اپنی نظیر آپ ہے اور اپنی ندرت کی وجہ سے اس لائق ہے کہ یہاں مکمل درج کیا جائے۔ اس سے پہلے اس وقت کے معروف شاعر اور ان کے شاگرد مائل سمستی پوری کا حسب ذیل قطعہ تاریخ ملاحظہ فرمائیے:
قطعۂ تاریخ وفات مولانا ظہیرا حسن شوق نیموی مرحوم بصنعت فوق النقط:
ھا محمد ظہیر احسن شوق
عارف زاھد من الفتاح
کان ھا سائل مائل المغموم
عالم فاضل من النصاح
مبارک عظیم آبادی کا مرثیہ یہ ہے:
حسرت اے صبح و شام ماہ صیام
حسرت اے خوش لیالی و ایام
حسرت اے ماہ رحمت و برکت
حسرت اے شہر عزت و عظمت
حسرت اے وقت سبحہ گردانی
حسرت اے عہد دور قرآنی
حسرت اے وقت تحفۂ تحیات
حسرت اے عہد طاعت و قربات
حسرت اے روزگار اسلامی
حسرت اے شان و شوکت و نامی
حسرت اے مقتدی و پیش امام
حسرت اے سجدہ و قعود و قیام
حسرت اے زاہدان شب بیدار
حسرت اے شیخ صد نماز گذار
حسرت اے صرف و نحو و فرع و اصول
حسرت اے فن منطق و معقول
حسرت اے طب و ہیئت و حکمت
حسرت اے جملگی جمعیت
حسرت اے درس گاہ علم و عمل
حسرت اے بارگاہ علم و عمل
حسرت اے طالبانِ علم و ادب
حسرت اے کاسبان علم و ادب
حسرت اے عالمان پیرو حق
حسرت اے عاملان رہرو حق
حسرت اے حسن فن نثاری
حسرت اے نظم و نغز گفتاری
حسرت اے واقفانِ نثر حسن
حسرت اے ماہران شعر و سخن
حسرت اے رسم و راہ تالیفات
حسرت اے دستگاہ تالیفات
حسرت اے نامہائے نو تزیین
حسرت اے نسخہائے نو آئین
حسرت اے صد ہزارتحقیقات
حسرت اے صد ہزار تصدیقات
آہ! عمامہ فضیلت آہ!
آہ اے جامہ فضیلت آہ!
آہ اے مولوی ظہیر احسن
آہ اے ذی کمال منبع فن
آہ اے طالب رسول خدا
آہ اے نائب رسول خدا
آہ اے بلدۂ عظیم آباد
آہ اے شہر خانماں برباد
آہ کس شخص نے قضا کی آہ
آہ یہ کس شخص نے جان دے دی آہ
استاد سخن تخلص ذوق
شخص بامذاق صاحب ذوق
ہاتھ میں خامہ حدیث نگار
سامنے آمہ حدیث نگار
بات ایسی زبان پر تلمیح
کبھی توضیح تھی کبھی تلویح
وہ محدث محدث کامل
ایسا عالم کہ علم پر عامل
پیرو خضر راہ عرفانی
ذرہ خاک پائے رحمانی
حضرت مولوی و مولانا
فضل رحمان کہ باخدا دانا
شیخ صاحب دل مراد آباد
شہرت افزا، ولی مادر زاد
پیر روشن ضمیر وہ عارف
ماہ و مہر منیر وہ عارف
مرشد باخدا سے بیعت تھی
بے ارادہ دلی ارادت تھی
مرض الموت اک طحال ہوئی
دشمن جاں یہ ڈیڑھ سال ہوئی
اس گھرانے میں اس مرض سے بشر
نہ ہوا آج تک کوئی جان بر
سولہویں روز جمعہ وقت نماز
رمضان ہے زہے یہ راز و نیاز
نیم جان جب مہ صیام ہوا
آپ کا کام ہی تمام ہوا
شہر میں آپ کی نماز ہوئی
بھیڑ سی بھیڑ تھی خدائی تھی
گئی پٹنہ سے لاش نیمی آہ
مولد و مسکن قدیمی آہ
رونق افزائے قریہ نیمی
کیا ہوا ہائے قریہ نیمی!
وہ تری خاک میں ملا افسوس!
فصل گل میں یہ گل کھلا افسوس
آہ اے عمر بے وفا صد آہ
سن تھا سینتیس سال کیا صد آہ
دیدہ مہر و ماہ کو حیرت
فلک کینہ خواہ کو حیرت
کیوں نہ ہو روز جلوہ تاگرشب تار
کیوں نہ ہو ایسی دوپہر شب تار
داد اے دور روزگاراں داد
داد اے جور روزگاراں داد
سینہ سینہ ہے معدن سیماب
خانہ خانہ ہے خانۂ بے تاب
کیوں نہ دریا بنیں یہ دیدہ تر
کیوں نہ بہ جائیں سارے خانہ و در
کیوں نہ اٹھے جگر میں درد جگر
کیوں نہ تڑپے پڑا دل مضطر
کیوں نہ کھولے کوئی لب فریاد
کس طرح بھولے ایسے شخص کی یاد
پئے تاریخ فوت طبع حزیں
بول اٹھی اے مبارک غمگیں
بے سر درد نام سے روشن
یہی لکھ مولوی ظہیر احسن(۱۳۲۲ھ)45
ان کے مشہور شاعر علامہ شفق عماد پوری نے یہ قطعہ تاریخ لکھا:
آہ مولانا ظہیر احسن محدث باکمال ماہر سخن مغفور شوق نیموی لکھ شفق سال وفات ان کا مع نام کامل و علامہ مشہور شوق نیموی46
ان کی وفات پر حرم شریف میں دعائے مغفرت بھی ہوئی، اس وقت علامہ انور شاہ کشمیری وہاں موجود تھے، انہیں اسی کے ذریعہ ان کی وفات کا علم ہوا، جس سے علامہ شوق نیموی کی شہرت اور بین الاقوامی تعارف کا اندازہ ہوتا ہے، علامہ کشمیری کے شاگرد مولانا ابوسلمہ شفیع احمد بہاری لکھتے ہیں:
’’حضرت شاہ انور صاحب فرماتے تھے کہ میں جب مکہ میں تھا تو حرم پاک میں دیکھا کہ قرآن خوانی ہو رہی ہے، پوچھنے پر معلوم ہوا کہ شوق نیموی کوچ کر گئے‘‘۔47
اس کے برعکس ان کے ایک دوسرے شاگرد اور سوانح نگار نے ذکر کیا ہے کہ
’’خود فرماتے تھے میں مدینہ منورہ پہنچا تو مولانا ظہیر احسن شوق نیموی کے لئے دعا ہو رہی تھی۔ مدینہ منورہ مسجد نبوی میں، تب معلوم ہوا کہ حضرت نیموی کا وصال ہوگیا‘‘۔48
دونوں شاگردوں کے بیانات میں اختلاف ہے، ممکن ہے کسی ایک سے سننے میں غلطی ہوئی لیکن اس سے اتنا ضرور معلوم ہوا کہ حضرت نیموی کی وفات پر حرم شریف میں بھی دعا ہوئی، جو ان کی مقبولیت عند اللہ اور مقبولیت عند الناس دونوں کی دلیل ہے۔
تلامذہ
حضرت نیموی شہر عظیم آباد میں طبابت کے مشغلہ کے ساتھ تصنیف و تالیف میں بھی مشغول تھے، اور ساتھ ہی وقت نکال کر عوام الناس میں وعظ و ارشاد کی خدمت بھی انجام دیتے تھے، اور چند طلبہ کو علوم اسلامیہ کا درس بھی دیتے تھے، جیسا کہ گذشتہ صفحات میں گذر چکا ہے۔ ان سے کتنے طلبہ نے علوم اسلامیہ کا درس لیا اس کا صحیح اندازہ نہیں ہوتا، انہوں نے اپنی خود نوشت میں اس کا ذکر نہیں کیا ہے، البتہ شاعری میں ان سے اصلاح لینے والوں اور استفادہ کرنے والوں کی بڑی تعداد ہے جن کی ایک فہرست ان کی خودنوشت میں موجود ہے، لیکن اس میں ان کے دس سال کے دوران قیام ان کے علاوہ جن لوگوں نے ان سے استفادہ کیا ان کا ذکر نہیں ہے، البتہ ان کے فرزند مولانا عبدالرشید فوقانی نے چند ناموں کا اضافہ کیا ہے۔ ان سے علومِ اسلامیہ اور شاعری دونوں میں استفادہ کرنے والوں میں ایک اہم نام مولانا محفوظ الرحمٰن واصل عظیم آبادی کا ہے اور دوسرا نام علامہ شفق عمادپوری گیاوی کا ہے، شفق عماد پوری کے مجموعہ کلام میں ان کے بارے میں ہے، شفق کا پہلا تخلص حسن تھا پھر مولانا شوق نیموی مرحوم نے شفق تجویز کر دیا، دو تین برس تک جو کچھ کہتے رہے جناب کوثر خیر آبادی اور مولانا شوق نیموی دونوں ہی کو دکھاتے رہے … اور مولانا ظہیر احسن شوق نیموی سے فن طب کے علاوہ تحصیل حدیث بھی کی تھی۔49
انہوں نے اپنے جن تلامذہ ادب و شعر کا نام اور شاعری کے نمونے اپنی خود نوشت میں درج کئے ہیں ان میں بیشتر کا تعلق شمالی ہندسے ہے، اور گذر چکا کہ یہ ان کے ابتدائی دور کی تحریر ہے، اس کے بعد کتنے لوگوں نے ان سے استفادہ کیا ہوگا اس کی تفصیل نہیں ملتی۔ لکھنؤ جہاں وہ ایک مدت تک رہے وہاں کے کسی فرد کا نام ان کے تلامذہ میں نہیں ملتا۔ البتہ ان کے فرزند نے ان کے تلامذہ میں چند ناموں کا اضافہ کیا ہے جن میں ملتان کے ایک عالم کا نام بھی شامل ہے، اس قلعہ معلیٰ دہلی کے شاہزادے مرزا زبیر الدین متخلص بہ زبیر نے بھی ان سے اصلاح لی تھی، جس کا ذکر اس کے دیوان میں ہے، اور مولانا ابوالکلام آزاد نے بھی ان سے اصلاح لی تھی اور ان کی تمام کتابوں کا بھی مطالعہ کیا تھا، جیسا کہ خود ان کی خود نوشت میں بھی ہے اور حضرت نیموی کے صاحبزادے مولانا عبدالرشید فوقانی سے بھی ایک ملاقات میں انہوں نے اس کا اعتراف کیا تھا، جس کا ذکر مولانا فوقانی نے کئی جگہ کیا ہے۔50
حوالہ جات
- حقیقت بھی کہانی بھی از بدرالدین بدر، ص ۵۷۶، بہاراردو اکیڈمی پٹنہ، ۲۰۰۴ء۔
- حوالہ سابق، ص ۵۷۵
- ترجمہ المولف العلام۔القول الحسن۔
- حوالہ سابق، ص ۵۷۸
- یادگار وطن، ص ۹۹
- جلوہ خضر جلد دوم ص ۲۹۵ جدید ایڈیشن کراچی
- فضل حق آزاد از ڈاکٹر روحی حسن مجید، ص ۲۱۸ پٹنہ۔
- تاریخ اشرف العلوم، نسیم احمد قاسمی، ۲۰۱۸ء سیتامڑھی بہار۔
- مقالہ کاملہ، ص
- سیر بنگال، ص ۱۸
- فضل رحمانی، مولانا سید تجمل حسین دسنوی، ص ۱۶۹۔مطبع شاہجہانی بھوپال ۱۳۱۵ھ ۔
- سیرت محمد علی مونگیری از مولانا سید محمد الحسنی، ص ۳۳۷، لکھنؤ، ص ۲۰۱۶ھ۔ کمالات محمدیہ کے حوالے سے ان کو خلفاء میں نہیں مریدین میں شمار کیا گیا ہے۔
- القول الحسن، از فوقانی نیموی۔ ص ۱۶۵
- الپنچ، ص ۳ ۔۔۳دسمبر ۱۹۰۴ء۔
- ہفتہ وار اخبار الپنچ پٹنہ ۳۱ دسمبر ۱۹۰۴۔اس پر مدیر اخبار نے اخیر میں نوٹ لکھا ہے ’’واہ! کیا تاریخ لکھی ہے، تاریخ اور مثنوی پھر قصیدہ کی تشبیب، سبحان اللہ وجزاک اللہ‘‘۔ص ۳۔
- گنجینہ تاریخ، مطبوعہ ۱۳۳۹ھ بحوالہ القول الحسن ص ۱۶۸
- کتب خانہ ڈیاواں، ماہنامہ برہان دہلی جولائی۱۹۵۰ ص ۵۵۔
- انور انوری، از مولانا محمد انوری، کراچی ۱۴۲۵[۲۰۰۵ء]ص ۲۰
- ریاض شفق بحوالہ القول الحسن ص ۱۶۸
- دیکھئے القول الحسن ص۱۶۷
(جاری)