۵؍ذوالحجہ ۱۴۴۵ھ / ۱۲؍جون ۲۰۲۴م کو افغانستان سے یہ افسوس ناک خبر آئی کہ یادگارِ اسلاف اور سرزمینِ افغانستان پر باعثِ برکات مولانا ولی الحق صدیقی اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ ان کی ولادت افغانستان کے صوبے ننگرہار کے علاقے سرخرود میں ۱۳۴۷ھ / ۱۹۲۷م میں ہوئی تھی۔ اس طرح انھوں نے تقریباً سو سال عمر پائی۔ ان کا خاندان اہل علم و فضل کا خاندان تھا۔ ان کے والد گرامی مفتی عبدالحق صدیقی اور چچا مولانا عبدالخالق صدیقی دونوں مستند عالم تھے۔ اسی طرح ان کے دادا قاضی صاحب گل صدیقی بڑے عالم اور پر دادا جناب احمد گل صدیقی بھی معتبر شخصیت کے مالک تھے۔
مولانا ولی الحق صدیقی اُس دور کی یادگار تھے، جس دور میں افغانستان اور موجودہ پاکستان و بنگلہ دیش کے طلبہ خاصی تعداد میں ہندستان آتے تھے۔ اپنے اپنے مسلک و مشرب کے لحاظ سے ملک کے مختلف حصوں میں قائم مدارس اور شخصیات سے استفادہ کرتے تھے۔ ایسے طلبہ کی اچھی تعداد دیوبند بھی پہنچتی تھی۔ اُسی زمانے میں دارالعلوم دیوبند میں ہمارے مخدوم و محترم مولانا تبارک اللہ صدیقی ململی بھی زیر تعلیم تھے۔ انھوں نے مجھے بتایا تھا کہ ’’ہمارے وقت میں دارالعلوم دیوبند میں کم و بیش ستّر بہتّر افغانی طلبہ پڑھتے تھے۔‘‘ ہمارے ممدوح مولانا ولی الحق صدیقی بھی انھی طلبہ میں شامل تھے۔ انھوں نے دیوبند میں تقریباً دس سال قیام کیا۔ وہ ۱۳۶۰ھ / ۱۹۴۰م میں دیوبند پہنچے اور ۱۳۷۰ھ / ۱۹۵۰م میں وہاں سے اپنے وطن واپس لوٹے۔
افغانستان میں اور پاکستان کے سرحدی علاقوں میں دارالعلوم دیوبند کا تعارف شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی کی شخصیت اور اثرات کی وجہ سے ہوا تھا۔ اس لیے شیخ الہند کی حیات میں دیوبند آنے والے طلبہ کا مرکز و محور شیخ الہند ہی کی ذات گرامی ہوتی تھی۔ ۱۹۲۰م میں اُن کے وصال کے بعد جو طلبہ دیوبند پہنچے وہ شیخ الہند کے رنگ میں سب سے زیادہ رنگی ہوئی شخصیت شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی کو اپنی عقیدت کا سب سے بڑا مرکز بناتے تھے۔ اُس زمانے میں بالعموم صحیح بخاری اور جامع ترمذی شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی، صحیح مسلم علامہ محمد ابراہیم بلیاوی اور سنن ابو داؤد شیخ الادب مولانا اعزاز علی امروہوی پڑھایا کرتے تھے۔ یہ تینوں بزرگ شیخ الہند کے شاگرد تھے۔ اس لیے افغانی طلبہ اپنے ان تینوں اساتذہ سے سب سے زیادہ قرب رکھتے تھے۔ بعد میں شیخ الہند کے ایک اور شاگرد مولانا سید فخرالدین احمد مرادآبادی بھی شیخ الحدیث بن کر دارالعلوم دیوبند پہنچے تھے، لیکن اُن کے دور میں ملک کی تقسیم کو اچھا خاصا وقت گزر چکا تھا اور افغانی طلبہ کی آمد کا سلسلہ موقوف ہوچکا تھا۔ اس لیے اُن کے ذریعے ۱۹۷۲م تک شیخ الہند کی نسبت تو عام ہوتی رہی لیکن افغانوں اور سرحدی قبائل تک یہ فیض نہیں پہنچ سکا۔ اس لحاظ سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ مولانا ولی الحق صدیقی نے دارالعلوم دیوبند کے زریں عہد میں دس سال گزارے۔ خطیب الاسلام مولانا محمد سالم قاسمی اور صاحب زادہ شیخ الاسلام مولانا محمد اسعد مدنی اُن کے ہم سبق رہے۔ یہ بات تقریباً وثوق کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ اُس صف کا کوئی فرد اب اس دنیا میں موجود نہیں ہے۔ امارت اسلامی افغانستان کو بھی مولانا کی اس عالی نسبت کی قدر تھی۔ اسی لیے کچھ عرصے پہلے وہاں کے ایک مرکزی وزیر نے ایک وفد کے ساتھ اُن کی خدمت میں حاضری دی تھی۔
مولانا ولی الحق صدیقی نے دارالعلوم دیوبند میں صحیح بخاری مولانا حسین احمد مدنی سے، صحیح مسلم علامہ محمد ابراہیم بلیاوی سے، سنن ابو داؤد مولانا اعزاز علی امروہوی سے، جامع ترمذی مولانا حسین احمد مدنی سے، سنن نسائی مولانا محمد ادریس کاندھلوی سے، سنن ابن ماجہ مولانا قاری محمد طیب قاسمی سے پڑھی تھی۔ عالم عرب کے علمائے حدیث کے درمیان مولانا ولی الحق صدیقی کی اہمیت ایک تو اس لیے تھی کہ مولانا حسین احمد مدنی کے اتنے قدیم تلامذہ اب نہیں پائے جاتے۔ اسی لیے شامی عالم و محقق ڈاکٹر زیاد التکلۃ نے دو سال قبل شعبان کے مہینے میں مولانا کے سامنے صحیح بخاری مکمل پڑھنے کا اہتمام کیا تھا۔ اس مبارک سلسلے کی اختتامی مجلس ۲۷؍شعبان المعظم ۱۴۴۳ھ / ۳۱؍مارچ ۲۰۲۲م منعقد ہوئی۔ پوری دنیا سے سیکڑوں علمائے حدیث اور ہم جیسے طلبہ نے ان آن لائن مجالس میں شرکت کی۔ روزانہ تقریباً تین گھنٹے قرأت ہوتی تھی۔ مولانا بہت سکون کے ساتھ پوری مجلس سماعت فرماتے تھے۔ آخر میں پرسوز انداز میں دعا بھی کراتے تھے۔ اُن کی مبارک زبان سے نکلنے والے دعائیہ کلمات آج بھی کانوں میں رس گھولتے ہیں۔
علمائے حدیث کے درمیان مولانا ولی الحق صدیقی کی اہمیت کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ انھوں نے موطأ امام محمد شیخ التفسیر محمد مولانا محمد ادریس کاندھلوی سے پڑھی تھی۔ مولانا کاندھلوی نے مفتی اعظم مولانا عزیز الرحمان عثمانی سے اور انھوں نے دارالعلوم کے استاذِ اول ملا محمود دیوبندی سے۔ ملا محمود کو شاہ عبدالغنی مجددی سے اجازت حاصل تھی۔ مولانا محمد ادریس کاندھلوی دارالعلوم دیوبند میں شیخ التفسیر کی مسند پر فائز تھے۔ تفسیر بیضاوی اور تفسیر ابن کثیر کا درس دیا کرتے تھے۔ حسب ضرورت احادیث کی مختلف کتابیں بھی اُن کے زیر درس رہیں۔ غالباً موطأ امام محمد صرف ایک ہی سال پڑھائی تھی۔ مولانا ولی الحق صدیقی بھی اس جماعت میں تھے، جس نے مولانا کاندھلوی سے یہ کتاب پڑھی تھی۔ اس لیے عرب علماء و طلبہ مولانا صدیقی کے ساتھ موطأ امام محمد کی آن لائن مجالس بھی منعقد کرتے تھے۔ ایک دورے میں مجھے بھی شرکت کی سعادت حاصل ہوئی تھی۔ یہ مجالس ۱۶؍شوال المکرم۱۴۴۲ھ / ۲۹؍مئی ۲۰۲۱م سے ۲۲؍شوال / ۴؍جون تک جاری رہی تھیں۔ مصری عالم شیخ احمد حسن محمد القاضی نے مولانا ولی الحق صدیقی کا ثبت بھی ترتیب دیا ہے۔ اس کا نام الرضی الکافی فی بعض أسانید مولانا ولی الحق الصدیقی ہے۔ اس میں بہت سی چیزیں نظر ثانی کی بھی محتاج ہیں۔
مجھے ایک مرتبہ مولانا ولی الحق صدیقی سے آن لائن ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ اُن کے لباس، بول چال اور اردگرد کے ماحول سے بہت سلیقہ مندی جھلکتی تھی۔ اپنے اساتذہ کا تذکرہ کرتے ہوئے اُن کی آواز بھرا جاتی تھی۔ شاید یہ اُن کی تربیت ہی کا نتیجہ تھا کہ اُن کے اہل خانہ اُن کا بھی غایت درجہ ادب کرتے ہوئے محسوس ہوتے تھے اور دوسروں کو بھی اُن سے مستفید ہونے کا موقع دیتے تھے۔ ہمارے ملک میں حال ہی میں وفات پانے والے کچھ عالی نسبت علماء ایسے بھی تھے، جن کے گھر والوں نے صحت و حفاظت کے نام پر انھیں تقریباً محصور کر کے رکھ دیا تھا۔ حد تو یہ کہ کسی سے فون پر گفتگو کی بھی اجازت نہیں تھی، لیکن مولانا ولی الحق صدیقی اس لحاظ سے خوش نصیب تھے کہ اُن کے اہل خانہ اُن کی صرف خاندانی حیثیت سے واقف نہیں تھے، بلکہ اُن کی ملّی، دینی، علمی اور تاریخی اہمیت سے بھی واقف تھے۔ اس لیے انھوں نے مرضِ وفات میں مبتلا ہونے سے پہلے تک بہت منظم انداز میں ان سے استفادے کا دروازہ کھلا رکھا۔ علماء و طلبہ اُن سے ملاقات کے لیے حاضر ہوتے تو انھیں بآسانی ملنے دیا جاتا۔ دنیا بھر سے اہل علم آن لائن استفادے کی کوشش کرتے تو ایک وقت متعین کر دیا جاتا۔ پھر متعینہ وقت پر مولانا کو پوری یکسوئی فراہم کر کے گھر کے کسی بچے کو بھی اُن کے ساتھ بٹھا دیا جاتا تھا، تاکہ کوئی تکنیکی دشواری پیش آئے تو وہ درست کر سکے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ ان کے سامنے صحیح بخاری جیسی بڑی کتابیں بھی بہت مرتب انداز میں شروع سے آخر تک ختم کر لی گئیں۔ اہل خانہ کی اس راست فہمی کے نتیجے میں مولانا سے استفادہ کرنے والے علماء، طلبہ اور عام افراد کی تعداد بلا مبالغہ کئی ہزار ہوگی۔ اب یہ فیض عام ہوتا جائے گا اور اس کا ثواب مولانا کے ساتھ ساتھ اُن کے اہل خانہ کے حصے میں بھی لکھا جاتا رہے گا۔
مولانا ولی الحق صدیقی کی رحلت سے افغانستان میں دینی علوم کی ایک روایت اپنے اختتام کو پہنچ گئی۔ وہ برصغیر کی تاریخ کے ایک خوب صورت دور کی یادگار تھے۔ اُن کے ہم سبق خطیب الاسلام مولانا محمد سالم قاسمی کی رحلت پر جو احساس ہم ہندستانی طلبہ کو ہوا تھا، شاید وہی احساس آج افغانی طلبہ کو ہو رہا ہوگا۔ اس احساس کو شاعر نے اس طرح بیان کیا ہے:
وفات پا چکے سب رہ رَوانِ جادۂ عشق
ملال یہ ہے کہ دہلیزِ عاشقاں بھی گئی