مولانا مفتی محمود راولپنڈی میں ہوں تو ان کا قیام جامعہ اسلامیہ کشمیر روڈ میں رہتا ہے۔ بالائی منزل کے ایک حجرے میں۔ ۲۲ اگست کو ان سے ٹیلیفون پر بات ہوئی اور ملاقات کے لیے ساڑھے نو بجے رات کا وقت مقرر ہوا۔ جامعہ اسلامیہ پہنچا تو مفتی صاحب عشاء کی نماز ادا کر رہے تھے۔ میں برادران عزیز مختار حسن اور سعود ساحر کے ہمراہ انتظار کی لذت میں ڈوبنے کا ارادہ کر رہا تھا کہ جناب صبح صادق کھوسو تشریف لے آئے۔ ان سے باتیں ہوتی رہیں۔ کھوسو صاحب کا ذہن توانا، لہجہ والہانہ اور تیور مجاہدانہ تھے۔ وہ ۱۹۵۶ء سے جمعیۃ العلمائے اسلام میں شامل ہیں اور کل انہیں وزیر کی حیثیت سے حلف اٹھانا تھا۔ چند لمحوں بعد مفتی صاحب انٹرویو کے لیے تیار تھے۔ حجرے میں پہنچے تو وہ ایک چٹائی پر عقیدت مندوں کے ہجوم میں گھرے بیٹھے تھے۔ سینیٹر محمد زمان اچکزئی بھی تشریف فرما تھے۔ یہی چٹائی جناب مفتی صاحب کا ’’ڈرائنگ روم‘‘ تھی۔ چھوٹے سے کمرے کے ایک کونے میں چارپائی پڑی تھی، یہ ان کا ’’بیڈ روم‘‘ تھا۔
مفتی صاحب پر ذیابیطس کا حملہ شدید ہے لیکن وہ اسے زیر کرتے آ رہے ہیں۔ دائیں پاؤں کے انگوٹھے پر زخم ہوا، انگوٹھے کا ناخن کٹا، ابھی تک ٹانگ پر بھی سوجن ہے، لیکن مفتی صاحب کی سرگرمی کو ان کا زخم روک نہیں سکا۔ وہ قوم کے زخموں کا مرہم ڈھونے میں ہمہ تن مشغول ہیں اور اپنا زخم یاد ہی نہیں رکھتے۔ ۷ مارچ ۷۷ء کے انتخابات کی مہم کے دوران بھی ڈاکٹروں نے انہیں مشورہ دیا تھا کہ زیادہ آرام اور کم کام۔ ان کی صحت کے بارے میں شدید خدشے بھی ظاہر کیے گئے تھے، لیکن مفتی صاحب کام کے آدمی ہیں، آرام سے کیا کام؟ وہ ملک بھر میں اس طرح گھومے پھرے جیسے بالکل صحت مند ہوں، جیسے بیماری ان کے قریب تک نہ ہو اور واقعی بیماری کو انہوں نے قریب نہیں آنے دیا۔ کسی سے شکست نہ ماننے والا بیماری سے شکست کیسے مان سکتا ہے؟ ان کی توانا قوتِ ارادی شکست سے واقف ہی نہیں، وہ تو بس شکست دینا ہی جانتی ہے۔
مفتی صاحب کھدر پہنتے، دو ٹوک بولتے، سادہ کھاتے، انکساری برتتے، پہلو دار تجزیے کرتے، کارکنوں سے گھل مل جاتے، ہر لحظہ ہنستے مسکراتے اور سیاست کے منہ زور گھوڑے پر بڑی مہارت سے سواری فرماتے ہیں۔ واقعات کی کوئی تفصیل ان کی نظروں سے اوجھل نہیں ہو پاتی۔ ان کے لہجے میں متانت، بات میں صداقت اور تجزیے میں ذہانت کھل کھل جاتی ہے۔
باقاعدہ سوال جواب سے پہلے کچھ گپ شپ بھی رہی۔ ’’آف دی ریکارڈ‘‘ کا سلسلہ بھی چلا۔ میرے کان مفتی صاحب کی باتوں پر تھے اور آنکھوں کے سامنے اس شخص کے گزشتہ روز و شب ابھر رہے تھے۔ یہ وہ شخص ہے جس کے فکر و نظر، سوچ کے انداز سے اختلاف ہو سکتا ہے، لیکن اس سے اختلاف نہیں کہ اس نے سرحد کی وزارتِ اعلیٰ اس شان سے سنبھالی کہ اسلامی اقدار کو سربلند کیا۔ وہاں اردو سرکاری زبان قرار پائی، شراب مکمل طور پر بند ہوئی، احترامِ رمضان کا قانون نافذ ہوا، اور سرکاری افسروں پر پابندی لگی کہ وہ دفتر کے اوقات میں لباس شلوار قمیض ہی استعمال کر سکتے ہیں۔ یہ وزیر اعلیٰ، وزارتِ کے دوران بھی چٹائی پر بیٹھتا رہا۔ موٹا جھوٹا پہنتا رہا، اور جب استعفیٰ دیا تو اس کے اہل و عیال اس ٹھاٹھ سے وزیر اعلیٰ ہاؤس سے رخصت ہوئے کہ ایک کار کی ڈگی میں گھر بھر کا سامان سما گیا۔ منہ بگاڑ بگاڑ کر انگریزی بولنے والے مسٹروں کے مقابلے میں سرحد کے اس ’’ملّا‘‘ (جسے سرحد کے عوام ’’نر مُلّا‘‘ کہہ کر زندہ باد کا نعرہ لگاتے ہیں) نے کیسی مثال قائم کر دکھائی تھی، اور کیسی حکومت چلا دکھائی تھی۔ یہی شخص بلوچستان میں مینگل وزارت کی برطرفی پر وزارت سے مستعفی ہو گیا اور کرسی کو خدا ماننے والوں کے عہد میں، کرسی کا بت پاش پاش کر دیا۔ اسی شخص نے قومی اتحاد کی لازوال تحریک کی رہنمائی کی اور اسلامی نظام کا مطالبہ اسی کے زیر قیادت اس طرح بلند ہوا کہ گوشہ گوشہ گونج اٹھا۔ یہی ۵۹ سالہ کھلتے ہوئے رنگ کا بھاری بھر کم شخص آج بھی اتحاد کی آواز دے رہا ہے، اتحاد کا پرچم بلند کیے ہے۔ میں اسی شخص کی آنکھ سے حالات اور واقعات کی رفتار دیکھنے آیا تھا۔ گفتگو شروع ہوئی اور طویل ہوتی گئی۔ بارہ بجے کے بعد اٹھے۔ اس کے بعد ٹیلیفون پر بھی میں نے رابطہ قائم رکھا۔ لاہور آئے تو لاہور میڈیسن کمپنی کے ’فرماں روا‘ جناب غلام دستگیر کے مکان پر پھر ایک نشست ہوئی، اور یوں یہ انٹرویو مکمل ہوا۔
س: مفتی صاحب! پاکستان قومی اتحاد نے مارشل لا کے تحت حکومت بنانے کا فیصلہ کیوں کیا؟ آپ کے ’’دوست‘‘ الزام لگاتے ہیں کہ یہ کرسی سے محبت کا نتیجہ ہے، آپ نے عوام کے مفاد سے غداری کی ہے اور اب قومی اتحاد، قومی اتحاد نہیں درباری پارٹی بن گیا ہے؟ کیا اس الزام میں کوئی صداقت موجود ہے؟
ج: میں نے یہ بات ہمیشہ کہی ہے کہ جمہوریت کا دعویٰ رکھنے والی کوئی جماعت مارشل لا کے تحت کسی حکومت میں شامل نہیں ہو سکتی اور آج بھی یہی کہتا ہوں۔ یہ طے شدہ مسئلہ ہے اور ایک ایسا اصول جس کی صحت سے انکار نہیں کیا جا سکتا؛ البتہ بعض اوقات ایسی ایمرجنسی ہو جاتی ہے کہ معاملات کو خالصتاً کتابی نظریات کے حوالے سے نہیں، عملی حقائق کی روشنی میں دیکھنا پڑتا ہے۔ اسے ایک چھوٹی سی مثال سے سمجھیے۔
کسی کے گھر میں اجازت کے بغیر داخل ہونا قانون، اخلاق اور معاشرتی اقدار کے یکسر خلاف ہے۔ لیکن اگر کسی مکان میں آگ لگ جائے تو آپ پانی کی بالٹی ہاتھ میں لے کر باہر کھڑے صاحبِ خانہ سے اجازت مانگتے رہیں گے، یا آگے بڑھ کر آگ بجھانے کے لیے سرگرم ہوں گے؟ اگر آپ آگ میں گھرے ہوئے اہل خانہ کو اجازت کے لیے پکارتے رہیں، تو آپ کی آواز بھی ان تک نہ پہنچے گی اور وہ جل کر بھسم بھی ہو جائیں گے۔ کیا کوئی صحیح العقل ایسے عالم میں پانی لے کر بغیر اجازت مکان میں داخل ہونے والے پر طعن توڑ سکتا ہے، اسے بد اخلاق قرار دے سکتا ہے، اسے اصول شکنی کا مرتکب قرار دے سکتا ہے؟ اس شخص کی تو تعریف ہو گی، اسے شاباش ملے گی اور اس کی کاوش قابلِ صد مبارک ٹھہرے گی کہ اس نے آگ بجھائی اور آگ میں گھرے ہوؤں کی جان بچا لی۔
پاکستان کو بھی آج ایسے ہی حالات کا سامنا ہے، مسائل کی آگ بھڑک رہی ہے، مارشل لا اور عوام کے درمیان کوئی رابطہ استوار نہیں ہو سکا، بیوروکریسی کے وہ کل پرزے جو بھٹو کے عہد میں قانون اور اخلاق کی دھجیاں بکھیرتے رہے، جوں کے توں ہیں اور حالات کو اور بھی آگ دکھا رہے ہیں ۔ ایسے عالم میں اہلِ سیاست پر لازم ہو گیا کہ وہ آگے بڑھ کر مارشل لا کا ہاتھ بٹائیں اور انتظامی ذمہ داریوں میں اس طرح شریک ہوں کہ عوام کے مسائل کم ہوں، حادثات کی رفتار تھمے، اسلامی اقدار کو فروغ ہو اور منتخب حکومت کے قیام کی راہ ہموار ہو جائے۔
پاکستان قومی اتحاد نے حکومت کی ذمہ داری سنبھال کر بڑی قربانی دی ہے، حالات کو سنوارنے کا چیلنج قبول کیا ہے، اسلامی نظام کے قیام کا راستہ کھولا ہے اور انتخابات کو درپیش خطرات کو دور کرنے کی کوشش کی ہے۔ اتحاد بھی ذمہ داری سے فرار کی راہ اختیار کر کے تند و تیز بیانات دینے اور اپوزیشن کے منصب پر خود کو فائز کرنے کا کام بآسانی کر سکتا تھا، لیکن ہم نے یہ راستہ اختیار نہیں کیا۔ ہمارا ماضی گواہ ہے کہ جب اپوزیشن میں بیٹھنا، بھٹو آمریت کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنا، جان جوکھوں میں ڈالنا تھا؛ تب ہم نے اپوزیشن کا فرض ادا کیا۔ ہم کرسیوں کے بھوکے ہوتے تو مسٹر بھٹو کی پیشکشوں سے فائدہ اٹھا کر یہ شوق پورا کر لیتے۔ آپ کو یاد ہو گا کہ خود میں نے سرحد کی وزارتِ اعلیٰ سے اس وقت استعفیٰ دے دیا تھا جب بلوچستان میں مینگل حکومت کو غیر قانونی طور پر برطرف کر دیا گیا۔ اگر اقتدار پیارا ہوتا تو میں کبھی استعفیٰ نہ دیتا، اور اگر میں استعفیٰ نہ دیتا تو کوئی مجھے کوئے اقتدار سے باہر نہ نکال سکتا۔ لیکن میں نے اپنے بلوچ بھائیوں کے حقوق کے لیے آواز اٹھائی، ان پر ظلم اور زیادتی کو اپنے اوپر ظلم اور زیادتی سمجھا اور وزارتِ اعلیٰ کو اپنے گھر سے نکال باہر کیا۔
ہم تو مشکلات اور مصائب کے راستے پر چلنے کے عادی ہیں، جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا، میں اور میرے رفقاء نے اس وقت اپوزیشن کا پرچم بلند رکھا جب اس سے مشکل کام کوئی نہ تھا۔ اور اب اس وقت ہم نے اتحاد کے نمائندوں کو اقتدار میں شریک کیا ہے جب حکومت کرنے سے مشکل کام کوئی اور نہیں ہے۔ آج اپوزیشن کرنے سے آسان کام اور کیا ہے کہ تقریریں اخبارات میں چھپ رہی ہیں، آمد و رفت کی آسانیاں ہیں، اندرونِ ملک تو کیا بیرونِ ملک بھی دورے کرنے کی آزادی ہے، اور جھوٹ بولنے، پھیلانے اور شائع کرنے سے روکنے والا بھی کوئی نہیں۔ یہ طعنہ دینا کہ ہم درباری پارٹی ہیں، اس سے بڑا جھوٹ کوئی نہیں ہو سکتا، ہم نے تو اقتدار کو اسلام اور جمہوریت کے رنگ میں رنگنے کا عہد کیا ہے اور اسی کے لیے آگے بڑھے ہیں۔ اگر اس مقصد میں کامیابی نظر نہ آئی تو ہمارے نمائندے وزارتوں پر لات مار کر واپس آ جائیں گے۔
یاد رکھیے، با مقصد اور با اختیار حکومت میں شامل ہونا عوام سے غداری نہیں، بلکہ اتحاد کو انتشار میں بدلنا عوام سے غداری ہے۔ لیکن ہم گالی کی سیاست کو فروغ دینے کے قائل نہیں، ہمارے دشمن جانتے ہیں اور ’’دوست‘‘ بھی کہ ہم سنجیدگی اور متانت سے اختلافِ رائے کے اظہار کے عادی ہیں اور اختلاف کو برداشت بھی کرتے ہیں۔ ہم تنقید کا خیرمقدم کریں گے، ہم شکر گزار ہوں گے اگر کوئی ہماری غلطی ہم پر واضح کر دے، ہمیں ٹوکے۔ لیکن ہم کسی کے حریفِ دُشنام نہیں ہیں۔ ہماری مجبوری ہے کہ ہم گالی نہیں دے سکتے، گالی دینا ہماری سیاست میں حرام ہے۔
س: جناب، کیا تاریخ سے ایسی کوئی مثال مل سکے گی کہ جب جمہوری قوتوں نے کسی غیر نمائندہ حکومت کے قیام پر اتفاق کیا ہو اور اس میں شرکت اختیار کی ہو؟
ج: بالکل، دور جانے کی ضرورت نہیں۔ اس برصغیر پاک و ہند ہی میں ایسا ہو چکا ہے۔ آزادی سے پہلے جب انگریز نے دیکھ لیا کہ اب وہ حکمران نہیں رہ سکتا، تو انتقالِ اقتدار کی تفصیلات طے کرنے اور انہیں عملی جامہ پہنانے کے لیے ’’غیر نمائندہ حکومت‘‘ کی تشکیل ہوئی۔ اس میں کانگریس بھی شامل تھی اور مسلم لیگ بھی۔ قائد اعظمؒ کے پیرو بھی اس حکومت کا حصہ بنے اور گاندھی کے نمائندے بھی۔ اس حکومت کا سربراہ انگریز وائسرائے تھا۔ آزادی کے لیے جان لڑانے والے اگر عملی حکمت کی وجہ سے انگریز وائسرائے کے زیر نگرانی کابینہ میں شامل ہو سکتے ہیں، تو آج جمہوریت کے سپاہی، چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کی تشکیل کردہ وزارت میں کیوں شریک نہیں ہو سکتے؟ جبکہ چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر تو کسی سامراج کے نمائندے نہیں، بلکہ ہماری قومی فوج کے سربراہ ہیں۔ آخر پاکستانی فوج سے بامقصد تعاون کرنا اور اس لیے تعاون کرنا کہ انتخابی اور جمہوری عمل کا آغاز ہو، جمہوریت کی نفی کیسے ہو گیا؟
س: جناب، حکومت میں شرکت کے سوال پر قومی اتحاد میں اختلافات پیدا ہوئے اور آپ کی ایک اہم حلیف جماعت این ڈی پی نے تُند و تیز ردعمل ظاہر کر کے اتحاد سے علیحدگی کی راہ اختیار کر لی۔ کیا یہ مناسب نہ ہوتا کہ آپ اتحاد کی یکجہتی کو مقدم رکھتے اور حکومت میں شریک ہو کر ایک اہم حلیف کو حریف بنانے کے بجائے حکومت سے تعاون کی کوئی متفقہ راہ ڈھونڈنے کو اولیت دیتے۔
ج: یہ سوال ایک بڑے مغالطے کی پیدا وار ہے۔ آپ یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ این ڈی پی نے حکومت میں شرکت کے سوال پر اتحاد سے علیحدگی اختیار کی ہے۔ حالانکہ یہ واقعات کے خلاف ایک مفروضہ ہے۔ آپ کو یاد ہو گا کہ ۲۵ مئی کو قومی اتحاد کی جنرل کونسل کی منظوری سے میں نے بحیثیت صدر قومی اتحاد، جنرل ضیاء الحق کو ایک خط لکھا تھا جس میں مارشل لا حکام کی طرف سے حکومت میں شرکت کی دعوت قبول کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا گیا تھا کہ مجوّزہ حکومت با اختیار اور با مقصد ہونی چاہیئے، اس میں باکردار سیاسی عناصر شامل ہوں؛ گویا شرکت کے اصول پر تو اتفاق تھا، لیکن تفصیلات کے بارے میں گفتگو مطلوب تھی۔ اس خط میں این ڈی پی ہمارے ساتھ تھی۔ جنرل کونسل کے اجلاس میں این ڈی پی کے نمائندوں نے بھی شرکت کی تھی اور اتفاقِ رائے سے طے کیا گیا تھا کہ اتحاد بامقصد، با اختیار اور سیاسی عناصر پر مشتمل کابینہ میں شرکت پر رضامند ہے۔ اس خط کی بنیاد پر مذاکرات ہوئے۔ یہ مذاکرات ٹوٹ کر جڑتے، اور جُڑ جُڑ کر ٹوٹتے رہے، لیکن کسی نے اس خط سے انحراف نہ کیا۔
۲۵ جون کی نشری تقریر میں جنرل ضیاء الحق نے مذاکرات کی ناکامی کا یکطرفہ اعلان کرتے ہوئے سیاسی حکومت بنانے کا ارادہ ترک کر دیا اور ۵ جولائی کو نئی کابینہ بنا ڈالی جس میں اتحاد کی ایک جماعت بھی شریک کر لی گئی۔ یہ بڑی افسوس ناک صورتِ حال تھی کہ اتحاد کی ایک جماعت حکومت میں شامل ہو گئی جبکہ باقی جماعتیں شمولیت کا یہ انداز قبول نہ کر سکیں۔ میں نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ جنرل صاحب نے سیاسی حکومت بنانے کا ارادہ ترک کر دیا، اس طرح انہوں نے حالات کی ذمہ داری اپنے ہی کاندھوں پر اٹھا لی تھی اور ہمارے لیے اس سے بڑھ کر خوشی کی بات کیا ہو سکتی تھی کہ ہم آزمائش میں مبتلا ہونے سے محفوظ رہ گئے۔
لیکن کابینہ کی تشکیل کے بعد جنرل صاحب نے پھر پیشکش کو تازہ کر دیا۔ میں کراچی کے ایک ہسپتال میں زیر علاج تھا کہ وہ ملنے آئے اور ایک بار پھر حکومت میں شمولیت کی دعوت بھی ساتھ لائے۔ میں نے اپنے ردعمل کا اظہار کیا، تفصیل سے گفتگو ہوئی، تلخ اور تند شکایتیں زیر بحث آئیں۔ بالآخر میں نے اتحاد کی مرکزی کونسل کا اجلاس بلانے کا فیصلہ کیا تاکہ تازہ ترین صورتِ حال پر غور کر کے لائحۂ عمل تیار کیا جائے۔ اس اجلاس نے مجھے جنرل ضیاء الحق سے مذاکرات کرنے کا اختیار دے دیا۔ میں جس نکتے پر زور دینا چاہتا ہوں، وہ یہ ہے کہ اس اجلاس میں این ڈی پی کے نمائندے بھی تھے اور مجھے گفتگو کا اختیار دینے میں وہ بھی فریق تھے، انہوں نے بھی مجھ پر اس سلسلے میں اعتماد کا اظہار کیا تھا۔
اب بتائیے، جب اتحاد کی مرکزی کونسل کے دیے گئے اختیارات کے تحت میں نے مذاکرات کیے اور ۲۵ مئی کے خط کی بنا پر کیے تو پھر این ڈی پی کے لیے کیا جواز رہا کہ وہ مذاکرات کی کامیابی کو بنیاد بنا کر اتحاد سے الگ ہو جائے۔ ہم کسی کے دل کی کیفیت اور اس کی نیت کا ایکسرے تو کر نہیں سکتے۔ این ڈی پی کا موقف یہ تھا کہ وزارت سازی کا مرحلہ آگیا تو ایسی صورت میں ہم اپنی جماعت کے ارکان وزارتوں کے لیے نامزد نہیں کریں گے، لیکن اتحاد میں رہتے ہوئے حکومت کی حمایت جاری رکھیں گے اور دوسری جماعتوں کے نمائندوں کو اتحاد کا نمائندہ سمجھ کر تعاون کریں گے۔ مذاکرات کامیابی کی طرف مڑتے ہی این ڈی پی نے جو موقف اختیار کیا، وہ توقعات اور واقعات کے یکسر خلاف تھا۔
این ڈی پی کو اپنا موقف اس طرح تبدیل کرنا تھا، تو ہماری اور ان کی پرانی رفاقت کا تقاضا تھا کہ وہ ہمیں اعتماد میں لیتے اور جو نئی صورتِ حال (ان کے مطابق) پیدا ہو گئی تھی، اس پر ہم سے تبادلۂ خیال کرتے، لیکن انہوں نے تو یہ کیا کہ اپنے کنونشن میں دھواں دار تقریریں کر کے علیحدگی کا اعلان کر دیا اور ہمیں دُشنام طرازی کا نشانہ بھی بنایا۔ اس پورے پس منظر کو سامنے رکھیے تو آپ کا سوال بے معنی ہو جاتا ہے۔
س: آپ کے خیال میں این ڈی پی کے اِس فیصلے کا محرّک کیا تھا؟
ج: یہ فیصلہ کیوں کیا گیا، اس بارے میں میں ابھی کچھ نہیں کہنا چاہتا، حالات خودبخود واضح ہوتے جائیں گے۔ میں صرف یہ کہتا ہوں کہ یہ فیصلہ پشتونوں اور بلوچوں کی روایات کے خلاف ہے۔ کوئی پشتون یا بلوچ اس طرح اپنا عہد نہیں توڑ سکتا۔ اسی لیے میں نے این ڈی پی سے اپیل کی تھی کہ وہ اپنے فیصلے پر نظرثانی کرے، لیکن انہوں نے اس کا کوئی مثبت جواب نہیں دیا۔ مجھے امید ہے کہ این ڈی پی کو سرحد اور بلوچستان میں تند و تیز رائے عامہ کا سامنا کرنا پڑے گا۔
س: آپ نے جناب ولی خاں کی وطن واپسی کے بعد ان سے رابطہ قائم نہیں کیا، کیا آپ کے نزدیک وہ بھی اس فیصلے میں شریک ہیں؟
ج: ولی خاں کی وہ تقریریں ابھی تک فضا میں گونج رہی ہیں جن میں انہوں نے کہا تھا کہ پاکستان اور پاکستان قومی اتحاد لازم و ملزوم ہیں۔ اس سے پہلے جمعیت سے نیپ کا معاہدہ ہوا، تو ولی خاں ہی نے بار بار کہا تھا کہ ہم پٹھان ہیں، جب ساتھ نبھانے کا عہد کرتے ہیں تو پھر اسے توڑتے نہیں، ہم جب کسی کا ہاتھ پکڑتے ہیں تو اسے چھوڑتے نہیں؛ حتیٰ کہ مر جائیں تو بھی ہمارا ہاتھ دوست کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ لیکن اب وہ زندہ ہیں لیکن ان کا ہاتھ ہمارے ہاتھ سے الگ ہے۔ ولی خاں کی بیگم صاحبہ این ڈی پی کے کنونشن میں شریک ہونے لندن سے تشریف لائی تھیں۔ یہ تو ہو نہیں سکتا کہ وہ اپنے رفیقِ زندگی اور رفیقِ سیاست سے مشورہ کر کے نہ آئی ہوں، اس لیے ولی خاں کو این ڈی پی کے فیصلے سے الگ تھلگ نہیں سمجھا جا سکتا۔ انہوں نے وطن واپس آنے کے بعد اس فیصلے کو قبول کرنے کا اعلان بھی کر دیا ہے۔ اس طرح گویا قومی اتحاد سے بھی ان کا رشتہ ٹوٹا اور جمعیت سے سات برس پرانا معاہدہ بھی ختم ہوا۔
ہم نے کوئی عہد نہیں توڑا، ہم نے کوئی وعدہ خلافی نہیں کی، ہم تو پشتونوں اور بلوچوں کی ایفائے عہد کی روایات کے پاسبان ہیں۔ اس لیے ہم کسی سے رابطہ قائم کیا کریں؟ رابطہ تو ان کو کرنا چاہیے تھا جو اس صورتِ حال کے ذمہ دار ہیں، جنہوں نے پشتون اور بلوچ ہوتے ہوئے اپنا عہد کچے دھاگے کی طرح توڑ ڈالا ہے؛ تاہم یہ نوٹ کر لیجیے کہ ہمارے لیے کوئی معاملہ بھی انا کا نہیں ہے، اولین اہمیت قومی مفاد کی ہے۔ میں حالات کا بغور جائزہ لے رہا ہوں، میرا ارادہ ہے کہ کم از کم ایک بار تو ولی خاں سے بات کروں، اور تفصیل کے ساتھ کروں اور ان سے کہوں این ڈی پی کے فیصلے پر نظرثانی کرائیں، ’’شاید کہ اتر جائے ترے دل میں مرے بات‘‘۔
س: اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ این ڈی پی سے تعلق استوار ہونے پر آپ کو اب بھی کوئی اعتراض نہیں؟
ج: جی ہاں، کوئی اعتراض نہیں، ہمارے دروازے کھلے ہیں، اگر این ڈی پی اپنی غلطی کا احساس کر لے، اعتراف کر لے، تو تعلق استوار ہو سکتا ہے۔ ہم سیاست میں محاذ آرائی کے قائل نہیں ہیں۔ آپ این ڈی پی کی بات کرتے ہیں، میں تو ان سب جماعتوں کو، جو اتحاد سے الگ ہوئی ہیں، دعوت دیتا ہوں کہ وہ اپنے فیصلے پر نظرثانی کریں۔ ہمارے دل میں سب کے لیے جگہ ہے۔ انہوں نے اور ہم نے مشترکہ منشور کے تحت گزشتہ انتخاب میں حصہ لیا تھا، اب اس منشور سے منحرف ہونا کسی کے لیے بھی انتہائی بداخلاقی کی بات ہو گی۔ جب منشور مشترک ہے تو پھر اختلاف کیسا؟ جب مقاصد ایک ہیں تو پھر دوری کیوں؟ ہم نے کسی کو اتحاد سے نہیں نکالا، ہم کسی کو آنے سے نہیں روکیں گے۔ آئیے، مل کر اپنے وطن کے مسائل حل کریں اور مصائب کے بھنور سے کشتی نکال کر آگے بڑھیں۔
یہ وقت ذاتی اور گروہی اختلافات کو نمایاں کرنے اور انہیں اچھالنے کا نہیں، ایک ہو جانے کا ہے، متحد ہو جانے کا ہے۔ کیا مشرقی پاکستان کے سانحے سے ہماری آنکھیں نہیں کھلیں؟ وہاں کس طرح خون بہا، کس طرح عزتیں داغدار ہوئیں اور کس طرح غیر ملکی مداخلت نے ہمارا پیارا پاکستان توڑ دیا۔ میں وارننگ دیتا ہوں، اور اعلان بھی کرتا ہوں کہ پاکستان کے اس حصے کو محفوظ رکھنا ہماری سب سے بڑی ذمہ داری ہے۔ سازشیں ہو رہی ہیں، اردگرد کے حالات تشویشناک ہیں، لیکن ہمارا عزم پختہ ہے، ہم پاکستان کو کوئی نقصان نہیں پہنچنے دیں گے۔ اگر کوئی جارحیت کا مرتکب ہوا تو آپ دیکھیں گے کہ پاکستان کی سالمیت کی لڑائی دشمن کی سرزمین پر لڑی جائے گی۔ ہماری نظریں دشمن پر لگی ہوئی ہیں، ہم اس کی نقل و حرکت دیکھ رہے ہیں، لیکن ہمارے حوصلے بلند ہیں۔ میں بھی پٹھان ہوں، مجھ سے بڑھ کر پشتونوں کے حقوق کی بات اور کون کر سکتا ہے؟ ایک مسلمان، ایک پاکستانی اور ایک پشتون ہونے کی حیثیت سے میں یہ کہہ دینا چاہتا ہوں کہ پاکستان کے پشتون اور بلوچ، پاکستان کی لڑائی میں سب سے پیش پیش ہیں۔ خدانخواستہ کوئی مشکل مرحلہ آیا تو ان کا خون پاکستان کے لیے سب سے پہلے بہے گا، اس لیے ہمارے روٹھے ہوئے ساتھیو! آؤ کہ ہم اپنا سب کچھ اس پاک سرزمین کی حفاظت کے لیے لگا دیں، اور یہاں ایک مثالی اسلامی معاشرے کی مضبوط بنیاد رکھ دیں۔
س: محترم، بات کسی اور سمت بڑھ گئی، میں آپ سے یہ پوچھنا چاہتا تھا کہ آخر وہ اچانک تبدیلی کیا ہوئی، کون سا واقعہ پیش آ گیا جس سے جناب جنرل ضیاء الحق سے مذاکرات ٹوٹنے کے باوجود جڑے اور پھر کامیاب ہو گئے؟
ج: کوئی خفیہ بات تو میں نہیں جانتا، اور شاید کوئی خفیہ بات موجود بھی نہ ہو۔ تاہم یہ سوال آپ جنرل ضیاء الحق سے کریں تو بہتر ہو گا۔ مجھے تو اتنا معلوم ہے کہ ہمارے مطالبات تسلیم ہوئے، کابینہ کو با اختیار اور بامقصد بنانے پر اتفاق ہوا، الیکشن کے لیے ۷۹ء کا سال مقرر ہوا، سیاسی عناصر کی اکثریت کو تسلیم کر لیا گیا، تو ہم حکومت میں شامل ہو گئے۔
س: کابینہ میں کوئی جرنیل شامل نہیں کیا گیا، اس کا سبب قومی اتحاد کا کوئی رویہ تو نہیں؟
ج: ۲۲ جون کو قومی اتحاد کے رہنماؤں نے جنرل ضیاء الحق کے سامنے یہ تجویز رکھی تھی کہ کابینہ میں کوئی جرنیل شامل نہ کیا جائے، اور یہ کہ صوبوں سے مارشل لا اٹھا لیا جائے۔ یہ کوئی پیشگی شرائط نہیں تھیں، نہ وزارت سازی میں اتحاد کی شرکت ان سے مشروط تھی، یہ صرف تجاویز تھیں اور ہم سمجھتے تھے کہ ان پر عمل کرنا ملک کے بہترین مفاد میں ہے۔ صوبوں سے مارشل لا اٹھا لیا جاتا تو جمہوری عمل کا آغاز زیادہ واضح اور ٹھوس ہو جاتا، لیکن میں اس پر زیادہ گفتگو نہیں کروں گے کہ اس بارے میں دو رائیں ہو سکتی ہیں۔
جہاں تک کسی جرنیل کو وزیر نہ بنانے کا سوال ہے، تو یہ سراسر قومی سوچ کی وجہ سے تھا۔ ہم نہیں چاہتے تھے کہ فوج سیاست میں ملوث رہے اور تنقید کا نشانہ بنے۔ ہم اس باوقار اور قابلِ احترام قومی ادارے کی حیثیت، قومی ادارے کے طور پر برقرار رکھنے کے لیے ہر ممکن احتیاط پر زور دے رہے تھے۔ ہمارا خیال تھا کابینہ سیاسی اور شہری عناصر پر مشتمل ہو گی تو حریفوں کا سامنا بھی وہی کریں گے اور حالات کی ذمہ داری بھی انہی پر عائد ہو گی۔ سیاستدان ایک انتہائی مشکل صورتحال کا بوجھ اٹھانے کے لیے اس طرح تیار تھے کہ جو بھی نتیجہ نکلے، اس کی زد انہی پر پڑے، فوج کے قومی ادارے کو ہدف نہ بنایا جا سکے۔
جنرل ضیاء الحق نے ان تجاویز پر غور کرنے کا وعدہ کیا لیکن پھر یکطرفہ طور پر کابینہ بنا لی۔ بعد میں مذاکرات دوبارہ شروع ہوئے تو ہم نے اس تجویز پر اصرار نہ کیا اور چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کے علاوہ تین جرنیلوں کی کابینہ میں شمولیت کو قبول کر لیا۔ لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہماری تجویز اور اس کی پشت پر کارفرما دلیل کا وزن ہمارے ان جرنیلوں نے خود ہی محسوس کر لیا اور رضاکارانہ طور پر وزارتوں سے علیحدگی اختیار کر لی۔ اس فیصلے پر میں ان حضرات کو مبارکباد پیش کرتا ہوں، یقیناً ان کا فیصلہ ملک کے عظیم تر مفاد میں ہے۔
س: خود نامزد کردہ اپوزیشن لیڈر جناب ایئر مارشل اصغر خاں نے بھی اس بات پر اظہارِ مسرت کیا ہے کہ سیاستدانوں کی حکومت بننے سے فوج کا ادارہ زیر بحث نہیں آئے گا۔ کیا آپ اس کی داد نہیں دیں گے؟
ج: جناب ایئر مارشل کا یہ اظہارِ خیال کیا اس بات کا ثبوت نہیں کہ قومی اتحاد نے حکومت میں شرکت کر کے بڑی قربانی دی ہے۔ اور یہ کرسیوں سے محبت کا نہیں، اپنے وطن سے محبت کا نتیجہ ہے۔ اگر اتحاد بھی بعض دوسرے سیاسی لیڈروں کی طرح حکومت میں شرکت سے انکار کر کے اپوزیشن میں جا بیٹھتا، تو کیا یہ فوج کی اپوزیشن نہ ہوتی، اور اس طرح اس قومی ادارے کو نقصان نہ پہنچتا؟ ہم نے فوج کے بجائے خود منظر پر آ کر سیاست کو ایک مثبت سمت دی ہے، اپنی سیاست کو داؤں پر لگا دیا ہے۔ ہم اقتدار کے بھوکے ہوتے تو بھٹو سے معاملہ کر لیتے، اس کی پیشکشیں قبول کر لیتے۔ لیکن ہم نے وزارتوں کو کبھی اہمیت نہیں دی، سرحد کی وزارتِ اعلیٰ سے میرا استعفیٰ ان لوگوں کو یاد کیوں نہیں رہتا؟
س: مفتی صاحب! کہتے ہیں کہ قومی اتحاد نے حکومت میں شامل ہو کر مستقبل کے واقعات کو بھی متاثر کیا ہے اور حال کو بھی؟
ج: اتحاد نے یقیناً حال اور مستقبل کے واقعات کی رفتار کو متاثر کیا ہے۔ غور تو کیجیے:
- فوج جیسا قومی ادارہ سیاست میں فریق بننے سے محفوظ ہو گیا۔
- انتخاب کا انعقاد یقینی ہوا کہ اب کوئی عنصر انتخاب کی منزل اوجھل کرنے کی سازش نہ کر سکے گا۔
- محدود سیاسی سرگرمیوں کی اجازت ملی اور غیر محدود سرگرمیوں کی بحالی کا واضح امکان پیدا ہوا۔
- عوام سے حکومت کا رابطہ بحال ہوا اور یوں بد اعتمادی کی فضا یکسر ختم ہونے کا سامان فراہم ہوا۔
- نوکر شاہی کے منفی رویوں کی روک تھام کا راستہ نکلا۔
- سیاستدانوں کا احتساب چیونٹی کی رفتار سے نہیں بلکہ تیز سے تر ہونے کی روشن جھلک نظر آئی۔
- سب سے بڑھ کر یہ کہ اسلامی اقدار کے فروغ کے امکانات روشن تر ہوئے۔ جو اسلام دشمن عناصر حیلوں بہانوں سے کوئی عملی اقدام نہیں ہونے دیتے تھے، ان کی حوصلہ شکنی ہوئی، اور اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کو مزید غور و فکر کے بعد نافذ کرنے کا سامان ہوا۔
س: لیکن جناب، اگر نئی کابینہ حالات کو سنوار نہ سکی تو پھر؟
ج: اس کے خطرات بھی سامنے ہیں، صورتحال بدتر بھی ہو سکتی ہے اور دھماکہ خیز بھی۔ لیکن خطروں کی سنگینی حوصلوں کو شکست تو نہیں دے سکتی، اس سے تو حوصلوں کی پختگی کا سامان ہوتا ہے۔
س: نئی کابینہ سے آپ کی توقعات کیا ہیں؟
ج: میری توقعات تو یہی ہیں کہ نئی کابینہ عوام کے مسائل حل کرنے کے لیے فوری اقدامات کرے۔
- گرانی کے معاملے کو پہلی ترجیح دی جائے اور اشیا کی قیمتیں کم کرنے کے لیے ہر ممکن ذریعہ استعمال کیا جائے۔
- اسلامی نظام کی طرف اس طرح پیش قدمی ہو کہ اس کی برکتیں پہلے برستی نظر آئیں۔
- بیوروکریسی کا شدید احتساب کیا جائے۔ جن لوگوں نے بھٹو کے اشاروں پر ذاتی ملازموں کا کردار کیا، دستور اور قانون کی دھجیاں اڑائیں، انہیں کسی صورت معاف نہ کیا جائے۔ بیوروکریسی کے خلاف جلد کاروائی نہ کی گئی تو یہ موجودہ کابینہ کے خلاف کاروائی کر گزرے گی۔ وہ قرطاس ابیض چھاپے جا چکے ہیں لیکن لا قانونیت کے ذمہ دار افسروں کے خلاف کچھ نہیں کیا گیا، یہ تماشا اب برداشت نہیں کیا جا سکتا۔
- سادگی اختیار کی جائے، وزیر اپنا نمونہ پیش کریں، اپنے گھروں کی تزئین و آرائش پر ہزاروں روپے خرچ نہ کریں۔ ڈرائنگ روم میں قیمتی صوفوں کے بجائے چٹائی کیوں نہیں بچھائی جا سکتی؟ اور بیڈ روم میں نفیس پلنگوں کے بجائے عام چارپائی کیوں نہیں کام دے سکتی؟
- میں تو یہاں تک کہوں گا کہ شہری علاقوں میں بڑے مکانوں کی تعمیر پر پابندی لگائی جائے۔ حکومت نے ایک ہزار گز سے بڑے مکانات بنانے کی اجازت نہ دینے کا اعلان کیا ہے، لیکن یہ حد بھی بے حد ہے۔ تین سو گز سے زیادہ مکان کسی صورت نہ بننے دیا جائے۔
- تعلیم اور ٹرانسپورٹ کا مسئلہ حل کرنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر کام کا آغاز ہو۔ اس مقصد کے لیے نجی شعبے کی حوصلہ افزائی کی جائے، اس کے لیے ٹیکس وغیرہ کی چھوٹ بھی دی جا سکتی ہے۔
- ہمارے اکثر ملکی قوانین ایسے ہیں جو رشوت کا دروازہ کھولتے اور لوگوں کے مصائب میں اضافہ کرتے ہیں، ان کا جائزہ لے کر ہر ہر قانون میں چور دروازے بند کر دیے جائیں۔
- رشوت، بدعنوانی اور ملاوٹ پر کڑی سزائیں دی جائیں اور ان کا قلع قمع کر دیا جائے۔
- ہر سطح پر اردو نافذ کی جائے، جیسے کہ میری وزارت کے دوران سرحد میں اردو کو سرکاری زبان بنا دیا گیا۔
- شلوار اور قمیص کی حوصلہ افزائی ہو، سرکاری ملازم دفتر میں قومی لباس پہن کر آئیں، اس طرح غیر ملکی لباس جو نفسیاتی رعب داب عطا کرتا ہے، اس سے نجات مل سکے گی۔
- ایسے ضوابط بنائے جائیں کہ جھوٹ چھاپا یا لکھا نہ جا سکے۔ جھوٹ ایک زہر ہے جو معاشرے کی اچھائیوں کو ڈس لیتا ہے۔ بے حیائی اور فحاشی کی روک تھام بھی ہو۔ ریڈیو، ٹیلی ویژن اور فلموں کی فوری اصلاح ضروری ہے۔ عورتوں کو اشتہار کی جنس بنا کر ان کا جو ’’استحصال‘‘ کیا جا رہا ہے اسے بند کیا جائے۔ صنفِ نازک کی اس سے بڑی توہین اور کیا ہو سکتی ہے؟ یہ توہین کوئی باحمیت معاشرہ برداشت نہیں کر سکتا۔
س: میں نے سنا ہے قومی اتحاد اپنے وزراء سے علیحدہ حلف کا پروگرام بھی بنا رہا ہے، کیا یہ درست ہے؟
ج: جی ہاں، یہ درست ہے، ہم اپنے وزراء سے علیحدہ حلف بھی لیں گے۔ جمعیت العلمائے اسلام کے وزیر تو حلف برداری کی یہ رسم ادا بھی کر چکے ہیں۔ میں آپ کو حلف نامے کا متن سناتا ہوں۔ (اس کے بعد مفتی صاحب نے اپنا بریف کیس منگوا کر اس میں سے حلف نامہ نکالا اور پڑھنا شروع کیا۔)
’’میں، اللہ تعالیٰ کو حاضر ناظر جان کر حلفیہ بیان دیتا ہوں کہ وزارت میں شامل ہو کر مندرجہ ذیل مقاصد کے لیے کام کروں گا:
۱۔ اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے اپنی آخری کوشش تک بروئے کار لاؤں گا۔
۲۔ خلافِ قانون و اخلاق کوئی ایسا کام نہیں کروں گا جس سے میری ذات، جماعت یا معاشرہ بدنام ہو۔
۳۔ ذاتی مفادات کے حصول سے ہمیشہ الگ تھلگ رہوں گا۔ متعارف اور معمول کے مطابق جائز کاموں کے علاوہ سرکاری ذرائع سے اور کسی قسم کا استفادہ نہیں کروں گا۔
۴۔ صرف خدمتِ ملک و قوم کے جذبے سے سرشار ہو کر کام کروں گا۔ جائز کام سب کا سرانجام دینے کی کوشش کروں گا، مگر ناجائز کام کسی کا نہیں کروں گا۔
۵۔ قومی اتحاد یا میری جماعت جس وقت استعفیٰ پیش کرنے کا حکم دے گی، وزارت سے استعفیٰ دے دوں گا۔‘‘
س: اعلان ہے آئندہ انتخاب جداگانہ بنیادوں پر ہو گا، کیا آپ اس سے متفق ہیں؟
ج: میں جداگانہ یا مخلوط انتخاب کی بحث میں نہیں پڑنا چاہتا ، میں تو اتنا جانتا ہوں کہ اقلیتوں کے نمائندے منتخب کرنے کا موجودہ طریق کار انتہائی ناقص ہے۔ اسمبلیوں کے ارکان اقلیتوں کے نمائندے چنتے ہیں اور یہ حضرات نام کے تو اقلیتی ہوتے ہیں لیکن اقلیتوں کے نمائندے نہیں ہوتے، بلکہ اسمبلی کی اکثریت کے خوشامدی اور درباری ہوتے ہیں۔ ہمارا مطالبہ تھا کہ اقلیتوں کو اپنے نمائندے آپ چننے کا اختیار دیا جائے، وہ مطالبہ تسلیم کیا گیا ہے، تو یہ انصاف کے اصولوں کے عین مطابق ہے۔ قومی اتحاد نے جس منشور کی بنیاد پر مارچ ۱۹۷۷ء کے انتخاب میں حصہ لیا تھا، اس میں واضح طور پر درج تھا کہ اقلیتیں اپنے نمائندے آپ چنیں گی، کوئی ایسی جماعت جو اتحاد میں شامل تھی، اس عہد سے روگردانی کرتی ہے، تو یہ بدترین عہد شکنی ہے۔
س: جناب، آپ نے بلوچستان میں حکومت کی برطرفی کے بعد سرحد کی وزارتِ اعلیٰ سے استعفیٰ دیا، بلوچستان کے بعض مقید رہنماؤں کی رہائی کے لیے مہم چلائی، حیدر آباد ٹربیونل آپ کے مطالبے پر ٹوٹا، اسیر رہا ہوئے، کیا رہائی کے بعد کالعدم نیپ کے بلوچ لیڈروں نے آپ سے اپنے سیاسی مستقبل یا ملک کے سیاسی حالات پر بھی تبادلۂ خیال کیا؟
ج: ملاقات تو ہوئی ہے لیکن اس طرح کی بات نہیں ہوئی جو آپ کہہ رہے ہیں۔
س: اگر کوئی اسے ان لیڈر حضرات کی ناشکرگزاری قرار دے تو نامناسب تو نہیں ہو گا؟
ج: نہیں ایسی کوئی بات نہیں، ہم نے اپنا فرض ادا کیا، کسی پر احسان نہیں کیا۔ ہم اصولی سیاست کے قائل ہیں، اور ہم نے جو کچھ بھی کیا اپنے اصولوں کے حوالے سے کیا، حقِ رفاقت ادا کرنے کے لیے کیا۔ دوسرے لوگ جو کچھ کرتے ہیں، اپنی سوچ اور اپنے اصولوں کے حوالے سے کرتے ہیں، اس لیے ہمیں کسی سے گلہ نہیں، ہمیں تو خوشی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنے دوستوں کے لیے جدوجہد کرنے کی توفیق عطا فرمائی اور اس کی بدولت ان کو مصائب سے نجات ملی۔
س: جناب، یہ جو بلوچستان کے سیاسی مسئلے کو آج حل کرنے کی بات کی جاتی ہے، وہ کیا ہے، کیا اب بھی بلوچستان کا ایسا مسئلہ موجود ہے؟
ج: بلوچستان کا سیاسی مسئلہ نام کی کوئی شے آج اپنا وجود نہیں رکھتی، ایسا کہنا حقائق کے مطابق نہیں ہو گا۔ بلوچستان کو جن مصائب میں بھٹو نے دھکیلا تھا، وہ مصائب ختم ہو چکے۔ اب تو لے دے کر یہی ایک مسئلہ ہے کہ بھٹو کی کارروائیوں کے متاثرین کی آبادکاری کیسے ہو۔ اور یہ کوئی ایسا معاملہ نہیں جس پر محاذ آرائی کے پہلو نکلیں۔ حکومت کو بیوروکریسی کی سازشوں سے ہوشیار رہتے ہوئے اس مسئلے کو فراخدلی سے حل کر دینا چاہیئے۔
س: آج کل صوبائی خودمختاری کا سوال پھر زیر بحث لانے کی کوشش کی جا رہی ہے، کیا آپ کے خیال میں اس مسئلے پر ازسرِنو گفتگو ہونی چاہیے؟
ج: صوبائی خودمختاری کا مسئلہ طے شدہ ہے۔ ۷۳ء کے دستور پر ساری جماعتوں نے دستخط کیے تھے۔ اس دستور میں کئی خامیاں ہیں جن کو دور کرنے کی ضرورت تھی، لیکن صوبائی خودمختاری کے معاملے پر کسی نے اختلاف کا اظہار نہیں کیا۔ تمام جماعتوں کے نزدیک صوبائی خودمختاری کی حدود متفقہ تھیں۔ بھٹو کے عہد میں جو خرابی پیدا ہوئی، وہ یہ تھی کہ دستور پر عمل ہی نہیں کیا گیا۔ صوبوں کو دستور نے جو حقوق دیے تھے، وہ بھی بھٹو نے سلب کر لیے۔ اس لیے اصل مسئلہ یہ نہیں کہ صوبائی خودمختاری کی حدود بڑھا دی جائیں، بلکہ یہ ہے کہ صوبوں کو اپنے اختیارات استعمال کرنے کا موقع ملے۔
س: صوبوں میں وزارتوں کی تشکیل کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے؟ اس سے کسی صوبے میں تلخی پیدا ہونے کا امکان تو نہیں؟
ج: صوبوں میں حکومتیں فوراً قائم ہو جانی چاہئیں۔ اگر دیر ہوئی تو نتائج ناخوشگوار ہوں گے اور مرکزی حکومت کی کارکردگی بھی متاثر ہو گی۔ عوام کا براہ راست اور فوری رابطہ صوبائی حکومت ہی سے ہوتا ہے اور صوبائی حکومت ہی مسائل اور مصائب کے فوری خاتمے میں معاون ہو سکتی ہے۔ بیوروکریسی کی روک تھام بھی اسی سے ممکن ہے۔ اس لیے جلد از جلد صوبوں میں حکومتیں قائم کر دی جائیں۔ جہاں تک کسی صوبے میں تلخی پیدا ہونے کا سوال ہے، میرے نزدیک اس میں کوئی حقیقت نہیں۔ قومی اتحاد ایک ملک گیر تنظیم ہے اور ہم ہر صوبے میں اور ہر سطح پر ایسے نمائندے منتخب کر سکتے ہیں جو مخلص اور دیانتدار ہوں اور عوام کے اعتماد سے بھی بہرہ ور ہوں۔
س: جناب، یہ جو پشتونوں اور بلوچوں کے حقوق کی بات کی جاتی ہے، تو اس کا پس منظر کیا ہے، آخر پشتونوں اور بلوچوں کے حقیقی مسائل کیا ہیں؟
ج: پشتونوں اور بلوچوں کے جو بھی مسائل ہیں، وہ پوری قوم کے مسائل ہیں، اور انہیں قومی نقطۂ نظر ہی سے حل کیا جا سکتا ہے۔ اصل مسئلہ تو پسماندگی اور غربت ہے۔ اگرچہ پاکستان کے دوسرے صوبوں میں بھی غربت بہت ہے، لیکن اگر موازنہ کریں تو پسماندگی سرحد اور بلوچستان میں کہیں زیادہ ہے، صنعتی ترقی بھی وہاں کچھ نہیں ہوئی۔ اس لیے ضرورت ہے کہ ان دو صوبوں کو آئندہ ترقیاتی پروگرام میں ترجیح دی جائے۔ سرحد کے معاملے میں دیکھیے کہ
- تربیلا بند کی تعمیر میں ہمارے اَسی گاؤں غرق ہوئے لیکن ہمیں تربیلا سے ایک بوند پانی بھی نہیں دیا گیا۔
- دریائے سندھ پانچ سو میل تک فرنٹیر سے گزرتا ہے اور یہ مسلّمہ اصول ہے کہ دریا جہاں سے پہلے گزرے وہاں کے رہنے والوں کا اس پر پہلا حق ہے، لیکن ہمارے حصے میں اس دریا سے کیا آتا ہے، کوئی جواب تو دے؟
- چشمہ رائٹ بنک کینال کی طرف آئیے، میں نے وزارت کے دوران اس منصوبے پر بڑی توجہ دی تھی، لیکن یہ نہر کہاں ہے؟ اس کا جواب اربابِ اختیار کے ذمے ہے۔
- ڈیرہ اسماعیل خاں کا ضلع بہت وسیع و عریض ہے، یہاں ۱۷ لاکھ ایکڑ زمین غیر آباد پڑی ہے، اگر صرف ڈیرہ ہی سیراب ہو جائے تو صوبہ سرحد خوراک میں خودکفیل ہو سکتا ہے، لیکن پانی ہی نہیں ہے۔
یہ اور اس طرح کے کئی حقیقی مسائل موجود ہیں، انہیں قومی سطح پر اولیت دی جائے تو پھر چھوٹے صوبوں کی شکایات دور ہو سکتی ہیں۔
س: میں آپ کا شکرگزار ہوں کہ آپ نے بیماری کے عالم میں بھی شفقت فرمائی اور یہ طویل انٹرویو ممکن ہو سکا۔ اب آخری سوال عرض کر رہا ہوں اور وہ ہے قومی اتحاد کے بارے میں۔ جناب، اس کا مستقبل؟
ج: قومی اتحاد، پارٹیوں یا گروہوں کا نہیں، قوم کا اتحاد ہے۔ کسی پارٹی یا گروہ نے اسے چھوڑ دیا ہے تو اس نے خسارے کا سودا کیا ہے۔ میں مانتا ہوں بعض لوگوں میں مایوسی پیدا ہوئی، بہت سے ذہن اور دل بجھے، لیکن اس میں ہمارا کوئی قصور نہیں، ہم نے تو اتحاد کا جذبہ برقرار رکھنے کی کوشش کی، اور آج بھی اس سے وابستہ ہیں، اور ان شاء اللہ وابستہ رہیں گے۔ قوم آج بھی ہمارے ساتھ ہے، قوم کی توقعات ہم سے وابستہ ہیں، اتحاد آج بھی سب سے سے مؤثر سیاسی قوت ہے، اور اس کا مظاہرہ انتخاب کے دوران ہو جائے گا، یومِ انتخاب آنے تو دیں!
(مطبوعہ: ہفت روزہ ترجمان اسلام لاہور ، ۱۵ ستمبر ۱۹۷۸ء ۔ بشکریہ: ماہنامہ قومی ڈائجسٹ)