سراج الہند حضرت مولانا شاہ عبد العزیز محدث دہلویؒ
نام و نسب
آپ کا نام عبد العزیز ہے اور تاریخی نام غلام حلیم تھا۔ سلسلہ نسب یوں ہے۔ عبد العزیز بن احمد (المعروف شاہ ولی اللہ ؒ) بن عبد الرحیم بن وجیہہ الدین شہید بن معظم بن منصور دہلوی …… الخ۔ آپ کا سلسلہ نسب والد کی طرف سے اکتیس واسطوں سے امیرالمؤمنین خلیفہ ثانی حضرت عمر فاروقؓ تک پہنچتا ہے اور والدہ کی طرف سے آپ کا سلسلہ نسب امام موسیٰ کاظمؒ تک پہنچتا ہے۔ (الامداد فی ماثر الاجداد)
ولادت
شاہ صاحبؒ کی ولادت باسعادت ۲۲ رمضان ۱۱۵۹ھ بمطابق ۱۷۴۶ء کو دہلی میں ہوئی۔
ابتدائی تعلیم
شاہ صاحبؒ نے سب سے پہلے قرآن کریم حفظ کیا پھر اکثر درسی کتابیں اپنے والد گرامی امام شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ سے پڑھیں۔ جب آپ کی عمر سولہ سال کی ہوئی تو آپ کے والد کا محرم ۱۱۷۶ ھ بمطابق ۱۷۶۲ء کو انتقال ہو گیا۔ والد کی وفات کے بعد جو کتابیں پڑھنے والی رہ گئی تھیں وہ مولانا نور اللہ بڈھانویؒ، شیخ محمد امین کشمیریؒ اور شیخ محمد عاشق پھلتیؒ کے حلقہ ہائے درس میں شامل ہو کر مکمل کیں اور سترہ سال کی عمر میں تحصیل علم سے فراغت حاصل کر کے اپنے والد کی مسند درس کو رونق بخشی۔
آپ کو تفسیر، حدیث، فقہ، ادبیات عربی، صرف و نحو، منطق و فلسفہ وغیرہ علوم میں انتہائی دسترس تھی۔ خط بھی نہایت عمدہ تھا، تیراندازی اور گھڑ سواری میں بھی ماہر تھے، ذکاوت وفطانت میں یگانہ، فہم و فراست میں منفرد، حفظ و ذہانت میں بے مثل تھے، اس لیے مسند درس پر بیٹھتے ہی ان کی شہرت پورے ملک میں پھیل گئی اور دور دراز علاقوں سے علماء و طلباء استفادہ کے لیے حاضر خدمت ہونے لگے۔
اخلاق و عادات
شاہ صاحبؒ کو علماء سراج الہند، شیخ وقت، امام عصر، عالم کبیر اور حجۃ اللہ جیسے پر شکوہ القاب سے مقلب کرتے تھے۔ آپ امام شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کے سب سے بڑے فرزند ارجمند اور حضرت شاہ عبد الرحیمؒ کے پوتے ہیں۔ شاہ صاحبؒ نے عالم طفولیت سے ہی ایک اونچے ماحول میں تربیت پائی تھی، آپ کا خاندان بھی نہایت بلند مرتبت اور علمی تھا، یہی وجہ ہے کہ آپ عادات و اطوار، اخلاق و کردار اور مزاج کے لحاظ سے ایک ممتاز اور منفرد مقام رکھتے تھے۔ امراء کی محفلوں اور رؤساء کی مجلسوں سے انہیں شدید نفرت تھی، اس کے برعکس غرباء و مساکین، یتامیٰ و طلباء علم سے نہایت الفت و محبت کا برتاؤ کرتے تھے۔ مریضوں کی عیادت، بیواؤں کی امداد، مہمانوں کی تواضع اور مسافروں کی خاطرداری آپ کا محبوب ترین مشغلہ تھا، ہر شخص سے خوش اخلاقی اور عجز و انکساری سے پیش آتے تھے، آپ تقویٰ و للہیت کا پیکر حسین تھے۔
اولاد
شاہ صاحبؒ کی نرینہ اولاد نہیں تھی صرف تین بیٹیاں تھیں، ایک کی شادی حضرت شاہ رفیع الدینؒ کے صاحبزادے مولانا محمد عیسیٰؒ سے ہوئی، دوسری کی شادی شیخ محمد افضلؒ کے ساتھ ہوئی جن سے شاہ محمد اسحٰق دہلویؒ اور شاہ محمد یعقوبؒ پیدا ہوئے، تیسری لڑکی کا نکاح مولانا عبدالحی بڈھانویؒ سے ہوا جن سے مولانا عبد القیوم بھوپالیؒ پیدا ہوئے۔ (اتحاف النبلاء ص ۱۳۶)
شاہ صاحبؒ کی خصوصیات
شاہ صاحبؒ بہت سے اوصاف سے مالا مال تھے، وہ جہاں علوم عربی میں ممتاز تھے وہاں بہت سی دیگر زبانوں پر بھی عبور رکھتے تھے، عربی اور فارسی میں تو انہیں مہارت تامہ تھی ہی، اردو اور عبرانی میں بھی انہیں آگاہی حاصل تھی۔ شاہ صاحبؒ اردو زبان کی تعلیم کے لیے خواجہ میر درد کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے جس کی بدولت انہوں نے اس زبان پر بھی عبور حاصل کر لیا تھا۔ شاہ صاحبؒ کو یوں تو تمام علوم و فنون مروجہ پر مکمل دسترس حاصل تھی لیکن قرآن حکیم اور حدیث رسولؐ سے انھیں بالخصوص انتہائی شغف اور غایت درجہ کا تعلق تھا۔ انھوں نے اپنی زندگی کا زیادہ تر حصہ حدیث نبویؐ کی ترویج و اشاعت اور تبلیغ و تدریس میں صرف کیا۔
قوت حافظہ
شاہ صاحبؒ جن خوبیوں اور کمالات سے مالا مال تھے ان میں ایک بہت بڑی خوبی یہ بھی تھی کہ ان کی قوت حافظہ نہایت تیز تھی اور یادداشتوں کا ایک بہت بڑا ذخیرہ ان کے نہاں خانہ ذہن میں محفوظ تھا، ان کو بہت سی ایسی باتیں یاد تھیں جن کا تعلق ان کی عمر کے بالکل ابتدائی دور اور عہد طفلی سے تھا، اس کا ثبوت ان کے ملفوظات سے ملتا ہے۔ (ملفوظات ص ۶۸)
مقرر
شاہ صاحبؒ جہاں اقلیم علم میں اپنا ثانی نہ رکھتے تھے وہاں تقریر و خطابت اور انداز وعظ و نصیحت میں بھی ان کا کوئی حریف نہ تھا۔
طلبہ کے ساتھ شفقت
علوم کے متلاشی طلباء کے ساتھ ان کا برتاؤ ہمیشہ مشفقانہ رہا، ان کی ضروریات کی کفالت کرتے اور بہت ہی الفت و محبت سے پیش آتے، ان کے سوالات کا دلائل و براہین سے جواب دیتے جس سے ان کے تمام شکوک و شبہات دور ہو جاتے تھے، شاہ صاحبؒ میں عالمانہ غرور بالکل نہ تھا، نفرت و تکبر سے نفور تھے۔
مناظر
شاہ صاحبؒ کو اللہ تعالیٰ نے حاضر جوابی کا ملکہ عطا فرمایا تھا جس کی بناء پر انہوں نے ہندوستان میں عیسائی پادریوں سے کئی مناظرے اور مباحثے کیے اور عیسائی پادریوں کو منہ توڑ جوابات سے پسپا کر دیا۔
فرنگی کے خلاف فتویٰ
شاہ صاحبؒ کا زمانہ سیاسی اعتبار سے نہایت پر آشوب تھا، مغل حکومت دم توڑ رہی تھی اور انگریز پورے ملک پر قبضہ جما رہے تھے۔ ان حالات میں شاہ صاحبؒ نے ایک طرف تو درس و تدریس کے ذریعے شاہ اسمٰعیل شہیدؒ اور سید احمد شہیدؒ جیسے نامور مجاہد پیدا کیے جنہوں نے اپنی زندگیاں بر صغیر سے انگریزی اقتدار کو ختم کرنے اور اسلامی نظام حکومت قائم کرنے کے لیے وقف کر دیں۔ دوسری طرف تحریر کا سلسلہ شروع کیا جو نہایت مضبوط اور ہمیشہ رہنے والا ہے اس سے لوگ ہر دور میں مستفید ہوتے رہیں گے۔
ان کی تحریرات میں ایک نہایت شاندار فتویٰ بھی ہے جو انہوں نے انگریز کے خلاف جاری کیا جس میں عیسائی افسروں کے احکام کا ہندوستان میں بے دھڑک جاری ہونے کا ذکر ہے۔ شاہ صاحبؒ کے اس فتوے اور ان کی انگریز دشمنی کا یہ نتیجہ نکلا کہ مجاہدین کی ایک زبردست جماعت تیار ہو گئی جس نے انگریز کے خلاف باقاعدہ جہاد کیا۔ جہاد کے لیے جو لوگ عملاً میدان میں نکلے ان میں شاہ اسمٰعیل شہیدؒ اور سید احمد شہیدؒ اور ان کے رفقاء تھے، ان حضرات کی مساعی جمیلہ نے اس قدر وسعت اختیار کی کہ آزادی بر صغیر تک یہ سلسلہ جاری رہا۔
شاہ صاحبؒ نے انگریزی حکومت کی ملازمت کو گناہ کبیرہ اور حرام بلکہ کفر قرار دیا جس کی پاداش میں انہیں شدید اذیتوں اور مصیبتوں سے دوچار ہونا پڑا۔ شاہ صاحبؒ کو حق گوئی اور بے باکی کی وجہ سے ان کے بھائی شاہ رفیع الدینؒ اور تمام اہل و عیال سمیت نجف عالی خاں جو کہ متعصب شیعہ اور مغل حکومت میں منصب دار تھا اور دہلی پر اس کا تسلط تھا، اس نے دہلی سے نکل جانے کا حکم دیا اور تمام اہل و عیال کو شہر بدر کر دیا۔ شاہ صاحبؒ اس وقت بیمار تھے اور چلنے پھرنے کی ہمت نہ رکھتے تھے اس کے باوجود انہیں اور ان کے بھائی کو خاص طور پر یہ حکم جاری کیا کہ وہ پیدل اور ننگے پاؤں سفر کریں۔ سخت گرمی کے دن، چلچلاتی دھوپ، بیماری کا عالم، اس پر مزید یہ ظلم کہ دونوں بھائیوں کو پیدل اور برہنہ پا چلنے کا حکم دیا گیا۔ دہلی سے جون پور تک کی طویل مسافت انتہائی تکلیف اور صعوبت سے طے کی، راستے میں ایسی ایسی اذیتوں سے دوچار ہونا پڑا کہ شاہ عبد العزیزؒ کی بینائی بھی جاتی رہی اور کئی قسم کی بیماریاں بھی لاحق ہو گئیں۔
جلا وطنی کی مدت پوری کر کے دہلی واپس آئے تو شہر پر انگریزوں کا قبضہ ہو چکا تھا۔ عملاً ریزیڈنٹ (resident) کی حکومت تھی اور مغل بادشاہ اثر و اقتدار سے تقریباً محروم ہو چکا تھا، ملک کی اکثر ریاستیں انگریزی اقتدار کے سامنے جھک گئی تھیں اور ان کے حکمرانوں نے چاپلوسی کو شعار بنا لیا تھا اور اسی کو بقاء اور حفاظت کا اصل ذریعہ سمجھنے لگے تھے۔ شاہ صاحبؒ اس صورت حال سے انتہائی پریشان اور آزردہ خاطر ہوئے اور فتویٰ جاری کیا کہ ہندوستان دارالحرب ہو گیا ہے کیونکہ یہاں شعائر اسلام کی بے حرمتی کی جا رہی ہے اور عیسائی حکومت کے احکام جاری اور نافذ ہیں۔ اس فتوے کا لوگوں پر بڑا اثر پڑا آگے چل کر انگریزی حکومت کے خلاف مستقل جہاد کا سلسلہ شروع ہو گیا اور مجاہدین کی جماعت نے وہ نمایاں کارنامے انجام دیئے جو برصغیر کی تاریخ حریت کا ایک زریں باب بن گئے۔
تصانیف
شاہ صاحبؒ متعدد علمی اور تحقیقی کتابوں کے مصنف ہیں جن سے لوگ قیامت تک استفادہ کرتے رہیں گے۔
۱۔ تفسیر فتح العزیز
جو کہ تفسیر عزیزی کے نام سے مشہور ہے، فارسی میں ہے اور سواتین پاروں پر مشتمل ہے۔ سورۃ فاتحہ سے پارہ دوم کے ربع تک اور پارہ نمبر ۲۹ اور نمبر ۳۰ کی تفسیر۔ یہ تفسیر شاہ صاحبؒ کی آخری عمر کی تصنیف ہے جب کہ ان کی قوت بصارت باقی نہیں رہی تھی، اپنے ایک شاگرد کو بٹھا کر املاء کرواتے تھے، یہ اپنی نوعیت کی ایک منفرد تفسیر ہے۔ مولانا عبدالحی حسنی لکھویؒ لکھتے ہیں کہ یہ تفسیر کئی بڑی بڑی جلدوں پر مشتمل تھی لیکن ۱۸۵۷ء کے ہنگامے میں ضائع ہو گئی اور پہلی اور آخری صرف دو جلدیں باقی رہ گئیں۔ (نزہۃ الخواطر ص ۲۷۳ ج ۷)
نوٹ: شاہ صاحبؒ کے شاگرد مولوی امام الدین صاحب کے ہاتھ سے املائی تقریر تفسیر عزیزی کے تقریباً سوا پانچ پارے (سورۃ مومنون تا سورۃ یٰسین مکمل ) ہمیں کسی کتب خانہ سے ملے ہیں جو کہ ہمارے پاس محفوظ ہیں اور اسے شائع کرنے کا ارادہ بھی ہے۔
۲- عجالہ نافعہ
یہ کتاب بھی فارسی میں ہے اور اس میں علم اصول حدیث کے مختصر مگر جامع قوانین ہیں۔
۳۔ بستان المحدثین
یہ کتاب بھی فارسی میں ہے، اس میں محدثین کے حالات و کوائف کا احاطہ کیا گیا ہے، یہ اپنے موضوع پر بڑی سیر حاصل کتاب ہے، بارہویں صدی کے بعد اس موضوع سے متعلق جو کتابیں لکھی گئی ہیں یہ ان سب کا ماخذ ہے۔
۴۔ سر الشہادتین
یہ کتاب عربی میں ہے اور حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ کے حالات میں ہے، اس کا اردو ترجمہ شاہ صاحبؒ کے شاگرد مولانا خرم علی بلہوریؒ نے کیا اور ان کے دوسرے شاگرد مولوی سلامت اللہ کشفیؒ نے ’’تحریر الشہادتین‘‘ کے نام سے اس کی شرح لکھی ہے۔
۵۔ عزیز الاقتباس فی فضائل اخیار الناس
یہ کتاب بھی عربی میں ہے، اس میں حضرات خلفائے راشدینؓ کے حالات بڑے محققانہ انداز میں لکھے ہیں، یہ بھی اپنی نوعیت کی ایک بہترین تصنیف ہے۔
۶۔ شرح میزان المنطق
یہ عربی کے اندر ایک مختصر رسالہ ہے جو میزان المنطق کی شرح ہے۔
۷۔ شرح میزان العقائد
۸ - التقریر فی حل بحث المثناۃ بالتکریر (صدرا)
۹۔ سر الجلیل فی مسئلۃ التفضیل
۱۰۔ وسیلۃ النجات
۱۱۔ حواشی بدیع المیزان
یہ بھی عربی کے اندر ہے اور بدیع المیزان کی ایسی عمدہ شرح ہے کہ اس کے مطالعہ سے منطق کے مسائل کو بخوبی سمجھا جا سکتا ہے۔
۱۲۔ فتاویٰ عزیزی
یہ کتاب فارسی میں ہے اور دو جلدوں پر مشتمل ہے، مختلف عنوانات کے بہت سے فتووں کو نہایت عمدگی کے ساتھ اپنے دامن صفحات میں لیے ہوئے ہے۔
۱۳۔ تحفہ اثناء عشریہ
یہ کتاب بھی فارسی میں ہے اور شاہ صاحبؒ کی یہ بہت ہی اہم تصنیف ہے، شیعہ کے رد میں ہے اور بارہ ابواب پر مشتمل ہے، اپنے موضوع کے لحاظ سے یہ ایک معرکۃ الآراء کتاب ہے، یہ اس قدر جامع اور مبسوط کتاب ہے کہ اسے شیعہ اور اہل سنت کے مسائل و عقائد کا دائرۃ المعارف کہنا بے جا نہ ہوگا۔ یہ کتاب چونکہ بڑی جاندار اور معلومات افزا تھی اس لیے شیعہ حلقوں میں اس سے ایک تہلکہ بپا ہو گیا اور متعدد نامور شیعوں نے اس کا جواب دینے اور اس کا اثر زائل کرنے کی متعدد ناکام کوششیں کی ہیں۔
۱۴۔ میزان البلاغۃ
یہ بھی عربی کے اندر ایک مختصر مگر جامع رسالہ ہے، اس میں علم بلاغت کے اصولی قواعد بڑے احسن پیرایہ میں بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے، مبتدیوں کے لیے یہ گراں قدر خزانہ ہے جس پر حضرت مولانا مفتی عزیز الرحمنٰ صاحبؒ سابق مفتی دار العلوم دیوبند کا حاشیہ ہے۔ یہ رسالہ کافی مدت سے نایاب تھا اسے ادارہ نشر و اشاعت مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ نے شائع کرنے کی نعمت عظمیٰ حاصل کی ہے اور اپنے روایتی مشن کے مطابق قارئین کی خدمت میں پیش کیا ہے۔
شاہ صاحبؒ کا مسلک
شاہ صاحبؒ اپنے والد شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کے صحیح جانشین ہوئے، اپنے والد کے علوم کو جس انداز میں انہوں نے سمجھا اور آگے اس کی نشر و اشاعت کی، ان کے افکار کو اپنایا اور اسے رواج دینے کی کوشش کی، تقریباً ساٹھ سال تک درس حدیث دیا، یہ سب قابل ستائش و آفرین ہے۔ شاہ ولی اللہؒ تو مجتہد منتسب کے درجہ پر فائز تھے لیکن عملاً حنفی المسلک تھے مگر شاہ عبدالعزیز صاحبؒ راسخ العقیدہ حنفی مسلک پر کاربند تھے اور اسی کی تبلیغ کرتے تھے۔
شاگرد
شاہ صاحبؒ کے ہزاروں شاگردوں میں سے مندرجہ ذیل چند حضرات کے نام درج ہیں جن میں سے ہر بزرگ علم و فضل میں یکتا تھا اور ہر ایک نے تحقیق و کاوش کے مختلف میدانوں میں جو کارنامے انجام دیئے وہ تذکرہ کی کتابوں میں محفوظ ہیں، شاگردوں کے مقام و مرتبے کی رفعت سے استاد کی عظمت کا بخوبی پتہ چل سکتا ہے:
۱۔ شاہ صاحبؒ کے بھائی شاہ رفع الدینؒ المتوفیٰ ۱۲۳۳ھ
۲۔ شاہ صاحبؒ کے دوسرے بھائی شاہ عبد القادرؒ المتوفیٰ ۱۲۳۰ھ
۳۔ مولانا شاہ اسمٰعیل شہیدؒ المتوفیٰ ۱۲۴۶ھ
۴۔ شاہ محمد اسحٰقؒ المتوفیٰ ۱۲۶۲ھ
۵۔ شاہ محمد یعقوبؒ المتوفی ۱۲۸۲ھ
۶۔ سید احمد شہید بریلویؒ المتوفی ۱۲۴۶ھ
۷۔ مولانا فضل حق خیر آبادیؒ المتوفی ۱۲۷۸ھ (مولانا فضل حق، شاہ عبد القادرؒ کے شاگرد ہیں لیکن انہیں بالواسطہ شاہ عبد العزیزؒ کے شاگردوں میں شمار کیا جاتا ہے۔)
۸۔ مولانا عبدالحی بڈھانویؒ المتوفی ۱۸۲۸ء وغیرہ
یہ سب حضرات شاہ صاحبؒ سے فیض یاب ہوئے اور آگے چل کر علم و کمال، تقویٰ و تدین تحقیق و تدقیق، تدریس و تعلیم، تصنیف و تالیف، نشر و اشاعت دین، وعظ و تبلیغ اور جہاد فی سبیل اللہ میں بلند مراتب کو پہنچے۔
شاعر
شاہ صاحبؒ عربی کے شاعر اور ادیب بھی تھے، انہوں نے عربی میں بہت سی نظمیں بھی کہی ہیں۔ اپنے چچا شاہ اہل اللہ رحمۃ اللہ علیہ کے نام عربی نظم میں ایک خط لکھا جس میں اپنے زمانے کے سیاسی حالات اور مرہٹوں اور سکھوں کی جنگی چالوں اور ان پر ظلم و ستم کی داستان بیان کی ہے۔ شاہ صاحبؒ جامع الحیثیات شخص تھے، وہ بیک وقت جلیل القدر عالم، رفیع المرتبت مفسر، نامور محدث، وسیع النظر فقیہ، شعلہ بیان مقرر، عظیم مناظر، کہنہ مشق مصنف، منجھے ہوئے مدرس، صاحب طرز ادیب اور ممتاز شاعر تھے۔
وفات
با الآخر اس عظیم المرتبت ہستی کی روح بروز یک شنبہ (اتوار) بوقت صبح شوال ۱۲۳۹ھ بمطابق ۱۷ جولائی ۱۸۲۳ء قفس عنصری سے پرواز کر گئی اور ایک اندازے کے مطابق لوگوں کے ہجوم کے زیادہ ہونے کی وجہ سے ان کی نماز جنازہ پچپن مرتبہ ادا کی گئی۔ واللہ اعلم بالصواب۔
حضرت مولانا شاہ رفیع الدین محدث دہلویؒ
نام و نسب
آپ کا نام رفیع الدین ہے اور سلسلہ نسب یہ ہے: رفیع الدین بن احمد (المعروف شاہ ولی اللہؒ) بن عبدالرحیم بن وجیہہ الدین شہید بن معظم بن منصور دہلوی الخ۔ آپ کا سلسلہ نسب اکتیس واسطوں سے امیر المومنین خلیفہ ثانی حضرت عمرؓ بن الخطاب تک پہنچتا ہے جیسا کہ امام ولی اللہؒ المتوفیٰ ۱۱۷۶ھ فرماتے ہیں: ’’سلسلہ نسب ایں فقیر بامیر المومنین عمر بن الخطاب می رسد (الامداد فی ماثر الاجداد) اس فقیر کا سلسلہ نسب حضرت عمرؓ بن الخطاب تک پہنچتا ہے۔ اور شاہ صاحبؒ کا سلسلہ نسب والدہ ماجدہ کی طرف سے حضرت امام موسیٰ کاظم ؒتک پہنچتا ہے تو اس لحاظ سے آپ اصلاً عربی اور نسباً فاروقی ہیں۔
ایک شبہ اور اس کا ازالہ
عموماً خیال کیا جاتا ہے کہ شاہ ولی اللہؒ کا خاندان سید (سادات) ہیں حالانکہ یہ بات درست نہیں ہے کیونکہ اس خاندان کے افراد کے اسماء کے شروع میں جو شاہ لکھا جاتا ہے، یہ تو ہمارے برصغیر کی اصطلاح ہے کہ جو بھی صوفی اور سالک ہو اس کے نام کے شروع میں شاہ لکھتے ہیں، جیسے شاہ رفیع الدینؒ، شاہ ولی اللہ،، شاہ عبدالعزیزؒ، شاہ اشرف علی تھانویؒ وغیرہ۔ اور جو سید ہو اس کے نام کے آخر میں شاہ لکھتے ہیں اور شروع نام میں سید لکھتے ہیں جیسے سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ وغیرہ۔
ولادت باسعادت
آپ امام ولی اللہؒ کی دوسری بیوی سے دوسرے صاحبزادے ہیں، آپ کی ولادت باسعادت دہلی میں ۱۱۶۳ھ میں ہوئی۔ امام ولی اللہؒ کی پہلی بیوی میں سے ایک صاحبزادہ محمد تھا جس کے نام کے ساتھ شاہ ولی اللہؒ اپنی کنیت ابو محمد کرتے تھے۔
تعلیم و تربیت
آپ نے تعلیم و تربیت اپنے والد امام ولی اللہؒ اور اپنے بڑے بھائی سراج الہند شاہ عبد العزیزؒ المتوفیٰ ۱۲۳۹ھ سے بھی حاصل کی۔ شاہ رفیع الدینؒ اپنی مایہ ناز کتاب ’’دمغ الباطل‘‘ ص ۹۸ میں اس کا تذکرہ فرماتے ہیں کہ میں نے علوم عقلیہ و نقلیہ وادبیہ کی تعلیم اپنے برادر کلاں شیخ عبد العزیزؒ سے حاصل کی۔ شاہ رفیع الدینؒ اور ان کے چھوٹے بھائی شاہ عبد القادرؒ المتوفیٰ ۱۲۳۰ھ دونوں نے تعلیم و تربیت اور فیض اپنے بڑے بھائی سے حاصل کیا۔
شاہ رفیع الدینؒ بیس سال کی عمر میں فارغ التحصیل ہو گئے تھے۔ یہ دونوں بھائی شاہ عبد العزیزؒ کے بہترین معاون بھی ثابت ہوئے۔ عقلی مسائل کے لیے جس قدر تحقیقات کی ضرورت ہوتی تھی شاہ رفیع الدینؒ اسے پورا کرتے تھے اور کشفی مسائل میں شاہ عبد القادرؒ کو خصوصیت سے امتیاز حاصل تھا۔ نقلی علوم کی تعلیم کے لیے شاہ عبد العزیزؒ مسلم امام تھے۔ گویا عقل و نقل اور کشف کی جامع سوسائٹی (society) بنانے میں ان حضرات کی کوششیں بہت ہی گرانقدر تھیں۔ (کما افادہ مولانا السندھی)
شاہ عبد العزیز محدث دہلویؒ فرماتے ہیں: ’’مولوی رفیع الدین در رضیات چنداں ترقی کردہ اند کہ شاید موجد آں ہم بودہ باشد یا نہ‘‘ مولوی رفیع الدین نے ریاضی میں اس قدر ترقی کی ہے کہ شاید ریاضی کے موجد نے بھی اتنی کی ہو یا نہ۔ اور فرمایا ’’در فن ریاضی مثل مولوی رفیع الدین در ہند و ولایت نخواہد بود‘‘ ( تاریخ دار العلوم دیوبند ص ۱۰۱ بحوالہ ملفوظات و کمالات) ریاضی کے فن میں مولوی رفیع الدین کی طرح ہند اور ولایت میں کوئی نہیں ہوگا۔
اخلاق و عادات
شاہ صاحبؒ کو پروردگار نے نہایت ہی بردبار، منکسر المزاج، سیر چشم، فیاض، نکتہ شناس حکیم، مستغنی المزاج، متوکل علی اللہ، متقی، ملنسار، خوش اخلاق، ستودہ صفات، پاکیزہ اطوار اور مومنانہ کردار کا حامل بنایا تھا۔ آپ بیک وقت مفسر، محدث، فقیہ اور جملہ علوم و فنون پر کمال رکھنے والے تھے۔ صاحب الیانع الجنی شیخ محدث محسنؒ نے ان الفاظ میں آپ کی تعریف کی ہے: الشیخ، المحدث، المتقن، المحقق رفیع الدین دہلویؒ۔ اور اسی طرح آپ کے فہم کی بھی بہت تعریف کی ہے۔ آپ علماء راسخین میں سے تھے اور آپ کا علم نہایت ہی ٹھوس تھا۔ آپ فرید الدہر، وحید عصر، صاحب علم و حلم، عمل و تقویٰ، فہم وذکاء، فراست و دیانت، امانت و مراتب اور ولایت تھے۔ شاہ صاحبؒ نے اخذ طریقت شیخ محمد عاشق پھلتیؒ سے کیا۔ شاہ صاحبؒ عربی کے بہت بڑے شاعر بھی تھے۔
تعلیم و تدریس
آپ برابر تعلیم و تدریس میں مشغول رہے اور بہت سے لوگ آپ سے فیض یاب ہوئے۔ آپ علوم قرآن و حدیث پڑھاتے تھے اور ساتھ ساتھ تصوف و سلوک کی تعلیم و تلقین بھی فرماتے تھے۔ بوقت ضرورت فتاویٰ بھی تحریر فرماتے تھے۔ بعض مسائل میں آپ کی تحقیقات نہایت ہی قیمتی اور بصیرت افروز ہیں اور آپ بہت مختصر الفاظ میں بڑے بڑے مطالب بیان کر دیتے تھے، یہ آپ کا خاص کمال تھا۔ آپ کے بے شمار تلامذہ ہیں۔
سخاوت و خدمت
’’صاحب ارواح ثلاثہ‘‘ ایک جگہ لکھتے ہیں کہ امیر شاہ خان صاحب مرحوم نے فرمایا کہ چار شخص شاہ ولی اللہؒ کے خاندان میں بہت سخی تھے، ایک شاہ رفیع الدینؒ، ان کی نسبت سید احمد خان نے لکھا ہے کہ ان کا کیسہ زر ہمیشہ خالی رہتا تھا الخ۔
یہ مکان سے باہر چبوترہ پر بیٹھتے تھے اور اس پر فرش نہ ہوتا تھا، بلکہ صرف چٹائی ہوتی تھی، اور کبھی چٹائی بھی دے دیتے تھے اور خالی زمین پر بیٹھتے تھے۔ سارے محلے کی عورتوں کا کام کیا کرتے تھے۔ میرے استاذ میاں جی محمدی صاحبؒ فرماتے تھے کہ ایک روز شاہ صاحبؒ عورتوں کا سودا خریدنے گئے، چونکہ سودے مختلف اور متعدد تھے اس لیے اول انہوں نے سودے رومال میں باندھے، جب رومال میں گنجائش نہ رہی تو کرتے میں رکھے، جب اس میں بھی گنجائش نہ رہی اور ایک سودا باقی رہ گیا تو اسے ٹوپی میں لے لیا۔ میں نے عرض کیا، حضرت دال مجھے دے دیجیے اور ٹوپی خالی کر کے اوڑھ لیجیے، تو آپ نے فرمایا کہ نہیں مسلمان کی ہر چیز کام میں آنی چاہیے۔ (ارواح ثلاثہ طبع جدید ص ۴۰، ۴۱)
اولاد
شاہ صاحبؒ کے چار لڑکے اور ایک لڑکی تھی۔ لڑکوں میں سے (۱) ایک شاہ مخصوص اللہ المتوفیٰ ۱۲۷۳ھ، (۲) شاہ عیسیٰ جن کی شادی شاہ عبدالعزیزؒ کی صاحبزادی سے ہوئی، (۳) شاہ محمد موسیٰ ، (۴) اور شاہ حسن جان ہیں۔ اور لڑکی جس کا نام امۃ اللہ یا امۃ الغفار بی زوجہ نجم الدین سونی پتی ہیں، یہ بہت ہی زاہدہ و عابدہ خاتون تھیں، صحاح ستہ پڑھی ہوئی تھیں ( آثار الصنادید ص ۲۶۸)
مسلک
شاہ صاحبؒ خالص حنفی المسلک تھے اور اسی کی تعلیم دیتے تھے، جیسا کہ شیخ محدث محسنؒ نے الیانع الجنی میں ذکر فرمایا ہے کہ ’’ان کے والد اور پورا خاندان مسلکاً حنفی تھا۔ اسی طرح شاہ رفیع الدینؒ کے والد امام ولی اللہؒ کا مشہور قول ہے:
ان فی المذھب الحنفی طریقة انیقة ھی اوفق با السنة المعروفة التی جمعت و نقحت فی زمان البخاری واصحابہ (فیوض الحرمین ص ۱۳۶)
’’بے شک مذہب حنفی میں ایک ایسا عمدہ طریقہ ہے جو سب سے زیادہ موافق ہے سنت مشہورہ کے، وہ سنت جس کو امام بخاریؒ اور اس کے ساتھیوں کے زمانہ میں منقح کیا گیا۔‘‘
تصانیف
شاہ صاحبؒ کی متعدد علمی و تحقیقی تصانیف ہیں جن کا اجمالی تعارف حسب ذیل ہے:
۱۔ ترجمہ قرآن کریم
یہ ترجمہ اردو زبان میں سب سے پہلا تحت اللفظ ترجمہ ہے، لفظی تراجم میں نہایت عمدہ اور بہترین ہے۔ اس ترجمہ کے متعلق ’’حیاۃ ولی‘‘ کے مصنف نے لکھا ہے: ’’قرآن کریم کا لفظی ترجمہ آپ ہی نے کیا ہے جو دریائے جمنا سے لے کر فرات تک نہایت مقبولیت کے ساتھ پھیلا ہوا ہے اور عوام اس سے مستفیض ہو رہی ہے۔‘‘
۲۔ دمغ الباطل
یہ کتاب مسئلہ وحدۃ الوجود اور وحدۃ الشہود پر مشتمل ہے کیونکہ حضرت مولانا شاہ رفیع الدینؒ کو علم الحقائق پر کافی دسترس تھی اس لیے انہوں نے اس کتاب میں اس مسئلہ پر بڑی بسط سے کلام کیا ہے۔ یہ کتاب قلمی تھی اور نایاب تھی اسے والد محترم مفسر قرآن حضرت مولانا صوفی عبدالحمید خان سواتی مدظلہ العالی فاضل دیوبند و فاضل دارالمبلغین لکھنو و فاضل نظامیہ طبیہ کالج حیدر آباد دکن، بانی مدرسہ نصرت العلوم و جامع مسجد نور گوجرانوالہ، جنہیں فلسفہ ولی اللہی کے ساتھ خاص مناسبت، محبت اور شغف ہے، نے رضا لائبریری رامپور سے حاصل کر کے اسے بڑی محنت و کاوش، عرق ریزی اور لگن کے ساتھ پانچ سال کے طویل عرصے میں اس کی تصحیح کی اور اس پر ایک مفصل مقدمہ بھی تحریر فرمایا ہے۔ اس کتاب کو ادارہ نشر و اشاعت مدرسہ نصرت العلوم گوجرانوالہ نے شائع کرنے کی سعادت عظمیٰ حاصل کی ہے، اس کتاب کو بمع کتاب کلمات الحق ادارہ نے شائع کیا ہے۔
۳۔ اسرار المحبۃ
یہ کتاب بھی نایاب تھی، پہلی مرتبہ طبع ہوئی ہے، اس کتاب کو بھی والد محترم نے تصحیح اور مقدمہ سمیت ادارہ نشر و اشاعت مدرسہ نصرت العلوم گوجرانوالہ سے شائع کروا کے ناظرین کی خدمت میں پیش کیا ہے۔
۴۔ تکمیل الاذہان
تکمیل الاذہان میں چار باب ہیں۔ ایک منطق، دوسرا امور عامہ، تیسرا تحصیل اور چوتھا تطبیق آراء پر مشتمل ہے۔ امام انقلاب حضرت مولانا عبید اللہ سندھیؒ المتوفیٰ ۱۳۶۳ھ نے اس کتاب کی بہت تعریف کی ہے، فرمایا کہ ’’ایسی جامع کتاب اس سے قبل نہیں لکھی گئی۔‘‘
یہ کتاب بھی نایاب تھی، والد محترم کی تصحیح اور مقدمہ مفیدہ کے ساتھ ادارہ نشر و اشاعت مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ نے اسے بھی اپنے روایتی مشن (تبلیغ اور اکابرو اسلاف کی کتب کی اشاعت ) کے تحت شائع کیا ہے۔ یہ کتاب پہلی مرتبہ ۱۳۸۴ھ بمطابق ۱۹۶۴ء میں شائع ہوئی تھی، اب اسے دوبارہ شائع کیا گیا ہے۔ اس کتاب کی اشاعت کے متعلق حضرت مولانا علامہ شمس الحق افغانیؒ نے اپنے ایک خط میں اس کی اشاعت پر بڑی خوشی کا اظہار فرمایا۔ اس خط کا عکس مقدمہ تکمیل الاذہان ص ح پر موجود ہے۔
۵۔ تفسیر آیت نور
اس رسالہ میں آیت نور کی تفسیر میں گزشتہ حکماء نے جو کچھ بیان کیا ہے ان کے اقوال و آراء کو جمع کیا گیا ہے۔ یہ رسالہ بھی نایاب تھا، اس رسالہ کو بھی والد محترم کی تصحیح اور مقدمہ کے ساتھ ادارہ نشر و اشاعت مدرسہ نصرت العلوم گوجرانوالہ نے شائع کیا ہے۔
۶۔ قیامت نامہ یا علامات قیامت
یہ رسالہ فارسی میں ہے، اس میں قیامت اور آخرت کے حالات اور کوائف احادیث مبارکہ سے بیان کیے گئے ہیں۔ نہایت عبرت آموز اور نصیحت افزا ہے، اس کا تو اردو ترجمہ بھی شائع ہو چکا ہے۔ شاہ صاحبؒ کا یہی ایک خاص رسالہ ہے جس سے عوام بھی فائدہ اٹھا سکتے ہیں باقی جملہ کتابیں تو ایسی ہیں جن سے خواص (علماء) ہی فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
۷۔ مجموعہ رسائل (حصہ اول)
اس مجموعہ کے اندر شاہ صاحبؒ کے دس رسالوں کو جمع کیا گیا ہے۔ اس مجموعہ کی تصحیح اور اس پر ایک بسیط مقدمہ والد محترم نے لکھا ہے اور بیشتر مقامات میں قارئین کرام کی سہولت کے لیے حواشی سے بھی مزین کیا ہے اس مجموعہ کو بھی ادارہ نشر و اشاعت مدرسہ نصرت العلوم گوجرانوالہ نے اب دوبارہ شائع کیا ہے۔ ان دس رسالوں کا اجمالی تعارف حسب ذیل ہے:
(۱) رسالہ فوائد نماز
یہ رسالہ فارسی میں ہے، مختصر اور نہایت عجیب و غریب ہے، اس میں نماز کی حقیقت اور مخلوقات کے مختلف طبقات کی نمازوں کا الگ الگ بیان ہے، سالکان طریقت اور اصلان حقیقت کی آگاہی کے لیے لکھا گیا ہے۔
(۲) رسالہ اذان نماز
یہ رسالہ بھی فارسی زبان میں ہے، اس میں شاہ صاحبؒ نے اذان کے کلمات کے تکرار کی حکمت بیان فرمائی ہے اور کلمات اذان کی تشریح بھی نہایت احسن طریقہ پر بیان فرمائی ہے۔
(۳) رسالہ حملۃ العرش
یہ رسالہ بھی فارسی ہے، انسانی فکر میں بہت ہی بلندی پیدا کرتا ہے، اس میں حملۃ العرش کی تحقیق ہے، انتہائی ادق احسن اور مختصر ہے۔ حضرت شاہ عبد العزیزؒ نے اس کا کچھ اہم ترین حصہ اپنی تفسیر عزیزی میں بھی نقل کر دیا ہے۔
(۴) رسالہ شرح رباعیات
یہ فارسی میں ایک مختصر سا رسالہ ہے، اس میں فارسی زبان کی دو رباعیات ہیں جن میں انسانی حقیقت اور انسان کا تعلق اور قرب، اللہ تعالیٰ کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ شاہ صاحبؒ نے ان رباعیوں کی شرح لکھی ہے جو نہایت ہی غامض اور علم حقائق سے متعلق ہے۔
(۵) رسالہ بیعت
یہ بھی فارسی زبان میں ہے، اس میں بیعت کی مشروعیت، اس کی ضرورت، فوائد اور اس کی چار قسمیں اور ان کی وضاحت بیان فرمائی ہے۔
(۶) رسالہ شرح چہل کاف
یہ رسالہ عربی زبان میں ہے، اس میں چہل کاف جو کہ ایک مشہور دعا ہے جس میں چالیس کاف آتے ہیں، بہت سے بزرگوں کے معمولات میں سے ہے، یہ شعروں میں ہے اور حضرت شیخ عبد القادر جیلانیؒ المتوفیٰ ۵۶۱ھ کی طرف منسوب ہے، اس کی شرح اور طریقہ خواندگی تحریر فرمایا ہے۔
(۷) رسالہ شرح برہان العاشقین یا حل معمہ
یہ رسالہ فارسی زبان میں ہے، حضرت خواجہ بندہ غریب نواز گیسو درازؒ المتوفیٰ ۸۲۵ھ کے ایک مختصر ترین رسالہ برہان العاشقین کی شرح ہے جس میں خواجہ صاحب نے انسان کی ترقی کے تمام امکانی مدارج اونیٰ درجہ سے انتہائی اعلیٰ مراتب تک ایک قصہ اور چیستان یا رمز و اشارہ کی زبان میں بیان کیے ہیں، اس کی شرح شاہ رفیع الدین نے اپنے ذوق کے مطابق کی ہے۔
(۸) رسالہ نذور بزرگان
یہ رسالہ فارسی زبان میں ہے، اس میں اس بات کی تحقیق کی گئی ہے کہ بعض لوگ بزرگوں کے مزارات پر نذرانے لے کر جاتے ہیں، ان کا کیا حکم ہے اور اس کی متعدد صورتوں پر بھی بحث کی گئی ہے۔
(۹) رسالہ جوابات سوالات اثنا عشر
یہ رسالہ بھی فارسی میں ہے، اس میں ان بارہ سوالات کے جوابات ہیں جن میں سے بعض سوالات فقہی ہیں اور بعض علم کلام سے متعلق ہیں۔ شاہ صاحبؒ نے انتہائی اختصار کے ساتھ اس کی بہت اچھی تحقیق کی ہے۔
(۱۰) فتاویٰ شاہ رفیع الدین ؒ
یہ بھی فارسی زبان میں ہے اور مختلف فقہی، اعتقادی اور چند اصولی و فروعی سوالات کے جوابات پر مشتمل ہے، اصحاب فتاویٰ کے لیے نہایت مفید اور معلومات افزا ہے۔
۸۔ مجموعہ رسائل (حصہ دوم)
اس مجموعہ میں حضرت مولانا شاہ رفیع الدین محدث دہلویؒ کے انیس علمی و تحقیقی رسائل کو جمع کیا گیا ہے جن میں پندرہ رسائل مخطوطات ہیں جو ابھی تک شائع نہیں ہو سکے تھے، یہ ہمیں دارالعلوم دیوبند کے کتب خانہ سے دستیاب ہوئے ہیں، ان کو اہل علم کے استفادہ کی خاطر شائع کیا گیا ہے۔ اس مجموعہ میں چار رسائل ایسے بھی ہیں جو مطبوعات میں سے ہیں، وہ بھی چونکہ نایاب تھے اس لیے انہیں بھی اس مجموعہ میں منسلک کر دیا گیا ہے، تو اس لحاظ سے یہ کل انیس رسائل ہوئے جن کا مختصر تعارف حسب ذیل ہے:
(۱) شرح رسالہ عقد انامل (عربی) (بمع ضمیمہ اردو)
حضرت مولانا شاہ رفیع الدینؒ کا رسالہ عقد انامل جو چند سطور پر مشتمل ہے، اس کا مطبوعہ نسخہ بمع رسالہ عقد انامل جس کا ترجمہ اور شرح ولی اللہی سلسلہ کے ایک صاحب مولانا عبد الرحمٰن شاکرؒ نے لکھا ہے، یہ رسالہ ہمیں دستیاب ہوا اور اس کو بمع شرح کے ہی ہم نے مجموعہ رسائل حصہ دوم میں شامل کر لیا ہے جس کے صرف چار صفحات ہیں۔ اس کی طباعت دیگر چار رسائل کے ساتھ مطبع نظامی کانپور میں ۱۲۷۳ھ میں مولوی عبد الرحمٰن شاکرؒ اور ان کے والد روشن خانؒ نے اپنے اہتمام سے کرائی تھی، اس وقت کی اردو زبان جس طرح چل رہی تھی اسی میں یہ ترجمہ کیا ہے اور اس کی وضاحت بھی ساتھ کر دی ہے۔
نوٹ: اس رسالہ کے ساتھ ایک ضمیمہ بھی منسلک کیا گیا ہے جو کہ والد محترم حضرت مولانا صوفی عبد الحمید خان صاحب سواتی مدظلہ نے تحریر فرمایا ہے، یہ ضمیمہ اردو زبان میں ہے۔
(۲) تحقیق الالوان (فارسی)
اسی طرح شاہ رفیع الدینؒ کا دوسرا رسالہ تحقیق الالوان بمع شرح تحفۃ الاخوان ہے، یہ ترجمہ اور شرح بھی انہی مولانا عبد الرحمٰن بن روشنؒ کا ہے۔ اصل رسالہ فارسی میں ہے، بڑے سائز کے ایک صفحہ میں ہے، جب کہ اس کی شرح بڑے سائز کے ۵۸ صفحات پر پھیلی ہوئی ہے اور اس کو بھی انہوں نے ۱۲۸۲ھ میں طبع کرایا تھا۔ ہم نے صرف فارسی متن ہی طبع کرایا ہے، شرح غیر ضروری طوالت کی بناء پر ترک کر دی ہے، اس رسالہ کا نسخہ ہمیں مولانا ڈاکٹر عبد الحلیم چشتی صاحب (فاضل دیوبند) کے کتب خانہ سے دستیاب ہوا اور انہوں نے ہی اس کی فوٹو کاپی کرانے کی اجازت دی۔ یہ رسالہ بڑا اہم ہے، شاہ رفیع الدینؒ نے، جو رنگ شریعت میں استعمال کرنے ناجائز ہیں، جیسا کہ احادیث سے ثابت ہے ان کو نہایت اختصار کے ساتھ بیان کیا ہے۔
(۳) رسالہ سید کبیر احمد کی گائے اور شیخ سدو کا بکرا (فارسی) (نذر لغیر اللہ کی وضاحت)
اسی طرح یہ رسالہ بھی مطبوعات میں تھا، یہ دراصل شاہ رفیع الدینؒ کا ایک فتوی ہے جو دیگر فتاویٰ کے ساتھ اس کو مولوی تراب علیؒ تلمیذ شاہ عبد العزیز محدث دہلویؒ نے اپنی کتاب زبدۃ النصائح فی مسائل الذبائح میں درج کیا ہے اور یہ فتویٰ شاہ رفیع الدینؒ نے ۱۲۳۱ھ میں لکھا تھا۔ زبدۃ النصائح مطبع محمدی میں ۱۲۶۷ھ میں طبع ہوئی تھی، اس کی نقل ہم نے اسی کتاب کی فوٹو کاپی سے لی ہے۔
(۴) ترکیب خواندن سورۃ یوسف (فارسی)
یہ رسالہ مخطوطہ ہے جو ہمیں دارالعلوم دیوبند کے کتب خانہ سے حاصل ہوا ہے، یہ پہلی مرتبہ شائع ہوا ہے، اس میں سورۃ یوسف کے پڑھنے کی ترکیب اور اس کے فوائد و خاصیات کا ذکر ہے کہ کشائش رزق اور اپنے کاموں کے لیے اس کی تلاوت کس طریقہ سے کی جائے، یہ رسالہ عملیات سے متعلق ہے۔
(۵) رسالہ تحقیق شق القمر (فارسی)
یہ رسالہ بھی مخطوطہ ہے اور پہلی مرتبہ شائع ہوا ہے، اس میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معجزہ شق القمر یعنی چاند کے ٹکڑے ہونے کے ثبوت کے متعلق بحث ہے اور منکرین شق القمر کے اعتراضات کے بڑے حکیمانہ انداز میں جوابات مذکور ہیں، غالباً یہ رسالہ پہلے طبع بھی ہو چکا ہے لیکن ہمیں دستیاب نہیں ہوا۔
(۶) رسالہ تحقیق آیات و قرات (فارسی) بمع القول المقرر (فارسی)
یہ رسالہ بھی مخطوطہ ہے اور پہلی مرتبہ شائع ہوا ہے، اس رسالہ میں قرآن کریم کی آیات اور قرات کے متعلق بحث ہے، قراء سبعہ اور ان کی قرات اور قرآن کریم کے اوقاف کا تذکرہ بھی ہے اور یہ جملہ بحث سوال و جواب کی صورت میں ہے۔
اس رسالہ کے ساتھ بطور ضمیمہ ’’القول المقرر‘‘ بھی منسلک ہے جو کہ میر محمد حسن المعروف حسن علیؒ کی تصنیف ہے، یہ بھی مخطوطہ ہے، یہ بھی پہلی مرتبہ شائع ہوا ہے، اس میں بھی قراء سبعہ اور ان کے حالات اور تعارف، ان کی موالید و وفیات کا بڑے احسن انداز میں ذکر کیا گیا ہے، مفید ہونے کی وجہ سے اسے بھی شاہ صاحبؒ کے رسالہ کے ساتھ طبع کرایا گیا ہے۔
(۷) رسالہ تحقیق طلوع و غروب (فارسی)
یہ رسالہ بھی مخطوطہ ہے اور پہلی مرتبہ شائع ہوا ہے، اس میں سورج کے طلوع و غروب کی تحقیق سوال و جواب کے انداز میں مذکور ہے۔
(۸) قاعدہ مناسخہ در علم فرائض (فارسی)
یہ رسالہ بھی مخطوطہ ہے اور پہلی مرتبہ شائع ہوا ہے، اس رسالہ میں علم فرائض یعنی وراثت کے متعلق بحث کی گئی ہے اور علم فرائض کا ایک مشکل مسئلہ ذکر کیا ہے۔
(۹) قاعدہ تحریم النساء (فارسی)
اس رسالہ میں ان عورتوں کا تذکرہ ہے جن کے ساتھ شریعت میں نکاح کرنا حرام ہے اور ان کی اقسام بڑے احسن انداز میں مذکور ہیں، یہ بھی مخطوطہ ہے اور پہلی مرتبہ شائع ہوا ہے۔
(۱۰) رسالہ اصطرلاب (فارسی)
یہ رسالہ بھی مخطوطہ ہے اور پہلی مرتبہ شائع ہوا ہے، اس رسالہ میں قدیم ریاضی کے متعلق معلومات ہیں، یہ رسالہ طول بلد، عرض بلد معلوم کرنے کے لیے مفید ہے۔
(۱۱) سوالات فارسی
یہ رسالہ بھی مخطوطہ ہے اور پہلی مرتبہ شائع ہوا ہے، اس رسالہ میں مختلف علمی سوالات کے جوابات مذکور ہیں، کچھ سوالات آیات کے بارہ میں ہیں اور کچھ دوسری علمی باتوں کے بارہ میں ہیں۔
(۱۲) رسالہ حکم الصلوٰۃ والصوم فی ارض التسعین (عربی)
یہ رسالہ مطبوعات میں سے ہے جو پہلے طبع ہو چکے ہیں، ہم نے اس رسالہ کی نقل کتاب ’’لقطۃ العجلان‘‘ طبع مطبع نظامی کانپور ۱۲۹۱ھ ص ۸۲ تا ۸۴ سے لی ہے، یہ کتاب نواب صدیق حسن خان مرحوم کی تصنیف ہے، اس میں شاہ رفیع الدینؒ کا یہ پورا رسالہ انہوں نے نقل کیا ہے، اس رسالہ کا اردو ترجمہ پورا کتاب نماز مسنون کلاں مصنفہ حضرت مولانا صوفی عبد الحمید خان صاحب سواتی مد ظلہ کے ص ۱۹۵ تا ۲۰۰ میں نقل کر دیا گیا ہے، اردو خواں حضرات اس سے استفادہ کر سکتے ہیں۔
(۱۳) رسالہ سوالات و جوابات متفرقہ در عربی
یہ رسالہ مخطوطات میں سے ہے اور پہلی مرتبہ شائع ہوا ہے، اس رسالہ میں سوالات و جوابات کی صورت میں ستاروں اور فلکیات کے متعلق بحث کی گئی ہے۔
(۱۴) رسالہ تحقیق قدم و حدوث عالم و تدوین تاریخ (عربی)
یہ رسالہ بھی مخطوطہ ہے اور پہلی مرتبہ شائع ہوا ہے، اس رسالہ میں جہان کے قدیم اور حادث ہونے کے متعلق، ہبوط آدم علیہ السلام کے متعلق اور تاریخ کے متعلق بحث مذکور ہے۔
(۱۵) رسالہ تحقیق الایمان (عربی)
یہ رسالہ بھی مخطوطات میں سے ہے اور پہلی مرتبہ شائع ہوا ہے، اس رسالہ میں ایمان کے مختلف معانی پر بحث کی گئی ہے۔
(۱۶) رسالہ اولاد رسول (عربی)
یہ رسالہ بھی مخطوطات میں سے ہے اور پہلی مرتبہ شائع ہوا ہے، اس رسالہ میں سیر اور تاریخ کے حوالہ سے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی اولاد کے متعلق معلومات ذکر کی گئی ہیں۔
(۱۷) رسالہ اعتقاد نجوم (عربی)
یہ رسالہ مخطوطہ ہے اور پہلی مرتبہ شائع ہوا ہے، اس رسالہ میں ستاروں کے موثر اور غیر موثر ہونے کے متعلق اعتقاد رکھنے کا ذکر اور اس میں مختلف مذاہب کے متعلق بحث کی گئی ہے۔
(۱۸) رسالہ شرح مسئلہ منطقیہ تصوریہ (عربی)
یہ رسالہ بھی مخطوطہ ہے اور پہلی مرتبہ شائع ہوا ہے، اس رسالہ میں علم منطق کی تین اصطلاحات بشرط شی، بشرط لاشی اور لا بشرط شی کی تفصیل اور شرح بڑے احسن پیرائے میں کی گئی ہے اور فن منطق میں ان اصطلاحات کے فائدہ کے متعلق روشنی ڈالی گئی ہے۔
(۱۹) حواشی شرح چغمینی (عربی)
یہ رسالہ بھی مخطوطات میں سے ہے اور پہلی مرتبہ شائع ہو کر منظر عام پر آیا ہے، یہ رسالہ ریاضی قدیم پر مشتمل ہے اور شرح چغمینی جو ریاضی قدیم کی مشہور کتاب ہے اس کے ایک ادق اور مشکل مقام کا حاشیہ اس رسالہ میں مذکور ہے۔
۹۔ رسالہ فی علم العروض
یہ رسالہ پہلے طبع ہو چکا ہے، اس کا تذکرہ صاحب حدائق الحنفیہ مولوی فقیر محمد جہلمیؒ المتوفیٰ ۱۳۳۴ھ نے کیا ہے۔
۱۰۔ رسالہ مقدمۃ العلم (عربی)
یہ ایک مختصر سا رسالہ ہے، یہ رسالہ الگ کتابی صورت میں نہیں مل سکا اور نہ ہی کوئی قلمی نسخہ دستیاب ہو سکا، افادیت کے پیش نظر اسے تکمیل الاذہان کے ساتھ منسلک کر کے طبع کرایا گیا ہے، یہ رسالہ مکمل طور پر نواب صدیق حسن خان نے اپنی کتاب ابجد العلوم مطبوعہ صدیقیہ بھوپال ۱۲۹۵ھ میں نقل کیا ہے۔
۱۱۔ رسالہ فی اثبات شق القمر وابطال براہین الحکمۃ
یہ لکھنؤ سے غالباً پہلے طبع ہو چکا ہے اب نایاب ہے، اس رسالہ کا تذکرہ صاحب حدائق الحنفیہ نے اور مولانا نظام الدین کیرانویؒ نے بھی حاشیہ میزان العقائد ص ۲۶ پر کیا ہے۔
۱۲۔ رسالہ فی الحجاب
یہ نایاب ہے۔
۱۳۔ رسالہ فی برہان التمانع
یہ نایاب ہے۔
۱۴۔ رسالہ سمت قبلہ
یہ رسالہ نایاب ہے۔
۱۵۔ حاشیہ علی میر زاہد رسالہ فی بحث العلم
یہ رسالہ بھی ادارہ نشر و اشاعت مدرسہ نصرۃ العلوم شائع کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
۱۶۔ تکمیل الصناعہ
اگر اس کتاب سے مراد تکمیل الاذہان ہے تو وہ طبع ہو چکی ہے ورنہ یہ نایاب ہے۔
۱۷۔ قصیدۃ عینیہ فی رد قصیدۃ الشیخ ابن سینا
یہ اسرار المحبۃ کے ساتھ طبع ہو چکا ہے۔
۱۸۔ رسالہ تعدیلات الخمسۃ المتحیرہ
یہ نایاب ہے۔
۱۹۔ تخمیس علی بعض القصائد الوالدہ فی تحقیق مسئلہ وحدۃ الوجود
یہ بھی اسرار المحبۃ مطبوعہ ادارہ نشر و اشاعت مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ کے ساتھ چھپ چکا ہے۔
۲۰۔ قصیدہ فی بیان معراج النبیؐ
یہ بھی اسرار المحبۃ کے ساتھ طبع ہو چکا ہے۔
۲۱۔ راہ نجات اردو
یہ مطبوعہ ہے، اس کا ذکر حدائق الحنفیہ میں موجود ہے۔
۲۲۔ تفسیر سورۃ البقرہ ( تفسیر رفیعی)
اس کا ذکر ڈاکٹر ابو اللیث صدیقی نے اپنے ایک انگلش مضمون میں کیا ہے جس کا اردو ترجمہ بنام ’’نگار پاکستان‘‘ جنوری ۱۹۶۳ء ص ۱۹-۲۲ میں موجود ہے، یہ نایاب ہے۔
۲۳۔ تنبیہ الغافلین
اس کا ذکر بھی ڈاکٹر ابو اللیث صدیقی نے ’’نگار پاکستان‘‘ میں کیا ہے، یہ بھی نایاب ہے۔
۲۴۔ الدرر والدراری
یہ بھی شاہ صاحبؒ کی ایک اہم کتاب ہے، اس کا ذکر تطبیق الاراء کے دیباچہ میں ہے۔ اور رسالہ جوابات اثنا عشر میں شاہ صاحبؒ نے حوالہ کے ساتھ اس کا ذکر کیا ہے، یہ بھی نایاب ہے۔
۲۵۔ منہیات تکمیل الاذہان
یہ نایاب ہے۔
۲۶۔ مخمس
یہ رسالہ اسرار المحبۃ کے ساتھ طبع ہو چکا ہے۔
۲۷۔ رسالہ فی المنطق
اس کا ذکر بھی صاحب حدائق الحنفیہ نے کیا ہے جو کہ نایاب ہے۔
شاہ رفیع الدینؒ کی جملہ کتب دستیاب نہیں ہیں، ہو سکتا ہے کہ بہت سی کتب، جن کا تذکرہ تذکرہ نگاروں نے کیا ہے، حوادثات زمانہ کے پیش نظر ضائع ہو چکی ہوں۔ بہرحال ان کی جتنی کتابیں مل سکی ہیں ان کو والد محترم مدظلہ نے تصحیح فرما کر اور ان پر مقدمات اور حواشی سے مزین کر کے ادارہ نشر و اشاعت مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ کے ذریعہ طبع کروائی ہیں اور یہ پورے بر صغیر میں صرف ادارہ نشر و اشاعت مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ کی ہی خصوصیت ہے کہ شاہ صاحبؒ کی بیشتر کتابیں یہیں سے شائع ہوئیں ہیں و ذالک فضل اللہ یوتیہ من یشاء۔
وفات حسرت آیات
شاہ صاحبؒ کی وفات کی تاریخ میں تذکرہ نگاروں نے اختلاف کیا ہے، مولانا فقیر محمد جہلمیؒ نے حدائق الحنفیہ ص ۴۷۰ میں ۱۲۳۸ھ ذکر کی ہے اور مولانا رحمٰن علیؒ نے تذکرہ علماء ہند فارسی ص ۶۶ میں ۱۲۴۹ھ ذکر کی ہے، لیکن یہ دونوں تاریخیں غلط معلوم ہوتی ہیں۔ محقق بات یہ ہے کہ شاہ صاحبؒ کی وفات ستر سال کی عمر میں ۶ شوال ۱۲۳۳ھ دہلی میں واقع ہوئی ہے، اسی بات کو مولانا نور الحقؒ نے ذکر کیا ہے اور بشیر الدین احمد نے بھی ’’واقعات دہلی‘‘ مطبوعہ ۱۹۱۸ء کے ص ۵۸۸ ج ۲ پر اسی تاریخ وفات کا ذکر کیا ہے۔
شاہ ولی اللہؒ کے چاروں صاحبزادگان کی وفات معکوس ترتیب سے ہوئی ہے، سب سے پہلے سب سے چھوٹے صاحبزادے شاہ عبد الغنیؒ کی ۱۲۲۷ھ میں، اور ان سے بڑے شاہ عبد القادر کی ۱۲۳۰ھ میں، اور ان سے بڑے شاہ رفیع الدینؒ کی ۱۲۳۳ھ میں اور ان سے بڑے شاہ عبد العزیزؒ کی ۱۲۳۹ھ میں ہوئی۔
شاہ رفیع الدینؒ کی وفات سے جہاں پورا عالم ایک نامور محقق مدقق عالم سے محروم ہو گیا، وہاں ان کے بڑے بھائی شاہ عبد العزیزؒ کا رنجیدہ خاطر ہونا طبعی امر تھا، وہ بہت متاثر اور غمگین تھے، اس وقت نابینا بھی تھے۔ نیز ’’جامع ملفوظات‘‘ والے نے لکھا ہے کہ شاہ عبد العزیزؒ نے باوجود نابینا ہونے کے ان کی چار پائی اٹھانے کی کوشش کی اور انتہائی ضبط کی کوشش کے باوجود بار بار بلبلا اٹھنا اور فرمانا کہ ’’چہ گویم من طاقتے ندارم‘‘ (تذکرہ شاہ ولی اللہ از مولانا مناظر احسن گیلانیؒ) واللہ اعلم بالصواب۔
شاہ عبد القادر محدث دہلویؒ
حضرت مولانا شاہ عبد القادر محدث دہلویؒ حضرت امام شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کے تیسرے فرزند ہیں، یہ بھی اپنے بڑے بھائیوں کی طرح عالم باعمل تھے، فقیہ وفاضل، زاہد و عابد تھے، کم گو اور گوشہ نشینی کو پسند فرماتے تھے، علم حدیث، تفسیر، فقہ اور دیگر علوم و فنون میں حاذق اتم تھے، نیز صاحب کشف، صادق الفراست اور اتقاء و ورع میں کامل تھے۔
آپ کی ولادت ۱۱۶۷ھ میں دہلی کے اندر ہوئی، اکثر علوم و فنون اپنے بڑے بھائی سراج الہند حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلویؒ سے حاصل کئے، اس کے بعد تمام عمر درس و تدریس میں اور علوم دینیہ کے پھیلانے میں صرف کر دی، خواص و عوام آپ کے علوم و فیوض سے سیراب ہوئے۔
شاہ صاحبؒ نے موضح القرآن کے نام سے اردو میں نہایت فصیح و بلیغ قرآن کریم کا ترجمہ کیا جو آپ کا بہت بڑا کارنامہ ہے۔ آپ نے دہلی میں کنگ ایڈورڈ روڈ پر واقع اکبری مسجد میں بارہ برس اعتکاف کیا اور اس دوران انہوں نے قرآن کریم کا یہ ترجمہ کیا۔ آپ چونکہ عزلت نشینی کو پسند فرماتے تھے اس لیے تمام عمر اکبری مسجد کے ایک حجرے میں ہی بسر کردی، اس مسجد کو بعد میں انگریزوں نے منہدم کر دیا تھا۔
آپ کی وفات کے متعلق علامہ فقیر محمد جہلمیؒ نے اپنی مشہور زمانہ تصنیف حدائق الحنفیہ میں ۱۲۴۲ھ کا قول کیا ہے جو کہ درست نہیں ہے، اکثر محققین کے نزدیک آپ کی وفات ۱۹ رجب ۱۲۳۰ھ بمطابق ۱۸۱۴ء میں ہوئی، اسی کو تذکرہ علماء ہند میں ذکر کیا گیا ہے۔
شاہ عبد الغنی محدث دہلویؒ
حضرت مولانا شاہ عبد الغنی محدث دہلویؒ بھی حضرت امام شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کے چوتھے فرزند ہیں، آپ کی ولادت ۲۵ شعبان ۱۱۷۰ھ بمطابق ۷ جون ۱۸۲۰ء میں دہلی کے اندر ہوئی جبکہ سرسید احمد خان نے آثار الصنادید میں ۱۲۲۴ھ بروز ہفتہ بعد از نماز عشاء لکھی ہے۔ لیکن ان کی وفات شاہ صاحبؒ کے چار فرزندان گرامی میں سے سب سے پہلے ۶ محرم ۱۲۲۷ھ بمطابق یکم جنوری ۱۸۷۹ ء میں ہوئی، انہوں نے تھوڑی ہی عمر پائی، آپ کی اہلیہ کا نام بی بی فاطمہ تھا جن سے ایک فرزند ارجمند حضرت مولانا شاہ اسماعیل شہیدؒ پیدا ہوئے، شاہ اسماعیل شہیدؒ نے ابھی دس برس ہی عمر پائی تھی کہ ان کے والد کا سایہ عاطفت سر سے اٹھ گیا، والد کی وفات کے بعد یہ اپنے چچاؤں کی زیر سرپرستی تعلیم و تربیت حاصل کرتے رہے، جس کا نتیجہ ان کے کارہائے نمایاں کی صورت میں تحریک حریت کا ایک زرین باب بنا، بالآخر انہوں نے بالاکوٹ کے معرکہ میں ۱۲۴۶ھ میں جام شہادت نوش کیا اور وہیں دفن ہوئے۔
ماخذ
(۱) الامداد فی ماثر الاجداد
(۲) الجزء اللطیف
(۳) نزہۃ الخواطر
(۴) تفہیمات الٰہیہ
(۵) الیانع الجنی
(۶) حیاۃ ولی
(۷) شاہ ولی اللہ اور ان کے سیاسی مکتوبات
(۸) حجۃ اللہ البالغہ
(۹) عقد الجید فی احکام الاجتہاد والتقلید
(۱۰) فیوض الحرمین
(۱۱) الانصاف فی بیان سبب الاختلاف
(۱۲) تصنیف رنگین
(۱۳) اتحاف النبلاء
(۱۴) ملفوظات و کمالات
(۱۵) تاریخ دار العلوم دیوبند
(۱۶) ارواح ثلاثہ
(۱۷) آثار الصنادید
(۱۸) مقدمہ تکمیل الا ذہان
(۱۹) نگار پاکستان
(۲۰) حدائق الحنفیہ
(۲۱) تذکرہ علماء دیوبند
(۲۲) واقعات دہلی
(۲۳) تذکرہ شاہ ولی اللہ
(۲۴) الارشاد فی مہمات الاسناد