امریکی جامعات میں فلسطین کے حق میں مظاہرے

مراد علی

فلسطین اور اسرائیل کی حالیہ جنگ میں اس بحث نے ایک بار پھر سر اٹھایا کہ  'یہوددشمنی'  (anti-Semitism) اور 'صہیونیت کی مخالفت' (anti-Zionism) ایک ہی چیز ہے یا دونوں میں فرق ہے؟  یہ بحث کافی عرصے سے چلی آرہی ہے۔

تاہم صہیونی ریاست کے ناقدین کا ماننا ہے کہ'صہیونیت کی مخالفت'اور  'یہود دشمنی' میں واضح فرق ہے۔ کم و بیش یہ پوزیشن حماس کی بھی ہے، مثال کے طور پر 2 مئی 2017ء کو حماس نے ایک دستاویز جاری کیا، جس میں اصل بحث 'دو ریاستی حل' پر تھی مگر ذیل میں اس قسم کی باتوں کی وضاحت بھی کی گئی تھی کہ

"حماس کی لڑائی 'صہیونی منصوبے' سے ہے، یہودی مذہب سے نہیں۔ دستاویز میں واضح کیا گیا: "ہم یہودیت پر یقین رکھنے والوں اور "فلسطینی سر زمین پر قابض صہیونیوں" کے درمیان فرق کرتے ہیں۔"

اس کے برعکس صیہونی ریاست کے حامی دونوں کو مساوی، بلکہ بعض اوقات 'صہیونیت کی مخالفت' کو زیادہ سنگین سمجھتے ہیں۔ اقوامِ متحد نے 1975ء کو' Elimination of Racism and Racial Discrimination 'کے عنوان سے ایک قرار داد منظور کی، جس میں صہیونیت کو نسل پرستی اور نسلی امتیاز کی ایک قسم قرار دیا گیا۔ کئی ریاستوں نے اس قرارداد کی شدید مذمت کی۔ نتیجتاً مخالفت کرنے والی ریاستوں نے اقوام متحدہ کی مالی معاونت سے ہاتھ کھینچ لیے۔ بالآخر اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 1991ء میں قرارداد 46/86 کے ذریعے 1975ء کی قراداد کو منسوخ کر دیا۔ یاد رہے امریکا اس  قرار داد کی مخالفت میں بہت پیش پیش رہا۔

تاہم 1975ء کی قرار داد پر ابھی جنرل اسمبلی میں بحث جاری تھی، اسی دوران سابق اسرائیلی وزیر خارجہ آبا اِبن نے نیو یارک ٹائمز میں کالم لکھا، جس کے آغاز ہی میں انھوں نے اقوام متحدہ کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے لکھا:

"اقوام متحدہ  نازی مخالف اتحاد کے طور پر وجود میں آیا تھا۔ تیس برس بعد یہ یہود دشمنی کا عالمی مرکز بنتی جا رہی ہے۔"

 ماضی قریب میں اسرائیلی ریاست پر تنقید کی زد میں بھی کئی لوگ آچکے ہیں۔ مثال کے طور پر 23 مارچ 2016ء کو برطانیہ کی لیبر پارٹی نے بریڈ فورڈ کے ایک سابق لارڈ میئر خادم حسین کی رکنیت'یہود دشمنی'پر مبنی بیان کی وجہ سے معطل کردی تھی۔ خادم حسین نے فیس بک پر ایک پوسٹ لگائی تھی جس میں انھوں نے لکھا تھا کہ:

" لاکھوں افریقیوں کا قتل عام سکولوں میں نہیں پڑھایا جاتا، یہاں کے تعلیمی نظام صرف این فرینک اور ساٹھ لاکھ صیہونیوں کے بارے میں بتاتا ہے جو ہٹلر کے ہاتھوں مارے گئے تھے۔"

 اسرائیلی ریاست کا بیانیہ یہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حالیہ جنگ کے دوران اسرائیلی جارحیت کے خلاف ہونے والے احتجاجی مظاہروں کو مغربی دنیا میں 'یہود دشمنی' کے نام سے روکنے کی کوششیں کی گئیں۔

غزہ پر اسرائیلی حملے کے خلاف اولین احجاج امریکی یونی ورسٹیوں میں 8 اکتوبر کو ہاورڈ یونی ورسٹی کے طلبہ کی ایک دستختی مہم سے ہوا۔ طلبہ کا کہنا تھا کہ:

"ان پر تشدد واقعات کی مکمل ذمہ داری اسرائیلی ریاست پر عائد ہوتی ہے جو کہ ایک نسل پرست ریاست ہے۔"

اسرائیل کی حمایت کرنے والوں کا کہنا تھا کہ اس بیان میں اسرائیل کی مذمت کی گئی اور دوسری جانب حماس کی نہیں، اس لیے یہ 'یہود دشمنی' پر مبنی ہے۔  اس کے نتیجے میں ہاورڈ کے کئی سابق طلبہ نے احتیاج بھی ریکارڈ کرایا اور ان میں ایسے بھی تھے جو ہاروڈ یونی ورسٹی کے بڑے ڈونرز تھے، وہ یونی ورسٹی کی  مالی معاونٹ سے بھی دستبردار ہوگئے۔

اکتوبر کو نیو یارک ٹائمز نے خبر لگائی کہ وال سٹریٹ کے ارب پتیوں کی جانب سے یونی ورسٹیوں پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ وہ کیمپسوں کے اندر اسرائیل کے خلاف ہونے احتجاجی مظاہروں کی مذمت کے ساتھ ایسے تمام عناصر کو لگام دیں اور حماس کی مذمت بھی کریں۔ اسی دن یونی ورسٹی آف پنسلوینیا نے ایک بیان کے ذریعے حماس کے حملے کو دہشت گردی قرار دیا۔

نیویارک ٹائمز کے مطابق ہاورڈ یونی ورسٹی کے ایک بڑے ڈونر سیٹاڈِل کمپنی کے سی ای او کینتھ گرفن، جو خود ہاورڈ گریجویٹ ہے، نے ابھی تک ہاورڈ کو نصف بلین سے زائد رقم ڈونیشن دی ہے اور رواں سال 300 ملین ڈالر دینے کا وعدہ کیا تھا۔ جب یونی ورسٹی میں اسرائیلی حملے کی خلاف مہم چلی تو اس نے یونی ورسٹی بورڈ کے سربراہ کوٹ کال کرکے اسرائیل کے حق میں بیان جاری کرنے کا مطالبہ کیا۔

اسی طرح طلبہ کے اس احتجاجی مہم کے نتیجے میں کوانٹم پیسیفک گروپ کے مالک اسرائیلی ارب پتی ایڈان اوفر اور اس کی اہلیہ بٹیا ہاورڈ کے کینیڈی سکول آف گورنمنٹ کے ایگزیکٹو بورڈ میں اپنے عہدوں سے مستعفی ہو گئے۔ انہوں نے ملٹی ملین ڈالر کی ڈونیشن بھی واپس لے لی۔

اسی دوران بعض لوگوں کی طرف سے ایسے بیانات بھی سامنے آئے کہ اس مہم کا حصہ بننے والوں کو کہیں بھی ملازمت نہیں ملنی چاہیے۔ مثال کے طور پر ہیج فنڈ کے مینیجر بل اک مین نے ہاورڈ یونی ورسٹی کی انتظامیہ سے مطالبہ کیا کہ وہ اس مہم میں شریک ہونے والے طلبہ کے نام کی فہرست جاری کرے تاکہ کمپنیاں کہیں'نادانستہ ' انہیں نوکری نہ دیں۔ بل اک مین نے کہا کہ اگر یہ فہرست جاری ہوگئی تو ہم یقین دلاتے ہیں کہ ان طلبہ کو یقینی طور پر کہیں بھی نوکری نہیں ملے گی۔

برا ازاں 11 اکتوبر کو ہاورڈ کے کیمپس سے ایک ٹرک گزرا،  جس میں ایک ڈیجیٹل بل بورڈ پر اس مہم میں شریک ہونے والے طلبہ کے نام اور تصویریں ظاہر کرنے کا دعویٰ کیا گیا، سکرین پر ان طلبہ کی تصویر نام کے ساتھ شو ہو رہی تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ کچھ اور ویب سائٹ نے بھی ان طلبہ کی نشان دہی کا دعویٰ کرکے فہرستیں جاری کیں۔

اس کے نتیجے میں ڈیوس پولک اینڈ وارڈ ویل نامی لا فرم نے 17 اکتوبر کو Insider  کو خبر دی کہ اس نے کولمبیا اور ہاورڈ یونی ورسٹی کے تین طلبہ کو اس مہم میں ملوث ہونے کی وجہ سے ملازمت کی پیشکش منسوخ کردی۔

اسی طرح بین الاقوامی قانون کے ایک فرم، ونسٹن اینڈ سٹران، نے نیو یارک لا سکول کے ایک طالب علم کی ملازمت کی پیشکش اس وجہ سے منسوخ کردی کہ اس نے سٹوڈنٹ بار ایسوسی ایشن کے نیوز لیٹر میں فلسطین کے حق اور اسرائیل کے خلاف ایک 'اشتعال انگیز' تبصرہ شائع کیا تھا۔

26 اکتوبر کو امریکی ریاست فلوریڈا کے ریبلیکن گورنر کی انتظامیہ نے پوری ریاست کی یونی ورسٹیوں  میں فلسطین کے حق میں ہونے والے مظاہروں پر پابندی لگانے کا حکم دیا، اس جنگ کے دوران یہ پہلی امریکی ریاست تھی جس نے ریاستی سطح پر یونی ورسٹیوں میں فلسطین کے حق میں ہر قسم کے احتجاج پر پابندی لگائی۔

تاہم ابھی بھی کئی یونی ورسٹیوں میں سخت پابندیوں کے باوجود احتجاجی مظاہرے ہو رہے ہیں۔  یونی ورسٹی آف کیلیفورنیا لاس اینجلس کے جسٹس فار پلسٹائن چیپٹر کے درجنوں طلبہ نے جمعرات کو فلسطین کے حق میں ریلی نکالی، ان ہی طلبہ کو کئی دنوں سے ہراساں کیا گیا اور ان پر حملوں کی کوششیں کی گئیں۔

ان احتجاجی مظاہروں میں کولمبیا یونی ورسٹی بھی پیش پیش ہے۔ کولمبیا یونی ورسٹی کے طلبہ نے مختلف میڈیا فورم کو بتایا ہے کہ ان کے احتجاج کے نتیجے میں یونی ورسٹی کی انتظامیہ کی جانب سے سخت رد عمل کا سامنا ہے اور انھیں مختلف طریقوں سے ہراساں کیا جا رہا ہے۔

کئی یونی ورسٹیوں کو صرف اس وجہ سے مشکلات کا سامنا ہے کہ ان کے ڈونرز کا کہنا ہے کہ حماس کے حملے کی 'خاطر خواہ' مذمت نہیں کی گئی۔ اس میں یونیورسٹی آف پنسلوینیا  بھی شامل ہے، جس کے کئی صف اول کے ڈونزر مالی مدد سے دستبردار ہوگئے ہیں۔

سٹینفورڈ یونی ورسٹی میں جنگ کے ابتدائی دنوں سے طلبہ مظاہرے کر رہے ہیں۔ ان ہی دنوں یونی ورسٹی میں ایک عرب طالب علم کو ایک کار نے ٹکر ماری جس  سے وہ جان سے بھی جان سکتا تھا۔ ایک اور طالب علم نے میڈل ایسٹ آئیز کو بتایا کہ اس کو قتل کی دھمکیاں مل رہی ہیں ۔

ڈونرر کے دباؤ کے علاوہ بائڈن انتظامیہ اور امریکی سینیٹ خود ان مظاہروں کو روکنے کےلیے متحرک ہیں۔ 30  اکتوبر کو بائڈن انتظامیہ نے امریکی یونی ورسٹیوں میں 'یہود دشمنی' سے نمٹنے کےلیے محکمہ انصاف، محکمہ ہوم لینڈ سیکورٹی، اور محکمہ تعلیم کو تحقیقات کے لیے کیمپس کے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ معاونت کرنے کی ہدایت کی۔

امریکی سینیٹ نے 26 اکتوبر کو ایک قرارداد منظور کی، جس میں متعدد یونی ورسٹیوں کے نام لے کر بتایا گیا کہ وہ 'یہود دشمنی'کا ارتکاب کر رہی ہیں اور   یہودیوں کی نسل کشی اسرائیلی ریاست کے خلاف تشدد کو پروان چھڑا رہی ہیں، جس سے امریکی یہودیوں کو کئی خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔ سینیٹ نے 'یہود دشمنی' پر مبنی ان مظاہروں کی سخت مذمت بھی کی۔

فلسطین کے حق میں ہونے والے ان مظاہروں سے طلبہ کو کئی خطرات اور مشکلات کا سامنا ہے۔ یونی ورسٹیوں کے اندر انھیں ہراساں کیا جا رہا ہے، ان کے کیرئیر کو ابھی سے خطرے میں ڈالا  جا رہا ہے۔ انھیں قتل کی دھمکیاں مل رہی ہیں۔ ابھی دن 26 نومبر کو امریکی ریاست ورمونٹ میں تین فلسطینی طلبہ کو گولیاں ماریں گئیں، ان کی حالت بہت تشویش ناک ہے۔ ان سب مشکلات اور پابندیوں کے باوجود فلسطین کے حق میں یونی ورسٹی طلبہ کی ایکٹیو ازم میں کمی نہیں بلکہ دن بہ دن بڑھ رہی ہیں۔ اسی وجہ سے اب طلبہ کو اسرائیل کے حق میں بولنے کےلیے طرح طرح کی پیشکشیں کی جارہی ہیں کہ جو اسرائیل کے حق میں ہونے والے مظاہرے میں شریک ہوگا، اسے ایک احتجاج کے بدلے میں اتنے ڈالر ملیں گے۔ مختلف سکالر شپس آفر ہورہے ہیں تاکہ فلسطین کےلیے ہونے والے مظاہروں کا حجم کیا جاسکے۔


حالات و مشاہدات

(دسمبر ۲۰۲۳ء)

تلاش

Flag Counter