تلخیص وترجمہ: مولانا مدثر جمال تونسوی
(مارچ ۲۰۱۴ء میں دبئی میں شیخ عبد اللہ بن بیہ حفظہ اللہ اور اور امیر عبد اللہ بن زاید کے زیر اہتمام قیام امن کے موضوع پر منعقدہ کانفرنس میں کیے گئے خطاب کے اہم نکات۔)
1۔ میری گفتگو عدم اطاعت کے عنوان سے ہوگی کیوں کہ کانفرنس کے عنوان میں یہ پہلو بھی شامل ہے اور دوسری بات یہ ہے کہ اطاعت کے وجوب اور اثبات کے موضوع کو مفتی مصر شیخ احمد شوقی علام حفظہ اللہ تعالی نے تفصیل سے بیان فرمادیا ہے۔
2۔ عصرحاضر کی بڑی مشکل یہی عدم طاعت ہے یعنی مسلم معاشروں اور مسلم ملکوں میں حکمرانوں کی اطاعت نہ کرنے کا رجحان زیادہ ہے اور اسی سے مشکلات بڑھ رہی ہیں۔
3۔ اس سلسلے میں قرآن و سنت کی بعض نصوص کو غلط طور پر بیان کیا جارہا ہے اور ان کے ذریعے سے حکمرانوں کی اطاعت کی سرے سے نفی کی جارہی ہے، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ حکمرانوں کی طاعت واجب ہے اگرچہ مباح کام میں ہی اس کا حکم کیوں نہ ہو ! یہاں تک کہ فقہاء نے ذکر کیا ہے کہ اگر حکمران اپنی رعایا کو کسی دن روزہ رکھنے کاحکم دے دے تو عوام پر ضروری ہوگا کہ اس دن روزہ رکھیں۔
4۔ لیکن چونکہ حدیث میں لا طاعۃ فی معصیۃ (اللہ کی نافرمانی میں کسی کی اطاعت نہیں) کے الفاظ موجود ہیں، اسی طرح حدیث میں یہ بھی موجود ہے : الا ان تروا کفرا بواحا لکم فیہ من اللہ حجۃ و برھان (یعنی ایسا کھلا کفر دیکھو جس کے خلاف تمھارے پاس اللہ کی طرف سے حجت اور برہان موجود ہو) او کما قال صلی اللہ علیہ وسلم تو ان نصوص سے غلط معانی مراد لیے جاتے ہیں اور نوجوانوں کو گمراہ کیا جاتا ہے۔
5۔ یہاں حضرت مولانا اشرف علی تھانوی قدس سرہ کی ایک بات کا ذکر مناسب معلوم ہوتا ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ: حدیث: الا ان تروا کفرا بواحا۔۔۔ میں فعل رؤیت بغیر کسی واسطے کے متعدی بیک مفعول ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ اس رؤیت سے مراد رؤیت عینی ہے، رؤیت اجتہادیہ نہیں ہے۔ یعنی جب تم اپنی آنکھوں سے بغیر کسی شک وشبہ اور بغیر کسی اجتہاد اور اختلاف کے دیکھ لو کہ وہ کفر ہے تو وہی کفر بواح ہوگا۔ لیکن اگر وہ ایسا معاملہ ہے جو اجتہاد اور غور و فکر کا محل ہے تو وہ کفر بواح میں داخل نہیں ہوگا۔
6۔ اسی لیے تقریبا تمام علماء کا اتفاق ہے کہ اسلامی حکومتوں کے خلاف مسلح خروج جائز نہیں ہے۔ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں : فقہاء کرام کا اس بات پر اجماع ہے کہ بزور و قوت تخت حکومت پر براجمان ہوجانے والے کی طاعت واجب ہے بلکہ اس کی طاعت اس کے خلاف خروج کرنے سے بہتر ہے، کیوں کہ اسی میں مسلمانوں کے خون کی حفاظت اورمصیبتوں سے چھٹکارا ہے۔
7۔آج اکثر اسلامی ملکوں میں جو مسئلہ ہمیں درپیش ہے، وہ یہ ہے کہ متعدد انتہا پسند جماعتیں اسی مسلح بغاوت کے رخ پر چل پڑی ہیں اور بعض نصوص سے اپنے اس مسلح خروج کو تائید پہنچاتی ہیں۔
8۔ چنانچہ اس مشکل سے نکلنے کے لیے یہ کافی نہیں کہ ہم محض یہ مقالات پڑھ کر سنادیں یا محض انہیں وعظ کہہ دیں بلکہ اس مشکل کے حقیقی حل کی طرف توجہ دینا ہوگی اور یہ دیکھنا ہوگا کہ یہ مسئلہ پیدا کیوں ہوا ؟
9۔ وہ حقیقی سبب جس کی وجہ سے ہمارے نوجوانوں کو دھوکہ میں ڈال میں دیا جاتا ہے، یہ ہے کہ اس وقت الحمد للہ یہ امت اسلامی بیداری کی طرف سفر کر رہی ہے اور نوجوان یہ چاہتے ہیں کہ وہ خالص اسلامی بنیادوں پر اپنی زندگی گزاریں، لیکن جب وہ گھروں سے نکلتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ باہر کی زندگی میں عملی طور پر مسلم معاشرے میں جو کچھ ہو رہا ہے، وہ ان حقائق کے بالکل مخالف ہے جو کچھ ہم نے قرآن و سنت میں پڑھا ہے۔ یہ سب دیکھ کر ان کے دلوں میں ایک سخت غم و غصہ پیدا ہوتا ہے۔ بعد ازاں ان نوجوانوں کی اسی کیفیت سے بعض انتہا پسند رہنما فائدہ اٹھاتے ہیں۔ پھر ان میں سے بعض تو اپنے نظریات ہی کی وجہ سے انتہا پسند ہوتے ہیں اور بعض کے بارے میں یہ بھی امکان ہوتا ہے کہ وہ دشمنان اسلام کی طرف سے مسلمانوں کی صفوں میں داخل کیے گئے ایجنٹ ہوں۔
10۔ الغرض وہ اس طرح نوجوانوں کو ورغلاتے ہیں۔ مثلاً ان سے کہتے ہیں : اے نوجوانو ! دیکھو قرآن یہ کہہ رہا ہے: وَمَن لَّمْ یَحْکُم بِمَا أَنزَلَ اللّٰہُ فَأُوْلَئِکَ ہُمُ الْکَافِرُونَ (المائدۃ 44) ، وَمَن لَّمْ یَحْکُم بِمَا أَنزَلَ اللّٰہُ فَأُوْلَئِکَ ہُمُ الْفَاسِقُونَ (المائدۃ 47)، وَمَن لَّمْ یَحْکُم بِمَا أَنزَلَ اللّٰہُ فَأُوْلَئِکَ ہُمُ الظَّالِمُونَ (المائدۃ 45) اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے یوں فرمایا ہے : میرے بعد کچھ ایسے حکمران آئیں گے جو ان کے جھوٹ پر ان کی تصدیق کرے گا اور ان کے ظلم پر ان کی اعانت کرے گا تو وہ مجھ سے نہیں ہوگا اور نہ مجھے اس سے کچھ تعلق ہوگا۔
11۔ یہ وہ نصوص ہیں جن کی بنیاد پر سادہ لوح نوجوانوں کو ورغلایا جاتا ہے۔ چنانچہ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس مشکل کا حل کیا ہے ؟ اور اس سلسلے میں ہمیں بالکل کھل پر اس کی وضاحت کرنا ہوگی۔ اس کے لیے فقط یہ کافی نہیں کہ اس طرح کا کوئی اجتماع رکھ لیا جائے اور اس میں وہ آیات واحادیث پڑھ دی جائیں جن میں امن و سلامتی کی تاکید ہے اور جو حکمران کی اطاعت کو ضروری قرار دیتی ہیں، بلکہ اس مشکل کے حل کے لیے دو نکات پر توجہ دینا لازمی اور ضروری ہے :
پہلا نکتہ : ہم اپنے اجتماعات، اپنے جامعات اور اپنے مدارس میں محض امن و سلامتی کی ضرورت کے بیان پر اکتفا نہ کریں بلکہ ضروری ہے کہ ہم ان نصوص کی وضاحت کریں جن سے وہ انتہا پسند استدلال کرتے ہیں اور ان کے فہم کی تردید کریں اور جب ہم باہمی بحث و مباحثہ کی بات کرتے ہیں تو وہ صرف غیر مسلموں کے ساتھ نہیں ہونی چاہیے بلکہ ان انتہا پسند جماعتوں کے ساتھ بھی ہونا چاہیے جن کی ہم مذمت کرتے ہیں۔ اعتدال پسندوں اور انتہا پسندوں کے مابین مکالمہ سنجیدہ علمی بنیادوں پر ٹھنڈے دل و دماغ کے ساتھ ہونا چاہیے اور اس میں ہمیں یہ کوشش کرنی چاہیے کہ ان نصوص کا صحیح محمل بیان کیا جائے جن سے وہ لوگ استدلال کرتے ہیں۔ مثلاً قرآنی آیت : وَمَن لَّمْ یَحْکُم بِمَا أَنزَلَ اللّٰہُ فَأُوْلَئِکَ ہُمُ الْکَافِرُون کا محمل کیا ہے؟ اسی طرح حدیث : لا طاعۃ فی معصیۃ کا کیا مطلب ہے؟ اگرچہ بعض نوجوان عملی طور پر منحرف ہیں، لیکن وہ اپنے دین کے لیے مخلص ہیں۔ پس جب علمی رسوخ رکھنے والے علماء کرام اور ان سادہ لوح نوجوانوں کے مابین باہمی بحث و مباحثہ ہوگا تو کچھ بعید نہیں کہ وہ حق کو تسلیم کرلیں۔ الغرض میرے نزدیک پہلی جو چیز ضروری ہے، وہ مکالمہ ہے جس کا انتظام ہمارے اجتماعات میں ، ہمارے مدارس میں اور ہماری مساجد میں ہونا چاہیے۔
12۔ دوسری بات بھی بہت وضاحت کے ساتھ کہنا چاہوں کہ جب اسلامی ممالک مغربی استعمار سے آزاد ہوئے تو اس کے بعد ان کی یہ ذمہ داری تھی کہ وہ شریعت اسلامیہ کو عملی طور پر نافذ کرنے کی طرف توجہ دیتے، کیوں کہ جب تک مغربی استعمار نے ہمارے ہاتھ روکے ہوئے تھے تو معاملہ جدا تھا، مگر جب ہم ان سے آزاد ہوگئے اور زمام اختیار ہمارے ہاتھ میں آگئی، تمام قوانین ہمارے ہاتھ میں آگئے تو ہمارے بس میں تھا کہ ہم قرآن و سنت کی بنیادوں پر قائم معاشرے کو تشکیل دیتے، مگر ایسا نہ ہوا۔ گویا کوتاہی صرف اس دوسری جانب سے نہیں ہوئی بلکہ ہم بھی کوتاہی میں پڑگئے اور ہم سے یہی کوتاہی ہوئی کہ ہم نے اپنی نسل نو کی تربیت قرآن و سنت کی بنیادوں پر نہیں کی بلکہ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہم تمام شعبہ ہائے زندگی میں مغربی افکار کے دلدادہ بن گئے۔ میں یہ تو نہیں کہتا کہ مغرب سارا کا سارا شر ہے اور نہ یہ کہتا ہوں کہ مغرب سارا کا سارا خیر ہے بلکہ اس میں شر بھی ہے اور خیر بھی ہے۔ ہم بہت سے جدید سائنسی علوم میں مغرب کے قرض دار ہیں جن میں ان سے استفادہ کیا ہے، لیکن بہرحال اس میں بہت سے شرور بھی ہیں اور ہم نے آنکھیں بند کر کے ان کی ہر چیز لے لی ہے چنانچہ یہ مغربی طرز زندگی ہمارے نوجوانوں کے دلوں میں حکومتوں اور حکمرانوں کی طرف سے بد اعتمادی اور انتہا پسندی پیدا کرتا ہے۔
خلاصہ اس دوسری بات کا یہ ہوا کہ ہم سلامتی والے راستے پر چلتے ہوئے شریعت اسلامیہ کے عملی نفاذ کی طرف گامزن ہوں اور ہمارے نوجوانوں کو اس کا احساس ہو جائے کہ حکومت اس ذمہ داری کو نبھانے کی طرف گامزن ہوچکی ہے۔ اگرچہ یہ سب تدریجی انداز سے ہی ہوگا، لیکن اگر ایسا کر لیا گیا تو مجھے یقین ہے کہ اس مکالمے کے بعد اور ان اقدامات کے بعد اس قسم کی تباہ کن تحریکات اپنی موت آپ مر جائیں گی۔ ان شاء اللہ
خلاصہ کلام یہ ہوا کہ دو بنیادی باتیں ہیں جو ہمیں اس اندرونی مشکل (مسلح بغاوت ) سے نجات دلا سکتی ہیں : ایک تو یہ کہ ان تحریکات سے متاثر ہونے والے نوجوانوں کے ساتھ سنجیدہ اور صبر آزما بحث مباحثہ کا ماحول بنایا جائے اور دوسری بات یہ ہے کہ حقیقی طور پر تمام اسلامی ممالک میں شریعت اسلامیہ کی عملی تنفیذ کے راستے پر گامزن ہوا جائے۔ واللہ سبحانہ ہو الموفق