بعض لوگ اس خوف میں مبتلا ہیں کہ 2012ء میں کچھ ہونے والا ہے۔ کچھ لوگو ں کو اس سال قیامت واقع ہوتی نظر آرہی ہے۔ بعض لوگوں کو دجال کی چاپ قریب سنائی دے رہی ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ اس سال بدی کی قوتوں کا امام’’ امریکا‘‘ قدرتی آفات وبلیات کی خوف ناک لپیٹ میں آکر سمندر برد ہوجائے گا۔ بعضوں کا خیال ہے کہ رواں سال ’’اسرائیل‘‘ صفحۂ ہستی سے مٹ جانے والا ہے۔ مغربی معاشرے اس حوالہ سے کچھ یادہ ہی خوف میں مبتلا ہیں۔ بلکہ یوں کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ اس خوف کا اصل بخار مغربی معاشرہ کو ہی چڑھا ہوا ہے۔ان کے بعض حلقوں میں یہ بات عقیدہ کی حد تک راسخ ہوچکی ہے کہ 2012ء کے دوران یہ دنیا مختلف موسمیاتی یا ماورائی تبدیلیوں کا شکار ہوکر ٹوٹ پھوٹ جائے گی اور یوں اس زمین پہ زندگی اپنے اختتام کو پہنچ جائے گی۔ مغرب کے کئی مفکر اور اسکالرزاس نکتۂ نظر کے پرزور حامی ہیں۔ اس حوالہ سے جس تاریخ کا خصوصی طور پر ذکر کیا جاتا ہے‘ وہ 21؍ دسمبر 2012ء ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت ساٹھ ہزار ویب سائٹس ایسی ہیں جہاں اس تاریخ کے بارہ میں پیشین گوئیوں پر مبنی مواد موجود ہے۔ ان میں سے بعض ویب سائٹس پر باقاعدہ ڈاؤن کاؤنٹر لگے ہوئے ہیں جن کے ذریعہ ہر لمحہ بتایا جارہا ہے کہ دنیا کس طرح لمحہ بہ لمحہ اپنے خاتمہ کی طرف محوِ سر ہے اور اس کے خاتمہ میں مزید کتنے لمحات باقی ہیں۔ اس کے علاوہ اس موضوع پر مغرب میں بے شمار کتابیں بھی لکھی جاچکی ہیں۔ مشرق میں یہ خوف مغرب سے ہی برآمد ہوکر آیا ہے۔
دلائل اور حقائق کی روشنی میں دیکھا جائے تو اس موضوع پر قلم اٹھانے والے لکھاریوں کے دعوی کے مطابق اہلِ دنیا کا یہ خوف بلاوجہ نہیں۔ ان کے مطابق اس بات کے کئی ماورائی اور سائنسی ثبوت موجود ہیں کہ 2012ء میں دنیا کے اندر کچھ غیر معمولی تغیرات اور تبدیلیاں رونما ہونے والی ہیں۔ ذیل میں ہم ان شواہد کا ایک جائزہ لیتے ہیں اور ان پہ رائے زنی کی کوشش بھی کرتے ہیں کہ آیا واقعی ان کی بنیاد پر 2012ء سے ڈرنا اور خوف کھانا درست ہے؟؟
ماورائی شواہد کے ضمن میں مختلف مذاہب کی مذہبی روایات ذکر کی جاتی ہیں‘ لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ ان مذہبی روایات میں سے بعض کے اندر تو سرے سے کوئی ایسا اشارہ ہی نہیں ملتا جس معلوم ہو کہ بنی نوع انسان کو 2012ء سے ڈرنے کی ضرورت ہے‘ بلکہ اس کے برعکس ان پیشین گوئیوں میں (مجمل الفاظ کے اندر) یہ خوش خبری اور نوید نظرآتی ہے کہ 2012 ء میں حق اور سچائی کا آفتاب طلوع ہونے والا ہے۔ مثلاً ہندومت کی روایات کے مطابق 2012ء سے حق اور صداقت کے دور کا آغاز ہونے والا ہے۔ بدھ مت کے بعض راہبوں کے مطابق ’’بدھا‘‘ کی پیشین گوئی کی روسے2012ء میں ایک سنہری دور (golden age) شروع ہونے والا ہے۔ تاہم یہودی اور عیسائی روایات کے مطابق اگرچہ 2012ء کے دوران یا اس سے پہلے دنیا کے اندر قتل وغارت ‘ خوں ریزی اور فتنہ وفساد کے کچھ واقعات رونما ہوں گے‘ مگر ان میں بھی انجامِ کار حق کے پیروکار صاف بچ جائیں گے اور منکرینِ حق پر عذابِ الہی نازل ہوگا۔ یوں اپنی اپنی روایات کی روشنی میں عیسائیوں اور یہودیوں کو بھی 2012ء سے ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے کیونکہ وہ اپنے ہی عقیدہ کے مطابق خدا کے محبوب اور لاڈلے ہیں اور ان کی اپنی روایات کے مطابق خدا اس سال اپنے فرماں برداروں کو ’’فتحِ مبین‘‘ عطا فرمائے گا۔ نہ جانے پھر مغرب اور خصوصاً امریکا میں ایسی فرمز کیوں روز بروز مقبول ہوتی جارہی ہیں جو 21؍دسمبر 2012ء کی تباہی سے بچنے کے لیے زیرِ زمین پناہ گاہیں تیار کرکے فروخت کرتی ہیں اور نہ جانے انہیں خریدار کہاں سے میسر آجاتے ہیں!رہ گئے مسلمان تو دوسرے مذاہب کی روایات پر ان کا سرے سے ایمان ہی نہیں اور ان کا اپنا مذہب اس حوالہ سے بالکل خاموش ہے۔ لہذا ان کا 2012ء سے ڈرنااور گھبرانا تو بالکل ہی کوئی معنی نہیں رکھتا۔
سائنسی انکشافات اور شواہد کے ضمن میں جن امور کا ذکر کیا جاتا ہے‘ ان میں بھی کوئی ایسا نہیں جسے اطمینان بخش ‘ حتمی اور قطعی کہا جا سکے ۔ اس سلسلہ میں مایان قوم کے کیلنڈر اور امریکی خلائی ادارے ناسا کی تحقیق کا بطورِ خاص ذکر کیا جاتا ہے۔ مایان قوم کے بارہ میں کہا جاتا ہے کہ یہ سائنسی اعتبار سے ایک انتہائی ترقی یافتہ قوم تھی۔ 2000قبل مسیح سے 250ء کے درمیان ان کا زیادہ عروج رہا۔ اس قوم نے شمسی اورقمری کیلنڈر کے علاوہ ایک کیلنڈر ’’ورلڈ ٹائم کیلنڈر‘‘ کے نام سے تیار کیا تھا۔ یہ کیلنڈر 5126 سالوں پر مشتمل تھا۔ یہ کیلنڈر مختلف سائنسی خصوصیات کا حامل تھا جو انہوں نے اپنے کائناتی مشاہدہ کی روشنی میں تیار کیا تھا۔ یہ کیلنڈر31؍اگست3114 قبل مسیح سے شروع ہوکر اب 21؍دسمبر 2012ء کو ختم ہورہا ہے۔ان کا دعوی تھا کہ 21؍دسمبر 2012ء کے بعد ہمیں اندھیرا نظر آرہا ہے۔یعنی انہوں نے دعوی کیا کہ مذکورہ تاریخ کو دنیاکی عمر مکمل ہوجائے گی۔ جو لوگ 2012ء میں دنیا کی تباہی پر مصر ہیں‘ ان کی ایک بڑی لیل یہی کیلنڈر ہے۔ ان لوگوں کا دعوی ہے کہ مایان قوم نے گذشتہ ادوار کے لیے جو پیشین گوئیاں کی تھیں‘ ان میں بھی اکثردرست ثابت ہوئی تھیں۔ موجودہ دور میں سائنسی علوم سے وابستہ بعض مغربی مفکرین جب محض اس بنیاد پر مایان کیلنڈر کو تسلیم کرنے پر اصرار کرتے ہیں کہ ماضی میں بھی مایان قوم کی بعض پیشین گوئیاں درست ثابت ہوئی تھیں تو ان پہ حیرت ہوتی ہے۔ مایان قوم کا مذکورہ کیلنڈر ایک ایسے دور میں تیار ہوا جب سائنس ظن اور تخمین کے دور سے گزر رہی تھی۔[ضمناً جان لیجئے کہ سائنس کو اپنے تاریخی ارتقاء کے اعتبار سے تین ادوار میں تقسیم کیا جاتا ہے:(۱)ظن وتخمین کا دور۔ اس دور میں کوئی بھی سائنسی نکتۂ نظر محض ظن وتخمین او راٹکل پچو کی بنیاد پر قائم کیا جاتا تھا۔(۲)تجربہ کا دور۔ جب سائنس کی باگ ڈور مسلمانوں کے ہاتھ آئی تو اب کسی بھی سائنسی نکتۂ نظر کے ثبوت کے لیے تجربہ شرط قرار پایا۔ (۳)مشاہدہ کا دور۔ جب سائنس کی زمامِ کار مغرب کے ہاتھ آئی تو اب کسی بھی سائنسی دعوی کے لیے مشاہدہ ضروری ٹھہرا۔] اب جبکہ مشاہدہ اور مائیکرو اسکوپ کا دور ہے ‘ اس دور کے اندر پتھر کے دور میں بنائے گئے کیلنڈر کا حوالہ دینا اور محض اس بنیاد پر کہ اس قوم کی بہت سی سابقہ تحقیقات درست تھیں‘ اتنا بڑا دعوی کرنا کہ 2012ء میں دنیا مکمل طورپر تباہ ہوجائے گی‘ چہ معنی دارد؟اگر واقعی ایسا کچھ ہونے والاہے تو آخر وہ ایسا کون سا ذریعہ تھا جس کی مدد سے مایان قوم کوتو ہزاروں سال پہلے پیدا ہوکر 2012ء میں واقع ہونے والے اس عظیم حادثہ کی معلومات حاصل ہوگئیں جبکہ عہدِ جدید 2012ء میں داخل ہوکر اپنی تمام تر حشرسامانیوں کے باوجود سر پہ آپہنچنے والی اس قیامت کے بارہ میں بالکل بے خبر ہے۔اگر کسی کی دس باتوں میں سے چار باتیں درست ثابت ہوجائیں تو ضروری نہیں کہ باقی چھ بھی درست ہی ہوں۔تجربہ اور مشاہدہ کی بات کرنے والے مغربی مفکر (جو خدا کا انکار بھی محض اس لیے کرتے ہیں کہ وہ نظر نہیں آتا) نہ جانے ان میں بعض کو مایان قوم کے حوالہ سے عقیدت کا ایساکیا ہیضہ ہوا ہے کہ اپنے ان سب اصولوں کو بھول گئے ہیں اور مایان قوم کے کیلنڈر پرمن وعن ایمان لے آنا ضروری خیال کرتے ہیں۔
سائنسی شواہد کے ضمن میں جو دوسرا ’’معتبر نام‘‘ لیا جاتا ہے‘ وہ امریکی خلائی ادارے ’’ناسا‘‘ کا ہے۔ اس سلسلہ میں ’’ناسا‘‘ کی طرف بہت کچھ منسوب کیا جاتا ہے‘ مگر میں نے خود’’ناسا‘‘ کی ویب سائٹ پر اس حوالہ سے جو کچھ دیکھا‘ اس کی ایک جھلک آپ بھی ملاحظہ فرمائیں۔ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے لکھا گیا ہے کہ:
Nothing bad will happen to the Earth in 2012. Our planet has been getting along just fine for more than 4 billion years, and credible scientists worldwide know of no threat associated with 2012.
’’2012ء میں دنیا کے اندر کوئی برا واقعہ پیش نہیں آئے گا۔ ہمارا سیارہ چار ارب سال سے زیادہ عرصہ کے لیے بالکل فٹ فاٹ ہے۔ معتبر سائنس دان 2012ء میں پوری دنیا کو لاحق کسی بھی خطرہ کے بارہ میں کچھ نہیں جانتے۔‘‘
یہ اقتباس اور 2012ء کے بے بنیاد خوف سے متعلق دیگرتمام تفصیلات NASA کی سرکاری ویب سائٹ پر ملاحظہ کرنے کے لیے درج ذیل لنک پر کلک کریں:
http://www.nasa.gov/topics/earth/features/2012.html
ایک مسلمان کا ایمان ہے کہ یہ دنیا تباہ ہونے کے لیے بنی ہے اور ایک دن تباہ ہوکر ہی رہے گی۔ ایک صاحبِ ایمان کے نزدیک اصل مسئلہ یہ نہیں ہے کہ اس تباہی کا مقررہ وقت معلوم کیا جائے ‘ یہ تباہی تو کسی بھی وقت آسکتی ہے‘ عین اس وقت بھی کہ جب ’’ناسا‘‘ والے بالکل مطمئن اوربے خوف بیٹھے ہوں کہ ابھی چار ارب سال تک تو اس دنیا کے تباہ ہونے کے کوئی امکانات نہیں! کیونکہ یہ تباہی ناسا والوں کی نہیں ‘ اللہ کی اجازت اور مرضی سے آنی ہے جو بحر وبر کا بادشاہ اور بلا شرکتِ غیرے مالک ہے۔ اس کے ایک ہی اشارہ سے ہوائیں‘ پہاڑ‘ سمندر‘ ستارے‘ زلزلے‘ وبائیں‘ سیلاب‘ آفتیں اور سینکڑوں قسم کی بلائیں پلک جھپکتے میں اس دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے کر تہس نہس کرسکتی ہیں۔ایک مسلمان کی نگاہ میں اصل مسئلہ یہ ہونا چاہئے کہ میں نے تباہی کے اس دن کے لیے کیا تیاری کی جب ماں بیٹے کو بھول جائے گی اور اولاد والدین کو۔آسمان پھٹ پڑے گا‘ زمین میں خوف ناک زلزلے ہوں گے‘ ایسی خوف ناک اور ہیبت ناک آندھیاں چلیں گی کہ پہاڑ روئی کے گالے بن جائیں گے‘قبریں شق ہونے لگیں گی اور اندر سے مردے نکل رہے ہوں گے‘ ستارے بکھرتے ہوئے نظر آئیں گے‘سمندروں میں آگ بھڑک اٹھے گی ‘ صورِ اسرافیل کی دہشت ناک آواز کانوں کے پردے پھاڑ رہی ہوگی اور دہشت ووحشت کے اس عالم میں چھ فٹ کے انسان کو اپنی اوقات یاد آجائے گی۔تب بدحواسی اور وحشت زدگی کی حالت میں اس کی آنکھیں تن جائیں گیاور وہ سوچنے پہ مجبور ہوجائے گا کہ کیا اس نے آج کے دن کے لیے کوئی نیکیاں ذخیرہ کی تھیں یا لہو ولعب اور شغل ومستی کے اندر ہی اپنی ساری زندگی برباد کرآیا ہے۔ایک طرف شرمندگی‘افسردگی اور خوف زدگی کی خوف ناک تصویریں ہوں گی‘ جن کی کتاب ان کے بائیں ہاتھ میں پکڑائی جائے گی۔ ان کے چہرے ہیبت ناک حدتک سیاہ اور تاریک پڑجائیں گے۔ دوسری طرف کچھ کھلکھلاتے اور مسکراتے چہرے ہوں گے‘ جن کے دائیں ہاتھ میں ان کا اعمال نامہ پکڑایا جائے گا۔ خوشی اور مسرت ان کے انگ انگ سے ٹپک رہی ہوگی اور لوگ ان کو رشک بھری نگاہوں سے دیکھیں گے۔ ان کا بس نہیں چل رہا ہوگا کہ کس طرح خوشی سے چھلانگیں لگائیں اور سب محشر والوں کو بتائیں کہ انہیں کتنی بڑی کامیابی کا پروانہ مل گیا ہے۔ جب نفسانفسی کا عالم ہوگا‘ زمین دہکتا توا بن جائے گی‘ دنیا میں گزری زندگی کے پل پل کا حساب ہوگا‘ شعلے اگلتی جہنم سامنے ہوگی‘ پل صراط بڑوں بڑوں کا پتہ پانی کردے گی‘ میزانِ اعمال کے پاس عجیب مناظر ہوں گے۔ اس دن صرف وہی بچ پائے گا جسے خدا کی رحمت اپنی آغوش میں لے لے گی۔ اس رحمت کو متوجہ کرنے اور اپنا مقدر سنوارنے کا آج بہت انمول موقع اس زندگی کی صورت میں ہمارے پاس موجود ہے۔
یہ سب لفاظی نہیں‘ حقائق ہیں کیونکہ اس سب کی خبر ہمیں اس کائنات کے رب اعلی اور اس کے سچے رسول نے دی ہے ۔ جب یہ سب منظر سامنے ہوں گے تو آنکھیں حیرت اورخوف کے مارے پھٹ جائیں گی۔کیا مسلمان سچے اللہ اورسچے رسول کی ان خبروں اور تنبیہوں کو بھول گئے ہیں کہ اب مچھروں اور ڈنگروں پہ تحقیق کرنے والے سائنس دانوں سے پوچھ کر فیصلہ کریں گے کہ انہیں کس وقت ا ور کس چیز سے ڈرنا چاہئے!!! یہ جہاں تو آنی جانی چیز ہے ‘ اس نے آج نہیں تو کل مٹ ہی جانا ہے۔ یہ جی لگانے کی جگہ نہیں‘ مٹ جانا اس کا مقدر ہے۔ خدا کے فیصلے نہ مایان کیلنڈر کے پابند ہیں‘ اور نہ ہی ناسا والوں کے اٹکل پچوؤں کے۔ ہمیں 21؍ دسمبر 2012ء سے نہیں‘ ہر لمحہ اور ہر آن خدا کی گرفت سے اور اس موت سے ڈرنا چاہئے جو کسی بھی وقت ‘ کسی بھی حال میں ہماری آنکھوں کو بے نور کرسکتی ہے۔ 21؍ دسمبر سے ڈرنا انتہائی مضحکہ خیز ہے۔ فرض کیجئے کہ دنیا کی تباہی کا یہ وقت صحیح بھی ہو تو کیا ضروری ہے کہ میں 21؍دسمبر تک زندہ رہوں؟ کیا یہ ممکن نہیں کہ میں اس سے پہلے ہی اس دنیا کو چھوڑ جاؤں؟اور فرض کیجئے کہ اگر 21؍ دسمبر کو کچھ بھی غیرمعمولی واقعہ پیش نہیں آتا او ریہ دن خیروعافیت سے گزر جاتا ہے تواس میں میرے لیے خوشی کی کیا بات ہے؟ کیا میں اس کے بعد موت کے چنگل سے بچ جاؤں گا؟؟ اور اگر 21؍ دسمبر کو سب کے ساتھ ہی مرنا میرے مقدر میں لکھا ہے تو اس میں اضافی پریشانی کی کیا بات ہے ؟مرنا تو ایک دن تھا ہی ‘ اکیلے نہ سہی ‘ سب کے ساتھ سہی ۔ہمیں ہر جہت اور ہر پہلو سے اللہ کے رنگ میں رنگ جانا چاہئے اور ہر اس چیز سے ڈرنا چاہئے جس سے اس مالک الملک نے ہمیں ڈرایا ہے۔ یہی ڈرنے کی اصل باتیں ہیں۔ باقی سب خرافات ہیں۔ ان سے ڈرنا کوئی معنی نہیں رکھتا۔ افسوس کہ جس امت نے دوسروں کو یہ الوہی اور ملکوتی سبق پڑھانا تھا‘ وہ خود غیروں کی خرافات امپورٹ کرنے میں لگی ہوئی ہے اور اپنا سبق بھول گئی ہے۔
(بشکریہ روزنامہ اسلام)