۲۶ جون کو امریکہ کی سپریم کورٹ نے ایک تاریخ ساز فیصلہ دیا۔ عدالت نے شادی کے اس تصور کو یکسر بدل دیا، صدیوں سے انسان جس سے واقف تھا۔ عدالت کا کہنا ہے کہ اب دو مرد اور دو خواتین بھی ایسے ہی ’میاں بیوی‘ شمار ہوں گے، جیسے مرد اور عورت۔ اگر دو مردیا دو خواتین ایک دوسرے سے ازواجی رشتہ قائم کر نا چاہیں تو قانوناً وہ اس کا حق رکھتے ہیں۔
یہ ایک غیر معمولی فیصلہ ہے جو صرف امریکہ پر نہیں، ساری دنیا پر اثر انداز ہو گا۔ اس کے نتیجے میں تہذیبوں کا وہ تصادم امر واقعہ بن سکتا ہے، پروفیسرہنٹنگٹن نے ۱۹۹۳ء میں جس کی پیش گوئی کی تھی۔ تاہم یہ تصادم دو جغرافیائی وحدتوں کے درمیان نہیں ہوگا۔ یہ تصادم معاشرتی ہے جو مغرب کے معاشروں میں ہو گا اور مشرق میں بھی۔ پاکستان کے سوشل میڈیا پر، یہ آج کا سب سے زیادہ زیر بحث آنے والا موضوع ہے۔ نامور لوگ اس بحث کا حصہ ہیں، اس لیے میرا خیال ہے کہ اسے محض امریکی سماج کا مسئلہ قرار دے کر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ہمیں اس کا سامنا کرنا ہو گا، اس سے پہلے کہ تاریخ کا جبر ہمیں اس پہ مجبور کردے۔
ہم جنسیت ایک ایسا رویہ ہے، جس سے کوئی سماج کبھی خالی نہیں رہا۔ تاہم یہ فعل چند افراد یا ایک طبقے تک محدود رہا ہے جسے کبھی سماجی قبولیت حاصل نہیں ہو سکی۔ انسانی معاشرے کی اجتماعی بصیرت نے اسے فطرت سے انحراف قرار دیا اور یوں اسے ایک اخلاقی برائی تصور کیا گیا۔ قرآن مجید کی شہادت یہ ہے کہ سیدنا لوطؑ کی مخاطب قوم وہ پہلا’ سماج‘ ہے جس نے اسے بطور کلچر اختیار کیا۔ سیدنا لوط، سیدناابراہیم ؑ کے بھتیجے اور ان کے ہم عمر تھے۔حضرت ابراہیم کے بارے میں مورخین کیا خیال ہے کہ وہ سیدنا مسیحؑ سے دو ہزار سال قبل کے عہد سے تعلق رکھتے تھے۔ یوں کہا جا سکتا ہے کہ چار ہزار سال پہلے، اس زمین پر ایک ایساسماج مو جود تھا جہاں اس اخلاقی انحراف کو سماجی قبولیت حاصل ہوئی۔
یہ ’ سعادت ‘ پھر اب دور جدید کے مقدر میں لکھی گئی کہ ابن آدم کی ایک بڑی تعداد نے ہم جنسیت کو ایک فطری جنسی رویہ قرار دے کر بطور کلچر اسے اختیار کر لیا۔ امریکا میں یہ بحث برسوں سے جاری ہے۔ ۲۰۰۴ء میں پہلی مرتبہ میسوچیسٹس کی ریاست سے اسے قانون حیثیت دی۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے بعد ، اب یہ ریاستیں بھی پابند ہو گئی ہیں کہ مرد اور مرد کے تعلق کو نکاح قرار دیں اور اس کی قانونی حیثیت کو تسلیم کر لیں۔ اس سے پہلے یورپ کے اٹھارہ ممالک میں ہم جنس پرستوں کو یہ قانونی حق حاصل تھا۔ نیدر لینڈ پہلا ملک ہے جس نے۲۰۰۱ء میں اس عمل کو قانونی حیثیت دی۔
یہ الہامی روایت اور لبرل ازم کے درمیان جاری کشمکش کا فیصلہ کن موڑ ہے۔ انسان، سماج اور زندگی کے باب میں ، جوہری طور پر دو ہی نقطہ ہائے نظر رہے ہیں۔ ایک یہ کہ انسان خدا کی ایک مخلوق ہے۔ یہ حق خدا کاہے کہ وہ اس کے مقصد حیات کا تعین کرے اور اس کے ساتھ اس کے لیے آداب زندگی بھی طے کرے۔ یہ خدا ہی ہے جس نے انسان کی فطرت کو تخلیق کیا۔ فطرت میں خیر و شر کا تصور رکھا اور پھر اس فطری تصور کی یاد دہانی کے لیے اپنے پیغمبروں کو مبعوث کیا۔ دوسرا نقطہ نظر یہ ہے کہ انسان کسی خالق کی مخلوق نہیں ۔ زندگی اصلاً ایک ارتقائی عمل ہے ۔ اس کا آغاز ایک سیل (cell)کے جاندار سے ہوا ۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ زندگی کی صورت تبدیل ہوتی گئی۔ انسان اس تبدیل شدہ حیات کا ایک ارتقائی مرحلہ ہے۔ اس کی زندگی کا نصب العین کیا ہے، اس نے جینے کے لیے کن آداب کا لحاظ رکھنا ہے، اس کا فیصلہ وہ اپنی عقل سے کرے گا۔ فطرت کسی مستقل ضابطے کی پابند نہیں ہے۔ یہ خارجی عوامل سے متاثر ہوتی ہے اور یوں اس کے مطالبات تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔
مغرب میں جن سماجی علوم کو فروغ ملا ہے، وہ اس لبرل روایت کے تحت آگے بڑھے ہیں۔جدید انتھروپالوجی اور علمِ نفسیات ہم جنسیت کو ایک فطری رویہ قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ انسان پیدائشی طور پر اس رجحان کے ساتھ جنم لیتا ہے۔ جیسے پیدائشی طور پر کوئی صنف مخالف کی کشش محسوس کرتا۔ اسی طرح سماجی عوامل ہیں جو اسے فروغ دیتے ہیں۔ دو نوں حوالوں سے اسے ایک فطری رویہ ہی سمجھنا چاہیے۔علمِ نفسیات پہلے اسے ایک سماجی مرض قرار دیتا تھا۔آج وہ اسے فطری رویہ کہتا ہے۔الہامی یا مذہبی روایت میں ہم جنس پرستی کو اخلاقی مسئلہ سمجھا گیا ہے۔یہی سبب ہے کہ نہ صرف ابراہیمی بلکہ دوسرے ادیان بھی اسے قبول نہیں کرتے۔مسیحیت یا یہودیت میں بھی شادی کو مر و زن ہی کا تعلق کہا گیا ہے۔اس سے انحراف،مذاہب کے نزدیک اخلاقی جرم ہے۔
امریکی سپریم کورٹ کے اس فیصلے سے خود امریکہ میں جاری اس بحث میں شدت آگئی ہے۔ الہامی روایت پر یقین رکھنے والے اسے ماننے کے لیے تیار نہیں۔یہ بحث اب یہاں نہیں رکے گی۔لوگ اب کہنے لگے ہیں کہ شادی کی یہ تعریف یہاں تک کیوں محدودرکھی جائے۔اس کے بعد توگروپ سیکس یا تعدرِ ازواج کو بھی قانونی حیثیت حاصل ہو نی چاہیے۔یہ تہذیبی کشمکش اب آگے بڑھے گی۔تاہم اس کی فریقین کا تعین ویسے نہیں ہوگا جیسے ہنٹنگٹن نے کیا یا ہمارے ہاں بعض لوگ کرتے ہیں۔
یہ اسلام اور مغرب کے مابین کشمکش نہیں ہے۔یہ الہامی روایت کو ماننے والوں اور لبرل اقدار کے علم برداروں کے درمیان ہے۔عالمگیریت کے زیرِ اثرآج ہم ایک ایسے تمدن میں جی رہے ہیں جس کی ایک خصوصیت کثیر المدنیت(pluralism) ہے۔دونوں روایات کو ماننے والے ہر سماج میں موجود ہیں۔ یوں یہ کشمکش مغرب کے سماج میں ہونی ہے اورمشرق کے معاشروں میں بھی۔میرے نزدیک اس میں یہودی،مسیحی اور مسلمان ایک طرف کھڑے ہیں اگر وہ اپنی اپنی مذہبی روایت کو مانتے ہیں۔دوسری طرف وہ سب لوگ ہیں جو کسی الہامی روایت کے بجائے،لبرل ازم کے قائل ہیں۔
ہماری سماجی روایت جوہری طور پر الہامی روایت ہے۔ہمارے نزدیک ہم جنسیت فطرت سے انحراف ہے اور یوں ایک اخلاقی مسئلہ ہے۔یہ ممکن ہے کہ بعض افراد میں اس کی نوعیت ایک مرض کی ہو۔مریض کو علاج کی ضرورت ہوتی ہے۔ معاملہ اخلاقی ہو تو پھر اس کا حل تعلیم و تربیت اور ایک مرحلے میں سزا ہے۔ہمیں اگر اپنی نئی نسل کو اس اخلاقی انحراف سے بچا نا ہے تو سب سے پہلے ہمیں یہ معرکہ استدلال اور علم کے میدان میں سر کرنا ہے۔ مثال کے طور پر اگر علمِ نفسیات اسے فطری رویہ قرار دیتا ہے توہمیں اس علم کے بنیادی مسلمات کو چیلنج کر نا ہے۔ہمیں بتا نا ہے کہ کیسے یہ علم لبرل اقدار کے زیرِ اثر پروان چڑھا ہے اور یوں غیر اقداری(value free) نہیں ہے۔ ہمیں اس کے جواب میں اس علم کو نئی بنیادیں فراہم کر نا ہوں گی جو مسلمات کہلانے کی مستحق قرار پائیں۔وحی کا علم اس باب میں ہمیں جو راہنمائی دیتا ہے، ہمیں اسے علمی مسلمہ کے طور پر لوگوں کے سامنے رکھنا ہے۔
امریکی سپریم کورٹ کا فیصلہ تاریخ ساز ہے۔دنیا کا کوئی معاشرہ اب اس کے اثرات سے محفوظ نہیں رہے گا۔ پاکستان میں ۱۹۹۸ء سے ہم جنسیت کی ایک زیرِ زمین تحریک مو جود ہے۔میرا خیال ہے کہ اس کی سماجی قبولیت کے لیے اب آوازیں بلند ہوں گی۔اگر ہمیں اپنی سماجی اقدار پر اصرار ہے تو ہمیں ابھی سے پیش بندی کرنی ہے۔یہ کام غصے، گالیوں اور جذباتی استحصال سے نہیں ہوگا۔میں عرض کر چکا کہ ہمیں پہلے یہ مقدمہ علم اور استدلال کے حضور میں پیش کر نا ہے۔نئی نسل کو ہم بالجبر کسی رویے کو قبول کرنے پر آ مادہ نہیں کر سکتے۔
طبری اور مسلم تاریخ
ایک محترم کالم نگار نے ،چند دن پہلے،ابن جریر طبری کے بارے میں دادِ تحقیق دی ہے۔
طبری مسلم تاریخ کے سب سے مستند مورخ شمار کیے جاتے ہیں۔کالم نگار کو اس سے اتفاق نہیں۔ان کی معروف ترین تصنیف ’’تاریخ الامم والملوک ‘‘ کے بارے میں اُن کا تبصرہ ہے کہ ’’جس کتاب کو بازاری قصوں کی کتاب ہو نا چاہیے تھا،اسے مستند ترین تاریخ سمجھ کر یورپ نے پیش کیا‘‘۔یہی نہیں ’’طبری نے اپنے ذھن کی غلاظت کو تاریخ کی چاشنی بنا کر پیش کیا‘‘۔ کالم نگار کے خیال میں یہ متشرقین ہیں جنہوں نے طبری جیسے ساقط الاعتبار شخص کومستند مورخ قرار دیااوریوں ’’مغرب کے سیکولرانہیں ہتھیار بنا کر، ہم پر حملہ آور ہوتے ہیں‘‘۔
کالم میں دومقدمات قائم کی گئے ہیں۔ ایک یہ کہ طبری مسلم تاریخ کی ناقابل ذکر اور ناپسندیدہ شخصیت ہیں۔’’عباسی خلفا کے دور میں لوگ نفرت کے طور پرگزرتے ہوئے،ان کے گھر پر پتھر پھینکا کرتے تھے۔‘‘دوسرا یہ کہ انہیں اعتباراہلِ مغرب اورمستشرقین نے دیا اور اس سے ان کا مقصد مسلم تاریخ کو داغ دار کر نا تھا۔علم کی عدالت میں، یہ دونوں مقدمات ثابت نہیں ہیں۔
ابن جریر طبری مسلم اہل علم کے ہاں غیر معمولی قدرو منزلت کے حامل سمجھے جاتے ہیں۔تفسیر، علمِ حدیث اور تاریخ کے باب میں انہیں سند ما نا جا تا ہے۔مو لا نا سید ابو الاعلیٰ مودودی نے ان کے بارے میں اہلِ علم کی آرا جمع کر دی ہیں۔تاریخ کے باب میں خود مو لانا جس مورخ پر سب سے زیادہ اعتبار کرتے ہیں، وہ یہی طبری ہیں۔’خلافت و ملوکیت‘ کا سب سے بڑا ماخذ’تاریخ الامم والملوک‘ ہے۔مو لا نا لکھتے ہیں:’’۔۔۔ ابن جریر طبری ہیں جن کی جلالتِ قدر بحیثیت مفسر،محدث،فقیہہ اور مؤرخ مسلم ہے۔ علم اورتقویٰ دونوں لحاظ سے ان کا مرتبہ نہایت بلند تھا۔ ان کو فقہا کا عہدہ پیش کیا گیا اور انہوں نے انکار کر دیا۔ دیوان المظالم کی صدارت پیش کی گئی اور اس کو بھی انہوں نے قبول نہ کیا۔ امام ابنِ حُزَیمہ ان کے متعلق کہتے ہیں’’میں اس وقت روئے زمین پران سے بڑے کسی عالم کونہیں جانتا‘‘۔ ابن کثیر کہتے ہیں’’وہ کتاب و سنت کے علم اور اس کے مطابق عمل کے لحاظ سے آئمہ اسلام میں سے تھے‘‘۔ ابن حجر کہتے ہیں’’ وہ بڑے اور قابلِ اعتماد ائمہ میں سے تھے‘‘۔ خطیب بغدادی کہتے ہیں’’وہ آئمہ علما میں سے ہیں۔ ان کے قول پر فیصلہ کیا جاتا ہے اور ان کی رائے کی طرف رجوع کیا جاتا ہے کیونکہ وہ اپنے علم و فضل کے لحاظ سے اس لائق ہیں۔علوم میں ان کی جامعیت ایسی تھی کہ ان کے ہم عصروں میں کوئی ان کا شریک نہ تھا‘‘۔ ابن الاثیر کہتے ہیں۔’’ابوجعفر تاریخ نگاروں میں سب سے زیادہ بھروسے کے لائق ہیں۔‘‘ حدیث میں وہ خود محدث مانے جاتے ہیں۔فقہ میں وہ خود ایک مستقل مجتہد تھے اور ان کا مذہب اہل السُّنہ کے مذاہب ہی میں شمار ہوتا تھا۔ تاریخ میں کون ہے جس نے ان پر اعتماد نہیں کیا ہے۔ خصوصیت کے ساتھ دورِ فتنہ کی تاریخ کے معاملہ میں تو محققین انہی کی آراپر زیادہ بھروسہ کرتے ہیں۔۔۔۔ابن خلدون بھی جنگ جمل کے واقعات بیان کرنے کے بعد آخر میں لکھتے ہیں کہ میں نے واقعات کا یہ ملخص دوسرے مؤرخین کو چھوڑ کر طبری کی تاریخ سے نکا لا ہے کیونکہ وہ زیادہ قابلِ اعتماد ہے اور ان خرابیوں سے پاک ہے جو ابن قتیبہ اور دوسرے مؤرخین کی کتا بوں میں پائی جاتی ہیں‘‘۔(خلافت و ملوکیت،صفحہ۳۱۲،۳۱۳)۔
تاریخ کے باب میں انہوں نے کچھ واقعات ایسے نقل کیے ہیں، جن کی بنیاد پربعض ناقدین نے انہیں شیعہ قرار دیا۔مو لا نا مو دودی کو اس سے اتفاق نہیں ہے۔ وہ لکھتے ہیں ؛’’امام ابنِ تیمیہ کے بارے میں سب جانتے ہیں کہ جس شخص میں شیعیت کی بُو بھی ہو، وہ اسے معاف نہیں کرتے مگر محمد بن جریر طبری کی تفسیر کے متعلق وہ اپنے فتاویٰ میں کہتے ہیں کہ تمام متداول تفاسیر میں ان کی تفسیر صحیح ترین ہے ۔ولیس فیہ بدعۃ۔ دراصل سب سے پہلے حنابلہ نے ان پر رفض کا الزام اس غصے کی بنا پر لگایا تھا کہ وہ امام احمد بن حنبل کو صرف محدث مانتے ہیں۔ اسی وجہ سے حنبلی ان کی زندگی ہی میں ان کے دشمن ہو گئے تھے، ان کے پاس جانے سے لوگوں کوروکتے تھے اور ان کی وفات کے بعد انہوں نے مقابر مسلمین میں ان کو دفن تک نہ ہونے دیا حتیٰ کہ وہ اپنے گھر پر دفن کیے گئے۔ اس زیادتی پر امام ابنِ خزیمہ کہتے ہیں کہ ’’لقد ظلمت الحنابلہ‘‘ (صفحہ ۳۱۳) ۔
سیرت کے باب میں، مو لا نا شبلی نعمانی کی شہرہ آفاق تصنیف’سیرت النبی‘ اردو زبان کی سب سے مستند کتاب ہے۔چند دن پہلے جامعہ الازہرکے استاذ ڈاکٹر یوسف عامر پاکستان تشریف لائے۔ میری ان سے ملاقاتیں رہیں۔انہوں نے بتا یا کہ اس کتاب کے عربی ترجمے کاشرف انہیں حاصل ہوا ہے۔شبلی نے اس کتاب کے مقدمے میں اپنے ماخذات کا ذکر کیا ہے۔ان میں طبری بھی شامل ہیں۔’امام طبری اور سیرت‘ کے تحت شبلی لکھتے ہیں: ’’ تاریخی سلسلہ میں سب سے جامع اور مفصل کتاب امام طبری کی تاریخ کبیرہے۔طبری اس درجہ کے شخص ہیں کہ تمام محدثین ان کے فضل وکمال،وثوق اور وسعتِ علم کے معترف ہیں۔ان کی تفسیر احسن التفاسیر خیال کی جاتی ہے‘‘۔(صفحہ ۲۷)
طبری کے بارے میں یہ اس امت کے جلیل القدر اہلِ علم کی گواہی ہے۔کوئی ذی شعور یہ نہیں کہہ سکتا کہ شبلی یا مو لا نا مودودی مستشرقین کے زیرِ اثر تھے۔شبلی تو وہ ہیں ،تاریخ جن کا مو ضوع تھا۔انہوں نے تو اس جھاڑ جھنکاڑ کو صاف کیا جو بعض مستشرقین نے مسلم تاریخ کے باب میں پھیلا دیا تھا۔ان معتبرشہادتوں کے بعد اس مقدمے کی حیثیت واضح ہو جاتی ہے کہ طبری اہلِ مغرب کی کسی سازش کاعنوان ہے۔یہ الگ بات ہے کہ طبری کی ہر روایت کو ہم بلاتنقید قبول نہیں کر سکتے۔طبری ہی کیا،اس امت نے تو امام بخاری جیسے عظیم المرتبت لوگوں کی روایت بھی بلاتنقید قبول نہیں کی۔کیا لوگوں نے بخاری کی روایات پر جرح نہیں کی؟ تاہم امام بخاری کی کسی روایت کو رد کردینے سے وہ بحیثیت مجموعی ساقط الاعتبار نہیں ہوجا تے۔یہی معاملہ طبری کا بھی ہے۔
تاریخ فی الجملہ رطب و یابس کو مجموعہ ہے۔یوں بھی مورخ کا کام تنقیح نہیں ہوتا۔وہ تو واقعات کو جمع کردیتا ہے اور حسبِ توفیق ردو وقبول کو فیصلہ کرتا ہے۔یہی سبب ہے کہ تاریخ دین کا ماخذ نہیں ہے۔دین محکمات پر کھڑا ہے جو عقل و نقل کے ہر پیمانے پر پورا اترتے ہیں۔سیرتِ پاک اور صحابہ دین کا حصہ ہیں۔ان کے باب میں تاریخ پر انحصار نہیں کیا جا ئے گا۔ان مو ضوعات پر تاریخ کی وہی شہادت قبول کی جائے گی جو دین کے ماخذ قرآن اور سنت پر پورا اترتی ہے۔محتاط مستشرقین بھی یہی کرتے ہیں۔منٹگمری واٹ نے بھی اپنے ماخذات کو بیان کیا ہے۔ان میں پہلا ماخذ قرآن، پھر حدیث اور اس کے بعد طبری ہیں۔سب مستشرقین کے بارے میں یہ بات بھی درست نہیں کہ وہ قرآن و سنت سے استنباط نہیں کرتے۔میرا تاثر ہے کہ ان علوم میں بھی جو کام مستشرقین نے کیا ہے یا مغرب کے اداروں میں ہوا ہے،اس کی کوئی نظیر مسلم دنیا میں کم ہی ملے گی۔میکگل یونیورسٹی نے اسلام پر تحقیق کے لیے جو کڑا علمی معیار مقرر کیا ہے،مسلم دنیا میں اس کے مثل کوئی ادارہ مو جود نہیں ہے۔
مخالفین سازش کرتے ہیں لیکن اپنی ہر خرابی کا سبب خارج میں تلاش کرنا ایک نفسیاتی عارضہ ہے۔بطور قوم ہم سب سے زیادہ اس کا شکار ہیں۔طبری کو مطعون کرتے ہوئے، اسے مستشرقین کی سازش قرار دینا بھی اسی مرض کا اظہار ہے۔
(بشکریہ روزنامہ ’’دنیا‘‘ لاہور)