میڈیا کا محاذ اور ہماری ذمہ داریاں

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

۲۳ جنوری ۲۰۱۲ء کو پریس کلب لاہور میں ایک سیمینار میں شرکت کا موقع ملا جس میں جناب امجد اسلام امجد، جسٹس (ر) نذیر غازی، جناب اوریاہ مقبول جان اور دیگر ممتاز دانش ور بھی شریک تھے۔ سیمینار میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ناموس و حرمت کے حوالہ سے بنائی جانے والی ایک فلم زیر بحث تھی اور اس فلم کا ایک حصہ شرکاء کو دکھایا گیا، میں نے اس موقع پر جو گزارشات پیش کیں ان کا خلاصہ نذر قارئین ہے۔ 

بعد الحمد والصلوٰۃ ! اس فلم کے حوالہ سے دو پہلوؤں پر تو کچھ عرض نہیں کر سکوں گا۔ ایک اس کا فنی اور تکنیکی پہلو ہے جس کے بارے میں کوئی تبصرہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوں، اس لیے کہ میں اس فن سے واقف نہیں ہوں اور نہ ہی اس کا ذوق رکھتا ہوں۔ دوسرا پہلو جواز اور عدمِ جواز کی بحث کا ہے، اس کے بارے میں بھی کوئی بات نہیں کہہ سکوں گا؛ اس لیے کہ یہ مفتیان کرام کا کام ہے اور میں مفتی نہیں ہوں۔ چنانچہ نہ تو اس سلسلہ میں کوئی فتویٰ دوں گا اور نہ ہی کسی فتوے سے اختلاف کرنا چاہوں گا۔ البتہ ایک اور پہلو سے کچھ معروضات پیش کروں گا اور وہ ہے ضرورت کا پہلو۔ 

چونکہ میں خود بھی اس محاذ کا آدمی ہوں، اس لیے محاذ کی ضروریات اور تقاضوں کی طرف توجہ دلانا ضروری سمجھوں گا۔ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب جنگ احزاب سے فارغ ہوئے تو آپ نے مسجد نبویؐ میں ایک اعلان فرمایا کہ اب قریشیوں کو ہمارے خلاف جنگ کے لیے یہاں آنے کی ہمت نہیں ہوگی، اب جب بھی جائیں گے ہم ہی جائیں گے۔ دوسری بات یہ فرمائی کہ اب یہ ہمارے خلاف زبان کی جنگ لڑیں گے اور خطابت و شاعری کا محاذ گرم کریں گے، اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت کا بازار گرم کریں گے، پروپیگنڈہ کریں گے، کردار کشی کریں گے اور عرب قبائل کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکائیں گے۔ یہ فرما کر جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرامؓ سے پوچھا کہ اس جنگ میں کون آگے بڑھے گا؟ اس موقع پر تین انصاری صحابیؓ حضرت حسان بن ثابتؓ، حضرت کعب بن مالکؓ اور حضرت عبد اللہ بن رواحہؓ کھڑے ہوئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ! یہ جنگ ہم لڑیں گے۔ چنانچہ ان تینوں نے شاعری کے محاذ پر جبکہ ایک اور انصاری صحابی حضرت ثابت بن قیسؓ نے خطابت کے محاذ پر یہ جنگ لڑی اور اس شان سے لڑی کہ حضرت حسان بن ثابتؓ مسجد نبویؐ میں منبر پر کھڑے ہو کر کفار کے ادبی حملوں کا جواب دیا کرتے تھے اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدحت کے ساتھ ساتھ اسلام کی خوبیاں بیان کرتے تھے جبکہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سامنے بیٹھے انہیں داد بھی دیتے تھے اور ان کے لیے دعا بھی فرماتے تھے۔ 

اسی طرح یہ واقعہ بھی بخاری شریف میں مذکور ہے کہ عمرۃ القضا کے موقع پر حضرت عبد اللہ بن رواحہؓ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی کی مہار پکڑے جب مکہ مکرمہ میں داخل ہو رہے تھے تو احرام باندھے ہوئے تلبیہ پڑھنے کی بجائے رزمیہ اشعار پڑھتے جا رہے تھے۔ حضرت عمرؓ نے انہیں اس سے رک جانے کے لیے اشارہ کیا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں آواز دی کہ دعہ یا عمرؓ عمر! اسے پڑھنے دو؛ اس کے اشعار تمہارے تیروں سے زیادہ کافروں کے سینوں میں نشانے پر لگ رہے ہیں۔ 

اس کے ساتھ یہ واقعہ بھی تاریخ کا حصہ ہے کہ بنو تمیم کا وفد جب مدینہ منورہ آیا تو انہوں نے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو شعر و خطابت میں مقابلہ کی دعوت دے دی جو جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبول فرمائی۔ اس کے لیے باقاعدہ مجلس بپا ہوئی جس میں بنو تمیم کے شاعر و خطیب نے اپنی خطابت اور شاعری کے جوہر دکھائے جس کے جواب میں حضرت ثابت بن قیسؓ نے خطابت اور حضرت حسان بن ثابتؓ نے شاعری میں اسلام کی دعوت اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدحت و تعارف پر بات کی، چنانچہ ان کی برتری کو تسلیم کرتے ہوئے بنو تمیم نے اسلام قبول کرنے کا اعلان کر دیا۔ 

اس لیے ایک بات تو میں یہ عرض کروں گا کہ شعر و خطابت اس دور میں ابلاغ کے موثر ترین ذرائع تھے جنہیں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نظر انداز نہیں کیا بلکہ بھرپور طریقہ سے استعمال کیا، آج اس کا دائرہ وسیع ہوگیا ہے اور ابلاغ کے دیگر موثر ترین ذرائع بھی سامنے آگئے ہیں جنہیں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اور ہمیں اسلام کی دعوت اور دفاع دونوں کے لیے ان کا بھرپور استعمال کرنا چاہیے۔ دوسری بات یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ حالت امن اور حالت جنگ کے قوانین میں فرق ہوتا ہے، بہت سی باتیں جو حالت امن میں درست نہیں ہوتیں مگر حالت جنگ میں انہیں مجبورًا اختیار کرنا پڑتا ہے۔ ایک شخص محاذ جنگ پر دشمن کے سامنے کھڑا ہے تو اسے یہ دیکھنا ہے کہ دشمن کے ہاتھ میں کون سا ہتھیار ہے اور وہ اس کے مقابلہ میں کون سا ہتھیار اختیار کر کے دشمن کو زیر کر سکتا ہے، اگر وہ ایسا نہیں کرے گا تو دشمن کا مقابلہ نہیں کر سکے گا۔ اس کی مثال عرض کروں گا کہ ایٹم بم کو اسلام کی جنگی اخلاقیات کی رو سے ایک جائز ہتھیار قرار نہیں دیا جا سکتا، اس لیے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ اور جہاد کے جو تقاضے اور دائرے بیان فرمائے ہیں کہ عورت کو قتل نہیں کرنا، بوڑھے کو قتل نہیں کرنا، غیر متعلقہ شخص کو قتل نہیں کرنا، بچے کو قتل نہیں کرنا اور دشمن کے اموال اور ملکیتوں کو بلا وجہ نقصان نہیں پہنچانا وغیرہ۔ ایٹم بم کے استعمال میں ان میں سے کسی بات کا لحاظ نہیں رکھا جا سکتا، اس لیے میری طالب علمانہ رائے میں اگر جنگ میں اسلامی اخلاقیات کا لحاظ رکھا جائے تو ایٹم بم ایک جائز ہتھیار نہیں ہے، لیکن ہم سب ایٹم بم کے بنانے پر زور دیتے ہیں اور ہم نے ایٹمی صلاحیت حاصل کی ہے اس لیے کہ جب دشمن کے پاس یہ ہتھیار موجود ہے تو ہمارے پاس اس کا موجود ہونا ضروری ہے ورنہ ہم دشمن سے مار کھا جائیں گے۔ اسے اضطراری حالت کہا جا سکتا ہے کہ جس طرح حالتِ اضطرار میں جان بچانے کے لیے حرام کھانا جائز ہوجاتا ہے اسی طرح حالت جنگ میں جان بچانے کے لیے ایسے ہتھیار کا استعمال جائز بلکہ ضروری ہو جاتا ہے جو اسلامی اصولوں کی رو سے شاید جائز ہتھیار نہ ہو۔ 

میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ جس طرح ہتھیاروں کی جنگ ہے اسی طرح میڈیا کی جنگ بھی ہے بلکہ آج کے دور میں میڈیا کی جنگ کا دائرہ ہتھیاروں کی جنگ سے زیادہ وسیع ہے اور میڈیا ہتھیار سے زیادہ دشمن پر اثر انداز ہوتا ہے۔ اس لیے جہاں ابلاغ کے ذرائع کا وقت کی ضرورت کے مطابق استعمال ضروری ہے وہاں اضطرار اور حالت جنگ کے تقاضوں کو ملحوظ رکھنا بھی ہماری ذمہ داری ہے۔ آج عالمی سطح پر جس طرح ’’میڈیا وار‘‘ جاری ہے اور اسلام، جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ناموس و حرمت اور اسلامی تعلیمات و روایات جس طرح بین الاقوامی پروپیگنڈے اور کردار کشی کے ہتھیاروں کی زد میں ہیں، اس کے پیش نظر ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ اس ’’میڈیا وار‘‘ کو نظر انداز کرنے کی بجائے اس میں پوری قوت کے ساتھ شریک ہوں اور اسی طرح اس میں حصہ لیں جس طرح غزوۂ خندق کے بعد ذرائع ابلاغ، ادب و خطابت اور شاعری کی جنگ میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نامور صحابہ کرام حضرت حسان بن ثابتؓ، حضرت کعب بن مالکؓ، حضرت عبد اللہ بن رواحہؓ اور حضرت ثابت بن قیسؓ نے کردار ادا کیا تھا۔ 

حالات و مشاہدات

(فروری ۲۰۱۳ء)

تلاش

Flag Counter