جدید دنیا کے تعلیمی اداروں، فکری رہنماؤں، دانشوروں، قلمکاروں اور صحافیوں پر اس مغربی ابلیسی تہذیب کا ایسا سحر طاری ہے کہ اس عریانیت وفحاشی پر مبنی ’’فلم انڈسٹری‘‘کے خلاف اگر کبھی کوئی آواز اٹھتی ہے تو ابلیسی سحر میں گرفتار یہ دانشور،قلمکار اور صحافی انسانیت کی دشمن اس ابلیسی پروگرام کو منوانے کے لیے میدان میں نکل کھڑے ہوتے ہیں اور انسان کی تخریبی صلاحیتوں کو ابھارنے والی اس شیطانی موسیقی اور فلم انڈسٹری کو فن، آرٹ اور تخلیقی صلاحیت کا نام دے کر اسے منوانا چاہتے ہیں اور جو اس پر تنقید کرے اوراس شیطانی انڈسٹری کو فروغ دینے والوں پر تنقید کرے تو ہمارے یہ صحافی اور دانشور اسے آڑے ہاتھوں لیتے ہیں اور ایسے افراد پر مبنی پوری قوم کو’’بیمار قوم‘‘ کا نام دے کر پوری قوم کے منہ پر طمانچے رسید کرتے ہیں۔
جاوید چودھری صاحب۷؍اگست ۲۰۱۲ء کے روزنامہ ایکسپریس کے کالم کا خلاصہ یہ ہے کہ ساری دنیا گلوکاروں، موسیقاروں، فلم سازوں، اداکاروں اور تصویرسازوں کو عزت و احترام دے رہی ہے اور انہیں ڈالروں میں تول رہی ہے، جبکہ اس کے برعکس پاکستانی معاشرہ ابھی تک فلم سٹارز کو احترام اور عزت دینے کے لیے بھی تیار نہیں ہے۔چنانچہ اپنے کالم کے کلائمکس میں فرماتے ہیں:
’’دنیا وہاں جارہی ہے اور ہم ۱۲۰۲ میں یہ بحث کر رہے ہیں ہمارے میڈیا نے راجیش کھنہ کو سارا دن کوریج کیوں دی؟ راجیش کھنہ اداکار تھا، اداکاری سولائزیشن اور تہذیب کی علامت ہے اور مہذب معاشرے راجیش کھنہ جیسی علامتوں کو عزت دیتے ہیں۔‘‘
ندامت اور شرمندگی کا بدترین مقام یہ ہے کہ ایک مسلمان ملک کے میڈیا کے طور پر ہمارے ذرائع ابلاغ کو جو سب سے بڑا افسوس کرنا چاہیے تھا کہ ’’آج ایک اورصلاحیتوں سے مالا مال غیرمسلم اپنی صلاحیتوں کو گمراہی اور بے حیائی کی اشاعت میں خرچ کرتے کرتے ایمان کے دولت سے محروم دنیا سے چلا گیا اور ابدی زندگی میں ہمیشہ ہمیش کی دوزخ اس کامقدر ہوگئی۔ہم مسلمانوں سے بہت بڑی کوتاہی ہوئی کہ ہم نے اسلام اور ایمان کی دولت اس تک پہنچانے میں مجرمانہ غفلت کا ارتکاب کیا،اے کاش! اگر ہم اسے ایمان اور اسلام کی دولت سے ہمکنار کرپاتے تو اس مرنے والے کی غیرمعمولی صلاحیتیں بے حیائی اور بے مقصدیت کی اشاعت کی بجائے حیا اور اعلیٰ مقاصد پھیلانے میں خرچ ہونے لگ جاتیں‘‘۔بجائے یہ افسوس کرنے کے ہم نے دنیا میں شیطانی فلم انڈسٹری کے اس ایک ورکر(راجیش کھنہ) کو ایک ہیرو،ایک بہت بڑی تخلیقی شخصیت بناکر اس کے عریانی اور فحاشی پر مبنی گانے بار بار قوم کو دکھائے۔اگر اس پر قوم کے چند افراد کی طرف سے تنقید کی گئی توقوم کے ان افراد کے شکر گزار ہونے کی بجائے ’’فن اور آرٹ‘‘ کے گمراہ کن الفاظ کی آڑ میں ہمارے یہ محترم صحافی انہیں ’’بیمار قوم‘‘ کا لقب دے کر اپنے مجرمانہ کردار کو چھپانے کو شش کررہے ہیں۔ ہمارے اس طاقتورطبقہ کی ڈھٹائی ملاحظہ فرمایے کہ یہ ناپاکی اور عریانی کے ایک بہت بڑے پروموٹراور مبلغ فلمی اداکار کی طبعی موت پر اس کی فلموں کے جنسی ہوس اور بوس و کنار پر مبنی جھلکیاں بار بارقوم کو دکھا کر اسے ایک ہیرو کے طور پر منوانے کی ناپاک کوشش کرتا ہے مگر عین انہی لمحوں میں برما میں سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں کمزور،نہتے اور مظلوم مسلمانوں کو کیڑے مکوڑوں کی طرح موت کی طرف دھکیلا جاتا ہے، لیکن ابلیسی تہذیب سے ہم آہنگ ہمارا یہ طاقتور میڈیا اتنے بڑے انسانی المیے کی معمولی سی بھنک اورخبر بھی ناظرین تک نہیں پہنچنے دیتا۔
وہ قوم جس میں ہرروزامریکہ کے ظالمانہ ڈرون حملوں کے نتیجے میں سینکڑوں افراد بے گناہ قتل کا نشانہ بن رہے ہیں۔۔۔ وہ قوم جس کی بے گناہ اور معصوم بیٹی عافیہ کو تہذیب اور تمدن کے نمائندہ و علمبردار امریکہ نے تاریخ انسانی کے بدترین ظلم و تشدد کانشانہ بنایاہوا ہے ۔۔۔وہ قوم جس میں امریکی استعمار کی مخالفت پر کمربستہ جید اور بالغ النظر عالم دین مفتی نظام الدین شامزئی شہید کردیے جاتے ہیں۔۔۔وہ قوم جس میں مولانا اسلم شیخوپوری جیسے انسانیت کے سچے خیر خواہ اور مدرس قرآن دن دیہاڑے شہیدکردیے جاتے ہیں۔۔۔وہ قوم جس میں غیر معمولی قوت بیان اور منطق کی صلاحیتوں کے حامل ڈاکٹر اسرار احمد جیسے مدرس قرآن ۔۔۔اورغیرمعمولی تعمیری و تخلیقی صلاحیتوں سے مالا مال عظیم استاد اور علم کا ہمالیہ ڈاکٹر محمود احمد غازی انتقال کرتے ہیں تو میڈیا کو جیسے سانپ سونگھ جاتا ہے، لیکن یہی میڈیاانسانیت دشمن شیطانی تہذیب کے ایک اہم ادارے ’’فلم انڈسٹری‘‘ کے ایک ورکر کی موت پر اسے ایک ہیرو بنا کر اس کی فلموں کے گندے اور ناپاک سین پر مبنی جھلکیاں قوم کو بار بار دکھاتاہے اور خاموش لفظوں میں یہ مطالبہ کرتا ہے کہ شیطان کے ان پیروکاروں کو اپنا ہیرو اور آئیڈیل بناؤ۔اس پر ایک مسلمان ملک کے میڈیا کے اس مجرمانہ طرزعمل پر قوم کے چند افراد تنقید کرتے ہیں تو ہمارے جاوید چودھری صاحب جیسے صحافی ’’بیمار قوم‘‘ کی لٹھ لے کر ان کے پیچھے پڑ جاتے ہیں اور اپنے قلم کی تلوار کی نوک قوم کی پیٹھ میں چبھاکرمطالبہ کرتے ہیں کہ چونکہ ساری دنیا فلم انڈسٹری کے اداکاروں کو عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھتی ہے اس لیے تم بھی انہیں وہی عزت دو جو عزت انہیں خدا بیزار اورمشرکانہ وملحد دنیا میں حاصل ہے۔ یہ مطالبہ کرتے وقت یہ صحافی اپنے اسلام اور اپنے ایمان کو پرانے کپڑے کی طرح اتار کر ایک طرف رکھ دیتے ہیں اور الحاد(سیکولرزم) کا جدید اور نظر کو خیرہ کردینے والا لباس پہن کراپنی قوم کو ’’بیمار قوم‘‘ کی گالی دینے کے بعدقوم کی بیماری کا علاج یہ تجویز کرتے ہیں کہ گندگی، فحاشی، عریانیت اور گناہ کے علمبرداروں کو آرٹسٹ،فنکار اور تخلیق کار کا نام دے کر انسانی معاشروں میں عزت و احترام کا جو بلند ترین مقام ہوسکتا ہے وہ انہیں عطا کردیاجائے۔
مہذب دنیا اور سولائزیشن کی دہائی دے کرفکری سطح پر برائی اور غلامانہ ذہنیت کی دعوت دیتے وقت ہمارے یہ محترم صحافی بھول جاتے ہیں کہ فن، آرٹ اور تخلیقی صلاحیت کا اظہار اگر گناہ کو پھیلانے، فحاشی و عریانی اور تشدد و خون خرابے پر مبنی فلم انڈسٹری کی ترقی کے لیے استعمال ہوتوایسا فن اور آرٹ شیطانی آرٹ کہلایاجائے گا، ایسی تخلیقی صلاحیت برائی اور بگاڑ کو خوبصورت بناکر پیش کرنے کی وجہ سے درحقیقت ایک خوفناک تخریبی عناصرکا مجموعہ ہونے کی وجہ سے حوصلہ شکنی، پابندی اور ممنوع قرار دیے جانے کی مستحق ہے۔ہمارے یہ صحافی حضرات یہ بات بھی شاید جان بوجھ کر بھول جاتے ہیں کہ صرف اسی صورت میں فن، آرٹ اور تخلیقی صلاحیت کو عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھا جائے گا، جب یہ فن، آرٹ اور تخلیقی صلاحیت دنیا میں روحانیت، انسانیت، خلوص، محبت، وفا، ہمدردی، خیرخواہی اور پاکیزگی و طہارت کے فروغ کے لیے استعمال کی جائے گی۔دنیا میں اچھائی ،انصاف اور سچ کے علمبردار بھی فن، آرٹ اور تخلیقی صلاحیت سے مالا مال رہے ہیں اور برائی، ظلم اور جھوٹ کے علمبردار بھی ’’انسان‘‘ ہونے کی وجہ سے ان صلاحیتوں کے حامل رہے ہیں۔ اسلام فن، آرٹ اور تخلیقی صلاحیت کے پہلی قسم کے استعمال کی حوصلہ افزائی کرتا ہے اور اسے عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھتا ہے جبکہ دوسری قسم کے استعمال کا خاتمہ کرنا اسلام کا مقصود اور اس کا مشن ہے ۔مذہب کے خلاف پانچ سو سالہ محنت کے نتیجے میں جدید تہذیب اور جدید دنیا میں آج برائی، ظلم اور جھوٹ اور بے حیائی کے علمبردار انسان ہی کے فن، آرٹ اور تخلیقی صلاحیت کو سلام کیاجاتا ہے اور اسے عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔جبکہ دوسری طرف پاکیزگی، حیا، امن، سچائی، وفا، خلوص اور انسانی ہمدردی کے فروغ کے لیے آرٹ، فن اور تخلیقی صلاحیتوں کا استعمال انتہائی کمیاب ہی نہیں بلکہ نایاب نظر آتا ہے۔
عام طور پر چھوٹی سکرین یعنی ٹی وی کو بڑی سکرین یعنی سینما (فلم) کے مقابلے میں بہت ہی صاف ستھرا قسم کا حامل ادارہ سمجھاجاتا ہے۔ لہٰذا چھوٹی سکرین کے اداکار اکثر ان خیالات کا اظہار کرتے رہتے ہیں کہ بڑی سکرین (فلم انڈسٹری) گناہ اور بدکاری (اسکینڈل)کے مواقعوں سے اس حد تک بھرچکی ہے کہ وہ اس کی طرف جانے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ٹی وی اور فلم انڈسٹری کے اس فرق کو ذہن میں رکھیے اور پھر آئیے دیکھیے کہ امریکہ کے ایک نہایت ناموراور مقبول مصنف سٹیفن آرکووے اپنی شہرہ آفاق کتاب The 7 Habits of Highly Effective Families میں ٹی وی کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟ وہ لکھتے ہیں کہ:
’’یہ سچ ہے کہ ٹی وی کے بیشمار فوائد بھی ہیں جن میں اچھی معلومات اور پرلطف تفریح شامل ہے تاہم ہمارے اور اہلخانہ کے لیے اس میں نقصان کا پہلو زیادہ ہے۔ ٹی وی سے مثبت شے تلاش کرنا ایسے ہی ہے جیسے آپ کوڑے کے ڈھیر میں سلاد کے لیے پتے ڈھونڈ رہے ہوں۔ ہوسکتا ہے آپ انہیں ڈھونڈ لیں تاہم اس دوران آپ کا جس قدر گندگی اور مکھیوں سے واسطہ پڑے گا اس کا آپ بخوبی تصور کرسکتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔امریکہ میں ہونے والے ایک سروے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ وہاں کے 90فیصد لوگ اخلاقی انحطاط کا شکار ہورہے ہیں اور 62فیصد افراد کا خیال ہے کہ اس میں ٹی وی کا سب سے بڑا ہاتھ ہے۔‘‘
غور کیجئے جب ٹی وی کے بارے میں مغربی دنیا کے ایک غیرمسلم منصف مزاج دانشورکی یہ رائے ہے تو پھر فلم انڈسٹری اور فلمی دنیااخلاق و حیا کے لیے کس حد تک تباہ کن ثابت ہوئی ہے، اس کا اندازہ بخوبی لگایاجاسکتا ہے۔
اسلام ایسی حیا باختہ اور ناپاک تہذیب کا سب سے بڑا مخالف ہے اور اسے انسانیت کے لیے تباہی و بربادی کا سبب سمجھتا ہے، لہٰذا ایسی لعنتی تہذیب جس میں بے حیائی، عریانی، فحاشی اور بے مقصدیت کو پھیلانے والی اداکاری کو معاشرے میں عزت واحترام کی علامت سمجھا جاتا ہو، کسی صورت برداشت نہیں کرتا۔مفکر پاکستان علامہ محمد اقبال نے اسی تہذیب کو فساد (دہشت گردی)قرار دیتے ہوئے فرمایا تھا:
فسادِ قلب و نظر ہے فرنگ کی تہذیب
کہ روح اس مدنیت کی رہ نہ سکی عفیف
رہے نہ روح میں پاکیزگی تو ہے ناپید
ضمیر پاک، خیال بلند، ذوق لطیف
اسی ناپاک تہذیب کے بارے میں حکیم مشرق فرماتے ہیں:
اہل نظر ہیں یورپ سے نومید
کہ ان امتوں کے باطن نہیں پاک
اسی تہذیب کاگہرا ادراک اور واضح شعوررکھنے والے علامہ محمد اقبال اپنی نظم ’’ابلیس کی عرضداشت‘‘میں ابلیس کا مکالمہ ان الفاظ میں پیش کرتے ہیں :
ناپاک جسے کہتی تھی مشرق کی شریعت
مغرب کے فقہیوں کا یہ فتویٰ ہے کہ ہے پاک!
اور پھر اس نظم کا اختتام ان الفاظ میں کرتے ہیں:
جمہور کے ابلیس ہیں ارباب سیاست
باقی نہیں اب میری ضرورت تہ افلاک!
ابلیس کہہ رہا کہ عصرحاضر کی تہذیب کے ذریعے سے ہر معاشرے کے انسانوں میں سے بڑے بڑے شیطان ان کی سیاسی زندگی پر قابض ہیں، لہٰذا اب آسمان کے نیچے میری ضرورت باقی نہیں رہی۔یہ ہے آج کی سولائزڈ دنیا اور تہذیب جس کی دہائی دے کر ہمارے صحافی ہمیں ناپاک علامتوں کا احترام کرنے کی تلقین کررہے ہیں۔
اس میں شک نہیں کہ اپنے کامل دین کی کامل تعلیمات کی پیروی نہ کرنے اورسر تا پا گناہوں میں ڈوبے ہونے کی وجہ سے پاکستانی قوم ایک ’’بیمار قوم‘‘ بن چکی ہے۔لیکن اس ’’بیمار قوم‘‘ کا ضمیر اور تحت الشعور زندہ ہونے کی یہ ایک علامت ہے کہ وہ سر تاپیر برائی میں ڈوبی ہونے کے باوجود بہرحال برائی کو برائی سمجھ رہی ہے۔۔۔گناہ کو گناہ سمجھتی ہے۔۔۔ظلم کو ظلم ہی سمجھتی ہے۔بجائے اس کے کہ قوم میں ایمان کی اس بجھتی ہوئی آگ میں سے اس بچھی کھچی چنگاریوں کو کام میں لاکر ذرائع ابلاغ کے مقدس پیشہ سے وابستہ صحافی قوم کا ایمان اور اس کی مرتی ہوئی اقدار کو زندہ کرنے کی کوشش کرتے ۔بجائے قوم کی بیماری کا یہ درست علاج کرنے کے اس بیمارقوم کے طاقتور صحافی فکری اور روحانی سطح پر اجتماعی خودکشی کی دعوت دیے چلے جارہے ہیں کہ یہ قوم گناہ اور ظلم کو برائی سمجھنا ہی چھوڑ دے، بلکہ وہ عریانی وبے حیائی کو عزت و احترام کی نظر سے دیکھنا شروع کردے۔فکری سطح پر موت کی اس دعوت کوہمارے یہ صحافی عین حیات قرار دے رہے ہیں۔جناب عالی!اگر یہ قوم گناہ کو گناہ سمجھ رہی ہے، ظلم اور ناانصافی کو ظلم ہی کہہ رہی ہے، گناہ کی فلمی دنیا کے اداکاروں کو عزت دینے سے انکار کررہی ہے تو یہ شعوری یا لاشعور ی سطح پرنبی اکرمﷺ کی اس نصیحت پر عمل کررہی ہے کہ ایمان کا کمزورترین درجہ برائی کو دل سے برا سمجھنا ہے۔اپنے عظیم رسول ﷺ کے اس حکم کی وجہ سے، کہ ’’اگر کوئی برائی کو دل سے بھی برا نہ سمجھے تو اس کے سینے میں ایک ذرہ کے برابر بھی ایمان نہیں‘‘ ، اس بیمار قوم کا اجتماعی ذہن بدترین زوال کا شکار ہونے کے باوجود ظلم کو ظلم سمجھ رہا ہے، فلمی دنیا کے ناپاک کرداروں کو عزت و احترام دینے سے انکار کررہا ہے۔جبکہ میڈیا ناپاک فلمی دنیا کے ہندواداکاروں کے مقابلے میں دنیا بھر میں کروڑوں مسلمانوں کی جان ، مال،عزت اور آبروکو زیادہ اہمیت دینے کے لیے تیار نہیں۔کشمیر،فلسطین، چیچنیا، افغانستان، عراق اور بوسنیا اوراب برما کے کمزوراورنہتے مسلمانوں پر عالمی دہشت گردطاقتیں اور ابلیسی تہذیب کے علمبردارغنڈے حملہ آورہیں، لیکن میڈیاکے مجرم طبقہ کی پریشانی یہ ہے کہ پاکستانی قوم برما کے مظلوم اور قتل و غارت گری کے شکار مسلمانوں کے مقابلہ میں فلمی اداکاروں کو زیادہ اہمیت اور عزت اور احترام دینے پر آمادہ نہیں ہے۔
جناب جاوید چودھری جیسی پسندیدہ شخصیت اورصحافی پر گرفت کرنا ایک تکلیف دہ فریضہ تھا ۔اس فریضہ کی ادائیگی صرف اور صرف نصح و خیرخواہی اور دینی حمیت کے جذبے کے تحت کی گئی ہے۔ہماری شدید خواہش ہے کہ ہماری معروضات ہمارے محترم صحافی کو اپنے ناپسندیدہ طرزعمل پر نظرثانی پر مجبورکردیں۔ وہ صحافی جس کی کتاب ’’زیروپوائنٹ۔1‘‘ کو ہم ان کی تخلیقی صلاحیتوں اور مثبت وتعمیری سوچ کا نقطہ عروج سمجھتے ہیں اورکچھ سال پہلے ان کی یہ کتاب پڑھ کر راقم کے دل سے شدید خواہش ابھری کہ پاکستان کے موجودہ حالات میں اس کتاب کو میٹرک کے ہر طالب علم کو مطالعہ کرانا لازم قرار دیاجانا چاہیے، لیکن افسوس ہمارے یہی محترم صحافی اپنے حالیہ متعدد کالموں میں شدید فکری واخلاقی بحران میں مبتلا نظرآتے ہیں۔اے کاش! ہماری یہ چند حقیر معروضات ہمارے اس غیرمعمولی صلاحیتوں کے حامل مسلمان صحافی کومحمد رسول اللہﷺ کی دی ہوئی تہذیب اور شریعت کی نفی کرنے والی ابلیسی تہذیب کی حیا باختہ علامتوں کے احترام کی تباہ کن سوچ ترک کرنے پر مجبور کردیں اور ان کے ذہن اور فکر کو قرآن وسیرت سے حتمی روشنی کے حصول پر آمادہ کردیں۔