ڈاکٹر قاری محمد طاہر

کل مضامین: 5

دو مرحوم بزرگوں کا تذکرہ

مفتی سید سیاح الدین کاکاخیلؒ۔ مفتی سید سیاح الدین قافلہ محدثین کی ایک فراموش شدہ شخصیت کا نام ہے۔ ان کی زندگی کا بیشتر حصہ فیصل آباد میں گزرا۔ وہ کم و بیش نصف صدی تک اسی شہر میں قال اﷲ و قال رسول کی علمی روایت کو آگے بڑھاتے رہے۔ یہاں اس بات کا تذکرہ بھی دلچسپی سے خالی نہ ہوگاکہ موجودہ فیصل آباد ہمیشہ سے فیصل آباد نہ تھا بلکہ پہلے لائل پور کہلاتا تھا۔ لائل پور سے فیصل آباد کا سفر تقریباً پون صدی میں طے ہوا۔ لائل پور کی ابتدا چناب کینال کالونی کے نام سے ہوئی۔ پنجاب یونیورسٹی لاہور کے پہلے وائس چانسلر سر جیمز براڈوڈ لائل تھے۔ انہی کے نام پر اس...

تحفظ ناموس رسالت

مولانا زاہد الراشدی بہت بالغ نظر عالم ہیں۔ ان کی نظر میں بلوغت ہی نہیں بلکہ گہرائی و گیرائی بھی ہے۔ حالات کو وسیع تناظر میں دیکھتے ہیں۔ بین السطور معاملہ پڑھ لینے کی مکمل صلاحیت رکھتے ہیں اور جلد معاملے کی تہہ تک پہنچ جانا ان کا وصف ہے۔ مولانا ناخن گرہ کشا بھی رکھتے ہیں جن کی وجہ سے بڑی بڑی پیچیدہ اور الجھی گتھیاں سلجھتی چلی جاتی ہیں۔ پچھلے دنوں آزاد کشمیر میں تھے۔ جہاں توہین قرآن کے حوالے سے حالات نازک ہو گئے۔ مولانا کی گرہ کشائی کی صلاحیت بروقت کام آئی اور معاملات کنٹرول میں آگئے۔ وگرنہ ضلعی انتظامیہ، پولیس اور دیگر لوگوں کے لیے حالات بہت...

عالم اسلام کے معروضی حالات میں اصل مسئلہ

مولانا زاہد الرشدی صاحب علم بھی ہیں اور صاحب فکر بھی اور اس کے ساتھ ساتھ صاحب قلم بھی ہیں اور صاحب لسان بھی۔ فکری راست روی کے حامل ہیں۔ ان تمام صفات کے ساتھ ساتھ ان میں فعالیت اور تحرک بھی موجود ہے۔ مولانا پچھلی دو دہائیوں سے ایک علمی و فکری ماہنامہ پابندی سے شائع کر رہے ہیں جس میں ’’کلمہ حق‘‘ کے عنوان سے کسی اچھوتے اور دلوں پر چھاتے ہوئے موضوع پر اظہار خیال کیا جاتا ہے جو قاری کو فکر کی نئی جہتیں عطا کرتا ہے اور صاحب علم کو کچھ کر گزرنے کی تحریک دے جاتا ہے۔ اسی ذیل میں اگست ۲۰۱۲ء کے الشریعہ میں انہوں نے ’’سنجیدہ اور ہوش مندانہ حکمت عملی کی...

شش ماہی ’’معارف اسلامی‘‘ (خصوصی اشاعت بیاد ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ)

ڈاکٹر محمود احمد غازی بڑی علمی شخصیت تھے۔ علمی حلقوں میں ان کا بڑا نام ہے۔ انہوں نے بہت زیادہ عمر نہیں پائی، لیکن ماہ و سال کی قلیل مدت میں انہوں نے بڑا نام کمایا۔ بہت اہم علمی آثار ورثہ کے طور پر چھوڑے جو اہل علم کے لیے روشنی کا سامان مہیا کرتے رہیں گے اور آپ کے خوان سے ہم علم کے موتی چنتے رہیں گے۔ آپ کا انتقال ۲۶ ستمبر ۲۰۱۰ء میں ہوا۔ آپ کا انتقال علمی دنیا کابہت بڑا نقصان ہے جس کی تلافی کا امکان مستقل قریب میں دور دور تک نظر نہیں آتا۔ آپ کے انتقال پر بہت سے رسائل نے اہم مضامین شائع کیے۔ ’’معارف اسلامی‘‘ اسی تسلسل کی ایک کڑی ہے جو ’’معارف...

ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ - نشانِ عظمتِ ماضی

لیجیے، ڈاکٹر محمود احمد غازی بھی عالم بقا کو سدھارے۔ ۲۶ ستمبر ان کا یوم موعود تھا جو آن پہنچا۔ اس یوم موعود کی پہلے نہ ڈاکٹر صاحب کو خبر تھی نہ کسی اور کو۔ صرف داعئ اجل ہی کو علم تھا۔ یہ بھید اسی وقت کھلا جب داعئ اجل نے دستک دے دی۔ ڈاکٹر صاحب اٹھے اورچل دیے۔ کسی کو بتانا بھی گوارا نہ کیا۔ کاش پہلے پتہ چل جاتا، لیکن اگر پہلے پتہ چل بھی جاتا تو بھی دنیا والے کیا کر لیتے۔ اس جہان میں ہر انسان تو بس بے بس ہی ہے۔ دنیا سے رخصت ہوتے ہوئے ڈاکٹر صاحب کو اپنے بچوں کی فکر تھی نہ دوست احباب کی۔ دم واپسیں بس اتنا کہا: ’’کیا نماز کا وقت ہو گیا؟‘‘ ظاہر بین لوگوں...
1-5 (5)