ارباب اقتدار اور قومی زبوں حالی

چوہدری محمد یوسف ایڈووکیٹ

چند روز قبل معروف کالم نویس جناب جاوید چوہدری کا کالم ’’ذمہ دار ‘‘نظر سے گزرا۔ موصوف نے لکھنے کا حق ادا کر دیا ہے۔ کالم کا خلاصہ یہ تھا کہ مہاتر محمد کو دل کا عارضہ لاحق ہوا۔ اس وقت وہ ملائشیا کے وزیر اعظم تھے۔ ہارٹ اٹیک میں بے ہوش ہو گئے۔ فسٹ ایڈ کے بعد تشخیصی مراحل میں طے کیا کہ ان کا بائی پاس ہو گا۔ ان کو یہ مشورہ دیا گیا کہ وہ بائی پاس کے لیے بیرون ملک جائیں۔ وہ اس پر آمادہ نہ تھے۔ ڈاکٹروں نے اپنے مشورے پر اصرار کرتے ہوئے بیرونی ملک سہولیات کا حوالہ دیا۔ جناب مہاتر محمد نے جواب میں کہا کہ وہ بیرون ملک علاج کے لیے چلے جائیں اور ان کے ملک کے لوگ علاج کی اعلیٰ سہولتوں سے محروم رہیں، یہ نہیں ہو سکتا ۔ وہ ملک میں مہیا سہولیات کے مطابق ہی اپنا علاج کرائیں گے۔ چنانچہ ان کا بائی پاس ملائشیا ہی میں ہوا۔ صحت اور زندگی تو اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو شفا دی۔ صحت یاب ہو کر انہو ں نے ملک میں صحت کے شعبے کو اتنا ترقی یافتہ بنا دیا کہ آج اس شعبہ سے ملائشیا کثیر زر مبادلہ کما رہا ہے اور دنیا بھر سے علاج کے لیے لوگ اس ملک کا رخ کرتے ہیں۔

جناب جاوید چوہدری نے اسے ایک مثال کے طور پر پیش کیا ہے۔ میں اس سلسلے میں بعض ملکی شخصیات کا حوالہ دینا چاہتا ہوں۔ خود قائد اعظم علیہ الرحمہ نے علاج کے لیے باہر جانے سے انکار کیا۔ اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ وہ خزانے پر بیرونی علاج کا بوجھ نہیں ڈالنا چاہتے تھے تو دوسری وجہ یہ تھی کہ باہر علاج کی صورت میں وہ نومولود مملکت میں اپنی ذمہ داریاں کسی دوسرے کے سپرد کر کے نہیں جانا چاہتے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ ان کے ساتھی کم بیش کھوٹے سکے ہیں۔ وہ کسی صورت یہ نہیں کر سکتے تھے کہ باہر علاج کے مزے لوٹتے رہیں اور وطن اور اہل وطن حالات کی مخدوشی میں رہیں۔ مزید وجہ یہ تھی کہ ان کی بیماری کا راز افشا ہو جاتا۔ اب تو بیماری کا ہمہ وقتی اشتہار نہ ہو تو بیمار ہونے کا کیا فائدہ۔ یہاں صورت حال یہ ہے کہ مہینوں سے علاج کے لیے باہر جا کر براجمان ہو گئے ہیں۔ ذمہ داریاں جائیں بھاڑ میں۔ فوج ضرب عضب میں پھنسی ہوئی ہے۔ چیف ایگزیکٹو علاج کی ادا کاری سی فرما رہے ہیں۔ پیچھے ان کے نالائق اور بد دیانت ساتھی ملک کے ساتھ جو کھیل کھیل رہے ہیں، لتا حیا کا قطعہ یاد نہ آئے تو کیا ہو: 

اگر ہو جنگ نفرت سے، محبت جیت جاتی ہے
دلوں میں حوصلہ کم ہو تو دہشت جیت جاتی ہے
ملن کی آرزؤں میں اگر ہو شمس سی گرمی
تو پھر فرعون بھی آئے، صداقت جیت جاتی ہے

سپریم کورٹ کے ایک سابق چیف جسٹس جناب اے کارنیلیس کا قصہ تو ابھی کل کی بات ہے۔ وہ ریٹائرمنٹ کے بعد فلیٹیز ہوٹل لاہور کے ایک کمرے میں اپنی اہلیہ کے ساتھ رہتے تھے۔ پورے ملک میں ان کا کوئی مکان نہیں تھا۔ اواخر عمر میں جب علالت نے گھیر لیا تو اں کے عظمت کردار کے پیش نظر وکلا برادری نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ ان کا سرکاری طور پر بہتر علاج کرایا جائے۔ اس طرح جب حکومت کو کچھ شرم آئی تو ایک وفد نے ہوٹل ہی میں ان سے ملاقات کی اور سرکاری اہتمام سے علاج کی پیش کش کی۔ جناب کارنیلیس کا جواب تھا کہ وہ اپنا علاج پنشن کے اندررہ کروا رہے ہیں۔ اس سے زیادہ کے وہ مکلف نہیں۔ وہ کسی طرح مملکت پر مزید بوجھ نہیں ڈالنا چاہتے۔

ہم نے اپنے مشاہیر کے ساتھ کیا کیا؟ جناب سید حسین شہید سہر وردی متحدہ بنگال کے وزیر اعلیٰ تھے۔ پاکستان بنا تو وہ مہاتما گاندھی کے ساتھ فساد زدہ علاقوں میں امن مشن میں مصروف ہو گئے۔ فارغ ہو کر واپس آنا چاہا تو خواجہ ناظم الدین نے صوبے میں ان کے داخلے پر پابندی لگا دی۔ خواجہ صاحب اس وقت پاکستانی بنگال کے وزیر اعلیٰ تھے۔ وہ خود اس مزاج کے نہ تھے۔ یقینی طور پر وزیر اعظم پاکستان جناب لیاقت علی خان کے کہنے پر پابندی کا یہ حکم جاری ہوا۔یہی نہیں، ایوب خان کے دور میں سہروردی کو جس طرح بیروت کے ہسپتال میں مروایا گیا، یہ راز بھی تاشقند کے رازوں کی طرح دفن ہو گیا۔ پھر کون نہیں جانتا کہ مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کو بھی جان سے مارا گیا۔ ایف آئی آر تک درج نہیں۔ قائد اعظم کے سیکریٹری جناب شریف الدین پیرزادہ کے بیانات موجود ہیں۔ وہ ہمیشہ مقتدر لوگوں کے چرنوں میں رہے، مگر ان کو محترمہ کی رپورٹ ابتدائی درج کروانے میں کیا دلچسپی ہو سکتی تھی۔ 

امریکہ کو فضائی اڈے نہ دینے سے انکار پر میر مصحف علی کو کس طرح حادثے کا شکار کیاگیا۔ اگر کسی میں تحقیق کی جرات ہو تو ہو سکتا ہے کہ ۲۰۰۵ کا زلزلہ بھی بین الاقوامی صنعت کاری ثابت ہو جائے۔ ہمارے وزیر اعظم جناب میاں محمد نواز شریف کی بھارت کے ساتھ دوستی غداری کی حدوں کو پہنچی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔ یہاں یہ بھی عرض کردوں کہ اپوزیشن میں بیٹھے لوگ بھی مودی سے یاری نباہنے والے موجود ہیں۔ اعتزاز احسن نے سکھوں کی لسٹیں دے کر یہی کچھ تو کیا تھا۔ ۱۹۷۰ء کے انتخابات کے نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کر کے ملک کو دوٹکڑے کرنے کا کارنامہ ایک شہید ہی نے انجام دیا تھا۔ لال مسجد آپریشن کے بعد جس طرح نیا اسلحہ رکھ کر میڈیا کو دکھایا گیا، اس جعل سازی سے فوج کی ساکھ کتنی شاندار ہوئی کہنے کی بات نہیں۔ آج کم از کم پنجاب کی حد تک سی ٹی ڈی انسداد دہشت گردی کی فرض کاریاں کر رہی ہے، شاید کبھی اس کا حساب ہو۔ 

ہمارے ہاں کیا کچھ ہو رہا ہے؟ روز کے کالم بھرے ہوئے ہیں۔ کوئی قدر، یہاں تک کہ غیرت نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہی۔ ہمارے ہاں ہسپتالوں کی صورت حال کا ذکر بھی وقت ضائع کرنے والی بات ہے۔ جب ہسپتالوں میں مریضوں کی عصمت دری ہونے لگے تو اس ملک کے مسیحاؤں کو کوئی کیا کہے۔ حکمران اب وڈیو لنک کے ذریعے اپنے فرائض منصبی اس حال میں ادا کریں کہ بیس بیس وزارتیں اپنے پاس رکھیں۔وڈیو لنک کے ذریعے صوبے اور وفاق کو چلایا جائے۔ اس سے تو اچھا تھا کہ روبوٹ سے کام لے لیا جائے۔ 

ہسپتالوں کے ذکر کے ساتھ اپنا ایک واقعہ لکھ دینا چاہتے ہیں۔ایک رات میرے جواں سال بیٹے کی طبیعت خراب ہوئی۔ وہ بے ہوش گیا۔ میں خود سائیکل پر ڈسٹرکٹ ہسپتال گوجرانوالہ پہنچا اور میرے دو بیٹے اسے بے ہوشی کی حالت میں موٹر سائیکل پر لاد کر ڈسٹرکٹ ہسپتال کے ایمرجنسی میں لے کر آئے۔ وہاں علاج شروع ہوا۔ سب سے پہلی چیز مشاہدے میں یہ بات آئی کہ بی پی ایپریٹس خراب ہے ۔ ایسی حالت میں کیا علاج ہونا تھا۔ کہنے کی ضرورت نہیں۔

اس سب کچھ کے باوجود میں مایوس نہیں۔ حالات بدل کر رہیں گے۔ یہ بھی واضح رہے کہ مکافاتِ عمل کار فرما ہے۔ اس ملک سے زیادتی کرنے والے اپنا حشر دیکھ چکے ہیں اور دیکھتے رہیں گے۔ شریفوں کے مقابلے پر ملک امیر محمد خان تو فرشتہ تھے۔ اس کے باوجود پورے ملک میں ان کی قبر موجود نہیں۔ ان کو قتل کر کے لاش کے ٹکڑے کیے گئے اور پھر دریائے سندھ میں بہا دیے گئے۔ دریائے سندھ کا پاٹ دس میل ہے، یہ کیسے ملتے۔ آج کے حکمران سمجھے ہیں اور نہ سمجھ سکتے ہیں۔ 

اس نوحہ گری کا کوئی فائدہ ہے یا نہیں، مگر میں اس پر مجبور ہوں۔ میری آرزوئیں جوان ہیں اور ان شا ء اللہ جوان رہیں گی اور پوری ہو گی۔ راشد بزمی کا یہ شعر کبھی فراموش نہیں کر سکتا۔

اقبال! تیرے تخیل کا یہ چمن بے رنگ و بو نہ ہوتا


حالات و مشاہدات

(جولائی ۲۰۱۶ء)

تلاش

Flag Counter