شاد باغ میں ایک قاری نے بارہ سالہ بچے کو اتنا مارا کہ وہ مر ہی گیا اور یہ ایک ہی جگہ ہونے والا ایک ہی واقعہ نہیں‘ ہمارے بہت سارے ’’عالم دین‘‘ اس کے لیے بدنام ہیں اور اس بدنامی کو بڑھانے میں ہمارے ہی معاشرے کے دین سے بے زار طبقے نے بھی بڑا کردار ادا کیا ہے۔ مگر کبھی یہ جاننے کی کوشش نہیں کی گئی کہ وہ ’’مولوی‘‘ جسے معاشرے میں عزت‘ وقار کا حامل ہی نہیں، اعلیٰ اخلاقی اقدار کا علم بردار بھی ہونا چاہیے، اس کا یہ رویہ کیوں ہے؟ وہ اپنے مدرسوں میں بچوں کو زنجیروں سے باندھ کر کیوں رکھتا ہے؟ جب وہ سبق پڑھا رہا ہوتا ہے تو اس کے پاس ایک موٹا ڈنڈا کیوں ہوتا ہے جس کے استعمال میں بھی اسے کچھ عار نہیں؟ شاد باغ والے واقعے میں قاری کا نام بھی محمد جمیل اور بچے کا نام بھی محمد جمیل۔ بچے کو پیٹ میں ڈنڈے اور ٹھڈے مارے گئے اور وہ بارہ دن تک کرب و اذیت کا شکار رہنے کے بعد دم توڑ گیا۔ میں جب کسی عالم دین سے بات کرتا ہوں تو وہ اس رویے کی حمایت کرتا نظر نہیں آتا۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ علامہ سرفراز نعیمی شہید کے ساتھ جامعہ نعیمیہ کے صحن میں ان کی شہادت سے قریباً ایک سال پہلے ایک محفل سجائی گئی تھی۔ میرے پیش نظر دو سوال تھے کہ ہم بچوں کو مدرسوں میں کیا ماحول دے رہے ہیں اور اس کے نتیجے میں ان مدرسوں سے فارغ التحصیل بچے ملک و قوم کو کیا لوٹا رہے ہیں؟ اس وقت دہشت گردی کا دور دورہ تھا اور کچھ عرصہ بعد جب ڈاکٹر سرفراز نعیمی نے دہشت گردی کے خلاف متفقہ فتویٰ جاری کیا تو ان کو بھی انھی کے مدرسے میں نماز جمعہ کے بعد بے دردی سے شہید کر دیا گیا۔ میں سرفراز نعیمی شہید جیسے مجاہد کی بات نہیں کرتا جو میرے پروگرام میں بھی آیا کرتے تھے تو ان کے پاس ایک پرانی سی موٹر سائیکل ہوا کرتی تھی اور ایک آدھ مرتبہ تو اس کے خراب ہونے کی وجہ سے پروگرام میں تاخیر بھی ہوئی۔ وہ خود کش حملہ آور بھی تو کسی مدرسے سے آیا ہوگا جہاں اسے بتایا گیا ہوگا کہ سرفراز نعیمی نام کا ایک شخص اپنی مسجد اور مدرسے میں بیٹھ کر ’’جہاد‘‘ کی مخالفت کر رہا ہے جو اللہ کے حکم کی مخالفت ہے اور اسلامی معاشرے کے قیام اور اس جدوجہد کی بقا ہی اس میں ہے کہ سرفراز نعیمی کو مار دیا جائے۔ مارنے والے کو یقینی طور پر بتایا گیا ہوگا کہ جیسے ہی وہ ’’جہاد کے اس منکر‘‘ کو فنا کرتے ہوئے شہید ہوگا، اسے آبِ کوثر سے لبالب بھرا پیالہ پلایا جائے گا اور جنت کی حوریں بانہیں پھیلائے اس کی منتظر ہوں گی۔ اساتذہ کرام اپنی تعلیم اور افکار کے ذریعے بچوں کے ذہنوں پر اسی طرح اثر انداز ہوتے ہیں، مگر ہم جن کو استاد بنا رہے ہوتے ہیں، دیکھنا یہ ہے کہ وہ کہاں سے آتے ہیں؟ ہم مولوی نامی جس مشین سے اپنے بچوں کی اسلام سازی کرواتے ہیں، وہ مشین کس خام مال سے اور کس فیکٹری سے تیار ہوتی ہے؟ اس پر غور کرنا بہت ضروری ہے۔ علمائے کرام مجھے بتاتے ہیں کہ پاکستان میں دینی تعلیمی اداروں یعنی مدرسوں کے انتظام و انصرام کے لیے پانچ ادارے کام کر رہے ہیں۔ ان میں دیوبندی وفاق المدارس، بریلوی تنظیم المدارس، اہل حدیث وفاق المدارس، شیعہ وفاق المدارس اور جماعت اسلامی کا وفاق المدارس شامل ہیں۔ ان اداروں سے الحاق رکھنے والے مدرسوں میں تعلیم و تدریس کے لیے باقاعدہ قواعد و ضوابط بنائے گئے ہیں۔ اس کے باوجود سینکڑوں اور ہزاروں کی تعداد میں ایسے مدارس موجود ہیں جن کا کسی بھی مکتبہ فکر کے ادارے سے باقاعدہ الحاق نہیں۔
کیا یہ امر ایک حقیقت نہیں کہ اگر آپ ایک کھاتے کماتے شخص ہیں تو آپ نے کبھی یہ نہیں سوچا ہوگا کہ آپ اپنے لخت جگر کو مولوی، امام مسجد، قاری یا عالم دین بنائیں گے؟ آپ اور آپ کی اہلیہ نے ہمیشہ بچوں کے لیے انجینئر، پائلٹ، ڈاکٹر بننے کے خواب دیکھے اور دکھائے ہوں گے۔ ہمارے پاس اس وقت مساجد کے اماموں کی صورت میں علمائے کرام کی جو کھیپ موجود ہے، وہ ایسے دور میں تیار ہوئی ہے جب اُن بچوں ہی کو مدرسوں میں بھیجا جاتا تھا جو اسکولوں میں نہ چل سکیں یا جن کے والدین کے اتنے مالی وسائل نہ ہوں کہ وہ اپنے بچوں کے کھانے اور کپڑوں کے انتظام کے ساتھ ساتھ تعلیمی اخراجات بھی برداشت کر سکیں۔ یہ مدرسے بچوں کو دینی تعلیم دینے کے ساتھ ساتھ ان کے تمام تر اخراجات بھی اٹھاتے ہیں جنہیں زکوٰۃ و صدقات سے پورا کیا جاتا ہے۔ میں نے تو دیہات بارے یہاں تک سنا ہے کہ وہاں بچوں کو ایک بالٹی دے کر نکال دیاجاتا تھا۔ یہ بچے ہر گھر جاتے اور ہر گھر سے پکا ہوا سالن اس بالٹی میں اکٹھا ہی ڈلوا کر لے آتے اور وہی ان کا کھانا ہوتا۔ ان بچوں کو زکوٰۃ و صدقات اکٹھے کرنے کے لیے بھی استعمال کیا جاتا اور اُن کو درس و تدریس کے ایسے طریقے سے عالم بنایا جاتا جس میں والدین محاورتاً ہی نہیں بلکہ واقعتاً اپنی زبان میں مولوی صاحب کو کہہ کر آتے کہ ہمارا یہ بچہ بہت شرارتی ہے، پڑھتا لکھتا بالکل نہیں۔ بس اس کو پڑھا دیں، اس کی ہڈیاں ہماری اور کھال آپ کی، یعنی پھینٹی لگانے کی کھلی ڈلی اجازت وہاں باپ دے کر آتا۔ میں سوچتا ہوں کہ ایسے بچوں کی نفسیات کیا ہوتی ہوگی جو مانگے کا کھاتے اور پہنتے، پیار نہیں مار کے فلسفے کے تحت تعلیم حاصل کرتے تھے؟ گویا معاشرے کا سب سے باعزت طبقہ تیار کرنے کے لیے ہمارے پاس جو خام مال آتا ہے، وہ سب سے کم درجے کا ہوتا ہے۔ ہم اس خام مال کو تیاری کے دوران بدترین حالات فراہم کرتے ہیں اور جب پروڈکشن سامنے آجاتی ہے تو ہم اس سے توقع کرتے ہیں کہ سب سے زیادہ بہتر اخلاق اور سماجی رویوں کی علم بردار بن جائے۔
اس طریقہ کار کے تحت بنے ہوئے مولویوں کے سامنے معاشرے کے دیگر لوگوں کی طرح سب سے بڑا مقصد تو روزگار کا حصول ہوتا ہے اور ہماری مساجد کے اماموں کی بہت بڑی اکثریت اب بھی دو ہزار سے سات آٹھ ہزار ماہانہ تک ’’تنخواہ‘‘ وصول کر رہی ہے جو اس وقت کسی مزدور کی کم سے کم تنخواہ کے برابر بھی نہیں ہے، مگر وہ مولوی اس کے جواب میں سمجھتا ہے کہ اس کی ڈیوٹی بہت زیادہ ہے۔ وہ اس تنخواہ کے لیے فجر سے عشاء تک اللہ کے نہیں، بلکہ مسجد کمیٹی اور نمازیوں کے سامنے حاضر ہوتا ہے۔ اس کے لیے چھٹی بہت مشکل ہے۔ اس کا اوورٹائم اور بونس یہی ہے کہ وہ بچوں کو پڑھا لے اور مسجد میں ویسے بھی پڑھانے کا بالعموم کچھ ادا نہیں کیا جاتا۔ گھر کی ٹیوشن سے پھر کچھ مل جاتا ہے یا پھر وہ ختم پڑھانے جاتا ہے تو کھانا، کپڑوں کا جوڑا اور دو چار سو روپے خدمت کا وصول پا لیتا ہے۔ ایک ایسا مولوی تیار ہوتا ہے جس نے مسجد ہی سنبھالنی ہوتی ہے۔ وہ بے وسیلہ اور بے مایہ ہونے کی وجہ سے بالعموم کوئی کاروبار بھی نہیں کرپاتا اور میرے جیسے عام مسلمان کی نظر میں وہ نماز اور قرآن پڑھانے کے پیسے لے کر قرآن کے اس حکم کی بھی خلاف ورزی کر رہا ہوتا ہے کہ جس میں اللہ تعالیٰ نے اپنی آیات کو تھوڑے داموں فروخت کرنے سے منع فرمایا ہے۔ وہ جس طرح مولوی بنتا، جس طرح اپنی مولویت نبھاتا ہے، وہ خود جانتا ہے یا اس کا رب جانتا ہے، مگر ہم اسے دھلے ہوئے سفید کپڑوں میں ملبوس نیکی کی تلقین کرتا ہوا ہی دیکھنا چاہتے ہیں۔ معاشرہ اس کے دامن میں پرورش سے تعلیم اور تعلیم سے جوانی تک کانٹے ہی کانٹے ڈال کر امید رکھتا ہے کہ وہ ہمارے بچوں کو پھول پیش کرے۔ ایسا کیسے ممکن ہے؟ وہ انسان ہے۔ جائیں کسی ماہر نفسیات سے پوچھیں کہ اس کے ذہن میں کیسے کیسے جوار بھاٹے اٹھتے ہوں گے۔ وہ عام نوجوانوں کی طرح سوسائٹی کو گالیاں بھی نہیں دے پاتا کہ اس کی تربیت ایسی نہیں ہوتی۔ ہاں، کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کوئی تیز ذہن کا بچہ مولوی بن جائے تو پیر بھی بن جاتا ہے اور وسائل اکٹھے کر کے بڑی بڑی گاڑیاں اور بڑی بڑی جائیدادیں بھی بنا لیتا ہے۔
ہمیں اپنے بچوں کو دین کی تعلیم دینی ہے تو پھر تعلیم دینے والوں کے حالات بہتر بنانے کے بارے بھی سوچنا ہوگا۔ محکمہ اوقاف اس سلسلے میں کچھ کردار ادا کر رہا ہے اور میں نے اپنے علاقے میں اوقاف کی ایسی مسجد بھی دیکھی ہے جہاں پارک، لائبریری، انٹرنیٹ وغیرہ کی سہولتیں فراہم کی گئی ہیں، مگر مجموعی طور پر علمائے کرام کو آپس میں سر جوڑ کر بیٹھنا ہوگا اور دیکھنا ہوگا کہ وہ ایک مولوی کو تیار کرنے کا عمل کتنا بہتر بنا سکتے ہیں۔ میں چاہے اس مولوی کے خلاف جتنا بھی بول لوں، میرا ایمان ہے کہ اسی نے میرے اسلام کو لے کر آگے جانا ہے، دور حاضر میں اسی نے مجھے نجات کا راستہ دکھانا ہے، مگر کوئی ہے جو معاشرے کی تلچھٹ کو نہیں بلکہ ’’بالائی‘‘ کو عالم دین بناتے ہوئے باعزت تعلیم اور روزگار کا مستقل نظام بنا دے، ورنہ یہ مولوی ہمارے بچوں سے معاشرے کی دی ہوئی محرومیوں کا انتقام لیتا رہے گا۔
(شہرِ یاراں ۔ روزنامہ پاکستان، ۲۴ اپریل ۲۰۱۲ء)