عالم اسلام کے معروضی حالات میں اصل مسئلہ

ڈاکٹر قاری محمد طاہر

مولانا زاہد الرشدی صاحب علم بھی ہیں اور صاحب فکر بھی اور اس کے ساتھ ساتھ صاحب قلم بھی ہیں اور صاحب لسان بھی۔ فکری راست روی کے حامل ہیں۔ ان تمام صفات کے ساتھ ساتھ ان میں فعالیت اور تحرک بھی موجود ہے۔ مولانا پچھلی دو دہائیوں سے ایک علمی و فکری ماہنامہ پابندی سے شائع کر رہے ہیں جس میں ’’کلمہ حق‘‘ کے عنوان سے کسی اچھوتے اور دلوں پر چھاتے ہوئے موضوع پر اظہار خیال کیا جاتا ہے جو قاری کو فکر کی نئی جہتیں عطا کرتا ہے اور صاحب علم کو کچھ کر گزرنے کی تحریک دے جاتا ہے۔ اسی ذیل میں اگست ۲۰۱۲ء کے الشریعہ میں انہوں نے ’’سنجیدہ اور ہوش مندانہ حکمت عملی کی ضرورت‘‘ کے عنوان سے اداریہ تحریر کیا ہے جو انتہائی فکر انگیز ہے۔ مذکورہ عنوان سے انہوں نے تین بنیادی باتوں کا تذکرہ کیا ہے:

۱۔ علمی و فکری موضوعات کے حوالے سے علماء کو دعوتِ فکر۔

۲۔ خلافت راشدہ کے بارے میں ردعمل۔

۳۔ مشرق وسطیٰ میں شیعہ سنی کشاکش کے ظاہری امکانات۔

یہ اداریہ انہوں نے مولانا زاہد حسین رشیدی کے ساتھ نجی گفتگو کے حوالے سے تحریر کیا ہے جس میں زیادہ تر بات چیت اہل تشیع اور اہل السنۃ کے مابین مسئلہ خلافت اور مسئلہ امامت کے بارے تک محدود تھی۔ زاہد الراشدی صاحب وسیع النظر اور وسیع المشرب ہیں۔ حالات کو عالمی تناظر میں دیکھتے ہیں۔ ان کی تحریر سے ہمیں تحریک ملی اور اصلی مسائل کی طرف توجہ دلانے کا حوصلہ ہوا۔ مولانا لکھتے ہیں کہ:

’’میری کوشش علماء، طلباء، مدرسین اور اصحاب فکر کو ان مسائل کی طرف توجہ دلانے کی ہوتی ہے جو امت مسلمہ کو کسی نہ کسی سطح پر درپیش ہوں، مگر ہماری عدم توجہ کی وجہ سے دوسرے علمی حلقوں میں وہ پہلے زیر بحث آجاتے ہیں جن کے نتائج فکر سے ہمیں اختلاف ہوتا ہے‘‘۔ 

مولانا نے اس حوالے سے عالم اسلام کے معروضی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے بعض مسائل کا ذکر کیا ہے۔

علمی و فکری موضوعات پر اہل علم کو دعوت فکر دینے اور اپنی رائے کا اظہار کرنے سے کسی کو انکار نہیں ہوسکتا۔ اختلافات انسانی معاشرہ کا حصہ ہیں۔ ان کا حل تلاش کرنا بھی انسانی ضرورت ہے۔ مسائل کو ماضی کے تناظر میں اور محدود دائرہ میں رکھنا مناسب نہیں بلکہ عالم اسلام کے معروضی حالات کے وسیع تناظر میں دیکھنا ضروری ہے تاکہ مستقبل کی منصوبہ بندی کے لیے صحیح سمت متعین کی جاسکے۔ نئی ایجادات، نئے ماحول نے مسائل میں بھی تنوع پیدا کر دیا ہے جس کی وجہ سے اس کی ضرورت مزید بڑھ گئی ہے۔

اس حوالے سے ہماری رائے میں اس وقت پاکستان بلکہ عالم اسلام کا اہم ترین مسئلہ راست فکر اور راست عمل قیادت کی تلاش ہے۔ اس ضمن میں اہل علم، اہل فکر، صاحب الرائے اور صائب الرائے علماء کو فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ دنیا میں پھیلے ستاون اسلامی ممالک میں اسی چیز کا فقدان ہے اور مذکورہ قیادت کی تلاش کا واضح طریق کار بھی ہمارے ہاں موجود نہیں۔ اس مسئلے کی طرف گہری اور فوری توجہ نہ دی گئی تو عام مسلمان ہی نہیں بلکہ خواص بھی تشکیک و تذبذب کا شکار ہو سکتے ہیں اور اسلام کی جامعیت اور کاملیت سے ان کا اعتماد اٹھ سکتا ہے جس کی وجہ سے دین بیزار طبقے کو یہ کہنے کا موقع بھی مل سکتا ہے کہ اسلام دورِ حاضر کے مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا یا اسلام کے پاس اپنا کوئی سیاسی نظام موجود نہیں ہے۔ اگر جلد ہی اس گزارش پر توجہ نہ دی گئی اور علماء ، اہل فکر و دانش نے اسلام میں قیادت کی تلاش کا طریقہ وضع نہ کیا ’’تو طعنہ دیں گے بت کہ مسلم کا خدا کوئی نہیں‘‘ کی کیفیت پیدا ہوسکتی ہے۔ ہندوستان کی آن جہانی وزیراعظم اندرا گاندھی کے یہ الفاظ تاریخ کا حصہ ہیں ۔ انہوں نے پاکستان کی مقدس سرزمین ڈھاکہ کے پلٹن میدان میں یہ بات علی اعلان کہی تھی کہ ’’پاکستان جس نظریہ کی بنیاد پر علیحدہ ہوا تھا، ہم نے وہ نظریہ بحر ہند میں غرق کر دیا ہے‘‘۔

دوسرا عنوان خلافتِ راشدہ کے بارے میں ردِعمل ہے۔ اس ضمن میں آپ کی رائے آپ ہی کے الفاظ میں یہ ہے:

’’خلافت راشدہ کے بارے میں میرا مشاہدہ اور تاثر یہ ہے کہ ہمارے ہاں اس کے صرف اعتقادی پہلو پر کسی حد تک بات کی جاتی ہے اور وہ اس جزوی دائرہ تک محدود رہتی ہے جس کا تعلق اہل تشیع کے ساتھ اختلاف و تنازع کے ساتھ ہوتا ہے۔ اس سے ہٹ کر ہم خلافت اور خلافتِ راشدہ کے موضوع پر سرے سے بات ہی نہیں کرتے، حالانکہ ہماری عمومی دینی ضرورت یہ ہے جو آج کے عالمی سیاسی و تہذیبی تناظر میں اور زیادہ اہمیت اختیار کر گئی ہے کہ خلافتِ راشدہ کے نظام کی سیاسی بنیادوں، خلافتِ راشدہ کے معاشرتی ماحول، خلافتِ راشدہ کے معاشی اصولوں اور طریق کار، بیت المال، رفاہی ریاست، خلافتِ راشدہ کے دور میں معاشرہ کے مختلف طبقات کو حاصل ہونے والے مذہبی ، سیاسی، معاشرتی ا ور معاشی حقوق، خلفائے راشدینؓ کے طرزِ حکومت اور ان کے طرزِ زندگی اور آج کے عالمی سیاسی، معاشرتی اور معاشی نظاموں کے ساتھ خلافتِ راشدہ کے نظام کے تقابل و تجزیہ پر کھل کر بات کی جائے‘‘۔ 

مولانا کا تجزیہ اپنی جگہ وقعت رکھتا ہے، لیکن ہمارے نزدیک یہ مسئلہ بھی صالح قیادت اور اس کی تلاش کے واضح طریق کے فقدان ہی کا نتیجہ ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ زمانہ رسالت اور کتاب و سنت کو بنیاد بنا کر ایسی تحقیق کی ضرورت ہے جس کے ذریعے ہم صالح اور باصلاحیت قیادت کی تلاش کی بنیادیں معلوم کریں۔ اس وقت پورا عالم اسلام سیاسی لحاظ سے جمہوریت ہی کو اپنا امام تصور کیے ہوئے ہے جبکہ جمہوریت قطعاً اسلامی طرز حکومت نہیں ہے، لیکن پوری دنیا میں جمہوریت کا پراپیگنڈا اس انداز سے کیا گیا ہے کہ ہمارے بڑے بڑے زعماء نے بھی جمہوریت ہی کو اسلامی طرزِ سیاست خیال کر لیا ہے اور بعض دینی جماعتوں نے تو اس کو اسلامی جمہوریت کا نام دے کر اس یہودی طرزِ سیاست کو مشرف باسلام کرنے کی کوشش کی ہے۔ جس کی وجہ سے ہم اجتماعی طور پر اصل نظام حیات کو سرے سے بھلا بیٹھے ہیں اور پچھلے پینسٹھ برس سے مختلف اندھیروں میں بھٹکتے پھر رہے ہیں۔ مفکر اسلام جناب علامہ اقبال کے افکار کا جائزہ لیجیے جو اس نظام کی مذمت میں ہمارے فکری امام ہیں۔ آپ کا فرمان ہے:

گریز از طرز جمہوری غلام پختہ کارے شو
کہ از مغز دو صد خر فکر انسانے نمی آید
’’جمہوری طرز حکومت اور طرز سیاست سے دور بھاگو اور کسی پختہ کار یعنی نیک، متقی اور صالح قائد کو تلاش کرو اور اس کے غلام بن جاؤ کیونکہ دو سو گدھوں کی سوچ ایک انسان کی فکر کے برابر نہیں ہو سکتی۔ ‘‘

ایک جگہ آپ نے جمہوری نظام کو جبر و استبداد کا نظام قرار دیا ہے۔ فرماتے ہیں:

دیو استبداد جمہوری قبا میں پائے کوب
تو سمجھتا ہے آزادی کی ہے نیلم پری

تیسرے نکتہ ’’مستقبل قریب میں مشرق وسطیٰ کے اندر شیعہ سنی کشاکش کے ظاہری امکانات‘‘ کے ضمن میں مولانا کا کہنا ہے کہ:

’’مجھے (خاکم بدہن)مستقبل قریب میں مشرق وسطیٰ کے بہت سے علاقوں میں یہ کشمکش پھر سے شروع ہوتی دکھائی دے رہی ہے جبکہ خلافت عثمانیہ اور سلطان سلیمؒ کا دور دور تک نشان نظر نہیں آتا‘‘۔ 

اگر غور سے دیکھا جائے تو یہ تینوں نکات دراصل نظام سیاست ہی سے تعلق رکھتے ہیں، چونکہ اس وقت پورے عالم اسلام نے جمہوریت ہی کو اپنا سیاسی قبلہ تصور کر لیا ہے اور ہمارے ہاں یہی ایک بہت بڑا خلا ہے جس نے یہ سارے مسائل پیدا کر رکھے ہیں۔ جب ہم اسلام کو مکمل نظام حیات مانتے ہیں تو پھر ہمارے ہاں تلاش قیادت کا واضح تصور کیوں نہیں ہے؟ اگر کہا جائے کہ واضح تصور تقویٰ اور بسطۃ فی العلم و الجسم کے حوالے سے قرآن دیتا ہے تو پھر اسی صفات کے حامل افراد کو تلاش کیسے کیا جائے؟ اس کا طریق کار ہمارے ہاں واضح نہیں اور یہی خلا ہمارے تمام مسائل کی جڑ ہے۔ اس معاملے میں ہماری کیفیت اس بھٹکے ہوئے مسافر کی سی ہے جو راستہ طے تو کر رہا ہے، تھک بھی رہا ہے، لیکن سمت منزل سے بے خبر ہے۔ قومِ بنی اسرائیل کی طرح سارا دن چلتے رہنے کے بعد پتہ چلتا ہے کہ ہم تو اسی جگہ کھڑے ہیں جہاں سے سفر شروع کیا تھا۔ علامہ نے فرمایا:

منزل ہے کہاں تیری اے لالۂ صحرائی
بھٹکا ہوا راہی تو بھٹکا ہوا راہی میں

ہم گذشتہ چودہ سو برس سے اس لفظی بحث میں الجھے ہوئے ہیں کہ اسلام کا سیاسی نظام خلافت ہے یا امامت۔ یہ ایک لفظی بحث ہے، وگرنہ مقصد دونوں میں نیک صالح اور متقی اور صاحب کردار قیادت کو تلاش کرنا ہی ہے۔ اس میں کسی کو بھی اختلاف نہیں ہوسکتا۔ اس لیے لفظی مباحثہ کو چھوڑ کر اصل کی طرف رجوع کرنا، اصل اصول ہے۔ اہل تشیع یا اہل السنۃ دونوں کا مشترک ہدف بھی یہی ہے جس میں اختلاف کی گنجائش نہیں۔ جہاں تک لفظی بحث کا تعلق ہے تو علامہ اقبال کا فرمان ہے:

الفاظ کے پیچوں میں الجھتے نہیں دانا
غواص کو مطلب ہے صدف سے کہ گہر سے

ہمیں اصل مسئلہ کو سمجھنا اور اس کا حل تلاش کرنا چاہیے۔ اس ضمن میں ہمیں ان ادوار سے مدد مل سکتی ہے جب خلافت و راثت میں تبدیل نہیں ہوئی تھی اور تقویٰ، تدین، طہارت، عزت نفس، صدق و امانت ہی کو معیار قیادت خیال کیا جاتا تھا۔ اگر اس خلا کو پر کرنے میں ہم کامیاب ہو جائیں اور اجتہاد کے ذریعے تلاش قیادت کا واضح نظام مرتب کریں تو یہ عمل اس خلیج کو پاٹنے میں ممد و معاون ہوگا جو مختلف مکاتبِ فکر میں موجود ہے۔ ہمارے نزدیک سارے مسائل اسی خلا کے برگ و بار ہیں جو امت اسلامیہ میں اس وقت موجود ہیں۔ 

حالات و مشاہدات

(دسمبر ۲۰۱۲ء)

تلاش

Flag Counter