ہیں تلخ بہت بندہ مزدور کے اوقات

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

یکم مئی کو عام طور پر دنیا بھر میں محنت کشوں کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے جو امریکہ کے شہر شکاگو میں مزدوروں کے حقوق کے لیے جانوں کی قربانی دینے والے مزدوروں کی یاد میں ہوتا ہے، اس میں مزدوروں اور محنت کشوں کے حقوق و مفادات کی بات ہوتی ہے اور محنت کشوں کی تنظیموں کے علاوہ دیگر طبقات بھی ان کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتے ہیں۔

محنت اور مزدوری انسانی معاشرہ کی ضروریات میں سے ہیں اور زندگی کے اسباب مہیا کرنے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ بلکہ انسانی آبادی کی اکثریت کا ذریعہ معاش یہی ہے کہ وہ معاوضہ پر دوسرے انسانوں کے کام کرتے ہیں اور وہ معاوضہ ان کا ذریعہ معاش ہوتا ہے۔ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک ارشاد کے مطابق حضرات انبیاء کرام علیہم السلام نے بھی محنت مزدوری کا کام کیا، بلکہ خود نبی اکرمؐ نے ایک دور میں مکہ مکرمہ کے بعض خاندانوں کی بکریاں معاوضہ پر چرائی تھیں۔ حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی اکثریت کا مشغلہ یہی تھا۔

ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نمازِ جمعہ کی ادائیگی کے لیے غسل کو فرض اور بعد میں سنت قرار دیے جانے کی حکمت یہ بیان فرماتی ہیں کہ لوگ محنت مزدوری کیا کرتے تھے، لباس کے لیے ایک ہی جوڑا بلکہ بعض کے پاس صرف ایک چادر ہوتی تھی، محنت مزدوری میں پسینہ کی وجہ سے لباس اور جسم سے بدبو اٹھتی تھی، کام کرتے کرتے مسجد میں نمازِ جمعہ کے لیے آجایا کرتے تھے، مسجد چھوٹی اور چھت نیچی تھی، اس میں دوپہر کے وقت ہجوم سے بدبو کا عام ماحول بن جاتا تھا۔ اس پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ نمازِ جمعہ کے لیے غسل کر کے آیا کرو اور اگر میسر ہو تو دھلا ہوا لباس پہن کر آؤ تاکہ بدبو کا ماحول نہ بنے۔ بعد میں کچھ سہولت ہوئی، لباس کی متبادل چادریں میسر ہوئیں اور خود کام کرنے کی بجائے دوسروں سے معاوضہ پر کام لینے کی آسانی ہوئی تو ماحول میں فرق پیدا ہوا تو نمازِ جمعہ کے لیے غسل فرض کی بجائے سنت کا درجہ اختیار کر گیا۔

مدینہ منورہ میں ہجرت کے بعد مہاجر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی عمومی زندگی تنگ دستی اور فقر و فاقہ کی تھی۔ آہستہ آہستہ حالات بہتر ہونا شروع ہوئے اور پھر اللہ تعالیٰ نے وہ وقت بھی دکھایا کہ حضرت ابو مسعود انصاریؓ فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہ جب اجتماعی کاموں کے لیے چندہ دینے کی بات فرمایا کرتے تھے تو ہم میں سے بہت سے لوگوں کے پاس کچھ بھی نہیں ہوتا تھا، ہم بازار جا کر لوگوں کی مزدوری کر کے تھوڑی بہت کمائی کرتے تھے، اس میں سے کچھ اپنے خرچہ کے لیے رکھ لیتے تھے اور باقی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کر دیتے تھے۔ یہ بتا کر حضرت ابو مسعود انصاریؓ فرماتے ہیں کہ اب تو ہمارے پاس لاکھوں درہم موجود رہتے ہیں۔

حضرت ابو ہریرہؓ کا بنیادی ذوق بلکہ مشغلہ بھی جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں زیادہ سے زیادہ وقت گزارنا، باتیں سننا، یاد رکھنا اور لوگوں تک پہنچانا تھا۔ گزر اوقات کے لیے ہفتہ میں ایک دو روز محنت مزدوری کر کے باقی ہفتہ اسی سے گزارتے تھے۔ جنگل سے لکڑیاں لا کر بازار میں بیچتے تھے۔ جن دنوں حضرت مروان بن الحکمؒ مدینہ منورہ کے گورنر تھے، حضرت ابو ہریرہؓ ان کے دوست تھے اور معاون بھی تھے۔ گورنر صاحب جب کہیں باہر دورے پر جاتے تو حضرت ابو ہریرہؓ کو قائم مقام گورنر بنا جاتے تھے۔ حضرت ابوہریرہؓ بہت خوش مزاج بزرگ تھے، ہلکی پھلکی دل لگی اور ہنسی مذاق ان کے مزاج کا حصہ تھا۔ قائم مقام گورنر ہوتے ہوئے ایک روز جنگل میں اپنے کام کے لیے گئے، لکڑیاں جمع کر کے ان کا گٹھڑ سر پر اٹھا کر بازار میں آگئے اور آواز لگانا شروع کر دی ’’جاء الامیر، جاء الامیر‘‘ کہ لوگو! راستہ دو تمہارا امیر آ رہا ہے۔ یعنی خود ہی اپنی پروٹوکول ڈیوٹی دے رہے ہیں جو کہ ان کی خوش مزاجی کا اظہار تھا۔

عرض کرنے کا مطلب یہ ہے کہ محنت مزدوری کوئی عیب یا توہین کی بات نہیں، اپنی محنت کو ذریعہ معاش بنانا حضراتِ انبیاء کرام علیہم السلام اور حضراتِ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا مشغلہ رہا ہے بلکہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ کی محنت سے حاصل ہونے والی کمائی کو بہترین کمائی قرار دیا ہے۔ اور حضرت داؤد علیہ السلام کے بارے میں فرمایا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کا رسول اور ملک کا بادشاہ ہونے کے باوجود ہاتھ کی کمائی سے اپنا وقت چلاتے تھے۔

مگر مزدور اور محنت کش اس فضیلت اور عظمت کے باوجود ہمیشہ سے معاشرتی زیادتیوں کا شکار چلے آ رہے ہیں، ان کی حق تلفی ہر دور میں کسی نہ کسی عنوان سے جاری رہتی ہے، انہیں محنت کا معاوضہ کم ملتا ہے اور انہیں وہ معاشرتی عزت و وقار میسر نہیں ہوتا جو اُن کا حق ہے۔ آج بھی دنیا کے حالات کافی بدل جانے کے باوجود اس صورتحال میں کوئی بنیادی تبدیلی نہیں ہے، جبکہ اس ہوشربا مہنگائی کے دور میں اس کا احساس دوچند ہوتا جا رہا ہے۔ اس سلسلہ میں دو باتیں گزارش کرنا اس موقع پر ضروری محسوس ہوتی ہیں۔

ایک یہ کہ حضرت ابوبکر صدیقؓ کا اپنا کام بازار میں پھیری لگا کر کپڑے بیچنا تھا، جو انہیں خلافت کی ذمہ داریوں میں مسلسل مصروفیت کے باعث ترک کرنا پڑا تو حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے مشورہ سے اصحابِ شورٰی نے خلیفہ کے لیے بیت المال سے وظیفہ مقرر کرنے کا فیصلہ کیا۔ اور اس کا معیار یہ مقرر کیا کہ اتنا وظیفہ دیا جائے جس سے وہ ایک عام شہری کے معیار پر باوقار زندگی بسر کر سکیں اور اپنا اور زیرکفالت افراد کا خرچہ چلا سکیں۔ اس سے فقہاء کرامؒ نے یہ اصول قائم کیا کہ جو شخص دوسروں کے کام کی وجہ سے اپنا کام نہ کر سکے اس کا گھر کا باوقار خرچہ کام لینے والوں کے ذمہ ہے جو اس دور کے ماحول کے مطابق ہونا چاہیے۔

دوسری بات حضرت امام اعظم ابوحنیفہؒ کے اس ارشاد کے حوالہ سے عرض کروں گا کہ ’’لا رضاء مع الاضطرار‘‘ یعنی مجبوری کی رضا کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔ اس کا مطلب فقہاء کرامؒ یہ بیان فرماتے ہیں کہ کوئی شخص کسی مجبوری یا لاچاری کی وجہ سے اپنے جائز حق سے کم پر راضی ہو گیا ہے تو اس کی اس رضا کا کوئی اعتبار نہیں ہے، اسے وہی کچھ ملنا چاہیے جو اس کا حق بنتا ہے۔

میری طالبعلمانہ رائے میں آج کے دور میں محنت اور ملازمت دونوں دائروں میں اس اصول کو اختیار کرنا ضروری ہے کہ کسی مزدور، کسان یا ملازم کو اس کے کام کا اتنا معاوضہ ملنا ضروری ہے جو اس کے اپنے اور زیر کفالت افراد کی باوقار گزربسر کے لیے کافی ہو۔ اور اگر کوئی شخص مجبوری کی وجہ سے اپنے اس حق سے کم پر راضی ہو گیا ہے تو اس کی رضا کو کافی سمجھنے کی بجائے اس کے جائز حق کی ادائیگی معاشرہ اور قانون کی ذمہ داری بنتی ہے جسے ریاست اور نظام کو ادا کرنا چاہیے۔

حالات و مشاہدات

(مئی ۲۰۲۳ء)

تلاش

Flag Counter