دینی جدوجہد کے مورچے

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

(مجلس احرار اسلام  پاکستان کی سالانہ کانفرنس میں گفتگو )


حضرت خواجہ ناصرالدین خاکوانی، امیر محترم سید محمد کفیل شاہ بخاری، اکابر علمائے کرام، محترم بزرگو اور دوستو!

میں   حسب معمول سب سے پہلے دو باتوں پر  مجلس احراراسلام کا شکریہ ادا کروں گا۔  ایک تو اس پر کہ انہوں نے مورچہ قائم رکھا ہوا ہے۔ اللہ تعالی اس مورچے کو قائم رکھیں، کیوں کہ ابھی اس مورچے کے بہت سارے کام باقی ہیں۔ اور دوسرا اس بات پر کہ مجھے بھی اکثر حاضری کا موقع دے دیتے ہیں۔ میری یہاں حاضری صرف نسبت کو تازہ کرنے کے لیے اور یہ بتانے کے لیے ہوتی ہے کہ کن بزرگوں اور کس قافلے سے ہماری نسبت ہے اور کس  تسلسل سے ہے۔  اللہ تعالی اس قافلے اور تسلسل کو قائم رکھیں۔  اسی پر زندگی گزارنے کا موقع دیں اور اسی پر موت عطا فرمائیں۔

  یہ مجلس احرار اسلام کی سالانہ کانفرنس ہے اور بہت اہم مقام پر ہے۔  میں کوئی تقریر کرنے کی بجائے اس وقت ہمیں قومی سطح پر دینی جدوجہد کے حوالے سے جو مسائل درپیش ہیں اور اس مورچے اور اس جیسے مورچوں کے حوالے سے جن مسائل کا ہمیں سامنا ہے، ان کی ایک فہرست عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ہم کہاں کہاں پھنسے ہوئے ہیں اور کیا کیا مسائل درپیش ہیں اور وہ مسائل کس لیول پر ہیں؟   ان مسائل کی فہرست پیش کروں گا اور پھر اپنی فکر اور سوچ کے مطابق اس کی وجہ عرض کروں گا کہ ہم کیوں پھنسے ہوئے ہیں؟ اور پھر فیصلہ آپ پر چھوڑ کر اجازت چاہوں گا۔  

ہمیں اس وقت پاکستان میں سب سے پہلا مسئلہ دستور کے حوالے سے درپیش ہے۔  اس سے پہلے ہم کہا کرتے تھے کہ دستور کی بالادستی اور پاسداری ہونی چاہیے۔  بڑی مشکل سے اور طویل جدوجہد کے بعد ہم نے 1973ء میں ایک متفقہ دستور حاصل کیا تھا اور نافذ کیا تھا۔  وہ دستور دینی مکاتب فکر کے ہاں بھی متفقہ تھا، سیاسی جماعتوں کے ہاں بھی متفقہ تھا اور علاقائی قومیتوں کے ہاں بھی متفقہ تھا۔  پوری قوم اس پر متفق تھی اور اصولی طور پر اب بھی متفق ہے اور متفق چلی آ رہی ہے۔  ہم اب تک یہ کہہ رہے ہیں کہ دستور کی بالادستی اور عملداری قائم ہونی چاہیے، دستور کے مطابق ملک کا نظام چلنا چاہیے اور تمام اداروں اور طبقات کو دستور کے دائرے میں رہنا چاہیے۔ یہ ہمارا اصولی موقف ہے اور ہم یہ بات کرتے چلے آرہے ہیں۔

  لیکن میں انتہائی تکلیف کے ساتھ اپنے قلق کا اظہار نہیں کر سکتا جو میں چند دنوں سے محسوس کر رہا ہوں کہ اب ہمیں دستور کی بقاء اور تحفظ کی بات کہنا پڑ رہی ہے اور ایک سیاسی کارکن کے طور پر مجھے محسوس ہورہا ہے کہ شاید ہمارا اگلا سب سے بڑا نعرہ اور سب سے بڑی جدوجہد کا عنوان یہی ہوگا۔ میری ان مقامات پر نظر ہے جہاں سے دستور کو سبوتاژ کرنے کی آوازیں اٹھ رہی ہیں، اور ذہن سازی کے راستے تلاش کیے جا رہے ہیں اور دونوں طرف سے یہ خطرہ محسوس کیا جا رہا ہے۔ ان حلقوں کی طرف سے بھی جو دستور کو قائم نہیں دیکھنا چاہتے اور بدقسمتی سے ان حلقوں کی طرف سے بھی جو دستور کی دفعات اور اسلامی شقوں پر اپنے عدم اطمینان کا اظہار کر کے اس طرف سے بھی دستور کی رٹ کو چیلنج کرنے کا پروگرام رکھتے ہیں اور اس کے لیے کوشش کر رہے ہیں۔  مجھے دونوں طرف سے دستور کو خطرہ نظر آ رہا ہے۔  اللہ میری بات غلط کرے لیکن شاید اب ہمیں قومی سطح پر سب سے بڑی جنگ دستور کے تحفظ کی لڑنی پڑے گی۔  میں آپ سے احرار کے فورم پر کھڑے ہو کر عرض کر رہا ہوں کہ اس کے لیے ابھی سے تیاری شروع کریں۔

دستور ہمارے ملک کی وحدت کی علامت، ہمارے اسلامی تشخص اور  ہمارے ایمانی جذبات کی علامت ہے۔  خدانخواستہ کہیں سے بھی اس کو نقصان پہنچ گیا تو شاید عالم اسباب میں  ہماری قوم دستور جیسی  کسی دستاویز  پر متفق نہ ہو سکے۔

 ہمیں عالمی سطح پر جو دوسرا بڑا مسئلہ درپیش ہے وہ عقیدہ ختم نبوت کی دفعات کا مسئلہ ہے،  جس سے متعلق ہم سے مسلسل مطالبہ کیا جا رہا ہے۔  یو این کے ادارے، یورپی یونین، آئی ایم ایف اور بین الاقوامی ادارے مطالبہ کر رہے ہیں کہ قادیانیوں کے خلاف جو دستوری اور اصولی فیصلے موجود ہیں وہ فیصلے واپس لیے جائیں یا کم از کم غیر مؤثر بنائے جائیں۔  عالمی سطح پر بین الاقوامی اداروں کی طرف سے ہم سے یہ مطالبہ جاری ہے۔  لیکن الحمدللہ دو مسئلے ایسے ہیں کہ جن پر ہماری قوم کسی کی بات نہیں سن رہی۔  نہ اقوام متحدہ کی بات سن رہی ہے اور نہ یورپی یونین کی بات سن رہی ہے۔  ان میں سے ایک ختم نبوت کا مسئلہ ہے اور دوسرا تحفظ ناموس رسالت کا مسئلہ ہے۔  اور میرے جیسے کارکنوں کا یہی آخری سہارا ہے کہ یہ ہماری آخری دفاعی لائن ہے جس کو کوئی کراس نہیں کر پا رہا ۔اللہ تعالی اس دفاعی لائن کو سلامت رکھیں۔

ختم نبوت کے حوالے سے ہمیں یہ مسئلہ درپیش ہے اور قادیانیوں کے حوالے سے ہم سے مطالبہ کیا جا رہا ہے اور 1974 کے بعد سے تسلسل کے ساتھ یہ مطالبہ جاری ہے۔  کئی دفعہ ان مطالبات کو پورا کرنے کی کوشش ہوئی ہے اور ایسے فیصلے ہوئے ہیں، لیکن آپ حضرات کی بیداری اور بیدار مغزی کے عمل نے ان کے سامنے رکاوٹ ڈالی ہے اور میں امید رکھتا ہوں کہ آئندہ بھی ہمارے جذبات اور ہماری دینی حمیت اور غیرت ایسی کسی بھی کوشش کی راہ میں رکاوٹ بنے گی۔

 تحفظ ناموس رسالت کے مسئلے پر بھی ایسی ہی صورتحال ہے اور وہی تقاضے ہیں بلکہ اب تو ایک تقاضا  اور بڑھ گیا ہے۔  پہلے یہ مطالبہ تھا کہ توہین رسالت پر قتل کی سزا کا قانون ختم کیا جائے۔  اب اس سے ایک قدم آگے بڑھ کر یہ مطالبہ ہے کہ موت کی سزا ہی سرے سے ختم کی جائے۔  چاہے وہ قصاص کے طور پر ہو، یار جم کے طور پر ہو، یا توہین رسالت کے جرم پر ہو،  سرے سے موت کی سزا ہی ختم کی جائے۔  شرائط اور دباؤ کے ساتھ ہم سے یہ مطالبہ کیا جا رہا ہے اور ہم ایک عرصے سے اس دباؤ کا شکار ہیں کہ موت کی سزا ختم کرو تو یورپی یونین کے ساتھ تجارتی معاملات صحیح ہو سکتے ہیں، ورنہ نہیں۔  تجارتی مراعات موت کی سزا ختم کرنے کے ساتھ مشروط ہیں وغیرہ۔ اب ہم اس مقام پر کھڑے ہیں۔  

 اس کے علاوہ ہمیں شروع سے ہی خاندانی نظام کا مسئلہ درپیش ہے۔  ہماری تہذیب و ثقافت اور کلچر، دوسرے لفظوں میں اسے مشرقی کلچر، پاکستانی کلچر یا مسلم کلچر کہہ لیں۔  ہماری ایک تہذیب ہے، ہماری ثقافت چلی آ رہی ہے، ہم اس پر قائم ہیں اور اپنی تہذیب و ثقافت سے دستبردار ہونے کے لیے تیار نہیں ہیں اور نہیں ہوں گے۔  لیکن خاندانی نظام میں مسلسل قوانین میں ترمیم کے ذریعے ہمارے اس سسٹم کو کمزور کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ 1962ء میں پہلا قانون آیا تھا اور پھر قوانین پر قوانین آ رہے ہیں۔  میں صرف مثال کے طور پر عرض کرنا چاہوں گا تفصیل کا موقع نہیں ہے کہ طریقہ واردات کیا ہے؟ قانون کا عنوان کچھ اور ہوتا ہے اور اس قانون کے اندر کچھ اور ہوتا ہے۔

 آپ کو یاد ہوگا کہ کچھ عرصہ پہلے گھریلو تشدد کے خاتمے کے عنوان سے ایک قانون منظور اور نافذ ہوا۔  اس کی باقی تمام شقوں کو نظر انداز کرتے ہوئے، میں صرف مثال کے طور پر بات عرض کروں گا کہ گھریلو سسٹم میں خاندان اور میاں بیوی کے درمیان تنازعات اور جھگڑے ہو جاتے ہیں۔ میاں بیوی کے جھگڑے کو ختم کرنے کا پراسس قرآن مجید نے بیان کیا ہے:  ان خفتم شقاق بینھما فابعثوا حکما من اھلہ وحکما من اھلھا۔  قرآن پاک کہتا ہے کہ اگر میاں بیوی میں جھگڑا ہو جائے تو یہ جھگڑا عدالتوں میں نہ لے جائیں بلکہ گھر بیٹھ کر اس کو حل کریں اور خاندان کے اندر اسے طے کریں۔ میاں بیوی دونوں کے خاندانوں کا ایک ایک نمائندہ بیٹھ کر اسے طے کرے۔ قرآن مجید نے جو یہ پراسس دیا کہ میاں بیوی کا کوئی جھگڑا اور تنازعہ باہر لے جانے کی بجائے گھر کی چار دیواری میں گھر کے ماحول میں طے کیا جائے، اس قانون کے تحت یہ سارا پراسس ختم کردیا گیا ہے۔ میاں بیوی میں جھگڑا ہوگیا تو ہمارا قانونی پراسس یہ ہے کہ بیوی ایس ایچ او کو فون کرے اور ایس ایچ او خاوند کو گرفتار کرکے اسے کڑا ڈال لے اور اس کے بعد عدالت میں خاوند سے پوچھا جائے گا کہ جھگڑا کیا ہے؟ یوں پورے کا پورا خاندانی نظام تتربتر کردیا گیا ہے۔

  جو ٹرانس جینڈر پرسن کا ایکٹ ہے یہ 2018ء سے نافذ ہے۔ دوست پوچھتے ہیں کہ یہ قانون 2018ء میں نافذ ہوا تھا تو ابھی تک خاموشی کیوں ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں خاص تکنیک ہے۔  اس بات سے آپ اندازہ کر لیں کہ یہ قانون سینٹ اور قومی اسمبلی میں 2017ء میں پیش ہوا تھا، دو جماعتوں کے نمائندوں نے جمعیت علماء اسلام کی نعیمہ کشور اور جماعت اسلامی کی نمائندہ عائشہ سیدہ نے فورم پر بڑی مضبوطی سے اس قانون کی مخالفت کی تھی، لیکن یہ قانون آخری سیشن میں پاس ہوا اور اس کے دو گھنٹے بعد اسمبلی تحلیل ہو گئی اور ساتھ ہی ملک میں الیکشن کا ہنگامہ کھڑا ہوگیا اور یہ سارا معاملہ الیکشن کے نیچے دب گیا۔ یہ تکنیک اختیار کی گئی تاکہ کوئی بات نہ کر سکے۔  بعد میں اس کے پرت کھلتے گئے تو واضح ہوتا گیا کہ یہ کچھ ہوا ہے۔

 اس کی تفصیلات کا موقع نہیں ہے، لیکن ٹرانس جینڈر ایکٹ کیا ہے؟ مختصر عرض کروں گا کہ اس کا عنوان خواجہ سراؤں کے حقوق کے متعلق ہے۔  خواجہ سرا قوم کا معذور طبقہ ہے، جس کی تعداد پاکستان میں بہت کم ہے۔ اوریجنل خواجہ سرا اور بتکلف خواجہ سرا بننے والوں کی تعداد کا کیا تناسب ہے؟ لیکن جو اوریجنل خواجہ سرا ہیں، شریعت نے اس کا حل نکالا ہے کہ جس میں مرد کی علامتیں زیادہ ہوں وہ مرد شمار ہوگا اور جس میں عورت کی علامتیں زیادہ ہوں وہ عورت شمار ہوگی۔  احکام شرعیہ میں یہ واضح طور پر موجود ہے۔  خنثیٰ مشکل جس کی جنس کی سمجھ نہ آ رہی ہو فقہاء نے اس کے احکام بھی ذکر کئے ہیں۔

 میں نے ڈاکٹر صاحبان کی ایک مجلس میں سوال کیا کہ باقی تمام مسائل میں میڈیکل ٹیسٹ ہوتا ہے تو اس معاملے میں میڈیکل ٹیسٹ کیوں نہیں ہوتا؟   باقی معذوریوں کو میڈیکل ٹیسٹ کے ذریعے دور کیا جا سکتا ہے تو یہاں کیوں نہیں کیا جا سکتا؟اس پر اتنا شور مچانے کی کیا ضرورت تھی؟ لاکھ میں دو آدمی  اس نوعیت کے ہوں گے تو ان کے مسئلے کا سادہ سا حل ہے کہ جو چند افراد ملک میں ایسے ہیں تو اس کا میڈیکل حل نکالو۔  کیا ان کا میڈیکل نہیں ہو سکتا، کیا میڈیکل والے فوت ہو گئے ہیں، ان کے پاس اس کا کوئی حل نہیں ہے ؟

 لیکن ہوا یہ ہے کہ چند خواجہ سراؤں کے مسئلے کو بنیاد بنا کر کہ ہم نے ان کی معذوری اور مجبوری کو ڈسکس کرنا ہے، پوری قوم کو خواجہ سرا بنانے کا پروگرام دے دیا گیا ہے۔ عنوان یہ ہے کہ ہم نے خواجہ سراؤں کے حقوق کا تحفظ کرنا ہے اور پریکٹیکل طور پر پوری قوم کو خواجہ سرا بنانے کا ایجنڈا دے دیا گیا ہے۔ اس قانون کے مطابق ملک کا کوئی بھی شہری کوئی بھی مرد نادرا سے اپنے آپ کو عورت رجسٹر کروا  سکتا ہے اور کوئی بھی عورت اپنے آپ کو مرد رجسٹر کروا سکتی ہے اور نادرا پابند ہے کہ وہ جو حلفیہ بیان دے اس کے مطابق اسے رجسٹر کرے۔

 میں نے یہ عرض کیا کہ ہمارا خاندانی نظام جسے 1962ء میں چھیڑنا شروع کیا تھا اور چھیڑ تے چھیڑتے اب اس مقام پر آ گئے ہیں کہ مرد اور عورت کی جنس ہی مشکوک ہو گئی ہے اور پوری قوم کو خواجہ سرا بنانے کا ایجنڈا قوم کے سامنے رکھ دیا گیا ہے۔

میں نے چند  قومی مسائل کا ذکر کیا۔ دستور، ختم نبوت کے قوانین، ناموس رسالت کے تحفظ کا قانون اور خاندانی نظام۔ اب میں اوقاف کی طرف آتا ہوں۔ ہمارے ہاں انگریزوں کے دور میں جب برطانوی حکومت نے 1857ء میں یہاں قبضہ کیا تھا  تو اوقاف کے پرانے قوانین منسوخ کر دیے تھے اور نئے قوانین نافذ کیے تھے تو میں یہ تاریخی حقیقت عرض کرنا چاہوں گا کہ آزادی کی جنگ علماء اور دینی جماعتوں نے لڑی تھی، لیکن اس میں کوئی کلام نہیں ہے کہ مسلمانوں کے تشخص کی جنگ، اوقاف کی جنگ اور مسلمانوں کے اپنے معاملات میں شریعت کے قوانین کی جنگ سرسید احمد خان نے لڑی تھی کہ مسلمان الگ قوم ہے، اس کا اپنا تشخص ہے،ان کی اپنی تہذیب ہے، جسے محفوظ رہنا چاہیے اور اوقاف کی جنگ بھی انہوں نے لڑی ۔میں ریکارڈ کی بات سامنے لانا چاہوں گا۔ یہ بات کہ اس ملک میں مسلمانوں کے اوقاف مسلمانوں کے مذہبی قوانین کے دائرے میں رہنے چاہییں، یہ لڑائی سرسید احمد خان، جسٹس امیر علی اور پھر قائد اعظم محمد علی جناح نے لڑی۔  وائسرائے کی ۔۔۔۔ کونسل میں قائد اعظم کی تقریر ہے کہ ہمارے اوقاف کے معاملات میں ہمارا مطالبہ یہ ہے کہ ہمارے تمام قوانین شریعت کے قانون کے مطابق طے کیے جائیں۔

 انگریزوں نے ہمیں یہ حق دیا تھا کہ وقف کے مسائل اور خاندانی نظام کے مسائل شریعت کے مطابق ہوں گے۔ انگریزوں نے تو ہمیں یہ حق دیا تھا لیکن آج میں بڑے دکھ کے ساتھ عرض کروں گا کہ وہ مذہبی آزادی اور وقف کا تحفظ جو ہمیں انگریزوں نے دیا تھا اس اوقاف ایکٹ کے تحت ہم سے چھین لیا  گیا ہے۔ وہ حقوق جو سرسید احمد خان، جسٹس امیر علی اور قائد اعظم مرحوم نے جنگ لڑ کر حاصل کیے تھے کہ ہمارے اوقاف کے قوانین اور خاندانی قوانین شریعت کے مطابق ہوں گے، آج گھریلو تشدد کے خاتمے کے عنوان سے اور اوقاف ایکٹ کے حوالے سے وہ تمام مذہبی آزادیاں ہم سے سلب کر لی گئی ہیں اور ہم خاموش تماشائی ہیں۔ یہ سب ابھی ہمارے سامنے ہوا ہے۔

قومی مسائل کی فہرست تو لمبی ہے۔ ان میں سے ایک مسئلہ اور عرض کر دیتا ہوں۔ پاکستان بنتے ہی طے ہوا تھا اور قائد اعظم محمد علی جناح مرحوم  نے سٹیٹ بینک کے افتتاح کے موقع پر یہ اعلان کیا تھا کہ ہمارے ملک کا معاشی نظام مغربی اصولوں پر نہیں ہوگا، بلکہ اسلامی اصولوں پر ہوگا۔ قائد اعظم کا یہ خطاب ریکارڈ پر ہے۔ اس کے بعد ہمارے ملک کے ہر دستور نے یہ وعدہ کیا کہ ہم سودی نظام سے ملک کو نجات دلائیں گے۔ 1973ء کے دستور نے گارنٹی دی کہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ کم سے کم عرصے میں سودی نظام کو ختم کرے۔  پھر اسلامی نظریاتی کونسل نے سودی نظام کی تعیین اور اس کی متبادل صورتیں سارا سسٹم مکمل کیا اور  اس کے مطابق وفاقی شرعی عدالت نے سودی قوانین کے خاتمے کا فیصلہ دیا، متبادل قوانین دیے اور پورا سسٹم دیا۔ اس کے بعد سپریم کورٹ آف پاکستان نے اس فیصلے کی بنیاد پر اسے قائم رکھا اور اس پر فیصلہ دیا کہ ہم سود کو ختم کریں گے۔ اس کے بعد نظر ثانی کی اپیل ہوئی اور فیصلہ دوبارہ وفاقی شرعی عدالت میں گیا۔ وفاقی شرعی عدالت نے انیس سال کے بعد فیصلہ دیا کہ  وہ فیصلہ ٹھیک تھا اور حکومت سے کہا کہ سودی نظام ختم کرو۔

 لیکن ہمارا حال یہ ہے کہ وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے پر عمل درآمد کے لیے وزیر اعظم محترم  نے ٹاسک فورس قائم کی، لیکن میں بڑے تعجب سے یہ بات کہوں گا۔ میں نے ٹاسک فورس کے ایک اہم ادارے کو خط لکھا کہ جناب !آپ وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے پر عمل درآمد کے ٹاسک فورس کا بھی حصہ ہیں اور آپ نے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کرکے سٹے بھی لے لیا ہے۔ ادھر  عمل درآمد کی میز پر بیٹھے ہیں اور ادھر عدالت میں سٹے لے کر کھڑے ہیں، یہ کیا تضاد ہے؟  اور اب دوبارہ غیر معینہ مدت کے لیے۔۔۔۔۔۔

 یہ میں نے صرف چند مسائل کی ایک جھلک عرض کی ہے۔ باقی مسائل کی فہرست کو  چھوڑتے ہوئے عرض کروں گا کہ ان مسائل کی بنیادی وجہ کیا ہے؟  ایک مذہبی اور سیاسی کارکن کے طور پر میں اس کی جو وجہ سمجھتا ہوں وہ عرض کرتا ہوں۔

 پہلی بات یہ ہے کہ بحیثیت قوم ہمارے قومی ادارے اور کسی استثناء کے بغیر ہمارے تمام ریاستی ادارے نہ اسلام کے نظام میں سیریس ہیں ، نہ سودی نظام کے خاتمے میں سیریس ہیں اور نہ  ہی قومی خودمختاری میں سیریس ہیں۔ ہمیں اس سے کوئی دلچسپی ہی نہیں ہے۔  ہم ایڈھزم،” ڈنگ ٹپاؤ“ کی پالیسی پر چل رہے ہیں کہ وقت گزارو۔ ان تمام مسائل کی پہلی وجہ یہ ہے کہ تمام ریاستی ادارے ان معاملات میں سیریس نہیں ہیں۔ ہماری سنجیدگی کا حال یہ ہے کہ ہم ٹاسک فورس میں بھی بیٹھے ہیں اور سٹے کی اپیل میں بھی کھڑے ہیں۔

 ان مسائل کی دوسری وجہ بیرونی مداخلت ہے۔ ہم نے جتنے بھی اس طرح کے کام کیے ہیں وہ سب بیرونی مداخلت پر کیے ہیں۔ ختم نبوت کے قوانین کو ختم کرنے کرنے کے لیے اندر سے آواز آئی یا باہر سے آواز آرہی ہے؟  بیرونی دباؤ ہے۔ ناموس رسالت کے قانون کو جس خطرے کا سامنا ہے وہ اندر سے ہے یا باہر سے ہے؟  خاندانی نظام کے حوالے سے جو قوانین بنائے گئے ہیں یہ ہم نے طے کیے ہیں یا باہر سے آئے ہیں ؟  اوقاف کے قوانین ہم نے بنائے ہیں یا باہر سے آئے ہیں؟  گھریلو تشدد کا قانون۔۔۔۔۔ نے بھیجا ہے، سٹیٹ بینک کو بیرونی نگرانی میں دینے کا قانون آئی ایم ایف نے بھیجا ہے۔ مسلسل   بیرونی مداخلت ہے جو ہمارے قوانین کا حلیہ بگاڑ رہی ہے۔ اس لیے میں یہ عرض کروں گا کہ اب ہمیں ان ساری باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے سب سے بڑی جنگ بیرونی مداخلت کے خلاف لڑنی ہوگی۔  ہمارے ملک کی قانون سازی بیرونی مداخلت سے پاک ہونی چاہیے، ورنہ دستور کی بالادستی بھی سوالیہ نشان ہے اور ملک کی خودمختاری بھی سوالیہ نشان ہے۔ہمیں دستور کے تحفظ اور بالادستی کے لیے بیرونی مداخلت کے خاتمے اور بیرونی مداخلت کا راستہ روکنے کے لیے بحیثیت قوم متحد ہونا ہوگا اور تمام طبقات، تمام جماعتوں اور تمام اداروں کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا، ورنہ ایسٹ انڈیا کمپنی سب کچھ بہا کر لے جائے گی۔  اللہ تعالیٰ اس ملک کی حفاظت فرمائیں۔

حالات و مشاہدات

(نومبر ۲۰۲۲ء)

تلاش

Flag Counter