ظلم و جبر کے شکار مسلمان۔ حکمت عملی کیا ہو؟

محمد عمار خان ناصر

قومیت کا جدید سیاسی تصور مخصوص جغرافیائی خطوں میں بسنے والے انسانوں کے لیے اپنی سرزمین پر سیاسی خود مختاری کو ایک بنیادی حق قرار دیتا ہے اور بلاشبہ اس تصور نے دنیا میں قوموں اور ممالک کے مابین جارحیت پر مبنی تنازعات کے سدباب میں اہم کردار ادا کیا ہے، تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ ہر سیاسی یا نظریاتی تصور کی طرح اس کی عملی تنفیذ بھی بالادست سیاسی قوتوں کے ارادے اور طاقت کی وساطت سے ہی ممکن ہوئی ہے اور جہاں یہ ارادہ مفقود ہے، وہاں اس تصورکی عملی تنفیذ بھی نہیں ہو سکی۔ بدقسمتی سے اس دوسری نوعیت کی صورت حال کا سامنا دنیا کے مختلف خطوں میں بسنے والے مسلمانوں کو بھی ہے اور فلسطین، کشمیر اور برماکے روہنگیا مسلمانوں کے مسائل اس نوعیت کے عالمی تنازعات کی فہرست میں نمایاں ہیں۔

دور جدید کے سیاسی تغیرات کو گہرائی کے ساتھ نہ سمجھنے یا انھیں بطور ایک امر واقعہ قبول نہ کرنے کی وجہ سے مذکورہ تنازعات سے دلچسپی اور مظلوم مسلمانوں سے ہمدردی رکھنے والے بعض عناصر میں حکمت عملی کے حوالے سے جو عمومی رجحان پیدا ہوا، وہ پر تشدد تصادم کا رجحان تھا اور اسے دور جدید سے ماقبل کے سیاسی تصورات یا کچھ مذہبی ہدایات کے تناظر میں ایک آئیڈیل حکمت عملی تصور کیا گیا۔ اس کی ابتدا پہلے مقامی سطح پر، پر تشدد تحریکوں کی صورت میں ہوئی اور پھر جب تجربے سے یہ واضح ہوا کہ اصل مقابلہ مقامی سیاسی طاقتوں سے نہیں، بلکہ پورے عالمی سیاسی نظام کے ساتھ ہے تو اسی جوش وجذبہ کے ساتھ محاذ جنگ کو براہ راست عالمی طاقتوں کی سرحدوں پر منتقل کرنے کی کوشش کی گئی، اور یہ سبق سیکھنے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی کہ جب مقامی سطح پر غالب نظام طاقت کے مقابلے میں یہ حکمت عملی کامیاب نہیں ہوئی تو پورے عالمی سیاسی نظام کے مقابلے میں کیونکر ہوگی، جبکہ معروضی حالات میں فیصلہ کن حیثیت سیاسی وعسکری طاقت ہی کو حاصل ہے۔

طاقت کے توازن کو نظر انداز کرنے کے علاوہ تشدد اور تصادم کی مذکورہ حکمت عملی کے نتیجے میں کئی اہم مذہبی واخلاقی اصول بھی مجروح ہوئے۔ مثال کے طور پر زیادہ تر مثالوں میں عسکری تصادم کے فیصلے کو قوم کی اجتماعی نمائندگی حاصل نہیں تھی، بلکہ چند گروہوں نے اپنے تئیں یہ راستہ اختیار کرنے کا فیصلہ کر کے اس کے نتائج کو پوری قوم پر مسلط کر دیا، حالانکہ اسلامی شریعت کی رو سے کسی علاقے میں مسلح مزاحمت کا حق چند افراد یا کسی ایک گروہ کا حق نہیں، بلکہ پوری قوم کا اجتماعی حق ہے اور ایسے کسی بھی اقدام کے جواز کے لیے یہ ضروری ہے کہ اسے قوم کی اجتماعی تائید اور پشت پناہی حاصل ہو اور قوم اس کے لازمی نتائج کا سامنا کرنے اور اس کے لیے درکار جانی ومالی قربانی دینے کے لیے تیار ہو۔ اگر قوم اپنی مجموعی حیثیت میں ایسے کسی فیصلے اور اس کے نتائج کی ذمہ داری قبول کرنے کی پوزیشن میں نہ ہو یا اس کے لیے آمادہ نہ ہو تو کسی گروہ کا ازخود کوئی فیصلہ کر کے اسے عملی نتائج کے اعتبار سے ساری قوم پر تھوپ دینا شرعاً واخلاقاً درست نہیں ہے۔ خاص طور پر اگر مقبوضہ علاقے کے مسلمان داخلی طو رپر اتحاد اور یک جہتی سے محروم اور باہم برسرپیکار ہوں تو دین وشریعت کا تقاضا یہ نہیں ہوگا کہ کوئی ایک گروہ اٹھ کر ازخود مسلح جدوجہد کا آغا زکر دے۔ دین اور عقل عام دونوں کا پہلا مطالبہ اس صورت میں یہ ہوگا کہ مسلمان باہمی اختلاف وعناد اور نزاعات کو ختم کر کے ایک متحد قوم کی شکل اختیار کریں اور اس کے بعد ’امرھم شوریٰ بینھم‘ کے اصول کے تحت حصول آزادی کے لیے کوئی ایسا لائحہ عمل اختیار کریں جو میسر حالات میں زیادہ قابل عمل، مفید اور نتیجہ خیز ہو اور اسے قوم کی اجتماعی تائید بھی حاصل ہو۔ محکوم قوم کی باہمی تقسیم وافتراق کی معروضی صورت حال کو نظر انداز کر کے کیا جانے والا کوئی بھی فیصلہ نہ تو مذکورہ شرعی واخلاقی اصول کے لحاظ سے درست ہوگا، نہ عملی طو رپر ایسی کسی کوشش کے مفید نتائج نکل سکتے ہیں اور نہ اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ایسی صورت میں نصرت اور تائید کی توقع کی جا سکتی ہے۔ قرآن مجید نے سورۂ آل عمران کی آیت ۱۵۲ (حتی اذا فشلتم وتنازعتم فی الامر) اور سورۂ انفال کی آیت ۴۶ (لا تنازعوا فتفشلوا وتذھب ریحکم) میں نصرت الٰہی کے اس اخلاقی اصول کی وضاحت کی ہے۔

ارد گرد کے ممالک میں بسنے والے مسلمانوں کی طرف سے ان مسلح تحریکات میں شرکت اور ان کی نصرت وتعاون کا عمل بھی متعدد شرعی واخلاقی قباحتوں پر مشتمل تھا۔ قرآن مجید نے سورۂ انفال میں مظلوم مسلمانوں کی مدد کے ضمن میں یہ شرط عائد کی ہے کہ اس کے لیے مسلمانوں کی طرف سے کیے گئے کسی معاہدے کی خلاف ورزی نہیں ہونی چاہیے۔ چنانچہ جب غزوۂ بدر کے زمانے میں سیدنا حذیفہ اور ان کے والد کو مشرکین نے مدینہ جانے سے روک دیا اور صرف اس شرط پر اجازت دی کہ وہ ان کے خلاف جنگ میں شریک نہیں ہوں گے تو مدینہ پہنچنے پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں حضرات کو جنگ میں شریک ہونے کی اجازت نہیں دی اور فرمایا کہ انھیں اپنے کیے ہوئے معاہدے کی پابندی کرنی چاہیے۔ اس وجہ سے یہ دین وشریعت کا ایک لازمی تقاضا ہے کہ جو لوگ اپنی انفرادی حیثیت میں مظلوم مسلمانوں کے ساتھ مل کر جنگ لڑنا چاہتے ہوں، وہ یہ دیکھیں کہ وہ جس ملک کے شہری ہیں، آیا ریاست کی سطح پر اس کی طرف سے ایسا کوئی معاہدہ تو موجود نہیں جو اس کے شہریوں کو جنگ میں شریک ہونے سے روکتا ہو۔ اگر ایسا ہو تو پھر اس ملک کے کسی شہری کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ اس ملک کا شہری ہوتے ہوئے نظم اجتماعی کے فیصلوں سے ہٹ کر کوئی فیصلہ کرے۔ اگر وہ ایسا کرنا چاہتا ہے تو اخلاقی اور شرعی طور پر اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس ملک کی شہریت سے دست بردار ہو کر وہاں کی سکونت چھوڑ دے تاکہ اس کے کسی فعل کی ذمہ داری ریاست پر عائد نہ ہو۔ تاہم عسکری حکمت عملی میں اس اصول کی عموماً پاس داری نہیں کی گئی جس سے چند در چند اخلاقی اور قانونی پیچیدگیوں نے جنم لیا۔

اس پوری صورت حال میں سب سے اہم بات یہ سمجھنے کی ہے کہ کسی بھی دور میں سیاسی نوعیت کے تنازعات میں اس وقت کے غالب نظام طاقت اور رائج سیاسی تصورات سے باہر نکل کر کوئی اقدام کرنے یا ان کے ساتھ تصادم اختیار کرنے کا راستہ کبھی نتیجہ خیز نہیں ہو سکتا۔ یہ نظام طاقت اور سیاسی تصورات فی نفسہ منصفانہ ہیں یا نہیں یا نظریاتی بنیادوں پر کسی گروہ کے لیے قابل قبول ہیں یا نہیں، یہ ایک بالکل الگ بحث ہے جس کے ساتھ حکمت عملی کو نتھی نہیں کیا جا سکتا۔ حکمت عملی کا بنیادی اصول نتیجہ خیزی کے بہترین امکانات کو مد نظر رکھنا اور ان امکانات کو وقوع میں بدلنے کے بہترین وسائل کو بروئے کار لانا ہوتا ہے۔ 

ہمارے ہاں دو متوازی حکمت عملیوں کی بحث میں ہاں عموماً مکی دور اور مدنی دور کا حوالہ دیا جاتا ہے۔ دونوں نقطہ ہائے نظر کا اپنا اپنا استدلال اور حالات کے تجزیے کا اپنا اپنا پیراڈائم ہے۔ ہمارے خیال میں پون صدی کے تجربات اپنا وزن مکی دور والے استدلال کے پلڑے میں ڈالتے نظر آتے ہیں۔ تاہم، اہم بات یہ ہے کہ مکی دور کا تصور اس استدلال میں ادھورا ہے۔ اس کا مطلب عموماً یہ سمجھا جاتا ہے کہ ظلم وجبر کو تقدیر الٰہی سمجھ کر خاموشی سے اسے برداشت کیا جائے اور دفاع اور تحفظ کے لیے نیک اعمال پر توجہ مرکوز کرنے اور دعا کرنے کے علاوہ کوئی اقدام عمل میں نہ لایا جائے، حالانکہ سیرت نبوی کے سرسری مطالعہ سے بھی یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حکمت عملی اس دور میں ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھنے کی ہرگز نہیں تھی۔ اس دور میں بھی ظلم سے تحفظ اور مظلوموں کی نصرت کے لیے وہ تمام وسائل اور تدابیر استعمال کی گئیں جو اس صورت حال میں ممکن اور موثر تھیں۔ ان میں مظلوموں کے لیے سماج کے بااثر افراد (جو عموماً مشرکین تھے) کی امان اور پناہ حاصل کرنا اور ظلم کے خلاف اجتماعی اخلاقی ضمیر کو اپیل کرنا بہت اہم تدابیر تھیں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑی حکمت کے ساتھ عرب سماج کی اس اعلیٰ اخلاقی روایت سے پورا فائدہ اٹھایا۔ اس کے ساتھ مظلوم مسلمانوں کے لیے سکونت کے متبادل مقامات تلاش کرنا اور انھیں ہجرت پر آمادہ کرنا بھی مکی دور کی حکمت عملی میں بہت نمایاں ہے۔ حبشہ کی طرف دونوں ہجرتیں اسی حکمت عملی کے تحت وقوع پذیر ہوئیں۔

عالم اسلام کی مذہبی وسیاسی قیادت کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ایک طرف مختلف خطوں کے مظلوم مسلمانوں کی نہ صرف خیر خواہی اور دیانت داری کے ساتھ درست راہ نمائی کرے، اور دوسری طرف طاقت کے عالمی ایوانوں میں ان کا مقدمہ حکمت اور دانائی کے ساتھ پیش کرنے کو اپنی خارجہ پالیسی کی بنیادی ترجیحات کا حصہ بنائے۔ اس ضمن میں قرآن مجید کا یہ ارشاد ہر حال میں ہمارے پیش نظر رہنا چاہیے: الا تفعلوہ تکن فتنۃ فی الارض وفساد کبیر (اگر تم مظلوموں کی مدد نہیں کرو گے تو زمین میں فتنہ اور بہت بڑا فساد رونما ہو جائے گا)۔ 

حالات و مشاہدات

(اکتوبر ۲۰۱۷ء)

تلاش

Flag Counter