سنکیانگ کے مسلمانوں کا مسئلہ

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

چین کا مغربی صوبہ سنکیانگ جس کی سرحد ہمارے ملک کے ساتھ لگتی ہے اور جو کسی زمانے میں کاشغر کہلاتا تھا، ہمارے پرانے مسلم لٹریچر میں اس کا ایک اسلامی خطہ کے طور پر کاشغر کے نام سے ذکر موجود ہے لیکن بعد میں اسے سنکیانگ کا نام دیا گیا ہے، میڈیا کی رپورٹوں کے مطابق وہاں مسلمانوں کے ساتھ معاملات بہت پریشان کن اور اضطراب انگیز ہیں کہ وہ ریاستی جبر کا شکار ہیں، انہیں مذہبی آزادی بلکہ شہری آزادیاں بھی حاصل نہیں ہیں۔ ایک عرصہ سے ایسی رپورٹیں چل رہی تھیں مگر ان کے بارے میں کہا جا رہا تھا کہ یہ چین کے خلاف پراپیگنڈا مہم کا حصہ ہے اور چین مخالف عناصر یہ خبریں پھیلا رہے ہیں، لیکن اب اقوام متحدہ کی نسلی تعصب کی کمیٹی کی باقاعدہ رپورٹ سامنے آئی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ تقریباً دس لاکھ مسلمان حراستی کیمپوں میں ہیں جو اپنے مذہبی اور شہری حقوق سے محروم ہیں اور ان کے ساتھ ریاستی جبر کا معاملہ کیا جا رہا ہے۔ اس پر ترکی کے وزیر خارجہ کا یہ احتجاج بھی سامنے آیا ہے کہ یہ صورتحال افسوسناک اور شرمناک ہے اور انہوں نے چین کی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ ریاستی جبر کو ختم کیا جائے اور وہاں کے دس لاکھ مسلمان جو حراستی کیمپوں میں ہیں انہیں آزاد کر کے ان کے انسانی حقوق بحال کیے جائیں۔ 

ہمارے ہاں یہ عمومی رجحان پایا جاتا ہے کہ جہاں ایسی بات سامنے آئے اسے مخالفانہ پراپیگنڈا کہہ کر نظرانداز کر دیا جاتا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ نصف صدی قبل وسطی ایشیا کی ریاستوں میں سوویت یونین کے ریاستی جبر اور مذہبی و شہری حقوق کی پامالی پر جب آواز اٹھائی جاتی تھی تو بہت سے لوگ یہ کہہ دیتے تھے کہ یہ سوویت یونین کے خلاف امریکی پراپیگنڈا مہم کا حصہ ہے، حتٰی کہ خود میں یہ کہنے والوں میں شامل تھا کہ یہ سامراج کا پراپیگنڈا ہے اور وسطی ایشیا کے مسلمانوں پر کوئی ریاستی جبر نہیں ہو رہا۔ لیکن ایمانداری کی بات ہے کہ جب سوویت یونین کی چھتری وہاں سے ہٹی تو میں نے خود علماء کے ایک وفد کے ساتھ تاشقند، سمرقند، ازبکستان میں ریاستی، مذہبی اور انسانی جبر کے ایسے مظاہر دیکھے جو وہاں پون صدی تک جاری رہے۔ اس لیے یہ بات کہہ کر معاملہ کو نظر انداز کر دینا درست نہیں ہے کہ یہ مخالفانہ پراپیگنڈا ہے، بلکہ اقوام متحدہ کی رپورٹ اور ترک وزیر خارجہ کا مطالبہ سامنے آنے کے بعد یہ معاملہ واقعتاً انتہائی سنجیدگی اختیار کر گیا ہے۔ اور میں پاکستان کی حکومت سے، قومی اداروں سے، سیاسی پارٹیوں سے، مذہبی راہنماؤں سے، دانشوروں سے اور دنیا بھر کی مسلمان حکومتوں سے یہ درخواست کروں گا کہ اس معاملہ پر غور فرمائیں۔ میں اس پر دو تین حوالوں سے بات کرنا چاہوں گا۔ 

  • پہلی بات تو انسانی حقوق کے حوالے سے ہے کہ وہ ہمارے انسان بھائی ہیں جن کے شہری حقوق پامال ہو رہے ہیں اور اقوام متحدہ نے بھی اسی حوالے سے بات کی ہے لیکن اقوام متحدہ کا طرزعمل ہمارے سامنے ہے۔ اقوام متحدہ اور اس نوعیت کے عالمی ادارے بس اتنی مہربانی کر دیتے ہیں کہ رسائی حاصل کر کے رپورٹ جاری کر دیتے ہیں لیکن اس سے زیادہ آج تک ان سے کسی مسئلہ پر کوئی توقع پوری نہیں ہوئی، نہ روہنگیا (برما) کے مسئلہ پر اور نہ کسی اور مسئلہ پر ان کا کوئی کردار سامنے آیا ہے۔ چنانچہ اقوام متحدہ کی اس مہربانی کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہ انہوں نے ایک رپورٹ کے ذریعے دنیا کو آگاہ کیا ہے کہ وہاں یہ صورتحال ہے،اس سے آگے اقوام متحدہ یا عالمی انسانی حقوق کے اداروں سے مزید کسی پیشرفت کی توقع کم از کم مجھے تو نہیں ہے۔
  • دوسری بات یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ پاکستان کا دو تین حوالوں سے بات کرنا بنتا ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ چین کے ساتھ کوئی مخاصمت مول لی جائے، چین ہمارا دوست ملک ہے، ہر موقع پر اس نے ہمارا ساتھ دیا ہے اور ہم پاک چین دوستی کا احترام کرتے ہیں۔ البتہ دوستانہ ماحول میں چین کے ساتھ بات کی جا سکتی ہے اور کی جانی چاہیے۔ ایک اس حوالہ سے کہ وہ ہمارا پڑوسی ملک ہے، دوسرا مسلمان ہونے کے حوالے سے تو اس سے کہیں زیادہ، اور انسانی حقوق کی بحالی کے حوالے سے بھی، چنانچہ ہماری تہری ذمہ داری بنتی ہے۔ میں چین کے ساتھ کسی مورچہ بندی کی بات نہیں کر رہا لیکن ایک دوست کے ساتھ دوستانہ ماحول میں ذرا مضبوط لہجے میں بات کرنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے اور یہ ہماری دینی ذمہ داری بھی ہے، علاقائی ذمہ داری بھی ہے اور انسانی ذمہ داری بھی ہے۔
  • تیسری بات یہ ہے کہ اگر ہم بات نہیں کریں گے تو یہ معاملہ کن لوگوں کے سپرد ہوگا؟ اس لیے کہ پہلے بارہا اس کا تجربہ ہو چکا ہے کہ اعتدال اور توازن کے ساتھ بات کرنے والے لوگ جب خاموش رہتے ہیں تو پھر معاملہ انتہاپسندوں کے ہاتھ میں چلا جاتا ہے۔ اور جب ایسا ہو چکتا ہے اور انتہاپسند اپنا کردار ادا کرنا شروع کر دیتے ہیں تو پھر ہم شور مچانا شروع کر دیتے ہیں کہ یہ انتہاپسند کیا کر رہے ہیں، حالانکہ معاملہ ان کے ہاتھ جانے کے ہم خود ذمہ دار ہوتے ہیں۔ میں یہاں مثال کے طور پر بہت سے مسائل کا ذکر کر سکتا ہوں کہ ہم نے خاموشی اختیار کر کے اور اپنا کردار ادا نہ کر کے معاملات انتہاپسندوں کے حوالے کیے۔ ہمارے ہاں پاکستان میں ایسا ہو چکا ہے کہ اعتدال پسند قوتوں نے اسباب و عوامل کو کنٹرول کرنے پر توجہ نہیں دی جس کے نتیجے میں انتہاپسند آگے آئے اور پھر ہم نے چیخنا چلانا شروع کر دیا کہ انتہاپسند یہ کر گئے۔ چنانچہ میری گزارش ہے کہ اس مسئلہ کو انتہاپسندوں کے حوالے نہ کیا جائے اور اسے معتدل اور متوازن موقف رکھنے والے حلقوں کو اپنے ہاتھ میں لینا چاہیے۔ پاکستان کی سیاسی جماعتوں کو، ریاستی اداروں کو، حکومت پاکستان کو، بالخصوص اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) اور دنیا بھر کی مسلم حکومتوں کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس مسئلہ کا نوٹس لیں اور اس میں اپنا کردار ادا کریں۔
  • چوتھی بات میں یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ ہم چین کے ساتھ ایک معاشی منصوبہ ’’سی پیک‘‘ کو آگے بڑھا رہے ہیں اور مستقبل میں اس اشتراک عمل میں اضافہ ہوتا نظر آ رہا ہے، اللہ کرے کہ ہم اسے مثبت انداز میں آگے بڑھا سکیں۔ لیکن میں دانشوروں کے سامنے یہ سوال پیش کرنا چاہوں گا کہ کیا سنکیانگ کے مسلمانوں کا معاملہ ہمارے مستقبل کا آئینہ تو نہیں بن جائے گا؟ میں یہ بات چین کی عوام دوست حکومت سے بھی کہنا چاہوں گا کہ جناب اس معاشی منصوبہ میں ہمارے ساتھ آگے بڑھتے ہوئے ہمیں یہ منظر نہ دکھایا جائے کہ چین کے صوبہ اور ہمارے پڑوس میں رہنے والے مسلمانوں کے ساتھ کیا معاملہ ہو رہا ہے۔ اور میں اپنے پاکستانی دوستوں سے بھی عرض کرنا چاہوں گا کہ ہم سی پیک کو دوستانہ دائرے میں دیکھ رہے ہیں، کہیں خدانخواستہ یہ ہمارے لیے ایک نئی ’’ایسٹ انڈیا کمپنی‘‘ نہ بن جائے۔ میں ایک بار پھر خدانخواستہ کہوں گا لیکن اگر ایسا ہوا تو پھر یہ سب جانتے ہیں کہ ایسٹ انڈیا کمپنی نے ہمارے ساتھ کیا کیا تھا اور اس کے جواب میں ہم نے کیا طرز عمل اختیار کیا تھا۔

میں یہ چاہوں گا کہ ہمارے ادارے، سیاسی جماعتیں، مذہبی راہنما اور دانشور اِن حوالوں سے اس معاملہ پر غور کریں اور خاموش تماشائی کا کردار ادا کرنے کی بجائے اپنی ذمہ داری کا احساس کریں کہ یہ نہ صرف ہماری شرعی بلکہ قومی ذمہ داری بھی ہے۔ 



حالات و مشاہدات

(مارچ ۲۰۱۸ء)

مارچ ۲۰۱۸ء

جلد ۳۰ ۔ شمارہ ۳

تلاش

Flag Counter