جمہوریت اور پاکستانی سیاست

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

اسلام آباد کے بعد جکارتہ بھی الیکشن میں مبینہ دھاندلی کے خلاف سراپا احتجاج ہے اور ہارنے والوں نے انتخابی نتائج کو مسترد کرتے ہوئے دارالحکومت پر دھاوا بول کر کاروبار زندگی کو مفلوج کر کے رکھ دیا ہے۔ جکارتہ آبادی کے لحاظ سے دنیا کے سب سے بڑے مسلمان ملک انڈونیشیا کا دارالحکومت ہے اور وہاں بھی احتجاجی سیاست نے اسلام آباد جیسا منظر قائم کر دیا ہے۔ جکارتہ کی صورتحال کیا ہے؟ اس کی تفصیلات تو چند روز تک واضح ہوں گی، مگر اسلام آباد کی صورت حال یہ ہے کہ وزیر اعظم سے استعفا کا مطالبہ کرنے والے اور کسی قیمت پر مستعفی نہ ہونے کا اعلان کرنے والے وزیر اعظم اپنے اپنے موقف پر قائم ہیں۔ مذاکرات شروع ہونے کے بعد معطل ہو چکے ہیں اور اب صرف ’’ایمپائر‘‘ کی انگلی اٹھنے کا انتظار ہے جو ان سطور کی اشاعت تک شاید اٹھ چکی ہو یا بس اٹھنے ہی والی ہو۔ وزیر اعظم سے استعفا کا مطالبہ کرنے والوں کی قیادت تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اور پاکستان عوامی تحریک کے قائد ڈاکٹر طاہر القادری اپنی اپنی افواج کے ساتھ اسلام آباد میں پارلیمنٹ کے سامنے موجود ہیں بلکہ دھرنا دیے ہوئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ استعفا لیے بغیر وہ یہاں سے نہیں ہٹیں گے، جبکہ پارلیمنٹ کی اکثریت اور سیاسی جماعتوں کی بڑی تعداد کے علاوہ وکلاء برادری اور تاجر برادری بھی استعفیٰ نہ دینے کے موقف پر وزیر اعظم کے ساتھ کھڑی دکھائی دے رہی ہے۔ 

مگر ہمیں اس سارے کھیل میں فٹ بال بن جانے والی ’’جمہوریت‘‘ پر ترس آنے لگا ہے کہ اس میچ میں اس کی جو درگت بن رہی ہے شاید اس سے قبل اسے اس کا سامنا نہ کرنا پڑا ہو۔ اس لیے وہ اِدھر سے اُدھر لڑھکتے ہوئے یقیناًیہ گنگنا رہی ہوگی کہ:

؂ ڈبویا مجھ کو ہونے نے، نہ ہوتی تو میں تو کیا ہوتا

استعفا کا مطالبہ کرنے والوں کے ہاتھ میں بھی جمہوریت کا پرچم ہے کہ ان کے نزدیک جمہوریت کا سب سے بڑا تقاضا وزیر اعظم کا منظر سے ہٹ جانا ہے اور استعفیٰ سے انکار کرنے والوں کی دلیل بھی یہی جمہوریت ہے کہ ان کے پیچھے ہٹ جانے سے جمہوریت ’’ڈی ریل‘‘ ہو سکتی ہے۔ گویا دونوں طرف جمہوریت ہی ایک دوسرے سے نبرد آزما ہے۔ اب تک علماء کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ لوگ جب آپس میں محاذ آرائی کرتے ہیں تو دونوں طرف ’’اسلام‘‘ کا نعرہ ہوتا ہے۔ اب سیکولر سیاست بھی وہی منظر پیش کرنے لگی ہے اور ایک جمہوریت دوسری جمہوریت سے ٹکرا رہی ہے۔ جمہوریت بیچاری کا قصور یہ ہے کہ وہ خود کوئی نظام نہیں ہے بلکہ صرف اتنا بتاتی ہے کہ سوسائٹی کی اکثریت کے جذبات کیا ہیں اور ملک کے شہریوں کی اکثریت کون سا نظام چاہتی ہے۔ جمہوریت کا کردار صرف سوسائٹی کی اکثریتی خواہش کا اظہار کرنا ہوتا ہے، اس خواہش کی عملی تشکیل اکثریت کے نمائندوں نے کرنا ہوتی ہے۔ مگر ایک طرف جمہوریت کے مغربی علمبرداروں نے یہ طے کر رکھا ہے کہ کسی ملک کے عوام کی اکثریت نے مغربی فلسفہ و ثقافت کی حمایت میں فیصلہ دیا ہے تو وہ ’’جمہوریت‘‘ ہے اور اگر کسی ملک کے عوام کی اکثریت مغربی نظام اور ثقافت کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہے تو وہ ملک جمہوریت کا اہل ہی نہیں ہے اور وہاں جمہوریت کی بجائے بادشاہت، ڈکٹیٹر شپ اور فوجی آمریت مغربی حکمرانوں کی پسندیدہ چیز قرار پا جاتی ہے۔ جبکہ دوسری طرف ہمارے ہاں معیار یہ بن گیا ہے کہ اگر انتخابی نتائج ہماری مرضی کے مطابق ہیں تو وہ جمہوریت شفاف ہے، لیکن انتخابی نتائج اگر ہماری مرضی کے نہیں ہیں تو سرے سے وہ جمہوریت ہی نہیں ہے اور اس کے خلاف ڈنڈے اٹھا کر دارالحکومت کا رخ کر لینا جمہوریت کا سب سے بڑا تقاضا بن جاتا ہے۔ 

گزشتہ الیکشن میں دھاندلی ہوئی، اس پر کم و بیش سب سیاسی جماعتوں کا اتفاق ہے، البتہ اس کی کمی بیشی پر بحث کی گنجائش موجود ہے۔ مگر یہ بات بھی حقیقت ہے کہ الیکشن کے نتائج کو سب جماعتوں نے تسلیم کیا ہوا ہے اور ان کے مطابق اپنی اپنی ذمہ داریاں بھی سنبھالی ہوئی ہیں۔ اسمبلیوں کی رکنیت کے ساتھ ساتھ حکومتوں کا وجود بھی ایک سال سے زیادہ عرصہ گزار چکا ہے۔ جبکہ مبینہ دھاندلیوں کے سد باب کے لیے قانونی پراسیس کے علاوہ پارلیمنٹ بھی اس کے لیے طریق کار طے کر چکی ہے اور سد باب کے اس عمل کو مزید مؤثر بنانے کے امکانات اور مواقع سے بھی انکار نہیں کیا جا رہا تو اس سلسلہ میں اس قدر ضد اور ہٹ دھرمی کا کیا جواز ہے؟ اور پھر یہ سوال اپنی جگہ مستقل اہمیت رکھتا ہے کہ ’’ایمپائر کی انگلی‘‘ آخر کون سی جمہوریت کی علامت ہوتی ہے؟

حالات و مشاہدات

(ستمبر ۲۰۱۴ء)

تلاش

Flag Counter