وزیر اعظم میاں شہباز شریف سے چند گذارشات

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

ملک میں حکومت تبدیل ہو گئی ہے اور جن مراحل سے یہ عمل گزرا ہے بلکہ ابھی گزر رہا ہے اس سے ہمارے اس معاشرتی مزاج کا ایک بار پھر اظہار ہوا ہے کہ ملک میں کوئی کام ہماری مرضی کے مطابق ہو رہا ہو تو وہ ہمارے خیال میں دستور کا تقاضہ بھی ہوتا ہے، شریعت کا حکم بھی ہوتا ہے، ملکی مفاد بھی اسی سے وابستہ ہوتا ہے، اور قومی سلامتی کا راستہ بھی وہی قرار پاتا ہے۔ لیکن وہی کام اگر ہمارے ایجنڈے، اہداف اور نقطۂ نظر سے ہم آہنگ نہیں ہے تو اس سے سازش کی بو آنے لگتی ہے، قومی وحدت خطرے میں پڑ جاتی ہے، ملکی سلامتی داؤ پر لگ جاتی ہے، اور دستور و قانون کے تقاضے پامال ہوتے نظر آنے لگتے ہیں۔ یہ عمومی مزاج ہمارے معاشرتی ماحول میں اس قدر رچ بس گیا ہے کہ اس سے ہٹ کر کسی اور لہجے میں سیاسی بات کرنے سے زبانیں ناآشنا ہو چکی ہیں۔

ہمارا سیاسی ماحول قیامِ پاکستان کے بعد سے ہی بیرونی مداخلت کا شکار چلا آ رہا ہے جس کا آغاز پہلے وزیر خارجہ ظفر اللہ خان کے دور میں ہو گیا تھا کہ ان کی بیرون ملک سرگرمیاں اور ان کے ذریعے غیر ملکی دخل اندازی کا تسلسل ان کی برطرفی کے لیے ایک عوامی تحریک پر منتج ہوا تھا، اور تب سے ہم کسی تعطل کے بغیر سیاسی، معاشی اور تہذیبی ہر سطح پر بیرونی سازشوں کا شکار چلے آ رہے ہیں۔ سازشیں کامیاب بھی ہوتی ہیں اور ناکام بھی۔ بعض سازشیں بے نقاب ہو جاتی ہیں جبکہ بہت سی مخفی رہ کر اپنے مخصوص دائروں میں کام کرتی رہتی ہیں۔ یہ کھیل جاری ہے اور جب تک ہم بحیثیت قوم دستور کی بالادستی اور قومی خودمختاری کے حقیقی ماحول کی طرف نہیں آتے یہ سب کچھ اسی طرح جاری رہے گا، ایک دوسرے پر الزامات بھی لگتے رہیں گے، بلیک میلنگ بھی ہوتی رہے گی اور سیاسی خلفشار بار بار جنم لیتے رہیں گے کیونکہ ملک کو خودمختاری، سیاسی استحکام، معاشی ترقی اور تہذیبی شناخت سے محروم کرنے والوں کا یہ ہتھیار ہمیشہ کارگر رہا ہے۔

اس تناظر میں موجودہ خلفشار اور سیاسی رسہ کشی کے واقعاتی پہلوؤں سے قطع نظر نئی حکومت بالخصوص وزیراعظم میاں شہباز شریف کو مبارکباد دیتے ہوئے معروضی تقاضوں کے حوالے سے ہم کچھ گزارشات پیش کرنا چاہیں گے، اس امید کے ساتھ کہ وہ ان پر غور فرمائیں گے اور قومی پالیسی کے امور طے کرتے ہوئے ملک کے ایک بڑے طبقہ کی ان خواہشات کو بھی سامنے رکھیں گے:

  • پہلی بات یہ ہے کہ ملک میں موجودہ تبدیلی اور نئی حکومت کا قیام بہرحال دستوری طریقہ کے مطابق پارلیمنٹ کے ذریعے اور عدلیہ کی نگرانی میں ہوا ہے اور اس کی تکمیل کے مراحل اسی دائرہ میں طے پا رہے ہیں، جس میں دیگر ریاستی اور قومی اداروں کا مجموعی تعاون بھی جھلک رہا ہے جو بہرحال خوش آئند ہے۔ ہمارے خیال میں ملک کو دستور و قانون کے ٹریک پر رکھنے کا یہی طریقہ درست اور ضروری ہے۔ وزیراعظم سے گزارش ہے کہ ان کی حکومت جن مذکورہ ذرائع سے تشکیل پائی ہے اس ٹریک کو مضبوط کرنے اور اس کے تسلسل کو قومی مزاج کا حصہ بنانے کے لیے موثر عملی اقدامات کریں کہ اسی سے ملکی مفاد وابستہ ہے۔
  • دوسری بات یہ ہے کہ قائد اعظم مرحوم نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے افتتاح کے موقع پر واضح طور پر کہا تھا کہ ہماری معیشت مغربی اصولوں پر نہیں بلکہ اسلامی تعلیمات پر استوار ہو گی، جو بدقسمتی سے ابھی تک نہیں ہو سکی۔ اور اس سلسلہ میں دستور کی واضح ہدایت اور عدالتِ عظمٰی کا دوٹوک فیصلہ بھی ہمیں اسلامی معیشت کے ٹریک پر لانے میں کامیاب نہیں ہوا اور ہم بدستور عدالتی اپیلوں اور کیسوں کے بھنور میں پھنسے ہوئے ہیں۔ اس سلسلہ میں تازہ معلومات کے مطابق وفاقی شرعی عدالت دو عشروں سے چلنے والے کیس پر سماعت مکمل کر کے ملک میں رائج سودی قوانین کے مستقبل کے بارے میں آئندہ دو چار روز میں کوئی حتمی فیصلہ سنانے والی ہے۔ وزیراعظم محترم سے ہماری درخواست ہے کہ اگر یہ فیصلہ دستورِ پاکستان، شرعی احکام اور عدالتِ عظمٰی کے سابقہ فیصلوں کی بنیاد پر قومی امنگوں کے مطابق سامنے آیا تو اسے قبول کر لیا جائے اور پھر سے اپیلوں کے چکر میں نہ پڑا جائے۔ یقیناً نظام کے تسلسل کے حوالہ سے مسائل پیش آئیں گے، انہیں فیصلہ کو نظر انداز کر کے اور اپیلوں کے چکر میں پڑ کر حل کرنے کی کوشش نہ کی جائے بلکہ ان عملی مسائل کے حل کے لیے شریعت اور معیشت کے ماہرین اور دنیا کے دیگر ملکوں میں غیر سودی معیشت کا تجربہ کرنے والے اداروں کی مشاورت و تعاون سے حل کرنے کا راستہ نکالا جائے، اس سے اللہ تعالیٰ بھی راضی ہوں گے اور قوم بھی مطمئن ہو گی کہ ہم نے اس دلدل سے واپسی کا راستہ اختیار کر لیا ہے۔
  • تیسری گزارش ہمارے نزدیک یہ ضروری ہے کہ آئی ایم ایف، سیڈا، فیٹف اور دیگر بیرونی اداروں کے کہنے پر ہم نے آنکھیں بند کر کے ان کے بھیجے ہوئے کچھ قوانین منظور و نافذ کر رکھے ہیں جس میں (۱) اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی نگرانی آئی ایم ایف کے سپرد کر دینے کا عمل، (۲) مذہبی اوقاف کا قانون اور (۳) خاندانی نظام و قوانین میں ردوبدل کا ایکٹ سرفہرست ہیں۔ ان پر نظرثانی کا اصولی اعلان تو فوری طور پر کیا جائے جبکہ نظرثانی کے لیے وفاقی شرعی عدالت اور اسلامی نظریاتی کونسل کے دستوری اداروں کے ساتھ ساتھ متعلقہ علمی و فکری حلقوں کو اعتماد میں لے کر عملی طریقہ کار بھی وضع کیا جائے۔
  • جبکہ چوتھی گزارش یہ ہے کہ کشمیر، فلسطین اور افغانستان کی موجودہ صورتحال پر پاکستان کا مضبوط ردعمل اور کردار سامنے آنا ضروری ہے جس کے لیے امارتِ اسلامی افغانستان کو فوری طور پر تسلیم کیا جائے اور عالمِ اسلام کے اِن مسائل پر عالمی رائے عامہ بالخصوص مسلم امہ کو بیدار کرنے کی عالمی مہم کو ازسرنو منظم کیا جائے۔

حالات و مشاہدات

(مئی ۲۰۲۲ء)

تلاش

Flag Counter