ترتیب: ڈاکٹر سید عزیز الرحمن
پروفیسر عبدالقیوم قریشی
(سابق وائس چانسلر، اسلامیہ یونیورسٹی، بہاولپور)
ڈاکٹر محمود احمد غازی تمام اخلاق حمیدہ سے متصف انسان تھے۔ ان کے بارے میں اتنا ہی کہوں گا کہ ’’بزم دم گفتگو گرم دم جستجو‘‘۔ ڈاکٹر صاحب مرحوم کو بات سمجھانے کا ایسا ملکہ اللہ نے عطا کیا تھا کہ ججوں کی تربیت کے دوران ہرجج کی خواہش ہوتی تھی کہ وہ مرحوم سے استفادہ کرے۔
پروفیسر فتح محمد ملک
(ریکٹر بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد،سابق چےئرمین مقتدرہ قومی زبان)
یقین نہیں آتا کہ ڈاکٹر غازی ؒ ہم سے جدا ہوگئے ہیں۔ مقررین نے ان کے بارے میں یہ تو بتا دیا کہ وہ وفاقی وزیرتھے، لیکن ایک بات جو ان کی شخصیت کا خاصہ تھی، وہ کسی نے نہیں بتائی اور وہ یہ تھی کہ مرحوم ایک ڈکٹیٹر سے نظریاتی اختلاف رکھتے تھے اور جب اس ڈکٹیٹر نے دینی حکمت عملی میں تبدیلی کی تو ڈاکٹر غازی نے یہ کہتے ہوئے وزارت سے استعفا دے دیا کہ مجھے یہ تبدیلی منظور نہیں۔ ڈاکٹر غازی ہمارے درمیان موجود ہیں اور ہمیشہ موجود رہیں گے۔
ڈاکٹر ظفر اسحاق انصاری
(ڈائریکٹر ادارۂ تحقیقات اسلامی، اسلام آباد)
اسلامی تعلیمات ڈاکٹر محمود احمد غازی ؒ کے رگ و پے میں سرایت کیے ہوئے تھیں۔ دیانت، امانت، ورع و تقویٰ میں ان کا کوئی ثانی نظر نہیں آتا۔ میں ان کے بارے میں کہا کرتا تھا کہ : He is punishing the onesty۔ ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ نے اپنی ملازمت کے آخری دن دفتر کی گاڑی استعمال نہ کی اورا س کا عذر یہ پیش کیا کہ میں اب صدر نہیں ہوں۔ نہایت وسیع مطالعہ کے حامل تھے جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک دن خود غازی صاحب مرحوم نے کہا کہ میں نے ’’کتاب الام‘‘ سات مرتبہ بالاستیعاب پڑھی ہے۔ تاریخ، سیرت، فقہ، حدیث، علم الکلام، فلسفہ، ادب اور شعرسب میں ان کو دلچسپی تھی۔ وہ وقت ضائع نہیں کرتے تھے۔ مرحوم یونیورسٹی کی صدارت کی گراں بار ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ چھ گھنٹے روزانہ تدریس کیا کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ ان کا انجام انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین کے ساتھ فرمائیں۔
جسٹس (ر) خلیل الرحمن خان
(سابق ریکٹربین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی، اسلام آباد)
ڈاکٹر محمود احمد غازی کا علم سمندر کی سی گہرائی رکھتا تھا۔ اخلاق کریمانہ سے متصف تھے اور ہر ملنے والے سے ایسے ملتے تھے گویا وہ کوئی دیرینہ شناسا ہو۔ میں نے سود کیس چھ ماہ سننے کے بعد جو جج منٹ لکھی، اگر غازی مرحوم کی معاونت نہ ہوتی تو میرے لیے وہ لکھنا ممکن نہ تھا۔ غازی مرحوم اس ورثے کے امین تھے جو سرتاپا علم ہی علم تھا۔ والد کی طرف سے حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی ؒ سے اور والدہ کی طرف سے مولانا الیاسؒ بانی تبلیغی جماعت سے قرابت داری تھی۔اسلامی یونیورسٹی میں حسن بن طلال، مہاتیر محمد اور نیلسن منڈیلا کے نائبین کی آمد مرحوم ہی کا کارنامہ تھا جس نے پور ی دنیا میں یونیورسٹی کو پہچان بخشی۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کو غریق رحمت کرے۔
ڈاکٹر ایس ایم زمان
(سابق چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل، اسلام آباد)
’’ موت العالم موت العالم‘‘ کی ضرب المثل ڈاکٹر غازی مرحوم پر صادق آتی ہے۔ ان کے اخلاق میں صداقت کا پہلو برملا تھا۔ میں نے غازی صاحب کے ساتھ طویل رفاقت میں ان کو انتہائی دیانت دار پایا اور ایسا کہ اس پایے کی کوئی ایک مثال ملنا بھی آج پورے ملک میں ممکن نہیں۔ علم میں ان کا ثانی اور ہم سر تو پیدا ہو سکتاہے، لیکن دیانت، امانت، صداقت اور خلوص میں ان جیسا سپوت اس مٹی کو اب ملنا مشکل ہے۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کے درجات بلند فرمائے اور پس ماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے۔
ڈاکٹر صاحبزادہ ساجد الرحمن
(ڈائریکٹر، دعوۃ اکیڈمی، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد)
ڈاکٹر محمود احمد غازی مرحوم کو اللہ تعالیٰ نے بے پناہ صلاحیتوں سے سرفراز فرمایا تھا۔ وہ ایک ہمہ جہت و ہمہ پہلو شخصیت تھے اور قدیم و جدید علوم کا حسین امتزاج تھے۔ ان کی زندگی کا ایک ایک لمحہ علم دین کی ترویج و اشاعت، اقدار اسلامیہ کے فروغ ا ور ملک و ملت کی بھلائی کے لیے صرف تھا۔ ڈاکٹر محمود احمد غازی نے اہل علم سے اپنی علمیت کا لوہا منوایا تھا اور انتہائی کم عمری میں بڑے بڑے اسکالرز کے درمیان استاد کا درجہ رکھتے تھے۔ ان کا وصال کسی ایک طبقہ، خاندان یا ایک ملک کا نقصان نہیں، پوری ملت اسلامیہ کا نقصان ہے۔ تقویٰ، طہارت، امانت اور دیانت کا مجسم پیکر تھے۔ اللہ ان کی قبر پر اپنے انوار اور رحمتوں کا نزول فرمائے۔
ڈاکٹر ممتاز احمد
(ایگزیکٹوڈائریکٹراقبال، انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فار ریسرچ اینڈ ڈائیلاگ)
ڈاکٹر محمود احمد غازی علم اور حلم، دونوں میں ممتاز تھے۔ ان کے علم کے بارے میں اظہار خیال کرنا میرے لیے گستاخی کی بات ہے۔ مرحوم بہت محبت کرنے والے اور دوسروں کا خیال رکھنے والے انسان تھے۔ ہمیشہ خوشی، گرم جوشی اور تعلق خاطر سے ملا کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے۔
شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید
(رئیس الجامعہ دارالعلوم، زاہدان)
مایہ ناز دانشور اور گراں قدر عالم دین جناب ڈاکٹر محموداحمد غازی رحمہ اللہ جو عالم اسلام کی نامور شخصیات اور علمی سرمایوں میں سے تھے، ان کے انتقال کی افسوسناک خبر نے ہمیں سخت غم زدہ اور متاثر کیا۔ آپ رحمہ اللہ علیہ مختلف موضوعات میں دسیوں تصانیف کے علاوہ متعدد سیمینارز اور کانفرنسز میں شرکت کر کے مغربی دنیا میں اسلام کا تعارف پیش کرتے تھے۔ مرحوم نے ۲۰۰۹ء کی بہار میں ایران اور دارالعلوم زاہدان کا تفصیلی دورہ کیا۔ آپ ایک ہفتے تک ایران کے ممتاز علمی ادارہ دارالعلوم زاہدان میں مختلف موضوعات پر لیکچر دیتے رہے۔