مرگ وزیست اس عالم کون وفساد کا خاصہ ہے۔ یہاں جو ذی روح آتا ہے، وہ موت کا ذائقہ ضرور چکھتا ہے۔ خواہ کوئی کتنا ہی بڑا مرتبہ پا لے، کتنی رفعتوں اور بلندیوں کو چھولے، نجوم وکواکب پر کمندیں ڈال لے، آفتاب وماہتاب کو پامال کر لے، بروبحر کی پہنائیوں میں اتر جائے، خلاؤں وفضاؤں کی تنگنائیوں کو روند ڈالے، تاروں بھری راتوں میں کہکشاؤں کے نقرئی راستے اپنے تصرف میں لے لے اور ارض وسما کے طول وعرض کی حقیقتوں کو پا لے، مگر موت سے مفر ناممکن ہے۔ خالق ارض وفاطر سماء نے کائنات ارضی وسماوی کی تخلیق سے پہلے ہی انھیں فناکرنے کا فیصلہ اور وقت مقرر کر رکھا ہے۔ موت وحیات کا نظام اپنے قبضہ قدرت میں رکھا اور آنے جانے کو بالخصوص سنت بنی آدم کا حکم تکوینی قرار دیا۔ بابا چلاسی فرماتے ہیں:
بو علی سینا وافلاطوں کجا غائب شدند
انبیا را ہم ز دنیا انتقالے دیدہ ایم
مالدارانش چرا بر مال خود فخر ے کنند
مالدارانش چو ما اندر سوالے دیدہ ایم
مگر اشرف المخلوقات کی صفت سے متصف بعض انسان ایسے بھی ہوئے ہیں جو اپنی اجلی سیرت، بلند کردار اور عمل صالح کے باعث یہاں سے جانے کے بعد بھی باقی رہتے ہیں، کیوں کہ وہ صرف آنے کے لیے ہی آتے ہیں۔ ایسے ہی آنے والوں میں ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ بھی تھے جو اگرچہ اب جسم کی مادی متحرک اور متکلم صورت میں ہمارے درمیان موجود نہیں ہیں، لیکن ان کی شوخیت ایک رنگ تک محدود نہ تھی، بلکہ کئی قزحی رنگوں کے حسین امتزاج نے انہیں ایک کہکشاں کی صورت دے دی تھی۔ وہ درس نظامی کے فارغ التحصل فاضل تھے۔ فقہ وقانون کے زبردست ماہر تھے۔ عصری علوم کے بلندپایہ عالم تھے۔ عمیق النظر دانشور تھے۔ مسلم الثبوت ماہر تعلیم تھے۔ محقق ومدقق اور فلسفی ومتکلم تھے۔ بالغ نظر منتظم اور صاحب بصیرت مفکر تھے۔ اعلیٰ پایے کے خطیب ومقرر تھے۔ عظیم المرتبت مصنف ومولف اور قادرالکلام مترجم تھے۔ درویش ومنکسرالمزاج اور تواضع پسند فقیر طبع تھے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ایک عظیم انسان تھے۔ سراپائے انس والفت،پیکرپریم وپیار اور مجسمہ محبت ومودت۔
ان کے انگ انگ سے اخلاص وچاہت کے سوتے پھوٹتے تھے اور ہر بال وبن سے شفقت ورافت کے چشمے ابلتے تھے۔ اس ماہر ہفت زبان کی ذات میں کتنے دھنک رنگ جمع ہو گئے تھے اور ان سب رنگوں میں اعلیٰ وبرتر رنگ صبغۃ اللہ یعنی اللہ کا رنگ تھا۔ ومن احسن من اللہ صبغۃ۔ آپ کا وجود باجود سرتاپا صبغۃ اللہ میں رنگا ہو اتھا۔ دنیا میں کسی بھی حوالے سے یاد کیے گئے ، کسی بھی عہدہ ومنصب پر فائز ہوئے ، کسی بھی مرتبہ ومقام تک رسائی حاصل کی، کسی بھی لقب وخطاب سے مخاطب کیے گئے، کسی بھی شرف وکمال سے پکارے گئے اور کسی بھی اعزاز وتمغہ سے نوازے گئے، کبھی بھی اپنی جون نہیں بدلی، کپڑوں سے باہر نہیں آئے، ہمیشہ صبغۃ اللہ کا چولا زیب تن رکھا اور اللہ کے رنگ کے دائرے میں ہی رہے۔ اسی کو وجہ پہچان بنایا، اسی کو زندگی کا مقصد وحید ٹھہرایا اور اسی پر نازاں رہے۔
شاید ایسی ہی طرح د ار شخصیات کے لیے ہشت پہلو کا لفظ وضع کیا گیا ہے اور ہشت پہلو اشخاص وافراد اپنے علم وفہم، بصیرت ونظر، جدوجہد، حسن کردار واعمال اور اعلیٰ اخلاق واخلاص کی وجہ سے مر کر بھی نسیاً منسیاً نہیں ہوتے بلکہ امر ہو کر تاریخ میں زندۂ جاوید رہتے ہیں۔ ایسے انسان ہی ابنائے آدم کی بھیڑ میں عند اللہ اشرف المخلوقات کہلائے اور کرہ ارض پر خلیفۃ اللہ کے لقب سے ملقب کیے جاتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب علوم قدیم وفنون جدید کے قران السعدین تھے اور ہنر کہن وعصری کے مجمع البحرین۔ ان کی ذات ستودہ صفات آثار ماضی وحال کے مابین ’’اعراف‘‘ کا درجہ رکھتی تھی۔ جب علما کے درمیان براجمان ہوتے تو عصر حاضر کے بہت بڑے دانشور واسکالر دکھائی دیتے تھے اور جب جدید تعلیم یافتہ طبقے کے مابین رونق افروز ہوتے تو طلبہ وعلما کے ترجمان اور مدارس ومکاتب کے پرزور حمایتی لگتے تھے۔
ان کی ظاہری وضع قطع یقیناًمسٹروں والی تھی اور بودوباش پروفیسروں والی، چال ڈھال ڈاکٹروں کی طرح تھی اور رہن سہن بیورو کریسیوں جیسا جو اکثر علمی تصلب سے تہی دامن ہوتے ہیں اور علم کی گہرائی وگیرائی سے یکسر خالی۔ محض کاغذی ڈگریوں کے بل بوتے پر پھوں پھاں کرتے ہیں اور پنجابی لہجے میں انگریزی کا تڑکہ لگا کر اردو بیچاری کا خانہ خراب کرتے ہیں۔ انہیں اپنی جہالت نما علمیت جتانے کا ہیضہ ہوتا ہے اور بات بات پر مغرب کی ترقی کے حوالے دینے کا ٹھرک۔ ان جہل مرکبوں کو مشرق کی کوئی چیز بھلی نہیں لگتی اور وطن عزیز کی کوئی خوبی ایک آنکھ نہیں بھاتی۔ یہ کورچشم اتنے احسان فراموش ونمک حرام ہوتے ہیں کہ ہمیشہ مشرق کا کھاتے ہیں، مگر زندگی بھر گن مغرب کے گاتے ہیں۔ ان کی آنکھ میں سور کا صرف ایک بال ہی نہیں، سارا سورا سمایا ہوتا ہے۔ اس لیے وہ مدارس ومکاتب دینیہ کی اجلی ومزکی فضا کے پروردہ طالبان وعلما کو اسی سور مائی نگاہ سے دیکھتے اور انہیں حقیر ورذیل گردانتے ہیں، مگرہمارے فاضل ممدوح اپنے تبحر علمی، وسعت مطالعہ، ذکاوت وذہانت، استحضار وقوت حافظہ، بصیرت وفراست، قدامت وجدیدیت کے امتزاج، مافی الضمیر کے فی البدیہ اظہار کی قدرت، اسلام دشمن قوتوں اور تحریکوں سے آگاہی، دین میں نت نئے پیدا ہونے والے فتنوں اور فتنہ پردازوں پر کڑی نظر، تعلیم وتدریس اور تحریر وتقریر میں یکساں مہارت اور حاضر جوابی کے لاجواب ملکہ جیسی صفات عالیہ کے باعث پروفیسر ہو کر بھی مادر پدر آزاد پروفیسروں سے لگا نہیں کھاتے تھے اور نہ ہی روشن خیال ڈاکٹروں کے قبیلے کے لگتے تھے۔
قادر وکریم قدرت نے ان کے وجود مسعود میں جو اوصاف وکمالات کوٹ کوٹ کر بھر دیے تھے، ان کے حامل اس عہد قحط الرجال میں شاید ہی دکھائی دیں۔ اس پر مستزاد یہ کہ بہت کم لوگ اس بات سے آگاہ ہوں گے کہ ڈاکٹر صاحب جید وپختہ کار حافظ اور بہترین مجود ومقری تھے ۔ تکلف وتصنع سے گریزاں ، غنا وسرتال سے محترز اور سادہ وفطرتی انداز ولہجے میں تلاوت وقراء ت کرتے تھے۔ ماہ مقدس میں باقاعدگی سے اپنی قیام گاہ پر ہی بصورت تراویح قرآن کریم سنانے کا اہتمام کرتے اور رمضان المبارک کے علاوہ بھی فارغ اوقات میں اس کی تلاوت سے اپنی زبان کو تر رکھتے تھے۔ بالخصوص حالت سفر میں لہو ولعب اور لایعنیات میں مشغول ہونے کے بجائے احسن الکتاب کتاب اللہ کی تلاوت میں ہی مصروف رہتے تھے۔ نیز ان کی ان گنت صفات عالیہ وکمالات عمدہ میں سے ایک اعلیٰ صفت وخوبی یہ بھی تھی کہ ہمیشہ باوضو رہتے اور کبھی اس سے سرد مہری وغفلت نہیں برتتے تھے۔
آں ممدوح اپنے تبحر علمی وتفوق عملی اور عمق وتنوع کے باوجود طبعاً متواضع ومنکسرا لمزاج تھے۔ تصنع وتکلف سے مبرا اور بناوٹ وظاہر داری سے سراسر پاک تھے۔ دسیوں اعلیٰ عہدوں پر متمکن رہے اور بیسیوں اہم مناصب پر رونق افروز کیے گئے، مگر وضع داری، رکھ رکھاؤ اور مروت کا دامن کسی حال میں نہیں چھوڑا اور نہ ہی متانت ووقار کے دائرے سے کبھی باہر آئے۔ پرویزی دور میں وزارت مذہبی امور کا قلم دان انہیں سونپا گیا اور سچ یہ ہے کہ ملک عزیز کی تاریخ میں پہلی بار، اور شاید آخری بھی، حق بحقدار رسید کا مظاہرہ کیا گیا، ورنہ عموماً چنوں کے کھیت کی رکھوالی گدھوں، خربوزوں کے فصل کی نگرانی گیدڑوں او ر شکار کیے گئے جانوروں کی حفاظت گدھوں کو ہی سونپی گئی ہے اور نااہل لوگ ہی وزارت کی کرسی پر بطور آرائش وزیبائش سجائے گئے ہیں۔ الغرض، اسی اثنا میں آں مکرم کے والد محترم جناب حافظ محمد احمد فاروقی کا پشاور میں انتقال ہو گیا اورآپ ان کی تجہیز وتکفین اور جنازہ وتدفین میں شرکت کے لیے پشاور تشریف لے گئے تواپنی گاڑی وعملہ کے افراد کو گھر سے دور چھوڑ گئے او ر ہر قسم کے پروٹوکول سے بے نیاز ومستغنی پیدل چل کر اکیلے گھر پہنچے ۔
زعشق ناتمام ما جمال یار مستغنی
بہ آب ورنگ وخال وخط چہ حاجت روئے زیبا را
پھر جب جنازہ وتدفین ہو چکی اور لوگ دوپہر کو آرام وقیلولہ کرنے لگے تو یہ زاہد مرتاض وشب زندہ دار بھی مکان کے کسی کونے کھدرے میں سمٹ سمٹا کر زمین پر ہی دراز ہو گئے۔ چونکہ مکان تنگ وچھوٹا تھا، مہمانوں کی آمد وآورد تھی اور مرگ وموت کا محل وموقع بھی تھا، ایسے میں سکھ چین کہاں، تسکین وطمانیت کیسی اور آرام وراحت کیونکر! چند گھڑیاں ہی لیٹ پائے تھے کہ آواز آئی، حضرات! ایک ضرورت شدیدہ کے باعث کمرہ ہذا خالی کر دیجیے۔ اس صدائے رحیل پر لبیک کہتے ہوئے دیگر اشخاص وافراد کے ساتھ وزیر موصوف بھی اٹھ کھڑے ہوئے، دائیں بائیں نظر ڈالی مگر نہ جائے رفتن نہ پائے ماندن۔ جب کہیں سر سمانے کی جگہ دکھائی نہیں دی تو کسی کو بتائے بغیر چپکے سے نکلے او ر گھر کے قریب ہی ایک خرابہ نما اور خام وناپختہ مسجد، جس کے درودیوار مٹی گارے سے بنائے گئے تھے اور جو خس وخاشاک سے مسقف کی گئی تھی، اس میں محو استراحت وخواب ہوگئے۔ تھوڑی دیر بعد کہیں سے ان کے نام ٹیلی فون آیا اور افراد خانہ اس طرف متوجہ ہوئے، لیکن تلاش بسیار کے باوجود کہیں دستیاب نہیں ہوئے۔ اس پر فکرو تشویش ہوئی اور ہر پیر وجواں ومرد وزناں فکرمند وسرگرداں ہوئے کہ آخر ڈاکٹر صاحب گئے تو کہاں گئے۔ جب سب تھک ہار چکے تو کسی نے یونہی سوچا کہ لگے ہاتھوں مسجد میں بھی جھانک لیں۔ جیسے ہی اس میں جھانکا تو حیرانی کی انتہا نہ رہی کہ آں موصوف کچی مسجد کے کچے صحن میں کچی دیوار کے زیر سایہ اپنے جوتے سر کے نیچے رکھے غم جاں سے بے پروا، غم جاناں سے بے نیاز اور غم جہاں سے بے فکر، بڑے پرسکون انداز میں سو رہے ہیں۔
چوآہنگ رفتن کند جان پاک
چہ بر تخت خفتن چہ بر روئے خاک
یہ سب کچھ اس وقت ہوا جب موسم گرما کا جو بن تھا اور سایہ دیوار ہنوز مثل اول تک نہیں پہنچا تھا۔ پشاورشہر کی حدت وتمازت ویسے بھی بہت مشہور ہے۔ کوئی پنکھا تک موجود نہیں اور سایہ دیوار بھی ناکافی ہے، مگر اللہ تعالیٰ کے اس قناعت شعار بندے نے اسی پر اکتفا وقناعت کر لی اور جب جگایا گیا تو بڑے اطمینان کے ساتھ الحمدللہ الذی احیانا بعد ما اماتنا والیہ النشور پڑھتے ہوئے اٹھے، گردسے اٹے کپڑے جھاڑے اور گھر آ گئے۔
ڈاکٹر صاحب کی سیرت کے سارے رنگ حسین، سارے پہلو خوبصورت اور سارے اطوار من موہ لینے والے تھے اور بالخصو ص آپ کے حسن کردار کایہ تابناک انداز ہم جیسے ناہنجاروں کے لیے یقیناًدرس موعظہ اور لائق تقلید وعمل ہے کہ موصوف اپنے والدین کے از حد تابع دار وفانبردار اور مبالغہ کی حد تک ان کے مطیع وخدمت گزار تھے۔ ان کے والدمکرم کے مزاج میں جلالیت اور طبیعت میں تندی وتیزی کا عنصر کچھ زیادہ ہی در آیاتھا کہ بات بات میں آتش جیولہ بن جاتے اورکسی رو رعایت کے بغیر کھری کھری سنایا کرتے تھے اور بسا اوقات تو دو نکتی سنائے بغیر بھی نہیں رہتے تھے، مگر حیف ہے ان کی برخورداری پر، آفرین ہے ان کے تحمل وبردباری پر اور شاباش ہے ان کی اطاعت شعاری پر کہ سب کچھ خندہ روئی ورخشندہ جبینی سے سنتے اور اف تک نہیں کرتے تھے۔
غالباً ان کی وزارت کے زمانہ میں آں محترم فیصل مسجد کے اندر معتکف ہوئے اور وزیر موصوف بنفس نفیس سحر وافطار کا سامان لے کر مسجد میںآتے، انہیں سحری کراتے اور لوگوں کے سامنے ان کی جلی کٹی سن کر مسکراتے رہتے تھے۔ اگر کوئی انہیں سمجھانا چاہتا تو ناراضگی کا اظہار کرتے اور فرماتے، یہ میرااور میرے بابا کا معاملہ ہے اور آپ اس معاملہ میں مداخلت کرنے والے کون ہوتے ہیں۔ گویا
میان عاشق ومعشوق رمزیست
کراماً کاتبیں را ہم خبر نیست
لاریب ، ڈاکٹر صاحب انتہا درجہ کے پار سا اور پرہیز گار انسان تھے اور دوسروں کے لیے تتبع وتقلید کی علامت ونشان۔ زندگی کی آخری سانس تک اعلیٰ عہدوں ومناصب پر فائز رہے، مگر زندگی بھر دفتری وسرکاری ذمہ داریوں کے دوران کبھی حکومتی مراعات سے ذاتی فائدہ نہیں اٹھایا اور سرکاری خزانہ کو ایک حبہ تک کا نقصان نہیں پہنچایا۔ صرف مقررہ مشاہرہ پر ہی گزارا کرتے تھے اور ہمیشہ صابر وشاکر رہے۔
ڈاکٹر صاحب کو اللہ تعالیٰ نے بے پناہ ذہانت فطانت عطا فرمائی تھی، بے حساب استحضار اور قوت حفظ کاجوہر بخشا تھا اورلامتناہی حاضر جوابی کی صلاحیت سے ہم کنار کیاتھا۔ یہی وجہ ہے کہ جب کبھی اور جس کسی نے ان سے ادق سے ادق موضوع پر گفتگو کی یا کسی عقدۂ لاینحل اور مسئلہ مشکل کے متعلق استفسار کیا، آپ نے فی البدیہ مسکت اور تسلی آمیز جواب سے اسے شاد کام کیااور سننے والوں نے یہی جانا کہ موصوف اسی موضوع کے ماہر اورمتخصص ہیں۔
آپ چونکہ معتدل مزاج اور معتدل شخصیت کے حامل اور مثبت سوچ وفکر رکھنے والے عالم تھے،اس لیے ہر طبقہ فکرکو مطمئن کرنے کا فن خوب جانتے تھے اور اپنی شیریں مقالی، حسن عمل اور اعلیٰ اخلاق وکردار نیز انداز تکلم، طرز استدلال وحسن بیان اور حاضر جوابی کا باعث جلد دوسروں کا من موہ لیتے تھے۔ ہمارے مزاج میں عموماً افراط وتفریط کا غلبہ ہے اور بے اعتدالی وغلوپسندی کی فراوانی اور ہم ہرمعاملے میں مبالغہ آرائی سے کام لیتے ہیں اورہر پہلو سے حدود کے دائرہ سے تجاو ز کرنے میں دریغ نہیں کرتے۔ دعوت وتبلیغ ہو یا جہاد وقتال ، سیاست وسیادت ہو یا شریعت وطریقت، مدح ومنقبت ہویاتردید وتنقید، ذکر وتذکیر ہو یا ریاضت وعبادت، اقتصاد ومعاش ہو یا مذاکرہ ومکالمہ، بحث ومناظرہ ہو یا رویت ہلال کا مسئلہ، ذرائع ابلاغ وسائنس کے جدید وسائل سے استفادہ کا معاملہ ہو یا فقہ وفتاویٰ کی طرف مراجعت کی نوعیت، ہر جگہ ومقام اور ہر شعبہ وطریق میں اونچ نیچ کے عفریت نے اپنے خونخوار پنجے گاڑے ہوئے ہیں۔ کوئی تو اس حد تک تنگ نظر ہے کہ اپنی سوچ وفکر کی تنگنائیوں میں چند رسومات جاہلانہ کو ہی شریعت سمجھتا اور مسائل فرقہ وارانہ کو دین حق یقین کرتا ہے، ظاہری شکل وصورت کو متشرع بنانے کے مرض میں مبتلا ہو کر متشددانہ رویہ اپناتا ہے اور بزعم خویش اسے افضل الجہاد کا نام دیتا ہے اور کوئی مذہب کے معاملے میں اتنا وسیع الظرف ہے کہ ایمان وکفر، توحید وشرک اور اصل اور بدعت کا فرق بیان کرنے کو بھی فرقہ واریت کے اسم سے موسوم کرتا اور ادائیگی فرائض کو کار عبث خیال کرتا ہے۔ کوئی اس قدر انتہا پسند ہے کہ اپنے مخالفین کو ابوجہل وابولہب کے القاب سے نوازتا اور ابن ابی اور ابن سبا سے بھی بدترسمجھتا ہے۔ اس کے برعکس اپنے ہم مسلک وہم مشرب مشائخ کو بغدادی وجیلانی کا ہم پلہ یقین کرتا اور رازی وغزالی سے برتر ہونے کا دعویٰ کرتا ہے، مگر ہم نے آں ممدوح کے دامن کو اس طرح کی کج فکری کے داغوں سے یکسر پاک ومنزہ ہی دیکھا ہے۔ تحریر ہو یا تقریر، خطبہ ہو یا خطاب، وعظ ہو یا مقالہ، ہمیشہ ’’خیر الامور اوسطہا‘‘ کے دامن کو تھامے رکھا اور کبھی سرمو اعتدال کی راہ سے نہیں ہٹے اور نہ زندگی کے کسی موت پر جادۂ حق سے صرف نظر کیا۔
آں موصوف نے مختلف موضوعات پر اردو، عربی اور انگلش وغیرہ مختلف زبانوں میں متعدد وقیع وعلمی اور تحقیقی کتابیں تالیف کیں اور ملکی وبین الاقوامی کا نفرنسوں میں ان گنت محققانہ مقالے پیش کیے جنہیں علم کی دنیا میں پسندیدگی کی نظر سے دیکھا گیا، دانشوروں کی طرف سے سراہا گیا اور حکما ومحققین کی جانب سے زبردست خراج تحسین پیش کیا گیا۔ ان مقالات میں سے سلسلہ ہاے محاضرات کو بالخصوص اپنی علمیت وجامعیت، تحقیق وتفحص اور وسعت معلومات کے اعتبار سے علمی حلقوں میں بڑی پذیرائی ملی اور علم دوست علما وذی علم فضلا نے قدرو وقعت کی نظر سے دیکھا ۔ یہ محاضرات جو مختلف عنوانات وموضوعات کے حوالے سے مستورات کے مختلف اجتماعات میں مختصر اشاراتی نوٹس کی مدد سے پڑھے جاتے رہے ہیں، بعد میں زیور طبع سے آراستہ ہو کر سات ضخیم جلدوں میں اشاعت پذیر ہوئے اور ہر جلد میں ایسے بارہ مقالے جمع کیے گئے جو متعلقہ موضوعات پر نادروعجیب معلومات کا بے بہا ومنفرد مجموعہ ہیں۔
محاضرات کے اولین مجموعہ کو محاضرات قرآن، ثانی کو محاضرات حدیث، ثالث کو محاضرات سیرت، رابع کو محاضرات فقہ، خامس کو محاضرات شریعت، سادس کو محاضرات معیشت اور سابع کو محاضرات سیر بین الاقوام کے خوبصورت ناموں سے موسوم کیا گیا ہے۔ اسی طرح ان کی ایک اور مایہ ناز تخلیق ’’تعلیمات قرآن علامہ اقبال کی نظر میں‘‘ ہے جو ڈاکٹر صاحب نے اپنی صاحبزادیوں کو محض حافظہ ویادداشت کی بنیاد پر زبانی املا کروائی تھی۔ گوظاہر میں یہ مختصر لگتی ہے، لیکن اپنے موضوع کے اعتبار سے انتہائی جامع وعلمی کتاب ہے جس کے مطالعہ سے ڈاکٹرصاحب کی وسعت معلومات اور فکر ونظر کی ہمہ گیری کے ساتھ ساتھ علامہ اقبال کے فکر وفلسفہ سے بھی کماحقہ آگاہی ہوتی ہے۔ ایسے لگتا ہے کہ صرف یک در یا در کوزہ ہی نہیں، جمیع ابحار ویموم کو کوزہ میں جمع کیا گیا ہے۔
ان کی آخری تصنیف غالباً ’’تاریخ الحرکۃ المجددیہ‘‘ہے جسے قطر میں قیام کے دوران عربی زبان میں احاطہ تحریر میں لایا گیا ہے اور کتاب کامحور ومرکز حضرت مجدد الف ثانیؒ کی شخصیت کو ٹھہرایا گیاہے۔ ان کے آثار واحوال اور تصنیفات وخدمات کا علمی جائزہ لیا گیا ہے اور ساتھ ہی ان کے پچاس سے زائد منتخب مکتوبات کا فارسی سے عربی میں ترجمہ بھی دیا گیا ہے۔ کتاب کے مطالعہ سے جہاں ان کی فکری گہرائی ونظری گیرائی کی غمازی ہوتی ہے، وہاں عربی زبان کی اصالت وقادرالکلامی اور فارسی زبان کی گرفت وبندش کا پتا بھی چلتا ہے۔ عربی کی فصاحت وبلاغت دیکھ کر معلوم ہوتا ہے عجمی نہیں، کوئی عربی نژاد وعربی النسل ادیب وسخن ور عربی زبان کے شہ پارے پیش کر رہا ہے اور فارسی کی عربی میں ترجمانی سے لگتا ہے ، کوئی فردوسی کا ہمزاد موشگافیاں کر رہا ہے۔
ڈاکٹر صاحب جہاں میدان تحریر وکتابت کے شہسوار تھے، وہاں تقریر وتبیان کی دنیا میں بھی اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے۔ دیگر خطبا ومقررین کے برعکس ان کے خطاب وتقریر کا انداز ہمیشہ منفرد ہوتا تھا۔ سرتال وغنائیت سے کلیتاً اجتناب کرتے تھے اور تمہید طولانی سے سراسر گریزاں ہوتے تھے۔ سادہ وصحیح لہجے میں مختصر حمد وثنا کے الفاظ دہراتے ،سنجیدگی ومتانت سے قرآن کریم کی چند آیات تلاوت کرتے اور اس کے بعد متعلقہ موضوع پر بولنا شروع کر دیتے اور پورے تسلسل و روانی سے بولتے ہی چلے جاتے تھے۔ ان کے بیان سے ایسا محسوس ہوتا تھا کہ دریا بپھرا ہو اہے اور اس کی موجیں اپنی طغیانی پر اٹھکیلیاں کر رہی ہیں۔
ڈاکٹر صاحب گو بنیاد ی طور پر ایک فقیہ ومقنن اور حدود شرعیہ کے فاضل وقوانین اسلامی کے ماہر تھے، لیکن دیگر موضوعات میں بھی ان کے فکرکی رفعتیں اور شعور وآگہی کی وسعتیں کچھ کم نہ تھیں۔ علوم اسلامی کے جتنے شعبے اور فنون وہنر کے جتنے عنوان ہیں، اگر غو ر کیا جائے تو وہ سب ایک مسلک وحدت سے منسلک اور باہم ایک دوسرے مربوط ومنضبط کیے گئے ہیں اور یہ وحدت ویکجائی اور ارتباط وانضباط ہی انھیں دیگر علوم وفنون سے ممیز ونمایاں کرتے ہیں۔ چنانچہ کلام اللہ کو سنن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے علیحدہ وجدا کر کے دیکھنا ناممکن ہے، فقہ کو قرآن وسنت سے الگ کرکے سمجھنا ’’ کوہ کن وکوہ درپیش‘‘ کے مترادف ہے اور تاریخ وسیرت باہم لازم وملزوم ہونے کے ساتھ ساتھ قرآن وسنت سے بھی جڑے ہوئے ہیں ۔یہی حال دیگر جملہ علوم وفنون کا ہے اور محترم ڈاکٹر صاحب کی ذات ستودہ صفات اس وحدت علوم اسلامی کی عملی وبین مثال ونظیر تھی۔ آپ تمام علوم اسلامیہ سے بہرہ ور تھے اور تمام فنون عصریہ سے واقف، آثار قدیمہ سے باخبر تھے اور روایات کہنہ سے آشنا، طریق جدید کی جدت کاریوں کے شناور تھے اور نئے فنون وہنر کی فتنہ سامانیوں وشرانگیزیوں سے ہوشیار۔ بعض علوم وفنون تلمیذاً حاصل کیے اور سبقاً پڑھے تھے اور بعض کثرت مطالعہ کی مرہون منت تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی تحریر وتقریر سے قدامت وجدیدیت کے سب رنگ دھنکی رنگوں کی طرح ہم آہنگ اور غیر محسوس انداز میں جڑ ے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔
ڈاکٹر صاحب ۱۹۵۰ء کو حافظ محمد احمد فاروقی کے ہاں پیدا ہوئے جن کا علماء کاندھلہ کے اس مشہور علمی خاندان سے تعلق تھا جن میں مولانا محمد ادریس کاندھلوی، مولانا محمد علی کاندھلوی اور مولانا عبدالمالک کاندھلوی وغیرہ جیسے عظیم المرتبت ونابغہ روزگار رجال اعاظم گزرے ہیں۔ اس خاندان کی ارادت وبیعت مولانا اشرف علی تھانوی ؒ سے تھی۔ ڈاکٹر صاحب نے تعلیم کی ابتدا قرآن کریم سے کی اور اسے آٹھ برس کی عمر میں ازبر حفظ کر لیا ۔ اس کے بعد درس نظامی کی طرف متوجہ ہوئے اورابتدائی کتابیں کراچی کی مشہور دینی درسگاہ جامعہ علوم اسلامیہ بنوری ٹاؤن میں پڑھیں۔ متوسط کتب جامعہ اشرفیہ لاہور اور منتہی تعلیم القرآن راولپنڈی میں مکمل کیں۔ درس نظامی کی تکمیل کے بعد عصری علوم کی تحصیل کا شوق چرایا اور پنجاب یونیورسٹی لاہور سے پہلے عربی میں ماسٹرز کیا اور پھر ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ آں ممدوح عالم اسلام کے ان معدودے خوش نصیب فضلا میں سے تھے جنھوں نے صرف سترہ برس کی عمر میں مسندتدریس کو رونق بخشی اور اسلامی علوم وفنون اور متداول وفنی کتب کی تدریس ان کا لازمہ حیات اور زندگی کا جزو لا ینفک رہی۔
راقم اثیم کی ڈاکٹر صاحب سے یاد اللہ اس وقت قائم ہوئی جب موصوف دعوہ اکیڈمی کے ڈائریکٹر جنرل اور شاہ فیصل مسجد اسلام آباد کے خطیب لبیب تھے اور یہ تعلق وقت کے ساتھ ساتھ اکرام واحترام سے گزر کر تقدیس وعقیدت کے قالب میں ڈھل گیا ۔ اس شناسائی وآشنائی کی صورت وسبیل یہ بنی تھی کہ پروفیسر محمد امیرالدین مہر سربراہ تربیت ائمہ کورس، شعبہ دعوۃ اکیڈمی اسلام آباد ۱۹۸۸ء میں میرے سفر مقدس کے رفیق وساتھی رہے تھے۔ موصوف انتہا درجہ کے صاحب بر وتقویٰ، بلند پایہ عالم وفاضل اور بلا کی ذکی وذہین شخصیت تھے۔ فکر مودودی کے دلدادہ وشیدا تھے اور سید مودودی مرحوم کی تفسیر ’’تفہیم القرآن‘‘ کو سندھی زبان میں انہوں نے منتقل کیا تھا اور دیگر کتب کثیرہ بھی سندھی میں تالیف وتصنیف کی تھیں۔ پرانی وضع کے بزرگ تھے اور انتہا درجہ کے وضع دار وبامروت انسان تھے۔ یاروں کے یار اور ہمہ یاراں دوزخ وہمہ یاراں بہشت کا نظریہ رکھتے تھے۔ انتہائی خلیق وملنسار اور انتہائی مہمان نواز آدمی تھے۔ اکیڈمی میں جب بھی کوئی تقریب منعقد ہوتی ،موصوف مجھے ضرور یاد فرماتے اور ان کی وساطت سے حضرت ڈاکٹر صاحب کی زیارت ولقا کی سعادت بھی حاصل ہو جاتی تھی۔ میں جب بھی اکیڈمی میں حاضر ہوتا، ڈاکٹر صاحب اعلیٰ ظرفی وبڑے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہمیشہ کھڑے ہو کر استقبال کرتے، گلے لگا کر جی آیاں نوں کہتے اور مصافحہ فرما کر احوال وخیریت دریافت کرتے تھے۔ جب بھی ملتے، یہ ضرور فرماتے کہ میں از اول تا آخر آپ کی نگری کا فرد، آپ کی برادری کا رکن اور آپ کے قبیلے کا ہی ممبر ہوں، اگرچہ حالات نے مجھے کہاں سے اٹھا کر کہاں پہنچا دیا ہے، تاہم میں کسی صورت بھی نہ تو کبھی اپنے قبیلے کو بھولا ہوں اور نہ ہی بھول سکوں گا، خواہ تحت الثریٰ میں رہوں یا بام ثریا پربسوں۔ بہرحال میں تمہارا ہوں اور تمہارا ہی رہوں گا۔
مجھے ہمیشہ ان کے مشاغل ومصروفیات اور سرکاری ذمہ داریوں کا احساس رہتا جس کے پیش نظر میں جلد اجازت لینے کی کوشش کرتا، لیکن ڈاکٹر صاحب اپنی بے پایاں محبت وشفقت، بے حساب اخلاص مروت اور بے انتہا حقیر پروری وخوردنوازی کے تحت ’’ابھی آئے اور ابھی جانے کا ارادہ ہے‘‘ کہہ کر میری زبان بند کر دیتے تھے۔ پر تکلف خورونوش کا دور چلتا اور کتنی دیر تک بے تکلفانہ محفل جمی رہتی۔ علمی لطائف وحکایات کے تبادلے ہوتے،شائستہ وشستہ پھلجھڑیاں چھوڑی جاتیں اور مہذب وباوقار قہقہوں کا تبادلہ کیاجاتا تھا اور اس کے ساتھ مختلف مسائل وموضوعات بھی زیر بحث رہتے اور کئی لا ینحل عصری عقدے بھی موضوع سخن بنتے تھے۔ سچ یہ ہے کہ ہر محفل میں میر محفل وشمع محفل بلکہ جان محفل ومان محفل آپ ہی ہوتے تھے۔ جب محفل برخواست ہوتی تو آں روح محفل، اکیڈمی کی مطبوعہ کتب ہدیۃً عنایت کرتے اور اپنی نئی چھپنے والی تالیف یا تصنیف بھی عطا فرماتے تھے۔
جب ڈاکٹر صاحب پرویزی دور حکمرانی میں وفاقی وزیر مذہبی امور بنائے گئے تو کچھ عرصہ کے لیے میل ملاپ وسلسلہ جنبانی میں تعطل در آیا۔ دریں اثنا ان کا دو تین بار تحیہ وسلام بھی آیا اور یہ پیام بھی کہ آپ اسلام آباد میں آباد ہیں، مگر افسوس اتنا عرصہ بیت جانے کے باوجود ہمیں یاد نہیں کیا ،کسی طرح کا کوئی رابطہ نہیں فرمایا۔ میں نے جواباً عرض کیا: شاہوں کے مقبروں سے الگ دفن کیجیو، مجھے گور غریباں پسند ہے۔ مخدومی! آپ ایک ایسے خبیث الفطرت وغلیظ النفس شخص کی کابینہ کے رکن رکین ہیں جس کے نام سے ہی مجھے طبعاً نفرت اور اس ذات کے تصور سے گھن آتی ہے۔ ساحر لدھیانوی مرحوم نے کہا تھا:
تاج تیرے لیے اک مظہر الفت ہی سہی
تجھ کو اس وادئ رنگیں سے عقیدت ہی سہی
میرے محبوب کہیں اور ملا کر مجھ سے
بزم شاہی میں غریبوں کا گزر کیا معنی
ڈاکٹر صاحب کو معلوم تھا کہ میرا حضرت ڈاکٹر محمد حسین للٰہی مرحوم سے خصوصی تعلق ہے۔ بنا بریں انھوں نے حضرت للٰہی مرحوم ومغفور سے رابطہ فرما کر میری روش اور طرز فکر کے متعلق شکوہ کیا اور کہا کہ حضرت! حمید الرحمن سے فرما دیجیے، جس شخص کے نام اور کردار سے آپ کو نفرت ہے، مجھے بھی اسی طرح بلکہ اس سے کئی گنا زیادہ کراہت ہے۔ میں محض یہ سوچ کر اس بد بخت کی کابینہ میں شامل ہوا تھا کہ شاید کوئی اصلاح وصلاح اور ہدایت وراستی کا پہلو نکل آئے، مگر یہ میری بھول اور میری زندگی کی بھیانک خطا تھی۔ میں نے جب قریب ہو کر دیکھا تو اسے سراپا رجس ونجس بلکہ غلاظت وگندگی اور مجسمہ رذالت وضلالت پایا۔ اب میں نے اس خسیس سے علیحدگی کا فیصلہ کر لیا ہے۔ عملاً تو کب کا فارغ ہو چکا ہوں، صرف رسمی وکاغذی کارروائی باقی ہے۔ آپ جلد ذرائع ابلاغ سے میرے مستعفی ہونے کی خبر سن لیں گے اور یہ بھی کہ میں حکومت قطر کی دعوت پر قطر چلا جاؤں گا۔
حضرت للٰہی ؒ نے مجھے اس ساری صورت حال سے آگاہ کیا اور فرمایا: اب ان کی طرف سے دل میں کسی قسم کا کوئی تکدر اور میل نہیں ہونا چاہیے۔ میں نے عرض کیا، حضرت میری سوچ وفکر کا مرکز ومحور صرف الحب للہ والبغض للہ ہے۔ اگر انھیں اپنی غلطی کا احساس ہو گیا ہے تو میرا دل بھی صاف ہے۔ حضرت للٰہی نے انھیں اس بات سے مطلع کیا اور ساتھ میرا رابطہ نمبر بھی دے دیا۔ چند دن بعد یہ خبر خوش کن سامعہ نواز ہوئی کہ ڈاکٹر محمود احمد غازی نے وزارت مذہبی امور سے استعفا دے دیا ہے اور اس کے ساتھ ہی ہاتف کی یہ غیبی آواز بھی کانوں میں گونجی: میں محمود احمد غازی بول رہا ہوں، آپ سے ملنے کی خواہش ہے۔ کیا یہ خواہش یونہی ناتمام رہے گی؟ میں نے عرض کیا: حمید سر کے بل حاضر ہوا چاہتا ہے۔ اب میرے من کی خلش بھی ویسی ہی ہوگئی ہے جیسی آپ کے جی کی بے قراری ظاہر کرتی ہے۔
الفت کا جب مزا ہے کہ ہوں وہ بھی بیقرار
دونوں طرف ہو آگ برابر لگی ہوئی
ڈاکٹر صاحب کی صحت آخر وقت تک لائق رشک تھی اور تندرستی قابل حسرت۔ انہیں جس نے بھی دیکھا اور جب بھی دیکھا، یہی جانا کہ آں موصوف سدابہار جوان رعنا ہیں۔ نہ کسی روگ ظاہری کے اسیر تھے اور نہ ہی کسی مرض باطنی میں مبتلا، مگر موت کا وقت مقرر ہے۔ جب جس کی اجل مسمی آ جاتی ہے اور وقت مقرر پورا ہوجاتا ہے تو وہ کسی کے ٹالنے سے نہیں ٹلتا۔ جو ہونا ہوتا ہے، وہ ہر صورت میں ہو کر رہتا ہے۔ مجال نہیں کہ اس میں ایک لمحے کی تقدیم یا تاخیر ہو جائے۔ اللہ کے فیصلے میں بلاوے کا وقت آ گیا اور وہ خراماں خراماں اپنے بلاوے پر لبیک وسعدیک کہتے ہوئے سوئے اعلیٰ علیین چلے گئے۔ اللہ تعالیٰ انہیں غریق رحمت کرے، جوار میں جگہ نصیب ہو، درجات بلند ہوں اور سیئات سے عفو ودرگزر کا معاملہ فرمایاجائے، آمین۔
ایک اک کر کے ستاروں کی طرح ڈوب گئے
ہائے کیا لوگ میرے حلقہ احباب میں تھے
اب جب کہ ان کا چاندی جیسا اجلا روپ اور سونے جیسا سنہری سروپ ہمیشہ کے لیے نگاہوں سے اوجھل ہو گیا ہے، صرف حسرت بھری یادیں او ر فکر بھری باتیں سوہانِ روح بن کر باقی رہ گئی ہیں، ایسے میں ان کے روپ وسروپ اور چہرے مہرے کے ان مٹ نقوش جو لوح خاطر پر ثبت وکندہ ہیں، انہیں برنگ پیرہن کاغذی، احرف والفاظ کے قالب میں ڈھال کر تصویری خاکہ کی صورت میں طشت ازبام وہویدا کر رہا ہوں، کیوں کہ
آج نظر کے سامنے حسن ہوا جو بے نقاب
دیکھ لیا قریب سے رنگ طلوع آفتاب
رخصت دوست کا سماں یوں نظر میں ہے کہ جوں
پھیل رہی ہو تیرگی ڈوب رہا ہو آفتاب
معتدل ومائل بہ طوالت قامہ، گٹھا ہوا وگداز جسم، نہایت متناسب اعضا وجوارح، گندمی ومائل بہ ملاحت رنگت، تیکھے ودلکش متین نقش، فراخ وچوڑا ماتھا، اس پر قسام ازل کی حسن قسمت کا چند رکھا، جھیل جیسی گہرائی وگیرائی کی غماز آنکھیں، بھرے ہوئے خم دار وکشادہ ابرو، پرکشش وپر گوشت ماکھڑا، رس بھرے رسیلے شفتین، ستواں و شہابی ناک، صدف فم وغنچہ دہن، مسٹرانہ وغیر مسنون داڑھی، کبھی شلوار وقمیص اور قراقلی ٹوپی زیب تن اور کبھی انگریزی سوٹ بوٹ سے آراستہ بدن۔ افسوس جن کی زندگی ماہتاب سے تابندہ وتابناک تھی، وہ اپنی زندگی کی ساٹھ بہاریں دیکھ کر اس دنیاے دوں سے رخصت ہو گئے۔
کھوئیں گے ہمیں لوگ تو پھر پانہ سکیں گے
یوں جائیں گے دنیا سے کبھی آ نہ سکیں گے