(۱)
حضرت مولانا غلام رسول خاموش اور حضرت مولانا مرغوب الرحمن قاسمی کی وفات سے پہلے ملت اسلامیہ، خصوصاً برصغیر کے دینی وعلمی حلقوں کو ایک اور حادثہ سے دوچار ہونا پڑا تھا۔ یہ تھا ڈاکٹر محمود احمد غازی کے انتقال پرملال کاحادثہ جو ۲۶؍ ستمبر ۲۰۱۰ء کو پیش آیا۔ ڈاکٹر صاحب اس دور کے ان ممتاز اہل علم ودانش میں تھے جو پاکستان اور عالم اسلام میں جاری اسلامیت اور مغربیت کی کشمکش میں اسلام کے ایک وفادار اور جاں باز سپاہی کا کردار ادا کر رہے تھے۔ویسے تو مختلف اسلامی علوم میں ان کو عبور حاصل تھا، مگر فقہ وقانون میں ان کو زبردست مہارت حاصل تھی اور قدیم علمی سرمایے کو جدید اسلوب میں پیش کرنے میں ان کو غیر معمولی ملکہ حاصل تھا۔ وہ پاکستان کے فیڈرل شریعہ عدالت کے جج بھی تھے۔ ان کی ابتدائی تعلیم دینی مدارس میں ہوئی تھی۔ بعد میں انھوں نے یونیورسٹیوں کی ڈگریاں بھی حاصل کیں اور راقم کے اندازے کے مطابق قدیم وجدید کے درمیان توازن قائم رکھنے میں وہ بڑی حد تک کامیاب رہے اور اہل نظر جانتے ہیں کہ اس کا کہنا تو آسان ہے، مگر ہر جزئیہ اور ہر فکر اور ہر تعبیر میں یہ بہت ہی دشوار کام ہے۔
یہ راقم مولانا عیسیٰ منصوری صاحب کا شکر گزار ہے کہ انھوں نے ڈاکٹر صاحب مرحوم کی شخصیت کے بارے میں اپنے تاثرات پر مشتمل مفصل مضمون ’الفرقان‘ میں اشاعت کے لیے ارسال کیا جو اس شمارے میں شامل کیا جا رہا ہے۔ دل کی گہرائیوں سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مرحوم ڈاکٹر غازی صاحب کی مغفرت فرمائے، ان کی زندگی بھر کی مساعی کو قبول فرماتے ہوئے ان کو اعلیٰ علیین میں جگہ عطا فرمائے اور ان کے تمام پس ماندگان اورمتعلقین ومحبین کو صبر واجر عطا فرمائے۔
گزشتہ سال کے آخری دنوں میں مذکورہ بالا تینوں شخصیتوں کے اٹھ جانے سے بلاشبہ بہت بڑی کمی ہوئی ہے۔ اب ہم سب کی ذمے داری اور زیادہ بڑھ گئی ہے۔ اللہ ہمیں توفیق دے کہ اپنے اسلاف سے خدمت دین کی اس امانت کی وراثت قبول کریں اور اسی اخلاص، استغنا اور عزم وحکمت کے ساتھ کام کو جاری رکھیں۔ محترم قارئین سے ان تینوں حضرات کے لیے دعاؤں اورمسنون طریقے پر ایصال ثواب کے اہتمام کی بھی گزارش ہے۔
رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بِالْإِیْمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِیْ قُلُوبِنَا غِلّاً لِّلَّذِیْنَ آمَنُوْا رَبَّنَا إِنَّکَ رَؤُوْفٌ رَّحِیْمٌ۔
مولانا خلیل الرحمن سجاد نعمانی
(ماہنامہ الفرقان، لکھنو)
( ۲ )
احقر ۱۶؍ شوال المکرم کوچنیوٹ جار ہا تھا۔ راستے میں مخدوم و مکرم حضرت مولانا مشرف علی تھانوی مدظلہم نے فون پر اطلاع دی کہ جناب ڈاکٹر محمود احمد غازی صاحب انتقال کر چکے ہیں۔ ۲ بجے اسلام آباد میں ان کا جنازہ ہوگا۔ اچانک ملنے والی اس خبر سے بہت افسوس ہوا۔ اناللہ وانا الیہ راجعون۔
ڈاکٹر محمود احمد غازی مرحوم باقاعدہ درس نظامی اورعصری تعلیم کے فاضل تھے۔ ان کے والد مرحو م کا حضرت حکیم الامت تھانوی ؒ سے خاص تعلق تھا، اس لیے ان کی تربیت اور نشوونما بڑے دینی اور علمی ماحول میں ہو ئی جس کا اثر ان کی زندگی پر آخر دم تک قائم رہا۔ عصر جدید کے چیلنج اور دورحاضر کے تقاضوں کو سامنے رکھ کر دین کی تبلیغ اور تعلیم و تربیت کے حوالے سے وہ ہمیشہ فکر مند رہے اور انہوں نے ہمیشہ اہل علم کو بھی اس طرف متوجہ کیا۔ اپنی علمی، دینی، فکری صلاحیتوں کی بنیاد پر انہوں نے چیلنجوں کا خوب مقابلہ کیا اور اس محاذ پر اہل علم اور دین کی نمائندگی کی۔ مرحوم بڑے فاضل اور قابل جوہر تھے۔ انہوں نے مختلف موضوعات پر بہت سا ذخیرہ چھوڑا ہے جو اہل علم کے لیے یقیناًقابل قدر ہے۔ ان کے بعض افکار سے اختلاف کیا جا سکتا ہے، لیکن جہاں تک ان کے اخلاص اور درد دل کے ساتھ عالم اسلام کے لیے گرانقدر خدمات کا تعلق ہے، اس میں کسی اختلاف کی گنجائش نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائیں اور پس ماندگان کو صبر واجر سے نوازیں۔
احقر کو ان سے مستفید ہونے کا موقع نہیں ملا، لیکن جو ملاقاتیں ہوئیں، ان کا گہرا نقش اب تک احقر کے قلب پر موجود ہے۔ دارالعلوم الاسلامیہ لاہور میں ایک دو مرتبہ ان سے ملاقات ومجلس ہوئی۔ احکام القرآن کی تقریب میں ان کا خطاب ذی شان بھی سنا۔ اس میں انہوں نے جب آیت قرآنی: وَإِذَا أَرَدْنَا أَن نُّہْلِکَ قَرْیَۃً أَمَرْنَا مُتْرَفِیْہَا فَفَسَقُوا فِیْہَا فَحَقَّ عَلَیْْہَا الْقَوْلُ فَدَمَّرْنَاہَا تَدْمِیْراً (۱۷:۱۶) میں ’’أَمَرْنَا‘‘ کی وضاحت کی تو سامعین بڑے ہی محظوظ ہوئے۔ بعد میں حضرت مفتی محمد رفیع عثمانی صاحب نے اپنے خطاب میں ان کی بڑی تعریف فرمائی۔
حضرت والد صاحب ؒ سے جب ان کی ملاقات ہوئی تو ان سے بڑے متاثر ہوئے۔ حضرت نے ان سے امام جصاص کے تحریر فرمودہ مقدمہ احکام القرآن کا ذکر فرمایا تو انہوں نے اسلام آباد اسلامی یونیورسٹی میں تلاش کرنے کا وعدہ کیا۔ حضرت والد صاحب سے تاثر ہی کا نتیجہ تھا کہ انہوں نے بڑے اصرار سے حضرت کو راضی کر کے اسلامی نظریاتی کونسل کا رکن بنایا اور پھر ان کی وفات پر بڑے گہرے دکھ کا اظہار کیا۔ چند سال قبل احقر ان کی دعوت پر اسلام آباد میں منعقدہ سہ روزہ بین المذاہب کانفرنس میں حاضر ہوا اور ان کا فاضلانہ خطاب بھی سنا۔
ایک مرتبہ جنرل پرویز مشرف کی دعوت پر اسلام آباد میں حضرات علماء کرام تشریف لے گئے۔ احقر بھی حاضر ہوا تو ڈاکٹر صاحب نے بڑی محبت کا مظاہرہ فرمایا۔ وہ خود بھی صاحب فضل وکمال اور عالم وفاضل تھے، اس لیے اہل علم کے بے حد قدر دان تھے۔ ان کے جانے سے علمی اور تحقیقی دنیا میں ایک نیا خلا پید اہو گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنا فضل فرما ویں اور اس خلا کو پورا کرنے کی بعد کے حضرات کو توفیق عطا فرمائیں۔
مولانا مفتی عبد القدوس ترمذی
(ماہنامہ الحقانیہ، ساہیوال)
( ۳ )
وفاقی شرعی عدالت کے جج، مجمع الاسلامی کے ممبر، قومی سلامتی کونسل واسلامی نظریاتی کونسل کے سابق رکن، شریعت اپیلٹ کورٹ کے سابق جج اور بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے سابق صدر ڈاکٹر محمود احمد غازی صاحب ۱۶؍ شوال المکرم ۱۴۳۱ء /۲۶؍ ستمبر ۲۰۱۰ء کو حرکت قلب بند ہونے سے اپنے مالک حقیقی سے جا ملے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ڈاکٹر صاحب ؒ حافظ قرآن، عالم دین، مشہور اسکالر، دینی ودنیاوی علوم کے جامع، اسلامی اصول وضوابط پر مطلع اور درجنوں کتابوں کے مولف تھے۔
سن ولادت ۱۸؍ ستمبر ۱۹۵۰ء ہے۔ مقام ولادت کراچی ہے۔ والد محترم کا نام محمد احمد ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے حفظ وناظرہ کی تعلیم مدرسہ اشرفیہ جیکب لائن کراچی میں قاری حافظ نذیر احمد متوفی ۱۲؍ ذوالحجہ ۱۴۱۰ھ/۸؍ جولائی ۱۹۹۰ء سے حاصل کی۔ اس کے بعد جامعۃ العلوم الاسلامیہ علامہ یوسف بنوری ٹاؤن کراچی میں داخلہ لیا اور درس نظامی کی کتابیں پڑھیں۔ ۱۹۶۰ء کے لگ بھگ غازی صاحب نے دارالعلوم تعلیم القرآن راجہ بازار راولپنڈی میں داخلہ لیااور وہیں سے فراغت پائی اور بانی جامعہ شیخ القرآن مولانا غلام اللہ خان ؒ سے بھی استفادہ کیا جب کہ غازی صاحب ؒ نے ۱۹۷۲ء میں پنجاب یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ چونکہ غازی صاحب دینی ودنیاوی علوم کے جامع، دینی مدارس وجامعات اوراسکول وکالجز کے اسرار ورموز پر مطلع تھے اور ساتھ ملک وملت کے بھی خیر خواہ تھے، اس لیے غازی صاحب ملک کے درجنوں اداروں کے اہم عہدوں پر فائز رہے اور قومی وملی خدمات سرانجام دیں۔
غازی صاحبؒ نے ۲۰۰۲ء سے ۲۰۰۴ء تک بطور وفاقی وزیر برائے مذہبی امور فرائض سر انجام دیے ۔ ۲۰۰۴ء سے ۲۰۰۶ء تک بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے صدر رہے جب کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کے دور میں اسلامی نظریاتی کونسل کے رکن اور نواز شریف کے دورمیں شریعت اپیلٹ کورٹ کے جج رہے۔ غازی صاحب عرب ممالک کی جدید ڈکشنری مجمع الاسلامی [؟] کے تاحیات ممبر تھے اور یہ واحد مذہبی اسکالر تھے جو غیر عرب تھے۔ ۲۶؍ مارچ ۲۰۱۰ء کو غازی صاحب وفاقی شرعی عدالت کے جج مقرر ہوئے اور آخری دم تک اس خدمت میں مصروف رہے۔
غازی صاحب کی پوری کوشش تھی کہ دینی مدارس کے علماء کرام کو عصری تعلیم سے روشناس کرائیں اور دینی مدارس کے نظام تعلیم میں اس طرح ردو بدل کیا جائے کہ دینی مدارس سے فارغ ہونے والے طلبہ عصری علوم کے بھی ماہر ہوں اور غازی صاحب کی نمایاں خوبی یہ تھی کہ وہ تنقیدی مضامین پر چراغ پا ہونے کی بجائے انتہائی متانت اور سنجیدگی کے ساتھ ان مضامین کو پڑھتے اور خیرمقدم بھی کرتے تھے۔
غازی صاحب کا ایک مضمون ہفت روزہ تکبیر کراچی، شمارہ ۵؍فروری ۲۰۰۴ء میں شائع ہوا تھا اور راقم نے اس مضمون کے بعض اقتباسات پر اپنا اظہار خیال کیا تھا ۔ یہ تنقیدی اظہار خیال جب ماہنامہ حق نوائے احتشام کراچی، شمارہ صفرالمظفر ۱۴۲۵ھ /اپریل ۲۰۰۴ء میں شائع ہوا تو غازی صاحب نے فون پر رابطہ فرمایا اور برا ماننے کے بجائے حوصلہ افزائی فرمائی۔ غازی صاحب کی ایک تالیف بنام ’’مسلمانوں کا دینی وعصری نظام تعلیم‘‘ ہے۔ صفحات ۲۵۶ ہیں۔ اس کتاب پر تبصرہ ماہنامہ حق نوائے احتشام شمارہ ربیع الاول ۱۴۳۱ھ /مارچ ۲۰۱۰ء میں شائع ہوا۔ اس کتاب کے بعض اقتباسات پر بھی تنقید ہے، لیکن غازی صاحب نے حسب معمول فون پر سلام کلام کیا اور انتہائی مودبانہ ومشفقانہ انداز میں گفتگو فرمائی۔ اس سے اندازہ ہوا کہ غازی صاحب بے حد وسیع الظرف اور تحقیقی وعلمی شخص تھے۔
رجب المرجب ۱۴۲۶ھ /اگست ۲۰۰۵ء کو ہمارے ادارے سے ’’ متاع احتشام الحق‘‘ کے نام سے سات سو صفحات پر مشتمل ایک کتاب منظر عام پر آئی۔ حسب معمول ایک نسخہ غازی صاحب کی خدمت میں بھی بھیجا گیا۔ نسخہ ملنے کے بعد غازی صاحب نے جو خط بھیجا، وہ یہ ہے:
برادر مکرم ومحترم جناب مولانا حافظ محمد صدیق ارکانی صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کا پہلا گرامی نامہ چند روز قبل موصول ہوا۔ اس سے خوشی ہوئی کہ آپ اپنے رسالہ کا خصوصی شمارہ شائع کر رہے ہیں۔ ابھی اس کاجواب دینے کی نوبت نہیں آئی تھی کہ خصوصی شمارہ کی ایک کاپی بھی موصول ہو گئی۔ جزاکم اللہ۔ میری طرف سے مولانا تنویر الحق صاحب کی خدمت میں شکریہ کے جذبات پہنچا دیجیے۔ رسالہ کے مضامین اور تصاویر نے چالیس سالہ پرانی یادیں تازہ کر دیں۔والسلام ڈاکٹر محمود احمد غازی
رئیس الجامعۃ الاسلامیۃ العالمیۃ
اسلام آباد ، پاکستان
مورخہ : ۱۸؍ اگست ۲۰۰۵ء
غازی صاحب کی متعدد تالیفات ہیں جن میں محاضرات، قانون بین الممالک، اسلام اور مغرب تعلقات، مسلمانوں کا دینی وعصری نظام تعلیم، اسلامی بنکاری: ایک تعارف، آداب القاضی، قرآن مجید: ایک تعارف معروف ہیں۔ محاضرات نامی کتاب چھ جلدوں پر مشتمل ہے اور ہر جلد ۱۲ خطاب کامجموعہ ہے۔
غازی صاحبؒ کو سات زبانوں پر عبور تھا اور پس ماندگان میں ایک بیوہ اور پانچ بیٹیاں ہیں۔ اللہ تعالیٰ غازی صاحبؒ کی خدمات کو شرف قبولیت سے نوازے، جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے اور پس ماندگان کو صبر جمیل کی دولت سے مالا مال کرے۔
مولانا محمد صدیق اراکانی
(ماہنامہ حق نوائے احتشام، کراچی)
( ۴ )
آسمان علم وتحقیق کا ایک درخشندہ ستارہ گزشتہ دنوں اچانک بحر فنا میں ڈوب گیا۔ مسند علم وعرفان کی ایک ایسی شمع یکایک بادِفنا کی ستم ظریفی سے ہمیشہ کے لیے بجھ گئی ہے جس کی تلاش میں کہکشائیں بھی جلائی جائیں توبھی اس کی تلافی ممکن نہیں۔
اب انہیں ڈھونڈچراغ رخ زیبا لے کر
جناب ڈاکٹر محمود احمد غازی عالم اسلام اور خصوصاً پاکستان کے لیے بہت بڑا علمی سرمایہ تھے۔ پاکستان اور برصغیر میں آپ کے پائے کے قابل اور فاضل افراد گنے چنے ہی نہیں بلکہ ایک دو افراد ہی ہیں۔ جناب ڈاکٹر صاحب کی علمی، تحقیقی، فنی، ادبی اور تعلیمی خدمات اتنی زیادہ اور وسیع ہیں کہ ان کااحاطہ ایک طالب علم کے بس کی بات نہیں۔ یقیناًڈاکٹر صاحب اس وقت علم وتحقیق کے میدان میں حضرت مولانا مفتی محمدتقی عثمانی مدظلہ کے بعد بہت نمایاں مقام پر فائز تھے۔ آپ کچھ عرصے میں اداروں اور اکیڈمیوں کا کام کر گئے۔ طبیعت میں تواضع کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ کم گوئی اور خاموشی آپ کی نمایاں خصوصیت تھیں اور علمی نخوت وتکبر سے بھی آپ کوسوں دور تھے۔
آپ اگرچہ جدید علوم وفنون میں ممتاز تھے اور آپ پر عصر حاضر کے رنگ کا عکس بھی کافی گہرا پڑ چکا تھا، لیکن اس کے ساتھ ساتھ اسلامی علوم وفنون پر بھی آپ کی دسترس کسی شیخ اور کسی دینی وعلمی مستند ترین شخصیت سے کم نہیں تھی۔ آپ ایک ایسے دریا کی مانند تھے جس میں قدیم وجدید دونوں علوم پانی کی مانند جمع تھے اور ایسا علمی خزانہ تھے جوجمع ہونے کی بجائے خود کوخرچ کرنے پر ترجیح دیتے تھے۔ دراصل آپ کی بنیاد ہی اسلامی مدرسے سے بنی تھی اور علوم شرعیہ میں کمال بھی آپ نے کراچی کے ایک بڑے علمی ادارے سے حاصل کیاتھا۔ پھربعدمیں اپنی جدت پسند اور خدا داد صلاحیتوں سے آپ ترقی کرتے کرتے علم وعرفان کے بلند ترین مسانید پر فائز ہو گئے۔ آپ کے قیمتی قلم سے کئی علمی اور تحقیقی ضخیم کتابیں منصہ شہود پر جلوہ گر ہوئیں اور آپ کے پرمغز علمی مقالات، تقاریر،علمی سیمیناروں کی جان ہوا کرتے تھے۔ انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی کے صدر اور فیصل مسجد کی خطابت بھی آپ نے کئی برس تک کی۔ اس کے علاوہ دیگر کئی علمی وتحقیقی اداروں کے بھی آپ رئیس رہے اور کافی عرصہ وفاقی وزیر مذہبی امور پاکستان بھی آپ رہے۔ اس وقت آپ وفاقی شرعی عدالت کے معزز جج کی حیثیت سے خدمات سرانجام دے رہے تھے۔
پاکستان جو پہلے ہی مفلسی اور غربت کے ہاتھوں گھر اہواہے اوراس کا تعلیمی اور علمی سرمایہ بھی آہستہ آہستہ گھٹتا چلا جا رہا ہے، اب ڈاکٹر صاحب جیسی قیمتی شخصیت کے اٹھ جانے کے باعث توعلمی وتحقیقی مفلسی بھی پاکستان کے حصے میں آ گئی ہے۔ تعلیمی انحطاط روز بروز بڑھتا چلا جا رہاہے۔ درسگاہیں ویران، حقیقی طالب علم ناپید اور اساتذہ وپروفیسر علم وادب سے بے خبر۔ ایسے ماحول اور ایسے ملک میںآپ جیسے عظیم معلم، استاد،مفکر اور محقق کا بچھڑ جانا مزید گہرے صدمے کا باعث ہے۔ اب تو پور ے ملک میں لے دے کر چند ہی نابغے باقی ہیں۔ اللہ انہیں اپنے حفظ وامان میں رکھے اور ڈاکٹر صاحب کے مقامات اعلیٰ علیین میں مقرر فرمائے اور ان کے پس ماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے۔
مولانا راشد الحق حقانی
(ماہنامہ الحق،ا کوڑہ خٹک)
( ۵ )
ملک کی بے حد قابل احترام اور وقیع علمی شخصیت، جسٹس وفاقی شرعی عدالت اورسابق صدر بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی جناب ڈاکٹر محمود احمد غازی حرکت قلب بند ہونے سے انتقال کر گئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ وطن عزیز کی ان ہستیوں میں شامل تھے جو بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی پہچان تھے، اس کے علمی مقام ومرتبہ کی شناخت تھے۔ وہ دینی اور جدید وقدیم علوم کے ایسے عظیم اسکالر تھے جن پر کوئی بھی قوم فخر کر سکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں بہت سے اعزازات سے نوازا تھا۔ وہ کئی ایک قومی وملی اور علمی وتدریسی مناصب پر فائز رہے اور ہرجگہ سزاوار احترام ٹھہرے۔ وہ تحریر وتقریر دونوں ہی میدانوں کے شہسوار تھے۔ ان کی تصنیف کردہ کتب علم کا ایسا خزینہ ہیں جن سے آنے والی نسلیں مدت مدیر تک استفادہ کرتی رہیں گی۔
ڈاکٹر محمود احمد غازی کے اچانک سانحہ ارتحال سے اسلامی، علمی اور قومی وملی حلقوں میں بہت بڑا خلا پیدگیا ہے۔ ایسا خلا جسے قدرت الٰہیہ فوری طور پر پرکر دے تو کوئی بعیدنہیں۔ وما ذلک علی اللہ ببعید۔ بظاہر ایسا ممکن نظر نہیںآتا۔ ہم قحط الرجال کے جس بدترین دور سے گزر رہے ہیں، ڈاکٹر محمود احمد غازی کی رحلت نے اس کی شدت میں کچھ اور اضافہ کر دیا ہے۔ ہم اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ان کی مغفرت تامہ کے لیے دست بدعاہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی حسنات کو قبول فرمائے اور ان کی بشری لغزشوں سے درگزر فرماتے ہوئے ان کے درجات کو بلند فرمائے۔ انہیں انبیا واتقیا اور صلحا کی معیت نصیب ہو اور ان کی اخروی زندگی ان کی اس حیات مستعار سے کہیں زیادہ قابل رشک ٹھہرے۔ آمین۔ ہم ان کے سبھی لواحقین بالخصوص ان کے برادر گرامی جناب ڈاکٹر محمد الغزالی سے اظہار تعزیت کرتے ہوئے ان کے لیے صبرجمیل کے طالب ہیں۔
ڈاکٹر زاہد اشرف
(ماہنامہ المنبر، فیصل آباد )
( ۶ )
۲۶؍ ستمبر کو معروف اسکالر، علمی وادبی اور تحقیقی کاز کے حوالے سے جدید وقدیم علوم کے متبحر عالم دین، اسلامی یونیورسٹی کے سابق صدر، سابق وفاقی وزیر مذہبی امور وسابق خطیب فیصل مسجد، وفاقی شرعی عدالت کے جج ، ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ بھی حرکت قلب بند ہونے سے راہی جنت ہو گئے ہیں۔ انا اللہ وانا الیہ راجعون۔
ڈاکٹر محمود احمد غازی ؒ ایک وسیع المطالعہ شخصیت تھے۔ انہوں نے اپنی زندگی کا ایک مقصد متعین کیا اور بھرپور استقامت اور عزیمت کے ساتھ اس مقصود کے حصول کے لیے اپنی پوری زندگی بسر کر دی۔ وہ جدید اور قدیم علوم پر گہری نظر رکھتے اور اپنی بات بڑے سلیقے سے کہنے کا ہنر جانتے تھے۔ ہمارے ہاں بہت کم لوگ اتنے شستہ اور اتنے اعلیٰ اسلوب میں اپنا مدعا بیان کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ان کے ساتھ میری سب سے پہلی ملاقات مولانا سید چراغ الدین شاہ صاحب کے مدرسہ کے سالانہ جلسہ دستاربندی میں ہوئی۔ میں جلسہ گاہ میں پہنچا تو ایک عالمانہ، فاضلانہ خطاب شروع تھا۔ خطیب کی اردو سے علم و ادب چھلکتا تھا،جگہ جگہ قرآن کی آیات سے استدلال، احادیث سے استشہاد اور متنبی اور حماسہ کے عربی اشعار بھی بطور دلیل پیش کیے جا رہے تھے۔ میں نے دریافت کیا، خطیب کون ہیں؟ بتایاگیا کہ مرکزی وزیر جناب ڈاکٹر محمود احمد غازی ہیں۔ اسی شام دسترخوان پر اکٹھے بیٹھے اور چند لمحوں میں موصوف بے تکلف ہو گئے ۔ مجھے اس رو ز اس پر اور زیادہ خوشی ہوئی کہ موصوف میری اکثر کتابوں کو جانتے بھی تھے، مطالعہ بھی کیا تھا اور انہیں میری بعض جدید کتب کی طلب بھی تھی۔ انہوں نے کئی بار جامعہ ابوہریرہ آنے کی خواہش ظاہر کی تھی۔ ماہنامہ القاسم کوشوق سے دیکھتے بلکہ فرماتے کہ میں اس کے انتظار میں رہتا ہوں۔
گزشتہ کئی سالوں سے ان کے علمی افادات بھی منظر عام پر آنے لگے۔ قرآنیات ، احادیث اور فقہ پر ان کے علمی لیکچرز ان کے وسیع و عمیق مطالعہ اور علم وتحقیق کامظہر ہیں۔ ان کے خطبات ،محاضرات قرآن، محاضرات حدیث، محاضرات سیرت سے دین اور مطالعاتی حلقوں میں ان کا علمی مقام بہت بڑھ گیاتھا۔ بلاشبہ وہ اسلام اور پاکستان کے سلسلہ میں مخلص تھے۔ ان کے سانحہ ارتحال سے ہم بہت مخلص خادم علم، خادم اسلام اور خادم پاکستان سے محروم ہو گئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرما وے اور ان سے جو فائدہ مسلمانوں کو پہنچ رہا تھا، وہ پہنچتا رہے اور اگر ان سے کوتاہیاں ہوئی تھیں ، اللہ تعالیٰ انہیں معاف فرمائے اور ان کے درجات بلند فرمائے۔ آمین۔
مولانا عبد القیوم حقانی
(ماہنامہ القاسم، نوشہرہ)
( ۷ )
ممتاز محقق اور عالم دین، اسٹیٹ بینک کے شعبے کے چیئر مین، سابق ڈائریکٹر دعوۃ اکیڈمی، بین الاقوامی اسلامک یونیورسٹی کے سابق سربراہ اور فیصل مسجد اسلام آباد کے سابق خطیب ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ اس جہان فانی سے رخصت ہو گئے۔ علمی حلقوں میں ان کی جدائی کی خبر سے انتہائی صدمے کی کیفیت طاری ہے۔ آپ کاندھلہ کے علمی خانوادے کا تسلسل تھے۔ آپ کی غیر معمولی قابلیت ، تحقیق اور وسعت خیالی نے آپ کو ہر طبقے میں ہر دلعزیز بنا رکھا تھا۔ جس انداز میں مدارس کے ساتھ آپ کامسلسل رابطہ اور محبت بھر اتعلق تھا ، بالکل اسی طرح ملکی اور غیر ملکی یونیورسٹیوں اور حکومتی اداروں میں بھی آپ کی بے انتہا پذیرائی تھی۔ سابق صدر ضیاء الحق نے آپ کی قابلیت کی بنا پر آپ کواپنا ترجمان بنایا تھا۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے بھی انہیں اسلامی نظریاتی کونسل کے ممبر بنانے کے ساتھ اہم ذمہ داریاں تفویض کر رکھی تھیں۔ نواز شریف نے اپنے دور حکومت میں انہیں وفاقی شرعی عدالت کاجج اپائنٹ کیا۔ سابق صدر پرویز مشرف نے انہیں وفاقی مذہبی امور کا وزیر بنایا جس سے ان کی موافقت نہ ہو سکی اور جلد ہی انہیں اس سے الگ ہونا پڑا۔
آپ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے سب سے کامیاب اور ہر دلعزیز سربراہ رہے۔ آپ کے زمانے میں یونیورسٹی کے ماحول میں اسلامی ثقافت کا رنگ غالب رہا۔ آپ نے گو پردے کو قانونی حیثیت تو نہ دی، لیکن اس زمانے میں نوجوان لڑکیوں میں اسلامی لباس کا رجحان ترقی کرتا رہا۔ دعوۃ اکیڈمی بھی آپ کی ڈائریکٹر شپ میں ہی منظم اور فعال ادارے کے طور پر سامنے آئی تھی۔ آج دعوۃ اکیڈمی کے مفید پروگرامز اور ہمہ جہت کارکردگی میں ڈاکٹر صاحب کی خصوصی توجہ کا بڑا دخل ہے۔ ہر محقق علمی شخصیت کی طرح آپ کے نقاد بھی موجود رہے۔ خاص طور پر پرویز دور میں عہدہ قبول کرنے پر ان پر بہت تنقید ہوئی۔ خاص طور پر ممتاز محقق محمد موسیٰ بھٹو نے اس حوالے سے خصوصی مکاتبت فرمائی تھی جو ان کی کتاب میں شائع ہو چکی ہے۔ ان خطوط سے اندازہ ہوتا ہے کہ ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ اپنے اسلاف کی طرح تحمل اور تواضع کے پیکر تھے۔ کسی موقع پر وہ تنقید کی وجہ سے اشتعال کا شکار نہ ہوئے۔ حفظِ مراتب کے ساتھ باسلیقہ گفتگو کا اللہ تعالیٰ نے انہیں خصوصی ملکہ عطا فرمایا تھا۔ موصوف کو اردو کے علاوہ عربی اور انگریزی تحریر وتکلم پر یکساں عبور تھا۔
عالمی کانفرنسوں اور سیمینارز میں کسی بھی زبان میں بے تکلف گفتگو ان کا طرۂ امتیاز تھی ۔ موصوف نے جدت پسندی کے نام پر اجماع سے ہٹے ہوئے نظریات کا ہمیشہ مردانہ وار مقابلہ کیا۔ مسلمانوں کی نشاۃ ثانیہ کے لیے ہمیشہ فکر مند رہتے۔ قرآن و حدیث کے علاوہ سیرت، فقہ اور خصوصیت سے فقہ المعاملات میں خصوصی درک رکھتے تھے۔ ان کے محاضرات( لیکچرز) سیرت، فقہ اور معیشت چھپ کر داد تحسین وصول کر چکے ہیں۔ ملک کی کوئی اہم لائبریری نہ ہو گی جس میں ان کی کتب کو خصوصیت سے جگہ نہ دی جاتی ہو۔ کراچی کے معروف علمی ادارہ جامعۃ الرشید کے زیرنگرانی قضا کورس میں انہوں نے جو ساڑھے چار گھنٹے پرمغز بیان کیا تھا، اسے لازوال شہرت ملی تھی۔ یہ بیان پاکستان بھر کے نامور دارالافتاؤں کے جید مفتیا ن کرام کے سامنے کیا گیا تھا جسے اس کی روانی، ٹھوس استدلال اور جامعیت کی وجہ سے بے حد پسند کیا گیا تھا۔ جامعۃ الرشید کے سالانہ کنونشن میں ان کی خدمات کے اعتراف کے طور پر تقریباً آٹھ ہزار سامعین کے سامنے انہیں دو لاکھ کتابوں پر مشتمل ڈیجیٹل لائبریری اور لیپ ٹاپ دیا گیا تھا۔ ان کی علمی قابلیت کی وجہ سے انہیں مختلف نصابوں کی تشکیل میں شریک کیا جاتا رہا ہے۔
گزشتہ کچھ زمانے سے وہ قطر میں خدمات انجام دے رہے تھے اور گاہے گاہے اسلام آباد، کراچی اور لاہور بھی چکر لگاتے تھے۔ اس بار اسلام آباد میں قیام کے دوران انہیں دل کا دورہ پڑا جو جان لیوا ثابت ہوا اور داعی اجل کو لبیک کہتے ہوئے دنیا سے رخصت ہو گئے۔ احادیث میں یہ مضمون موجود ہے کہ قیامت کے قریب جہالت کا غلبہ ہو گا اور علم اٹھا لیا جائے گا ۔ علم اٹھانے کی صورت یہ ہو گی کہ زمانے کے نبض شناس علما کو اٹھا لیا جائے گا۔ اس وقت ہم کسی ایسی ہی صورت حال کا شکار ہیں یا انہیں ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے شہید کیا جا رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں جہالت کے عذاب سے محفوظ رکھیں۔ ان کی علمی خدمات اور عملی جدوجہد یقیناًاس قابل ہے کہ ہر پاکستانی ان پر رشک کرے، ان سے استفادہ کرے اور امید رکھے کہ جس اللہ تعالیٰ نے انہیں اتنا عملی کام کرنے کا موقع عنایت کیا، وہ ان لغزشوں اور خطاؤں کو معاف کر کے انہیں جنت الفردوس میں جگہ دے گا۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائیں۔ ان کے درجات بلند فرمائیں اور اپنی عادت کے مطابق قحط الرجال کے اس دور میں ہمیں نئے رجال عطا فرمائیں۔ آمین۔
( ہفت روزہ ’’ضرب مومن ‘‘کراچی)
(۸)
یہ خبر دل ودماغ پر بجلی بن کر گری کہ سابق وفاقی وزیر مذہبی امور اور وفاقی شرعی عدالت کے جج، مایہ ناز استاد، محقق اور دانش ور مولانا ڈاکٹر محمود احمد غازی ۲۶؍ ستمبر کو اس دار فانی سے کوچ کر گئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ اسلامی تعلیمات کے حوالے سے جن چند گنے چنے لوگوں کو سنجیدہ غور وفکر اور اعلیٰ درجے کا افہام اللہ تعالیٰ نے عطا فرمایا ہے، ڈاکٹر محمود احمد غازی اسی عمدہ جماعت کے فرد فرید تھے۔ پاکستان میں ان کے نام اور کام کو جاننے والے دسیوں، ہزاروں لوگ ہیں تو بیرون ملک بھی ان کے قدر دانوں کی کمی نہیں۔ ڈاکٹر محمود غازی اپنے علم وفضل کی گہرائی اور مزاج کی شرافت اورمتانت کے حوالے سے اپنا ایک منفرد مقام رکھتے تھے۔ اب جبکہ سنجیدہ غور وفکر کرنے والے لوگ علمی حلقوں میں دن بدن کم ہوتے جا رہے ہیں، ڈاکٹر محمود غازی کے جانے سے یہ کمی شدت سے محسوس کی جا رہی ہے۔
ڈاکٹر صاحب مرحوم ۲۰۰۲ء تا ۲۰۰۴ء وفاقی وزیر مذہبی امور رہے۔ انھوں نے حکومت میں رہتے ہوئے پرویز مشرف کے، دینی مدارس کے نصاب ونظام تعلیم کے خلاف ناپاک منصوبوں کو جس حکمت سے ناکام بنایا، وہ ان کے اخلاص کا غماز ہے۔ وزارت سے سبک دوشی ان کے اسی ’’جرم‘‘ کی سزا تھی۔ ۲۰۱۰ء میں انھیں وفاقی شرعی عدالت کا جج مقرر کیا گیا۔ انھوں نے چالیس سے زائد ممالک کے سفر کیے، اندرون وبیرون ملک مختلف موضوعات پر ہونے والی ایک سو سے زائد کانفرنسوں میں شرکت کی۔ اسلامی قوانین، اسلامی تعلیم، اسلامی معیشت اور اسلامی تاریخ سے متعلق اردو، انگریزی، عربی میں تیس سے زائد کتابیں تصنیف کیں۔ قادیانیت کے رد میں ایک مستقل کتاب انگریزی میں تحریر کی۔ وہ اپنی شاندار زندگی کا سفر ساٹھ سال میں مکمل کر کے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حاضر ہو گئے۔
غم کی اس گھڑی میں مجلس احرار اسلام پاکستان کے امیر حضرت پیر جی سید عطاء المہیمن بخاری، سیکرٹری جنرل عبد اللطیف خالد چیمہ، مدیر نقیب ختم نبوت سید محمد کفیل بخاری اور راقم، مرحوم ڈاکٹر صاحب کے اہل خانہ اور ان کے بھائی ڈاکٹر محمد الغزالی سے تعزیت مسنونہ کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ پس ماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے اور ڈاکٹر صاحب کے درجات بلند فرمائے۔ دین اسلام کے حوالے سے ان کی کوششوں کو شرف قبولیت بخشے۔ آمین
محمد عابد مسعود ڈوگر
(ماہنامہ نقیب ختم نبوت، ملتان)