قحط الرجال کے موجودہ افسوس ناک دور میں جب کوئی ایسی ہستی جدا ہوتی ہے جس کا وجود مسائل و افکار سے پریشان اور رہنمائی کی متلاشی امت کے لیے مینارۂ نور کی حیثیت رکھتا ہے تو صدمہ اور غم دو چند ہو جاتا ہے۔اس لیے کہ اب دور دور تک ایسی شخصیات نظر نہیں آتیں جن کا اوڑھنا بچھونا علم ہو اور جن کا تعارف قرآن ،حدیث،فقہ اور علوم و فنونِ شرعیہ پر گہری دسترس ہو۔ معروف محقق و دانش ور،مصنف و ادیب،صاحب علم وفضل ڈاکٹر محمود احمد غازی کا شمار بھی ان اہل علم میں ہوتا تھا جن کی اہلیت و قابلیت اور دینی ثقاہت پر قدیم و جدید علما کا اتفاق تھااور عصری درس گاہوں سے وابستگی کے باوجود دینی مدارس کے اساتذہ و علما بھی ان کی تالیفات و تصنیفات سے استفادہ کرتے نظر آتے تھے۔افسوس کہ ڈاکٹر محمود احمد غازی بھی۱۶ شوال المکرم ۱۴۳۱ھ (۲۶ ستمبر۲۰۱۰ء) کو علمی و تدریسی حلقوں کو سوگوار چھوڑ کر خالق حقیقی سے جا ملے،انا للہ و انا الیہ راجعون!
ڈاکٹر صاحب کا تعلق ٹھیٹھ مذہبی گھرانے سے تھا۔داعی کبیر حضرت مولانا محمد الیاسؒ اور شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلویؒ ڈاکٹر صاحب کی والدہ کے سگے پھوپھا تھے۔آپ کے والد ماجد محمد احمدؒ مرحوم متدین و متبع سنت بزرگ تھے جنہوں نے ڈاکٹر صاحب کی دینی تعلیم و تربیت کا خاص اہتمام کیا۔ ڈاکٹر صاحب نے درسِ نظامی کی ابتدائی تعلیم جامعہ اسلامیہ بنوری ٹاؤن کراچی سے حاصل کی،جب کہ دینی علوم کی تکمیل شیخ القرآن مولانا غلام اللہ خانؒ کے مدرسہ تعلیم القرآن راجہ بازار راولپنڈی میں کی اور مولانا ہی سے تفسیر قرآن کریم پڑھی۔ قرآن کریم کے پختہ حافظ تھے اور ہر سال رمضان المبارک میں قرآن کریم سنانے کا معمول تھا۔
ڈاکٹر محمود غازیؒ نے سترہ سال کی عمر میں تدریس کا آغاز کیا اور تا دم آخر اس فریضے کو نبھاتے رہے۔اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے اپنے تعلیمی سفر کو جاری رکھا اور پوسٹ گریجویٹ اور ڈاکٹریٹ کی ڈگریوں کی تحصیل کے بعد تصنیف و تالیف اور تحقیق و تدقیق کے میدان میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔قدیم و جدید علوم پر دسترس اور خداداد غیر معمولی صفات و کمالات کی وجہ سے ڈاکٹر صاحب مرحوم اپنی زندگی میں بہت سی اہم ذمہ داریوں پر فائز رہے۔ استاذ سے لے کر وزارت تک بہت سے مناصب پر آپ کی صلاحیتیں نمایاں ہوئیں۔حق تعالیٰ شانہ نے آپ کو تحریر و تقریر کا خاص ملکہ عطا فرمایا تھا۔ عربی ،فارسی،انگریزی،فرانسیسی اور اردو زبان کے بہترین خطیب و ادیب تھے۔ ہفت زبان ہونے کا محاورہ ڈاکٹر صاحب کے لیے مجازاً نہیں، حقیقتاً استعمال ہوتا تھا۔سرکاری مناصب پر فائز رہنے کے باوجودڈاکٹر صاحب قومی،ملی اور دینی تحریکوں کے پشت پناہ رہے۔قادیانی تحریک کے خلاف مسلمانوں کے متفقہ موقف کی ترویج و اشاعت کے لیے آپ نے گراں قدر خدمات انجام دیں اور جنوبی افریقہ کی ایک عدالت میں قادیانیوں کے مقابلے میں امت مسلمہ کا متفقہ موقف پیش کرنے کی ڈاکٹر صاحب کو سعادت عطا کی گئی۔
جامعہ خیر المدارس ملتان نے جب عصری تقاضوں کے پیش نظر ’’خیر المعارف‘‘کے نام سے ایک جدید درس گاہ قائم کی تو اس کے رسمی افتتاح کے لیے جامعہ کے مہتمم مولانا قاری محمد حنیف جالندھری نے ڈاکٹر صاحب کو دعوت دی۔ ڈاکٹر صاحب ان دنوں(۲۰۰۰ء)مذہبی امور کے وزیر تھے۔افتتاح کے موقع پر انہوں نے دینی علوم کی عظمت و اہمیت پر فاضلانہ خطاب فرمایا۔ اس کے ساتھ ایسے اہل علم کی ضرورت پر زور دیا جو دور جدید کے رجحانات پر ناقدانہ نظر رکھتے ہوں۔ ’’کتاب الآرا‘‘ میں اپنے تأثرات رقم کرتے ہوئے ڈاکٹر صاحب نے لکھا:
’’ادارہ خیر المعارف پاکستان میں دینی تعلیم کے میدان میں ایک منفرد اور انقلابی تجربہ ہے۔اس ادارے کا مقصد ایسے علمائے دین تیار کرنا ہے جو ایک طرف سلف صالحین کے تقویٰ و للہیت کی صفت کے مظہر ہوں اور دوسری طرف جدید دور کے تقاضوں اور فکری رجحانات سے براہِ راست اور ناقدانہ واقفیت رکھتے ہوں۔مجھے امید ہے کہ ادارہ خیر المعارف اپنے پاک نفس اور پاک باز مدرسین کی اعلیٰ دینی روایات کو بلند سے بلند تر کرنے کے ساتھ ساتھ اس دور میں دینی قیادت فراہم کر سکنے اور دورِجدید کے رجحانات پر ناقدانہ نظررکھنے والے اہل علم پیدا کرے گا۔‘‘
حقیقت ہے کہ ڈاکٹر صاحب کا شمار امت کے ان چیدہ چیدہ افراد میں ہوتا ہے جو ان کے بقول دور جدید کے رجحانات پر ناقدانہ نظر رکھتے تھے اور امت کو دینی قیادت فراہم کر سکتے تھے۔ راقم السطور کو دو چار مرتبہ حضرت ڈاکٹر صاحب کی مجلس میں بیٹھنے اور کسی حد تک استفادہ کی سعادت نصیب ہوئی ہے۔ غیر معمولی علمی مقام کے باوجود ان کے عجز وانکسار،سادگی،نرم مزاجی اور دھیمے پن نے احقر کو بہت متأثر کیا۔ڈاکٹر صاحب کی گفتگو سلاست، بلاغت، متانت اور فقاہت کا مرقع ہوتی تھی۔ ایک مرتبہ جامعۃ الرشید احسن آباد کراچی میں ایک مجلس میں موضوع گفتگو مسلمانوں کی علمی،عملی اور معاشی زبوں حالی اور صورت حال کی تبدیلی،امکانات اور تجاویز تھا۔ اس مجلس میں بھی ڈاکٹر صاحب کی گفتگو نہایت پر مغز،معلومات افزا اور فاضلانہ تھی۔مسلمانوں میں پائی جانے والی ایک غلط فہمی کی اصلاح کرتے ہوئے ڈاکٹر صاحب نے فرمایا کہ ہمارے ہاں بہت سے حضرات سادہ لوحی سے مغرب کا مطالعہ کرتے ہیں اور مغرب کے ظاہری دعووں سے متأثر ہو جاتے ہیں۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ مغرب نے مذہب کو گھر سے نکال دیا ہے اور اب مغرب مذہبی تعصب سے آزاد ہو گیا ہے جب کہ حقیقت اس کے بالکل بر عکس ہے اور مغرب کی ہر چیز عیسائی تہذیب و تمدن ،عیسائی روایات اور عیسائی تعصبات پر مبنی ہے۔یہ بات خود مغربی مصنفین نے بھی کہی ہے،لہٰذاعیسائیت کو مغرب سے علیحدہ نہیں کیا جا سکتا۔یہ سمجھنا کہ مغربی دنیا سیکولر ہے، اس لیے اسے مذہبی مفادات سے دلچسپی نہیں اور وہ مذہبی عصبیت سے بالاتر ہے، سادہ لوحی بلکہ بے وقوفی ہے۔
اپنی بات مدلل کرنے کے لیے ڈاکٹر صاحب نے اپنا ایک ذاتی تجربہ بیان کیا جس سے مسلمانوں کے بارے میں اہل مغرب کی عصبیت کا اندازہ ہوتا ہے۔انہوں نے بتایا کہ جرمنی میں ایک اعلیٰ سطحی کانفرنس ہوئی جس میں دنیا بھر کے دانش وروں کو مدعو کیا گیا تھا۔اس میں عیسائی مندوبین کی تعداد ۶۰۰ تھی جب کہ پورے عالم اسلام کی نمائندگی کرنے والے مسلمان صرف تین تھے۔ سامعین جرمنی کے صف اول کے لوگ تھے۔ اس کانفرنس میں مجھے جس موضوع پر خطاب کا موقع ملا،وہ تھا:’’یورپ کی ٹیکنالوجی سے مسلمانوں کا رویہ کیسا ہونا چاہیے‘؟‘ اس پر میں نے عرض کیا کہ جب انگریز برصغیر میں آئے تو ان کی تہذیب و معاشرت،کلچر ،روایات اور ٹیکنالوجی کے بارے میں تین قسم کے نظریات اور رویے سامنے آئے۔بعض لوگ وہ تھے جنہوں نے مغرب کی ہر چیز کو ایک خطرہ سمجھا اور تہذیب و معاشرت سے لے کر ٹیکنالوجی تک مغرب سے درآمد شدہ ہر چیز کا مکمل مقاطعہ یا بائیکاٹ کر دیا۔ ایسے افرادکی تعداد بہت کم تھی اور یہ نظریہ بعدازاں ختم ہو گیا۔اب اس نظریہ کے لوگ نہیں پائے جاتے۔دوسرا نقطۂ نظر ان لوگوں کا تھا جنہوں نے بلا استثنا انگریزوں کی ہر چیز کو قبول کر نے کا نظریہ پیش کیا۔یہ نظریہ ابھی تک چل رہا ہے لیکن سو سال میں اس کا نتیجہ مسلمانوں کی ملی و تہذیبی تباہی کے سوا کچھ نہیں نکلا ۔ تیسرا رویہ اور نقطہ نظر یہ تھا کہ مغرب سے خیر کی چیزیں لے لی جائیں اور شر کی چیزیں چھوڑ دی جائیں جسے عربی میں ’’خذ ما صفا ودع ما کدر‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ ایک معقول و معتدل نظریہ ہے اور مسلمانوں کو اسے اختیار کرنا چاہیے مگر میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب میرے خطاب کے بعد جرمنی کے ایک سامع نے کہا کہ یہ آپ کا خیال خام ہے کہ آپ مغرب کی اچھی چیزوں سے استفادہ کریں اور جو آپ کی نظر میں اچھی نہ ہوں، انہیں چھوڑ دیں۔مغرب سے استفادہ کے لیے آپ کو مغرب کی تمام شرائط ماننا ہوں گی۔مثال کے طور پر اگر آپ مغرب کی ایجادات سے فائدہ اٹھاتے ہیں تو آپ کو سیکولر ڈیموکریسی اور مساواتِ مرد و زن کا فلسفہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا۔مجھے خیال ہوا کہ شاید یہ اس شخص کے ذاتی خیالات ہوں اور یہ شخص مسلمانوں کے بارے میں متشددانہ نظریہ رکھتا ہو،لیکن جب مجھے دوسرے مقامات پر جانے،لوگوں سے ملنے ،ان کے نظریات معلوم کرنے اور ان کی کتابیں پڑھنے کا اتفاق ہوا تو معلوم ہوا کہ اس مسئلے میں پورا مغرب یک زبان ہے اور وہ مسلمانوں کو ان کے عقیدے ،دین اور خیر کے مطابق زندگی گزارنے کا حق دینے کے لیے تیار نہیں۔
اس گفتگو سے شرکاے محفل کو اندازہ ہوا کہ ڈاکٹر صاحب مغربی افکار و نظریات پرنقد و محاکمے کی غیر معمولی صلاحیت رکھتے ہیں۔اس موضوع پر آپ کی کتاب’’اسلام اور مغرب کے تعلقات‘‘ اردو خواں حضرات کے لیے لائق مطالعہ ہے۔ حضرت ڈاکٹر صاحبؒ آج ہم میں نہیں رہے،اسکولوں اور کالجوں کے طلبہ تو کجا شاید دینی مدارس کے طلبہ کو بھی اس نقصان اور خلا کا اندازہ نہ ہو سکے جو ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ کی وفات سے ہوا ہے۔
جواب اس بات کا یارانِ محفل سوچنا ہوگا
ہمارے بعد ہم جیسے کہاں سے لوگ لاؤ گے
حق تعالیٰ شانہ ڈاکٹر صاحب مرحوم و مغفور کی کروٹ کروٹ مغفرت فرمائیں، آمین