ڈاکٹر محمود احمد غازی کی ہستی برصغیر کے ا ہل علم میں ایک ایسی شخصیت تھی جو بین الاقوامی مجالس وکانفرنسوں اور اعلیٰ سے اعلیٰ سطح پر اسلام اور جمہور اہل علم کی ترجمانی کرتی تھی۔ بقول مولانا زاہدالراشدی کے ’’مکالمے اور گفتگو کے عصری اسلوب پر ان کی گرفت اس قدر مضبوط تھی کہ اعلیٰ سے اعلیٰ فکر ودانش کی کوئی بھی سطح اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتی تھی۔‘‘ انہوں نے خاموشی سے جنرل ضیاء الحق کے دور سے لے کر پرویز مشرف کے دور تک بعض ظاہر بین لوگوں کی ملامت کی پروا کیے بغیر حکومتی سطح پر وہ کام کر دکھایا جو صرف آپ ہی کے کرنے کا تھا۔ ڈاکٹر صاحب نے جنرل ضیاء الحق کے عربی کے ترجمان اور دینی معاملات میں مشیر بن کر بہت قریب تھے۔ آپ نے خاموشی سے جنرل ضیاء الحق سے حکومتی سطح پر متعدد دینی وعلمی کام کروائے، خواہ وہ اسلامی نظریاتی کونسل کا خاکہ ہو، خواہ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کی دعوۃ اکیڈمی وشریعہ اکیڈمی کے ذریعے بے شمار دینی وعلمی کتب کی طباعت اور دنیا بھر میں ایسے ممالک میں اسلامی اسکالرز تیار کرنا جہاں مسلمان اقلیت میں اور غیر اسلامی تمدن وکلچر کے دباؤ میں ہیں۔ اسی طرح یونیورسٹی کی طرف سے متعدد دینی واسلامی کورسز کا اجرا جس کے ذریعے ہزار ہا طلبہ نے مطالعہ اسلام، مطالعہ قرآن اور متعدد کورس کیے۔ خود برطانیہ میں ڈاکٹر صاحب کے عطا کردہ مطالعہ اسلام کا دو سالہ کورس (ہوم اسٹڈی کورس) ورلڈ اسلامک فورم کے توسط سے تقریباً دس ہزار طلبہ وطالبات نے کیا۔ آپ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے صدر ونائب صدر رہے اور حقیقت یہ ہے کہ یونیورسٹی کی دعوۃ اکیڈمی وشریعہ اکیڈمی کی خاکہ گری کرنے والوں میں سب سے نمایاں اور عرصہ تک ان دونوں اکیڈیمیز کی روح رواں آپ ہی کی شخصیت تھی۔
اسی طرح سود کے خلاف سپریم کورٹ کے مشہور اور تاریخ ساز فیصلہ میں ڈاکٹر صاحب کا بحیثیت اپیلٹ بینچ سپریم کورٹ آف پاکستان سب سے نمایاں کردار رہا ہے۔ اس مشہور فیصلے کا بڑا حصہ ڈاکٹر صاحب ہی کا تحریر کردہ ہے، اگرچہ پاکستان کے متعدد علماء کرام اورجج صاحبان اس میں شامل تھے۔ ڈاکٹر حمیداللہ (پیرس) کے بعد برصغیر میں آئینی وقانونی معاملات میں آپ اسلامی دفعات کے سب سے بڑے ماہر تھے۔ ڈاکٹر حمیداللہؒ کے مشہور خطبات بہاولپور کی دوسری جلد جو قانون بین الممالک کی موضوع پرہی ہے، وہ ڈاکٹر غازی صاحب ہی کے محاضرات ہیں۔ اس کامطالعہ بتاتا ہے کہ آپ کی نظر قانون بین الممالک یا انٹرنیشنل لا پر اپنے پیش رو سے کہیں بڑھ کر تھی۔ اسی طرح بہت کم لوگوں اس حقیقت کا علم ہے کہ برصغیر میں آپ اسلامی بینکنگ کے بانیوں میں تھے۔ اسلامی بینکنگ کے لیے تکافل کا ابتدائی خاکہ آپ ہی کا تشکیل کر دہ ہے۔ اس پر پاکستان سے بہت پہلے بعض عرب ممالک اور ملائیشیا میں عمل ہوا۔ اسلامی معاشیات پر آپ کا علمی وفکری اور تجدیدی کام بہت وقیع اور ناقابل فراموش ہے اور آخر تک اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے شریعہ ایڈوائزی بورڈ کے چیئرمین کامنصب آپ ہی کے پاس تھا۔
اسی طرح قادیانیوں کے خلاف امت مسلمہ کے متفقہ موقف کی ترویج واشاعت اور اس سلسلے میں ہونے والی قانون سازی میں ڈاکٹر صاحب کی تگ ودو اور ماہرانہ رائے کا بڑا دخل رہا ہے۔ ۸۰ء کی دہائی میں ساؤتھ افریقہ میں قاد یانیوں کے متعلق مقدمہ میں صدر جنرل ضیاء الحق مرحوم نے پاکستان کے جید علماء کرام اور ماہرین قانون کا ایک موقر اور اعلیٰ سطحی وفد روانہ کیا تھا۔ وہاں عدالت عالیہ کے سامنے امت مسلمہ کا موقف پیش کرنے کی سعادت ڈاکٹر صاحب ہی کے حصے میں آئی۔ بالآخر اسی تاریخی مقدمے میں ملت اسلامیہ کے موقف کو غیر مسلم عدالت کے سامنے سرخروئی حاصل ہوئی۔ آج یہ فیصلہ دنیا بھر کے غیر مسلم ممالک کی عدالتوں کے لیے ایک نظیرہے۔ ایک بار بندہ نے ابراہیم کالج لندن میں برطانیہ کی مختلف ختم نبوت تنظیموں کے سربراہوں اور علماء کو بلا کر ڈاکٹر صاحب سے میٹنگ کروائی۔ ان علماء کرام کے روبرو ڈاکٹر صاحب نے جو بصیرت افروز تقریر فرمائی، بندہ نے اس مسئلہ پر ایسی ٹھوس اور مدلل تقریر کبھی نہیں سنی تھی۔ آج بھی آپ قادیانیوں کی ویب سائٹ کھولیں تو اندازہ ہوگا کہ قادیانیوں کو سب سے زیادہ تکلیف ڈاکٹر صاحب ہی سے تھی۔
ڈاکٹر محمود احمد غازی پرویز مشرف کی تشکیل کردہ نیشنل سیکورٹی کونسل کا حصہ بنے تو بعض بزرگوں نے آپ کو لعنت ملامت کا نشانہ بنایا۔ بندہ نے اپنے کانوں سے پاکستان کے ایک ممتاز ترین عالم دین سے ڈاکٹر صاحب کے متعلق سخت ترین الفاظ سنے۔ ان بزرگ نے مجھے بتایا کہ میں نے بھرے مجمع میں ڈاکٹر صاحب کو کھری کھری سنائیں۔ بندہ نے دل میں کہا کہ یہ آپ کا کمال نہیں بلکہ ڈاکٹر صاحب کا حوصلہ، شرافت اورکمال ہے کہ آپ کے منصب کا لحاظ کر کے خاموش رہے، لیکن اہل نظر خوب جانتے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب نے مشرف جیسے شخص کے ساتھ رہ کر بھی جو کام انجام دیا، وہ صرف انھی کے کرنے کا تھا۔ چنانچہ رفیق محترم مولانا زاہدالراشدی صاحب لکھتے ہیں:
’’میں ان کی صلاحیتوں اور افتاد طبع سے آگاہ تھا، اس لیے کوئی تشویش نہیں تھی اور میں خاموشی سے ان کے ’’اپنا کام کر گزرنے‘‘ کی صلاحیت کا مشاہدہ کرتا رہا، چنانچہ جب مشرف نے آپ کو وزارت سے فارغ کر دیا تو میں اسلام آباد کے بعض علماء کرام کے ہمراہ ان سے ملنے گیا اور مبارک باد دینے کے ساتھ ان کا شکریہ بھی ادا کیاتو دوستوں کو تعجب ہوا کہ میں شکریہ کس بات کا ادا کر رہا ہوں۔ میں نے عرض کیا کہ دینی مدارس کے خلاف پرویز مشرف کی پرجوش پالیسی کی شدت کو جس حکمت عملی کے ساتھ ڈاکٹر صاحب نے کم کیا ہے اور اس پالیسی کو ٹالنے کے لیے داؤ پیچ ڈاکٹر صاحب نے کھیلے ہیں، یہ انھی کا کام تھا۔ ان خطرناک حالات میں امریکہ نے پرویز مشرف کے ذریعے دینی مدارس کو ملیا میٹ کرنے کے لیے ہلہ بول دیا تھا۔ ڈاکٹر صاحب کی حکمت عملی یہ تھی کہ پیپر ورک، فائل ورک اور مسلمان ملکوں کے تعلیمی نظاموں کا جائزہ لینے کے حوالوں سے سرکاری وفود کا سلسلہ دراز کیا جائے۔ چنانچہ یہ سب کچھ ہوتا رہا۔ اسی دوران دینی مدارس کے وفاقوں کو باہمی رابطوں اور رائے عامہ کو ہموار کرنے کاموقع مل گیا اور انہوں نے مشترکہ موقف طے کر کے حکومتی پالیسی کی مضبوط مزاحمت کا راستہ اختیار کر کے حکومت کی پالیسی کو ناکام بنا دیا۔‘‘
برصغیر میں ڈاکٹر حمیداللہ (پیرس) کے بعد ڈاکٹر محمود احمد غازی ایسے شخص تھے جو اردو، عربی، فارسی، انگریزی، فرنچ سمیت چھ سات زبانوں کے ماہر اور ان زبانوں میں اعلیٰ تحقیق وتصنیف وخطابت کا ملکہ رکھتے تھے۔ ڈاکٹر حمیداللہ ؒ کی فرانسیسی زبان میں دو جلدوں پر مشتمل سیرت کی شہرہ آفاق کتاب کا ڈاکٹر صاحب نے براہ راست فرنچ سے انگریزی میں ترجمہ کیا جو بہت مقبول ہوا۔ اسی طرح آپ کی آخری تصنیف ’’الحرکۃ المجددیہ‘‘ جو عربی میں چار سو سے زیادہ صفحات پر مشتمل ہے، برصغیر کی عبقری شخصیت حضرت مجدد الف ثانیؒ کے احوال و آثار اور خدمات وتصنیفات کے علمی جائزے پر ہے۔ یہ کتاب آپ کی فارسی وعربی دانی کے ساتھ علمی تبحر اور تصوف کے دقائق سے گہری واقفیت کا ثبوت ہے۔ اسی طرح قرآن، حدیث، سیرت، فقہ، شریعت اور معیشت وتجارت پر آپ کے محاضرات علوم اسلامیہ کا بیش بہا خزانہ ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ پورے اسلامی کتب خانہ میں ان محاضرات کی کوئی نظیر نہیں ہے۔ ان محاضرات کو پڑھنے والا ڈاکٹر صاحب کی وسعت علمی، وفور معلومات، ذہانت وقوت یادداشت اور قرآن وسنت اور تاریخ پر گہری بصیرت پر عش عش کر اٹھتا ہے۔ بندہ ورلڈ اسلامک فورم کی طرف سے اعلان کرتے ہوئے مسرت محسوس کرتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب کے محاضرات کی ان چھ جلدوں کو ورلڈ اسلامک فورم کی طرف سے لیسٹر کے دارارقم کے تعاون سے انگریزی میں چھاپا جائے گا۔ الحمد للہ اس پر کام شروع کر دیا گیا ہے۔
اسی طرح ڈاکٹر صاحب نے گوجرانوالہ (پاکستان) کی الشریعہ اکادمی کی ایک فکری نشست میں مسلمانوں کے نظام ونصاب تعلیم پر جو مبسوط خطاب فرمایا تھا، وہ اس موضوع پر ’’ما قل ودل‘‘ کی بہترین مثال ہے۔ اس میں آپ نے دریا کو کوزے میں بند کر دیا ہے۔ مولانا ر اشدی صاحب نے ڈاکٹر صاحب کی فکری نشستوں کو مرتب کر کے چھاپ دیا ہے جو علماء کرام کے لیے نادر تحفہ ہے۔ بقول ڈاکٹر سید عزیز الرحمن چند برس پہلے جامعۃ الرشید کراچی میں قضاء وتحکیم کے موضوع پر اپنے خطاب میں ڈاکٹر صاحب نے مسلمانوں کے قضا کی پوری روایت اور اس کا محاکمہ ایسے انوکھے اسلوب میں پیش فرمایا کہ ملک بھر کے مفتیان کرام حیرت زدہ رہ گئے اور سب نے متفقہ طور پر اس خطاب کو پورے کورس کا حاصل قرار دے دیا۔ بندہ کے نزدیک ڈاکٹر صاحب طبقہ علماء میں برصغیر کی منفرد شخصیت تھے جو مشکل سے مشکل موضوع پر برجستہ اور مدلل خطاب کی صلاحیت سے بہرہ ور تھے۔ ایک بار لندن کے مشہور کانوے ہال واقع ہالبرن میں بندہ نے اسلامائزیشن کے موضوع پر خطاب کی دعوت دی۔ ڈاکٹر صاحب نے نہ صرف پاکستان بلکہ پورے عالم اسلام میں اس موضوع پر ہونے والی کوششوں کی مکمل تاریخ پیش فرما دی۔
نومبر ۱۹۹۲ء میں رفیق محترم مولانا زاہدالراشدی اور بندہ نے یہاں برطانیہ میں مغربی فکر وفلسفہ کا جائزہ لینے اور اس کے موثر جواب کے لیے ورلڈ اسلامک فورم تشکیل دیا۔ اس وقت ہم نے ایک اعلیٰ سطحی مشاورتی حلقہ بنایا جس میں ڈاکٹر سلمان ندوی (ساؤتھ افریقہ)، مولانا سید سلمان الحسینی (لکھنو)، مولانا مجاہدالاسلام قاسمی (بھارت)، مولانامحی الدین خان (ڈھاکہ) اور پاکستان سے ڈاکٹر محمود احمد غازی ہمارے شریک فکر اور شریک کار تھے۔ یوں تو ڈاکٹر صاحب کی برطانیہ متعدد بار تشریف آوری ہوئی۔ فورم کی دعوت پر ۱۹۹۴ء میں ڈاکٹر صاحب اور ڈاکٹر سلمان ندوی (ساؤتھ افریقہ) اورجناب صلاح الدین شہید مدیر تکبیر نے ہمارے ساتھ برطانیہ کے مختلف شہروں کا دورہ فرمایا۔ مختلف شہروں کی علمی تقریبات اور سیمیناروں میں شرکت فرمائی جن کی یادیں آج بھی یہاں کے علما اور دینی کارکنوں کے ذہنوں میں تازہ ہیں۔ اسی طرح فورم نے برطا نیہ میں ’’اسلامک ہوم اسٹڈی کورس‘‘ کے عنوان سے بذریعہ خط وکتابت اسلامی کورس شروع کیا تھا جس کے انچارج مولانا رضاء الحق آف نوٹنگھم تھے اور اس میں مولانا مشفق الدین بھی عملی طو ر پر شریک رہے۔ اس کورس سے برطانیہ میں ہزارہا طلبہ اور طالبات نے فائدہ اٹھایا ۔ اس کورس کی عملی رہنمائی ڈاکٹر صاحب نے فرمائی تھی۔ اس وقت آپ بین الاقوامی یونیورسٹی اسلام آباد کی دعوۃ اکیڈمی کے ڈائریکٹر تھے۔ ہم نے دعوۃ اکیڈمی کا یہ کورس ڈاکٹر صاحب کی اجازت سے ان کے ساتھ باقاعدہ معاہدہ کی صورت میں شروع کیا تھا اور ڈاکٹر صاحب مسلسل اس کی رہنمائی اور سرپرستی فرماتے رہے۔
جہاں تک یاد پڑتا ہے، ڈاکٹر صاحب سے بندہ کی پہلی ملاقات غالباً ۱۹۸۴ء میں پاکستان کے پہلے سفر کے موقع پر ہوئی۔ اس وقت ڈاکٹر صاحب اسلامی یونیورسٹی کی دعوۃ اکیڈمی کے ڈائریکٹر تھے۔ آپ نے ایک اجنبی زائر کے لیے اپنی قیمتی مصروفیات سے کئی گھنٹے فارغ کر کے ملاقات فرمائی۔ اس وقت بندہ کا احساس تھا کہ ایک ایسی شخصیت مل گئی جو فورم کے مقاصد میں بین الاقوامی سطح پر ہماری سرپرستی ورہنمائی کرسکتی ہے۔ اس کے بعد ڈاکٹر صاحب سے تعلق گہرا ہوتا گیا۔ جب بھی پاکستان کا سفر ہوتا، سب سے زیادہ اشتیاق ڈاکٹر صاحب سے ملاقات کا ہوتا کیونکہ پاکستان کے اہل علم میں آپ کی شخصیت ایسی ہستی تھی جن کی عالمی حالات پر گہری نظر تھی۔ خاص طور پر مغربی دجالی طاقتوں کے طریقہ واردات، پالیسیوں اور اقدامات میں آپ کو گہری بصیرت حاصل تھی۔ آپ سے مل کر کئی ذہنی وفکری گتھیاں سلجھ جاتیں۔ ڈاکٹر صاحب کی رہائش گاہ پر بھی نشستیں ہوتیں اور ہم آپ کی رفاقت سے مستفید ہوتے۔ پاکستان کے آخری سفر میں برطانیہ کے چھ علماء ہمراہ تھے جن میں مولانا مشفق الدین، مولانا شمس الضحیٰ اور مولانا فاروق ملا بھی تھے۔ ڈاکٹر صاحب سے طویل ملاقات اور مشورے رہے۔
بین الاقوامی فورم پر اسلام اور مسلمانوں کی نمائندگی کا جو سلیقہ ڈاکٹر صاحب کو تھا، اس کی مثال کم ہی ملے گی۔ آپ علم وفضل، دینی حمیت وتصلب کے ساتھ ساتھ حسن تکلم وحکمت کی دولت سے آراستہ تھے۔ ڈاکٹر صاحب حکومت کے اعلیٰ سے اعلیٰ منصب پر فائز رہے۔ آپ وفاقی وزیر بر ائے مذہبی امور، ممبر پاکستان سیکورٹی کونسل، جج وفاقی شرعی عدالت، چیئرمین شریعہ ایڈوائزری بورڈ برائے اسٹیٹ بینک آپ پاکستان، اسلامی نظریاتی کونسل کے رکن، انٹرنیشنل اسلامی یونیورسٹی کے صدر، نائب صدر، ڈائریکٹر دعوۃ اکیڈمی وغیرہ وغیرہ رہے، مگر کبھی سرکاری مراعات سے ذاتی فائدہ نہیں اٹھایا۔ آپ کا علمی مقام یہ تھا کہ بیسیویں صدی کی عبقری شخصیت ڈاکٹر حمیداللہ آف پیرس نے ایک بار ڈاکٹر صاحب کو خط میں تحریر فرمایا کہ آپ کو میری کتب اور تحریروں میں حک واضافہ کا اختیار ہے۔ آپ کو تصوف واحسان میں برصغیر کے تین چار اہم ترین اکابر کی طرف سے اجازت بھی حاصل تھی، مگر آپ نے اس طرح اخفا سے کام لیا کہ گنتی کے چند افراد ہی واقف ہو ں گے۔ آپ سماع حدیث کی متعدد اعلیٰ ترین سندیں رکھتے تھے ۔ ایک سند ایسی تھی جو صرف چار واسطوں سے شاہ عبدالعزیز محدث دہلویؒ تک پہنچ جاتی ہے۔
آپ کی گفتگو بڑی پر حکمت اور دانائی کی ہوتی۔ ایک بار ملائیشیا میں بین الاقوامی یونیورسٹی کی ورک شاپ کے موقع پر فرمایا کہ آج کے دور میں کوئی اگر خلیفہ ، وزیر، ا میر یا کسی منصب پر پہنچ جاتا ہے تو یہ بھول جاتا ہے کہ میں عبداللہ بھی ہوں۔ ایک بار ہم آکسفورڈ میں اسلامی سنٹر کے ڈائریکٹر فرحان نظامی سے ملنے گئے تو وہاں عرب شہزادوں کی داد ودہش کا تذکرہ تھا جو مغربی ممالک میں نام ونمود کی جگہوں پر علم اور اسلام کے نام پر خرچ کرتے ہیں اور بڑے فراخ دل واقع ہوئے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے فرمایا کہ عربوں کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اسلام کے سرپرست رہنا چاہتے ہیں، خادم نہیں۔ آپ ہمیشہ خود کو ایک دنیا دار شخص ظاہر کرتے، مگر بندہ نے ہمیشہ آپ کو کسی علمی مشغولیت (مطالعہ وتصنیف) میں دیکھا یا ذکر وتلاوت میں۔ ایک بار برطانیہ کے شہر لیسٹر میں مولانا فاروق ملا کے سنٹر دارارقم میں ایک ہفتہ تک ڈاکٹر صاحب کے محاضرات رہے۔ فقہ الاقلیات جیسے نادر موضوع پر ڈاکٹر صاحب کی قدرت کلام اور حسن خطابت دیکھ کر بار بار دل تڑپتا کہ کاش! برطانیہ کے مولوی صاحبان جبہ ودستار اورالقاب کے پھندوں سے نکل کر اس گوہر نایاب کی قدر کر کے فائدہ اٹھاتے۔ ڈاکٹر صاحب کی خداداد صلاحیتوں سے تقریباً دو سال ملائیشیا کی انٹرنیشنل اسلامی یونیورسٹی اور تقریباً اتنی ہی مدت عربوں میں قائم ہونے والی سب سے اعلیٰ معیار کی بین الاقوامی یونیورسٹی آف قطر نے استفادہ کیا۔ بندہ نے گزشتہ سال اپنے مخلص دوست مولانا رفیق ندوی کی، جو قطر میں مقیم ہیں، ڈیوٹی لگائی تھی کہ ہر ہفتہ کسی خاص موضوع پر ڈاکٹر صاحب کا لیکچر رکھیں اور ان کی ڈی وی ڈی تیار کر کے ہمیں فراہم کریں۔ ورلڈ اسلامک فورم کی طرف سے ایک معیاری دعوتی چینل قائم کرنے کے لیے کام جاری ہے۔ اسے تین سال پہلے دی میسیج کے نام سے رجسٹرڈ کروا لیا گیا تھا۔ جناب کامران رعد صاحب اس کے انچارج ہیں جو تن دہی سے اپنے کام میں جتے ہوئے ہیں۔ ویسے تو یہاں برطانیہ میں گزشتہ چند سالوں میں درجن بھر شیعہ، سنی، بریلوی، سلفی، دیوبندی چینل کھل گئے ہیں، مگر ان میں نہ انسانیت کے لیے کوئی پیغام ودعوت ہے نہ مسلمانوں کے لیے مقصد حیات اور امت پنے کا پیغام، نہ آج کے تہذیبی، فکری ونظریاتی چیلنجز کا جواب۔ یہ سات چینل محض اپنے اپنے مسلک کی اشاعت اور اپنے اکابر کی ثنا وتوصیف اور کہانیوں کے لیے وقف ہیں۔ خدا کرے ہم جلد اس قابل ہو سکیں کہ ڈاکٹر صاحب کے خطابات اپنے چینل سے نشر کر سکیں۔
ڈاکٹر صاحب کے اخلاص اوراپنی ذات کے اخفا کا یہ عالم تھا کہ فورم کی طرف سے ۱۶؍ اکتوبر ۲۰۱۰ء کو ڈاکٹر صاحب کے لیے تعزیتی اجلاس کے موقع پر جب صدارتی خطبہ کی تیاری کا مرحلہ آیا تو خیال آیا گھر میں ڈاکٹر صاحب کی درجن بھر تصانیف ہیں۔ آپ کی شخصیت واحوال پر مضمون تیار کرنے میں ان سے مدد مل جائے گی۔ جب کتب اٹھا کر دیکھیں تو ان میں ایک لفظ ڈاکٹر صاحب کی ذات سے متعلق نہیں ملا۔ اس دور میں لوگ چھوٹی چھوٹی کتب مرتب کر کے اکابر کی تقریظ ومقدمہ کے نام سے اپنا پورے حالات زندگی بڑھا چڑھا کر لکھوا لیتے ہیں۔ بندہ نے ڈاکٹر صاحب کی طرح سفر وحضر میں تلاوت قرآن اور اذکار ومعمولات کی پابندی کرنے والے بہت کم دیکھے۔ آپ عام طور پر باوضو رہتے، فارغ اوقات میں اور دوران سفر اکثرآپ کے لبوں پر تلاوت قرآن جاری رہتی۔ آپ حافظ قرآن تھے، رمضان المبارک میں اپنی رہائش گاہ پر تراویح میں قرآن سنانے کا معمول تھا۔ آپ سادگی، تواضع اور انکسار کی تصویر تھے۔ جو کھانا سامنے رکھ دیا جاتا، انتہائی رغبت سے تناول فرماتے۔ ایک بار بندہ نے کہا کہ علماء کے مجمع میں خطاب کرنا ہے۔ برطانیہ کے مولوی صاحبان کی ظاہرپرستی حد سے بڑھی ہوئی ہے۔ آپ شلوار قمیص پہن کر چلیں تو اچھا ہے۔ فرمایا یہ مجھ سے نہیں ہوگا، میں جو ہوں وہ ہوں۔ حالانکہ اکثر اوقات شلوار قمیص ہی میں رہتے۔ ایک بار مولوی فاروق ملا تقریباً ڈیڑھ دو سو میل کا سفر کر کے ڈاکٹر صاحب، ڈاکٹر عابد اور غازی آف شکاگو اور بندہ کو برطانیہ کے ایک قابل دید تفریحی مقام پر لے گئے۔ ڈاکٹر صاحب نے فرمایا کہ مجھے سیر وتفریح یا تاریخی مقامات دیکھنے سے کبھی کوئی دلچسپی نہیں رہی۔ کہنے لگے کہ سارے پہاڑ، سمندر، دریا ایک ہی جیسے تو ہوتے ہیں۔ غرض آپ سادگی اور خوبیوں کا مجموعہ تھے۔
۲۶؍ ستمبر ۲۰۱۰ء کو صبح کی نماز کے بعد تقریباً سات بجے اچانک فون کی گھنٹی بجی۔ اسلام آباد سے غالباً ڈاکٹر صاحب کے بھائی ڈاکٹر غزالی یا کوئی عزیز خبر دے رہے تھے کہ اچانک حرکت قلب بند ہونے سے ڈاکٹر صاحب انتقال کر گئے، اناللہ وانا الیہ راجعون۔ بند ہ سن کر سکتے میں رہ گیا۔ ایسا محسوس ہو اکہ سب کچھ تباہ ہو گیا ۔ نظریاتی وفکری کام کرنے والوں کے لیے کتنا عظیم سانحہ ہے۔ اکتوبر ۲۰۱۰ء کے آخری عشرہ میں ہم لوگوں نے مولانا سلمان الحسینی صاحب کے ساتھ ڈاکٹر صاحب کا برطانیہ کا دورہ طے کیا۔ خیال تھا کہ طویل عرصہ کے بعدڈاکٹر صاحب سے دل کھول کر باتیں ہوں گی، مغرب اور ملت اسلامیہ کے احوال اور درپیش مسائل پر غور وخوض کر کے مستقبل کے لیے لائحہ عمل طے کریں گے مگر
اے بسا آرزو کہ خاک شدہ
واقعہ یہ ہے کہ ہم اپنے دور کی ایک بڑی علمی شخصیت اور فکری رہنما سے محروم ہو گئے ہیں۔ عرصہ سے ہم دیوبندیوں کا ایک المیہ یہ ہے کہ ہم ظاہرپرستی کا شکار ہیں، ظاہری ہیئت، جبہ ودستار اور بڑے بڑے رسمی القاب میں الجھ کر بہت سے قابل قدر لوگوں کی قدر نہیں کر پاتے۔ جب ڈاکٹر حمیداللہ کا انتقال ہوا اور بندہ نے ڈیلی جنگ میں آپ پر تفصیلی مضمون لکھا تو ایک مولوی صاحب نے فون پر پوچھا کہ ڈاکٹر صاحب کس کے خلیفہ تھے؟ میرا جواب تھا کہ اللہ اور اس کے رسول کے خلیفہ تھے۔ بہت سے مولوی صاحبان کے فون آئے کہ آپ نے پہلے نہیں بتایا ورنہ ہم فرانس جا کر استفادہ کرتے۔ میں نے کہا، آپ کبھی استفادہ نہیں کر سکتے تھے کہ آپ ظاہر پرستی کے مرض کا شکار ہیں۔ وہ ایک سادہ سے مسلمان تھے، کوئی پیر یا مولوی نہیں تھے۔ اسی طرح ہمارا طبقہ ڈاکٹر غازی سے فائدہ نہیں اٹھا سکا۔ ہم نے کتنی عظیم شخصیت کھو دی۔ ڈاکٹر صاحب کا وجود عالم اسلام کے لیے غنیمت تھا۔ آپ کو دیکھ کر ملت کی بے مایگی وبے بضاعتی کا احساس کم ہوتا تھا۔
اللہ تعالیٰ آپ کی بال بال مغفرت فرمائے اور ملت اسلامیہ کو ڈاکٹر صاحب کا نعم البدل عطا فرمائے۔ آمین۔