یہ ستمبر ۱۹۹۸ء کی ایک سرد مگر اجلی صبح کا ذکر ہے۔ میں بنوں میں ہوں اور ایک آواز کانوں میں پڑتی ہے: آئیے، فاروقی صاحب! بیٹھیے۔ میں سامنے دیکھتا ہوں تو ایک وجیہ، معتدل القامہ اور روشن شخصیت چھوٹی سی کار میں پچھلی نشست پر بیٹھ کر دروازہ بند کررہی ہے۔ میرا قیاس یہی ہوا کہ یہ ڈاکٹر محمود احمد غازی ہیں۔ برابر میں کھڑے ایک صاحب سے پوچھا تو تصدیق ہوگئی۔ ان کے ساتھ ان کے بہنوئی ڈاکٹر محمد یوسف فاروقی تھے جو اس وقت اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے رئیس کلیہ علوم اسلامی تھے اور حال ہی ڈائریکٹر شریعہ اکیڈمی، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے منصب سے ریٹائر ہوئے ہیں۔ اسے پہلی ملاقات تو نہیں کہا جاسکتا، پہلی اچٹتی ہوئی، ہلکی سی زیارت ضرور کہا جاسکتا ہے۔ یہ بنوں میں مولانا نصیب علی شاہ رحمہ اللہ کے زیر اہتمام ان کے ادارے المرکز الاسلامی میں دوسری فقہی کانفرنس کا ذکر ہے جس میں راقم بھی مدعو تھا۔ اب تو مولانا نصیب علی شاہ بھی مرحوم ہوچکے۔
ان دنوں ہم اپنے ادارے سے سیرتِ طیبہ پر ایک شش ماہی مجلے کے اجرا کے سلسلے میں سرگرم تھے۔ مشاورت جاری تھی۔ اہل علم سے رابطے ہورہے تھے۔ مجلے کے پہلے شمارے کی تیاریاں عروج پر تھیں۔ راقم نے دوسرے اہل علم کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر صاحب کی خدمت میں بھی خط ارسال کیا۔ خلافِ توقع جن چند حضرات نے فوراً جواب دینے کی زحمت کی، ان میں ڈاکٹر صاحب نمایاں تھے اور سب سے مفصل خط آپ ہی کا تھا۔ یہ ۱۹۹۹ء کے اوائل کی بات ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے بلاتکلف ہمارے خیال اور ارادے کی ستائش کے بعد اس راہ میں آنے والی رکاوٹوں کا ذکر کیا اور پوری تیاری کے بعد حالات کا جائزہ لے کر ہی اس میدان میں آنے کی تاکید کی۔ السیرۃ کا پہلا شمارہ جون ۱۹۹۹ء/ ربیع الاوّل میں شائع ہوا۔ ۱۲؍ ربیع الاوّل کو سیرت کانفرنس، اسلام آباد میں شرکت کا اتفاق ہوا تو ’’السیرۃ‘‘ کا نیا شمارہ ساتھ تھا۔ ارادہ یہ تھا کہ کانفرنس سے فراغت کے بعد اسلامی یونیورسٹی میں ڈاکٹر صاحب سے ملاقات کی کوشش کروں گا۔ ڈاکٹر صاحب اس وقت بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی، اسلام آباد کے نائب صدر (اکیڈمکس) تھے۔ اتفاق یہ ہوا کہ کانفرنس میں شرکت کے لیے اجتماع گاہ میں پہنچا تو ڈاکٹر صاحب وہاں موجود تھے۔ علم ہوا کہ آج دوسری نشست میں کلیدی خطبہ ڈاکٹر صاحب ہی کا ہے۔ افتتاحی نشست ختم ہوئی تو میں ابتدائی نشستوں پر چلاگیا جہاں ڈاکٹر صاحب قیام فرما تھا۔ چائے کا وقفہ تھا۔ ڈاکٹر صاحب وہیں تشریف فرما رہے۔ میں سلام کرکے بیٹھ گیا اور ’’السیرۃ‘‘ کا پہلا شمارہ پیش کردیا۔ شمارہ خود راقم کا تعارف تھا۔ شمارہ دیکھ کر فوراً بولے کہ میں نے آپ کو بہت ڈرایا تھا۔ آپ نے ہمت کی، اللہ مبارک کرے۔ اب مسلسل نکالتے رہیے۔ اس وقت تک دادا جان حضرت مولانا سید زوار حسین رحمہ اللہ سے راقم کے تعلق کا ڈاکٹر صاحب کو علم نہ تھا۔ میں نے بتایا تو ڈاکٹر صاحب کے رویے میں اور انسیت آگئی۔ پھر جب تک دوسری نشست کا آغاز نہیں ہوامجھے، وہیں بٹھائے رکھا۔ نہ خود چائے کے لیے گئے، نہ مجھے اس قیمتی نشست کو چھوڑ کر جانا مناسب معلوم ہوا۔ یہ ڈاکٹر صاحب سے پہلی ملاقات تھی اور اس روز ڈاکٹر صاحب کا کلیدی خطبہ جو عدم برداشت کے قومی و بین الاقوامی رجحانات پر تھا، میرے لیے ڈاکٹر صاحب کو براہِ راست سننے کا پہلا اتفاق تھا۔ ڈاکٹر صاحب سے متعلق اس نشست میں قائم ہونے والا نقش اس قدر پختہ ہوا کہ پھر ڈاکٹر صاحب کی تقریروں اور تحریروں کا انتظار رہنے لگا اور ایک جستجو سی قائم ہوگئی کہ ان کی چیزیں اہتمام سے پڑھی جائیں اور بالالتزام جمع کی جائیں۔
ڈاکٹر صاحب ان خوش نصیب فضلا میں شامل ہیں جنہوں نے سترہ برس کی عمر میں تدریس کا منصب سنبھال لیا تھا اور اسلامی علوم و فنون کی نمائندہ و چنیدہ کتب کی تدریس ان کی زندگی کا حصہ رہی ۔یوں اکنافِ عالم میں ان سے استفادہ کرنے والے تلامذہ کی تعداد ہزاروں سے کم نہیں ۔ ڈاکٹر صاحب حافظ قرآن تھے اور رمضان المبارک میں اپنی رہائش گا ہ پر تراویح میں قرآنِ کریم سنانے کا اہتمام فرماتے تھے۔رمضان کے علاوہ بھی ڈاکٹر صاحب عام طور پر با وضو رہتے اور فارغ اوقات میں خصوصاً دورانِ سفر آپ کے لبوں پر تلاوتِ قرآن جاری رہتی۔
ڈاکٹر صاحب نہایت جفاکش ،محنتی،کمٹڈ اور دل درد مند رکھنے والے محقق، عالم ،مفکر ،داعی اور فقیہ تھے۔ آپ پاکستان میں اسلامی بینکنگ کے بانیوں میں شمار ہوتے ہیں ۔ تکافل کا ابتدائی خاکہ آپ ہی کا تشکیل کردہ ہے جس پر پاکستان سے پہلے بعض عرب ممالک میں عمل ہوا۔ ڈاکٹر صاحب پاکستان میں آئینی اور قانونی معاملات میں اسلامی دفعات کے بھی ماہر سمجھے جاتے تھے۔ جنرل ضیا الحق مرحوم سے لے کرجنرل مشرف تک ہر دور میں حکمران آپ سے اس سلسلے میں مستفید ہوتے رہے،یہ الگ بات ہے کہ حکومتی مزاج ڈاکٹر صاحب کی باتوں کو کس قدر ہضم کر پایا۔ ڈاکٹر صاحب ہمیشہ نتائج سے بے پروا ہو کر درد مندی اور خیر خواہی کے جذبے سے ہر حاکم وقت کو صحیح مشوروں سے نوازتے رہے۔ وفات سے کچھ عرصہ قبل ایک گفتگو میں انہوں نے فرمایا کہ مجھے اس نیک مقصد کے لیے کوئی آئندہ بھی بلائے گا تو میں جانے کو تیار ہوں۔
سود کے خلاف سپریم کورٹ کے مشہور اور تاریخ ساز فیصلے میں بھی ڈاکٹر صاحب بہ حیثیت جج شریعت اپیلٹ بنچ شریک رہے اور اس فیصلے کا بڑا حصہ ڈاکٹر صاحب ہی کا تحریر کردہ تھا۔اس بنچ میں مولانا مفتی محمد تقی عثمانی بھی شامل تھے۔ قادیانی تحریک کے خلاف مسلمانوں کے متفقہ مؤقف کی ترویج و اشاعت اور اس سلسلے میں ہونے والی قانون سازی میں بھی ڈاکٹر صاحب کی ماہرانہ رائے اور تگ و دو شامل رہی۔۸۰ کی دہائی میں جب اس سلسلے کا ایک مقدمہ ساؤتھ افریقہ میں قائم ہوا تو پاکستان کے علما اور قانونی ماہرین کا ایک وفد وہاں کے اہل علم کی دعوت پر معاونت کے لیے گیا،اس وفد میں ڈاکٹر صاحب بھی شامل تھے اور وہاں عدالت کے روبرو امت مسلمہ کا موقف پیش کرنے کی سعادت ڈاکٹر صاحب کے حصے میں آئی۔ اور بالآخر اس مقدمے میں عالم اسلام کے مؤقف کو غیر مسلم عدالت کے سامنے سرخ روئی حاصل ہوئی۔
ڈاکٹر صاحب انتہائی متدین اور حد درجہ متقی شخص تھے۔ بر س ہا برس کا مشاہدہ ہے کہ سرکاری ودفتری ذمے داریوں میں سرکاری مراعات سے کبھی ذاتی فائدہ نہیں اٹھایا۔ ڈاکٹر صاحب کا وجود عالم اسلام کے لیے بسا غنیمت تھا۔ بین الاقوامی فورم پر اسلام اور پاکستان کی نمائندگی کا جو سلیقہ ڈاکٹر صاحب کو حاصل تھا، اس کی مثال کم ملے گی۔ پھر علم وفضل اور دینی حمیت وتصلب کے ساتھ ساتھ حسن تکلم وحکمت کی دولت سے آراستہ تھے جس سے وہ ایسے مواقع پر بھرپور فائدہ اٹھاتے تھے۔
اس وقت ڈاکٹر صاحب کا جامعۃ الرشید میں ہونے والا خطاب میری آنکھوں کے سامنے گھوم رہا ہے جو چند برس پیش تر دورۂ قضا و تحکیم کے اختتامی روز فرمایا تھا۔ اس میں آپ نے مسلمانوں کی قضا کی پوری روایت اور اس کا محاکمہ اپنے اسلوب میں پیش کیا تھا۔ یہ خطاب لگ بھگ دو گھنٹے جاری رہا۔ اس کے اختتام پر ملک بھر سے آئے ہوئے مفتیانِ کرام نے متفقہ طور پر اس خطاب کو پورے کورس کا حاصل قرار دیا۔
علومِ اسلامیہ میں ایک عجب وحدت پائی جاتی ہے جو اسے دیگر علوم و فنون سے نمایاں و ممتاز کرتی ہے۔ قرآن کو سنت سے الگ کرکے نہیں دیکھا جاسکتا۔ فقہ کو حدیث سے جدا نہیں کرسکتے۔ سیرت اور تاریخ باہم پیوست ہونے کے ساتھ ساتھ قرآن و سنت سے بھی جڑے ہوئے ہیں۔ یہی حال دیگر تمام علوم و فنون کا ہے۔ ہمارے ڈاکٹر غازی صاحب اس وحدت علوم اسلامی کی نمایاں زندہ، عملی اور نمایندہ مثال تھے۔ آپ سب ہی علوم و فنون سے آشنا تھے، سب سے واقف تھے، سب کے شناور تھے۔ تحریر و تقریر میں ان علوم و فنون کے باہمی تعلق کو ایسے غیرمحسوس انداز میں بیان کرتے تھے کہ حیرت ہوتی تھی۔ طرز استدلال اور قوت مشاہدہ، دونوں اس قدر قوی تھیں کہ ایسے نکات آپ تلاش کرلیتے تھے جس کی جانب دوسروں کی نگاہ نہیں جاتی۔ ڈاکٹر صاحب کا اسلوب استدلال ملاحظہ کریں تو معلوم ہوتا ہے، سیرت پر گفتگو کرتے ہوئے اصول فقہ سے استدلال کرتے ہیں جو ان کا خاص اور پسندیدہ موضوع ہے، تعلیم پر بات کرتے ہوئے تاریخ سے مدد لیتے ہیں اور قانونی امور پر بات کرتے ہوئے نفسیات کے نکات استشہاد میں پیش کردیتے ہیں۔ اس قوت استدلال واستشہاد کی معراج خصوصیت کے ساتھ محاضراتِ سیرت اور اس کے بھی دو خطبوں، کلامیاتِ سیرت اور فقہیات سیرت میں نظر آتی ہے۔ جاننے والے جانتے ہیں کہ پچاس پچاس صفحات کے یہ خطبے ہزار ہزار صفحات کی کتابوں پر بھاری ہیں۔
علم وفضل کے اس تنوع، تعمق اور تبحر کے باوجود مزاج میں ایسا اعتدال اور تواضع تھا کہ باید وشاید۔ دسیوں اہم ترین مناصب پر فائز رہنے کے باوجود، جن میں سے ایک ایک کی تمنا میں ہم جیسے پوری عمر بتا دیتے ہیں، ڈاکٹر صاحب کی نشست وبرخاست، تحریر وگفتار، رہن سہن اور ملنے جلنے میں نمودونمائش نام کو بھی نہیں تھی۔ تکلف سے کوسوں دور اور تصنع سے یکسر پاک تھے۔ ڈاکٹر صاحب کے قریبی عزیز انجینئر سید احتشام حسین راوی ہیں کہ وزارت کے زمانے میں ان کے والد کا پشاور میں انتقال ہوا۔ ڈاکٹر صاحب جنازے میں شرکت کے لیے آئے تو اپنی گاڑی اور عملے کو گھر سے فاصلے پر چھوڑدیا۔ فراغت کے بعد دوپہر میں سب آرام کرنے لگے۔ ڈاکٹر صاحب بھی ایک کمرے میں جگہ بناکر کونے میں لیٹ گئے۔ اب مہمانوں کی کثرت تھی، چھوٹا سا گھر اور جنازے کا موقع۔ کسی ضرورت سے وہ کمرہ خالی کرانا پڑا۔ کسی نے آواز لگائی تو ڈاکٹر صاحب بھی اٹھ گئے اور خاموشی سے دوسری جگہ تلاش کرنے لگے۔ جگہ نظر نہ آئی تو چپ چاپ گھر کے قریب ایک ناپختہ مختصر سی مسجد میں چلے گئے۔ کچھ دیر بعد ڈاکٹر صاحب کے لیے فون آیا تو ان کی تلاش شروع ہوئی۔ نہ ملنے پر کسی نے سوچا کہ قریبی مسجد میں جھانک لیں۔ دیکھا تو مختصر سی مسجد کے کچے صحن میں گرمی کے عالم میں دیوار کے سائے تلے اپنے جوتے سر کے نیچے رکھے مطمئن انداز میں آرام فرما ہیں۔ دیوار کا وہ سایہ نصف آدمی کے لیے ناکافی تھا۔ مسجد کا ہال جو صرف دو صفوں پر مشتمل تھا، بند تھا۔ اس لیے اس کے کچے صحن میں ہی جگہ مل سکی اور اسی پر قناعت کرلی۔
ڈاکٹر صاحب کا دل درد مند تھا جو خصوصاً اُمت مسلمہ کے حالات پر بہت کڑھتا تھا۔ مسلمانوں کی روایتی سستی وکاہلی، کام چوری، کج فہمی اور بدانتظامی پر پریشان رہتے۔ دو ڈھائی برس قبل جب قطر چلے گئے تو خصوصاً عالم عرب کو مزید قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ اپنے مشاہدات وتجربات عندالملاقات گفتگو میں بیان کرتے رہتے تھے۔ ایک بار کہنے لگے، جب میں اسلام آباد میں یونیورسٹی میں تھا تو اپنے عملے کی سستی سے نالاں رہتا تھا، مگر جب سے یہاں آیا ہوں تو علم ہوا ہے کہ سستی کیا ہوتی ہے۔ اب تو مجھے اسلام آباد والے نہایت چست اور انتہائی متحرک محسوس ہونے لگے ہیں۔ عربوں کے روایتی طرزِ زندگی پر اس سے بہتر طنز شاید نہ ہوسکے۔
۲۰۰۸ء میں جون کے آخر میں مکہ مکرمہ میں بین الاقوامی کانفرنس برائے مکالمہ بین المذاہب منعقد ہورہی تھی۔ میں بھی مکہ مکرمہ میں تھا۔ ڈاکٹر صاحب کانفرنس میں شرکت کے لیے قطر سے وہاں تشریف لائے۔ حرم میں ملاقات ہوئی تو بتانے لگے آج مغرب میں جب حرم آنے لگے تو اہلیہ بھی ساتھ تھیں۔ انہیں صحن کعبہ میں خواتین کے لیے مخصوص حصے میں چھوڑنے جارہا تھا کہ ایک مطوعے نے روک لیا۔ کہنے لگا: حرام حرام، ممنوع ممنوع۔ میں نے کچھ پوچھنے کی کوشش کی تو اس نے مزید سخت لہجہ اختیا کرلیا۔ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہنے لگے کہ میں خود اس امر کے حق میں ہوں کہ یہاں خواتین کا مردوں سے اختلاط نہ ہو اور ان کی جگہ مخصوص ہو، مگر اس کے لیے لوگوں کو مطلع تو کرنا چاہیے۔ راتوں رات نت نئے قوانین آجاتے ہیں اور دور دراز سے آئے ہوئے مسلمان زائرین پریشان ہوتے رہتے ہیں۔ بتانے لگے کہ کئی بار اعلیٰ ترین حکام کو اس جانب توجہ دلانے کی کوشش کی کہ زائرین کے لیے مختصر ہدایات چند بین الاقوامی زبانوں میں تیار کرکے انہیں یہاں آتے ہی فراہم کردی جائیں تو یہ بدنظمی نہ ہو۔ ملاقات میں تو وہ مان جاتے ہیں، بعد میں عملدرآمد نہیں ہوتا۔
راقم نے جب کبھی زحمت دی تو فوراً حامی بھر لی ۔چاہے کسی نوع کا کام ہو،میں نے کبھی ڈاکٹر صاحب سے کسی کام میں ’’نا‘‘ نہیں سنا۔ ہاں کوئی تجویز ہوئی تو صرف یہ کہا کہ اسے یوں کر لیں۔البتہ ایک بار کسی ٹی وی چینل سے مجھے پیغام ملا کہ ڈاکٹر صاحب کو ہمارے ہاں پروگراموں میں شرکت کے لیے رضامند کریں۔ میں نے بات کی تو صراحتاً تو منع نہیں کیا، البتہ اس قدر کہا کہ مجھے اس کام سے دور رکھو تو بہتر ہے۔ میں خود اس معاملے میں متردد تھا، سو اصرار نہیں کیااور بات آئی گئی ہو گئی۔
ڈاکٹر صاحب سے آخری ملاقات ان کی وفات سے چند روز قبل کراچی میں ہوئی جب وہ اسٹیٹ بینک کے شریعہ ایڈوائزری بورڈ کی میٹنگ میں شرکت کے لیے آئے تھے۔راقم کو ایک کام کے سلسلے میںیاد فرمایا۔ میں حاضر ہو گیا۔ جب پہنچا تو میٹنگ ختم ہو چکی تھی اور ڈاکٹر صاحب اےئر پورٹ روانہ ہو رہے تھے۔ مجھے اپنے ساتھ گاڑی میں بٹھا لیا اور اےئر پورٹ تک ان کی معیت حاصل رہی۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ واپس پہنچ کر ڈاکٹر صاحب نے راقم کو خط لکھا جو راقم کے نام ڈاکٹر صاحب کا آخری خط ثابت ہوا۔ اس میں انہوں نے نہایت انکساری کے ساتھ معذرت کی کہ میری وجہ سے آپ نے زحمت کی،اللہ اکبر!
ڈاکٹر صاحب مومن کامل اور پکے پاکستانی تھے۔ جب بات نکلتی، پاکستان کی بات آتی، تحریک پاکستان کا ذکر ہوتا، قیام پاکستان کی مشکلات اور تعمیر پاکستان کے پہلے مرحلے کی بات ہوتی تو نہایت تیقن اور بھرپور جذبے کے ساتھ گفتگو فرماتے۔ ان کے خیالات سے ڈھارس بندھ جاتی، قوت ملتی، تحریک ہوتی اور انسان کو قوتِ عمل اور نیا ولولہ ملتا۔ ڈاکٹر صاحب کی گفتگو سن کر ہی یہ ارادہ ہوا تھا کہ خاص تحریک پاکستان اور قیام پاکستان پر ان کی تفصیلی گفتگو رکھی جائے اور ان سے استفادہ کیا جائے۔ زبانی اجازت بھی لے لی تھی۔ کسی مناسب موقع کا انتظار تھا کہ ڈاکٹر صاحب کا اپنا انتظار ختم ہوا اور وہ عجلت میں اپنے کام سمیٹتے ہوئے اپنے رب کے حضور حاضر ہوگئے۔ نہایت شاداں وفرحاں، کامیاب وکامراں، مطمئن وآسودہ۔
ہم جیسے دنیا دار یہی لکھیں گے کہ ڈاکٹر صاحب کی وفات بے وقت تھی۔ ہماری کوتاہ نظر مشیت الٰہی تک کہاں پہنچے اور کیوں کر پہنچے، مگر ڈاکٹر صاحب کا معمول یہ تھا کہ ہم ایسے ناکارہ لوگوں کی دعوت بھی کبھی رد نہیں فرمائی۔ جب کبھی زحمت دی، قبول کی۔ کسی نیک کام کا اعلان ہوا، انہیں ہمیشہ تیار پایا۔ ایسا شخص اپنے رب کے بلاوے پر کیسے تاخیر کرتا؟ نمازِ فجر ادا کی، برکت کے وقت برکتیں سمیٹیں اور اپنے رب کے حضور حاضر ہوگئے۔
بقا صرف ذاتِ حی وقیوم کے لیے ہے۔ ہاں! ڈاکٹر صاحب کی یاد عرصے تک لو دیتی رہے گی، بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دنیا کو اندازہ ہوگا کہ ڈاکٹر صاحب کیا شخصیت تھے! یہ نقصان کسی ایک کا نہیں، پورے عالم کا نقصان ہے۔ نہ ایسی شخصیات روز روز پیدا ہوتی ہیں، نہ ایسے نقصانات کی تلافی کی صورت ہی نظر آتی ہے۔ اس دنیا میں ایک بار آجانے کے بعد جانے سے کسی کو مفر ہے؟ مگر انسانی فکر چوں کہ محدود ہے، اس لیے ایسے نقصانات میں جو پورے عالم کا نقصان ہو، ہمیں یہی محسوس ہوتا ہے کہ یہ حادثہ بے وقت تھا۔اگر یوں کہا جائے کہ ڈاکٹر صاحب جیسی صاحبِ علم و بصیرت ،صاحبِ تفقہ،متوازن و متواضع اور جدید و قدیم کی جامع شخصیت عالم اسلام میں کم ہو گی تو یہ بیان نہ مبالغے پر مشتمل ہوگا نہ محض عقیدت پر، بلکہ صرف حقیقت پر مبنی ہوگا۔
ڈاکٹر صاحب کی خدمات کا تنوع ایک تحریر نہیں، مسلسل تحریروں کا تقاضا کرتا ہے۔ یقیناًاہل علم اس جانب توجہ فرمائیں گے۔ خصوصاً ڈاکٹر صاحب کی علمی خدمات پر گفتگو اہل علم کو ہی زیبا ہے، مگر ڈاکٹر صاحب کی اچانک ناگہانی وفات نے ایک سکتہ سا پیدا کردیا ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ ہم اپنے آپ کو اب تک یقین ہی نہیں دلاسکے کہ یہ حادثہ واقعی پیش آچکا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کی صحت، غیرمعمولی محنت، مضبوط اعصاب، اپنے مشن کے ساتھ نہایت غیرمعمولی وابستگی اور سب سے بڑھ کر عمر، یہ سب عوامل مل کر ہمیں مطمئن کیے ہوئے تھے کہ ابھی تو ڈاکٹر صاحب سے استفادہ جاری رہے گا۔ ابھی تو تادیر ہم ان سے مستفید ہوتے رہیں گے۔ افسوس :
روئے گل سیر نہ دیدم وبہار آخر شد
بلکہ پورا شعر ہی حسب حال محسوس ہوتا ہے:
حیف در چشم زدن صحبت یار آخر شد
روئے گل سیر نہ دیدم وبہار آخر شد
ڈاکٹر صاحب سے وابستہ یاد یں بہت سی ہیں۔ ان کی ناگہانی اور الم ناک وفات نے یادوں کے دریچے کھول دیے ہیں، مگر انھی سطور پر ختم کرتا ہوں۔ یہ یادیں امانت ہیں۔حواس کچھ بحال ہوئے تو قدرے ترتیب سے یہ امانت لوٹانے کی کوشش کروں گا۔