(۱)
ملک کے ممتاز فاضل، دانشور اور محقق ڈاکٹر محمود احمد غازی صاحب ساٹھ سال کی عمر میں ۲۶ ستمبر کو اسلام آباد میں انتقال کر گئے۔ ’’اناﷲ وانا الیہ راجعون‘‘۔ ہمارے حلقہ سے وابستہ علمی دوستوں وساتھیوں کی، ایک ایک کرکے جدائی جہاں دلی صدمہ کا باعث ہے، وہاں موت کی تیاری کے لیے انتباہ کی حیثیت کی حامل بھی ہے۔
ڈاکٹر محمود احمد غازی صاحب عالم دین تھے، حافظ قرآن تھے، جدید نوعیت کے فقہی مسائل میں ماہرانہ صلاحیتوں کے حامل تھے، کئی زبانوں میں لکھنے پڑھنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ ان کی بڑی حیثیت یہ تھی کہ وہ دردمند داعی تھے اور خدمت اسلام کا بے پناہ جذبہ رکھتے تھے۔ عالم اسلام کے حالات ومسائل اور جدید معاشروں کی معاشی ومعاشرتی پیچیدگیوں کو سمجھنے اور اسلامی نقطہ نظر سے ان کے حل کے سلسلہ میں وہ وسیع معلومات رکھنے کے ساتھ ساتھ حد درجہ خود اعتمادی کے حامل بھی تھے۔
محترم ڈاکٹر محمود احمد غازی صاحب بنیادی طور پر دینی مدرسہ کے فارغ تھے۔ ان کا آبائی وطن مولانا اشرف علی تھانوی کا قصبہ تھانہ بھون ہے۔ موصوف کے والد صاحب قرآن کے حافظ اور عالم دین تھے۔ وہ مولانا اشرف علی تھانوی ؒ سے بیعت تھے۔ انہیں چشتی سلسلہ میں حضرت مولانا فقیر محمد صاحب اور شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا ؒ سے خلافت حاصل تھی۔ محترم غازی صاحب خود مولانا عبدالقادر رائے پوری سے بیعت تھے۔ یہ ساری تفصیل موصوف کے اس عاجز کے نام ان خطوط میں موجود ہے جو مضمون کے آخر میں شامل ہیں۔
ڈاکٹر محمود احمد غازی صاحب اہم عہدوں پر فائز رہے۔ دعوہ اکیڈمی کے سربراہ، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی میں شریعت فیکلٹی کے سربراہ، وفاقی شرعی عدالت کے جج اور وفاقی حکومت کے وزیر وغیرہ۔ یہ سارے عہدے ان کے مزاج کی انکساری کو متاثر نہ کر سکے، یہ بڑی سعادت کی بات ہے جو پختہ باطنی تربیت کا ثمرہ ہے۔ موصوف نے اپنے نام کے ساتھ کبھی ڈاکٹر کا لاحقہ نہیں لگایا۔ ان کی کسی کتاب میں ان کے نام کے ساتھ ڈاکٹر موجود نہیں ہے، حالانکہ ڈاکٹر بن جانے کے بعد افراد کی عام طور پر یہی آرزو رہتی ہے کہ ان کی طرف ڈاکٹر کی صفت منسوب کی جائے، اس طرح اسے خوبصورت اعزاز سے نوازا جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ جب اندر بدل جاتا ہے تو اس طرح کی آرزوئیں کالعدم ہوجاتی ہیں اور فرد فقیرانہ صفات کا حامل ہوجاتا ہے اور اپنے آپ کو حقیر سمجھتے ہوئے وہ خوشی ولذت محسوس کرنے لگتا ہے۔
ڈاکٹر محمود احمد غازی صاحب کو اللہ تعالیٰ نے اس صفت سے بھی نوازا تھا کہ وہ بڑے سے بڑے دشوار موضوع پر نوٹس لیے بغیر تقریر کرتے تھے اور تقریر میں واقعات کی صحت اور حقیقت کی صحیح عکاسی دیکھ کر ان کے غیرمعمولی حافظہ پر حیرت ہوتی تھی۔ ان کی بیشتر کتابیں ان کی تقاریر کے مجموعہ پر مشتمل ہیں۔ خالص فنی، واقعاتی اور تاریخی معلومات پر مشتمل تقاریر میں اس طرح کی صحت بیانی فیضان خاص ہے جس کا کچھ حصہ محترم غازی صاحب کو دیا گیا تھا۔ غازی صاحب نے اس خداداد صلاحیت سے استفادہ کرتے ہوئے تقاریر کے ذریعہ خدمت اسلام کا بڑا فریضہ سرانجام دیا۔ اگرچہ ان کی تقاریر بہت سارے موضوعات کا احاطہ کرتی تھیں، لیکن تدوین، حدیث، تدوین فقہ، دور جدید میں نفاذ اسلام کی شکل، اسلام کا قانونی نظام، اسلام کا بین الاقوامی نظام، جدید پیچیدہ مسائل کے سلسلہ میں صحیح اسلامی تعلیمات کی توضیح، مسلم معاشروں کو طاقتور مادہ پرست معاشروں کی طرف سے چیلنج وخطرات اور ان کی گہری سازشوں کی نشاندہی اور ان سے عہدہ برآہونے کی صورت جیسے موضوعات ان کی تقاریر کا خصوصی اہداف تھے۔ یہ کہنا بجا ہوگا کہ پاکستان کے اعلیٰ علمی اداروں میں اسلام کی بہتر اور مؤثر طور پر ترجمانی کرنے میں ڈاکٹر صاحب کو خصوصی امتیاز حاصل تھا۔ ان کے انتقال سے اس میدان میں جو خلا پیدا ہو ہے، بظاہر اس کے پر ہونے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔
ڈاکٹر صاحب کی خوبیوں، صفات وکمالات کو اگر مختصر الفاظ میں پیش کرنے کے لیے کہا جائے توکچھ اس طرح نقشہ کھینچا جا سکتا ہے:
زمانہ کو قرآن وسنت کی بنیاد پر پرکھنا اور دوسروں کو پرکھنے کے لیے استدلال کی عمارت فراہم کرنا، جدید تعلیم کے سحر میں مبتلا افراد کا اسلامی علوم پر اعتماد بحال کرنا، قرآن وسنت اور اس سے ماخوذ علوم پر اعتراضات کا شافی وکافی جواب دینا، اسلامی علوم کی، دنیا کے دیگر علوم پر برتری ثابت کرنے کے لیے علوم کے تقابلی مطالعہ کے حوالے سے گفتگو کرنا، اپنے شاگردوں میں اسلامی روح منتقل کرنا، اسلاف کے قرآن وسنت سے ماخوذ علوم پر تبحر علمی کا حامل ہونا، جدید وقدیم اسلامی مفکروں کے فکر کی نوعیت کو سمجھنا، ان کے مثبت اور کمزور پہلوؤں پر گہری نگاہ رکھنا، قرآن وسنت، سیرت اور فقہ کے موضوعات پر بلند پایہ کتابیں سامنے لانا، اجتہادی صلاحیتوں سے کام لے کر جدید دور کے جدید مسائل میں امت کی بہتر رہنمائی کرنا، اپنے دور کے ہر طرح کے فتنوں سے آشنا ہونا اور دوسروں کو بھی ان فتنوں سے بچانے کے لیے کوشاں ہونا، قرآن، سیرت، فقہ، تصوف اور تاریخ وغیرہ کے موضوعات پر عربی، انگریزی اور اردو زبانوں میں مارکیٹ میں شائع ہونے والی کتابوں پر نگاہ رکھنا اور ان کتابوں کو زیر مطالعہ لانا، امت میں ابتدائی صدیوں میں اسلامی علوم کی تدوین پر محدثوں، مفسروں، فقیہوں اور مورخوں کے کام کا وسیع مطالعہ ومشاہدہ ہونا، جدید دور کی تمدنی اور معاشرتی خرابیوں کی اصلاحِ احوال کے لیے بہتر اور مؤثر لائحہ عمل کی نشاندہی کرنا، مغربی نظام تعلیم کی پیدا کردہ خرابیوں کا پوری طرح ادراک حاصل ہونا، جدیدیت کے مثبت پہلوؤں کو اختیار کرنے اور منفی پہلوؤں کو مسترد کرنے کی صلاحیت سے بہرہ ور ہونا، مسلم معاشروں کے بالائی طبقات کی ذ ہنی الجھنوں کو سمجھنا اور ان کی ذ ہنی سطح کے مطابق ان سے بات کرنے کی استعداد کا حامل ہونا، امت کے چوٹی کے چند بڑے اسکالروں میں ہونے کے باوجود عاجزی اور انکساری کی راہ اختیار کرنا اور امت کو اپنی نئی فکر اور نئی جماعتیں ودائراتی خول سے داغدار اور منتشر نہ ہونے دینا، ساری زندگی خاموشی سے صحیح اسلامی فکر کی ترویج میں صرف کرنا، تشہیر، شہرت، امیج، اخبارات میں اپنی تصاویر وتقاریر کی اشاعت سے بے نیاز ہونا اور بڑے علمی کاموں اور بڑی دینی خدمات کے باوجود اپنے آپ کو حقیر وفقیر سمجھنا وغیرہ۔
یہ ہے، وہ تعارفی خاکہ ہے جو ہمارے مرحوم دوست ڈاکٹر محمود احمد غازی صاحب کا ہے۔ اس خاکہ میں مزید صفات بھی شامل ہو سکتی ہیں۔ غازی صاحب کو قریب سے جاننے والے افراد ہمارے اس تعارفی خاکہ سے یقیناًاتفاق کریں گے۔ اس خاکہ میں شامل بہت ساری باتیں تو وہ ہیں، جن کا مشاہدہ ان کی کتابوں کے مطالعہ سے ہو سکتا ہے۔ بالخصوص درجہ ذیل کتابوں کے مطالعہ سے:
(۱) محاضرات قرآن (۲) محاضرات حدیث (۳) محاضرات فقہ (۴) محاضرات سیرت (۵) معاضرات معیشت وتجارت (۶) قرآن مجید۔ ایک تعارف (۷) مسلمانوں کا دینی وعصری نظام تعلیم۔ (۸) اسلامی بنکاری۔ ایک تعارف (۹) اسلام اور مغرب تعلقات (۱۰) خطبات بہاولپور حصہ دوم۔
موصوف کی اردو، انگریزی اور عربی میں کافی کتابیں موجود ہیں، لیکن مذکورہ کتابوں کے مطالعہ سے ان کے تبحر علمی کا بآسانی اندازہ کیا جا سکتا ہے۔
محترم غازی صاحب سے ہمارے تعلقات کا آغاز ان کے دعوۃ اکیڈمی کے سربراہ بننے کے وقت سے ہوا۔ یہ غالباً ۱۹۹۰ء کی بات ہے۔ اس وقت تک اردو میں ہماری متعدد کتابیں سامنے آچکی تھی۔ ملک کے دوسرے فضلا کی طرح غازی صاحب کی خدمت میں بھی ہماری کتابیں جاتی رہیں۔ غازی صاحب نے ہماری کتابوں کو اپنی دل کی آواز سمجھا اور متعد بار اس کا اظہار کیا۔ دعوۃ اکیڈمی کا سربراہ بننے کے ساتھ ہی انہوں نے سندھی زبان میں دعوتی اور علمی کتابوں کی اشاعت کا منصوبہ بنایا۔ چونکہ وہ فکر کی وسیع دنیا کا مطالعہ کر چکے تھے، اس لیے سندھ کی نظریاتی کشمکش کی صورتحال میں جدیدیت سے فکری مرعوبیت میں کمی اور علمی طور پر اسلام کی صداقت کے لیے جس قسم کے لٹریچر کی ضرورت تھی، انہوں نے ہماری مشاورت سے وہ لٹریچر سندھی زبان میں منتقل کرکے، ترجمہ کروا کر شائع کرنے کی کاوش کی۔ اس سلسلہ میں مولانا امیر الدین مہر صاحب جو دعوۃ اکیڈمی کے سندھی شعبہ کے سربراہ تھے، ان کو جملہ سہولتیں فراہم کیں، چنانچہ چند سالوں کے اندر اندر دعوۃ اکیڈمی کی طرف سے اسلام کے ہر موضوع پر ضخیم اور مؤثر کتابیں شائع ہوکر سندھ کے علمی حلقوں میں اعزازی طورپر تقسیم ہوئیں۔ غازی صاحب نے اس سلسلہ میں جس دردمندی، فکرمندی اور کاوش کا مظاہرہ کیا اور اس کام میں درپیش انتظامی رکاوٹوں کو دور کیا، وہ ان کی دعوتی کاموں سے بے پناہ لگن کا ثبوت ہے۔
اگرچہ علمی اعتبار سے اس وقت بھی غازی صاحب کا مطالعہ کافی تھا، دینی مدرسہ کے فضلا سے بہرہ وری کی وجہ سے قرآن وسنت اور فقہی مسائل میں وہ اس وقت بھی غیرمعمولی صلاحیت رکھتے تھے، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کے مطالعہ اور فکر میں وسعت ہوتی چلی گئی اور اس مطالعہ میں ہر پہلو سے اضافہ ہونے لگا۔ دعوۃ اکیڈمی کے سربراہ کی حیثیت سے انہیں دنیا بھر کے علمی اداروں اور یونیورسٹیوں کی طرف سے مجالس مذاکرات اور سیمیناروں میں شرکت کے مواقع ملتے رہے۔ عربی اور انگریزی میں لکھنے پڑھنے کی صلاحیت اور مطالعہ کے شغف نے ان کی فکری صلاحیتوں کو غیرمعمولی نشوونما دی۔ ان کی تقاریر جو اسلام کے ہر اہم موضوع پر ہوتیں، ان تقاریر میں وہ سامعین کو اتنی معلومات فراہم کرتے تھے کہ وہ حیرت زدہ رہ جاتے تھے۔ معلومات کے ساتھ ساتھ وہ ان کے اندر حرارت وگرمی بھی منتقل کردیتے تھے۔ تقاریر پر مشتمل ان کی بہت ساری کتابیں چھپ چکی ہیں۔ ان کے مطالعہ سے ان کی اس غیرمعمولی صلاحیت کا اندازہ لگایا جا سکتا تھا۔
غازی صاحب نے آج سے غالباً اٹھارہ سال پہلے اس عاجز کو جدید اسلامی مفکروں کے فکر کے تجزیاتی مطالعہ پر لکھنے کے لیے کہا تھا۔ (ان کے کسی خط میں بھی اس کا ذکر موجود ہے) الحمدﷲ ان کے اکسانے پر راقم السطور نے اس موضوع پر تین چار کتابیں لکھیں، اگرچہ یہ کتابیں دعوۃ اکیڈمی کی طرف سے شائع نہ ہوئیں، ہمارے ہی ادارہ کی طرف سے شائع ہوئی ہیں۔
غازی صاحب سے اس عاجز کی آخری ملاقات ستمبر۲۰۰۶ میں (جب وہ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے وائس چانسلر تھے) ہوئی۔ راقم دعوۃ اکیڈمی ہی کے اجلاس میں شرکت کے لیے اسلام آباد گیا تھا۔ برسوں کے بعد ان سے ملاقات ہوئی تھی، ان کی صحت دیکھ کر مجھے سخت تشویش ہوئی۔ راقم نے انہیں اس طرف توجہ دلائی۔ کہنے لگے، شوگر کی تکلیف ہوگئی ہے اور کچھ یونیورسٹی کے مسائل کا دباؤ بھی ہے۔ مزید کہنے لگے کہ دکھ اس بات کا ہے کہ گہرا اسلامی ذہن رکھنے والے افراد، جن سے ہمیں تعاون کی زیادہ توقعات رہی ہے، سب سے زیادہ مسائل وہی پیدا کر رہے ہیں۔ ہم نے دعوۃ اکیڈمی کی سربراہی کے دوران اور اب صدارت کے دوران انہی افراد کا تقرر کیا ہے، لیکن چھوٹے چھوٹے مسائل کی وجہ سے بحران پیدا کرنے اور تلخیوں کے ماحول کو فروغ دینے میں یہی افراد سب سے زیادہ پیش پیش ہیں۔ اس موقع پر انہوں نے یہ بھی بتایا کہ میں نے دعوۃ اکیڈمی کی سربراہی کے دور میں سوویت یونین سے آزاد مسلم ریاستوں کے لیے ایک سو سے زائد کتابوں کے تراجم شائع کرکے وہاں پھیلائے تھے۔ اب جب دوبارہ ان کتابوں کی اشاعت کا فیصلہ ہوا تو ان ساری کتابوں کے بٹر غائب تھے۔ ایک گروہ چاہتا ہے کہ بس ان کی فکر ہی کی اشاعت ہوتی رہے۔ ان کے مکتبہ فکر سے باہر کے علما وفضلا کے فکر کی ضرورت ہی نہیں۔ یہ افسوسناک صورتحال ہے جو پیدا ہو گئی ہے۔
اسلام آباد کے اسی دورہ کے دوران راولپنڈی کی ایک فاضل شخصیت جو علمی اعتبار سے ممتاز حیثیت کی حامل ہے، اس نے راقم الحروف سے کہا کہ ڈاکٹر محمود احمد غازی صاحب اور ان کے بھائی محمد غزالی صاحب نے حکومت وقت سے تعاون کرنے میں اہم کردار ادا کرکے، علماے حق کی حکومت وحکمرانوں سے بے نیازی والی روایت کو سخت زک پہنچائی ہے۔ راقم نے اپنے خط میں ڈاکٹر صاحب سے اس کا ذکر کیا۔ اس کا جواب ڈاکٹر صاحب نے دیا جو خطوط میں شامل ہے ۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر صاحب کا یہ نقطہ نگاہ کافی وزنی ہے کہ انہوں نے حکومت وحکمرانوں سے مالی فائدہ یا مراعات حاصل نہیں کی،بلکہ اپنی بساط کے مطابق اصلاح احوال اور بہتری کی کوشش کی، البتہ مشرف حکومت میں وفاقی وزیر کی حیثیت سے ان کی شرکت کا فیصلہ ایسا تھا جس پر ان کے ساتھ محبت کرنے والوں کو بھی دکھ ہوا۔ غازی صاحب کو توقع تھی کہ حکومت سے وابستگی سے وہ زیادہ بہتر طور پر خدمت سرانجام دے سکیں گے، لیکن ایسا نہ ہو سکا، چنانچہ جوں ہی انہیں اس کا احساس ہوا کہ حکومت وقت انہیں اپنے مقاصد کے لیے استعمال کررہی ہے تو انہوں نے بغیر تامل کے استعفیٰ دے دیا۔
غازی صاحب اپنی ذات میں انجمن تھے۔ اپنی تقاریر، گفتگو، اور کتابوں کے ذریعہ اُس طبقہ تک اسلام کی دعوت پہنچاتے تھے جس طبقہ تک علما کی رسائی دشوار تھی۔ فرد چلے جاتے ہیں۔ ان کی باتیں اور ان کا کام باقی رہ جاتا ہے، باتوں اور کام کو بھی اخلاص اور سوزِ دروں ہی بقا اور استحکام بخشتا ہے۔ غازی صاحب میں اخلاص اور سوز دروں کے اجزا غالب صورت میں موجود تھے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی لغزش معاف فرمائے، جنت الفردوس نصیب فرمائے اور ہمیں ان کا نعم البدل عطا فرمائے۔ (آمین)
ہم نے اپنی کتاب ’’عصر حاضر کی شخصیات میری نظر میں‘‘ میں غازی صاحب کا تعارفی خاکہ لکھا ہے۔ اس کتاب میں ان کے خطوط بھی شامل ہیں۔ یہ کتاب ان کی زندگی میں ہی چھپی ہے اور ان کی نظر سے گزر چکی تھی۔ یہ تعارفی خاکہ اور خطوط یہاں پیش کیے جا رہے ہیں۔
(۲)
ڈاکٹر محمود احمد غازی صاحب ملک وملت کا بڑا سرمایہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں جن صلاحیتوں، خوبیوں اور کمالات سے نوازا ہے، انہیں دیکھ کر ملک وقوم کے بارے میں یہ حوصلہ بڑھتا ہے کہ جس قوم وملک میں اس طرح کی شخصیتیں موجود ہوں، ان شاء اﷲ وہ قوم سرسبز وآباد ہوگی اور اسے نقصان پہنچانے کی کوششیں ناکام ہوں گی۔ وہ انگریزی، عربی اور اردو زبان میں یکساں صلاحیت رکھتے ہیں۔ انہیں ان زبانوں میں تحریر وتقریر کا یکساں ملکہ حاصل ہے۔ فرانسیسی زبان بھی جانتے ہیں۔ دینی مدرسے میں فارسی بھی پڑھ چکے ہیں۔ قرآن کے حافظ بھی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں غیرمعمولی ذہانت سے نوازا ہے۔ پاکستان میں عالم اسلام کے جدید وقدیم اسلامی مفکروں اور فاضلوں کے لٹریچر پر جتنی عمیق نظر ان کی ہے، اتنی گہری نظر بمشکل چند افراد کی ہوگی۔ ملت اسلامیہ کو دور جدید میں درپیش چیلنج، علمی، نظری اور عملی طور پر اس چیلنج کی نوعیت اور اس سے عہدہ بر آہونے کے لیے نظریاتی وعملی خاکہ اور اس کے لیے فکر مندی اور اضطراب، ان سارے معاملات میں ملک میں ڈاکٹر موصوف جیسی شخصیتیں خال ہی نظر آتی ہیں۔
مختلف موضوعات پر ان کی تقاریر سننے اور مضامین پڑھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ موصوف نے متعلقہ موضوع پر پڑھنے والے کے سامنے مواد کے اتنے سارے پہلو رکھ دیے ہیں کہ ان کے لیے متعلقہ موضوع کی گہرائی کو سمجھنا آسان ہوگیا ہے۔ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے دعوہ اکیڈمی کے سربراہ کی حیثیت سے انہوں نے دعوتی نقطہ نگاہ سے اردو، سندھی اور مختلف زبانوں میں جو لٹریچر منتخب کرکے شائع کرنے کا انتظام کیا، اسے دیکھ کر دل بے ساختہ ان کے حسن انتخاب پر داد دینے لگتا ہے۔ دعوہ اکیڈمی کے سربراہ کی حیثیت سے انہوں نے اسلامی دعوت کے فروغ کے لیے اسلامی دنیا اور غیر اسلامی دنیا کے طویل دورے کیے، ہر جگہ اہل علم اور اہل فکر سے نشستیں کیں، ان سے حالات سنے اور ان کے سامنے اپناحال دل پیش کیا۔ ان طویل دعوتی دوروں میں جہاں انہوں نے مختلف ممالک میں دعوتی کام کے پھیلاؤ کے لیے تدابیر کیں اور عملی راہیں نکالیں، وہاں ان دوروں سے عالم اسلام کے حالات کے سلسلے میں انہیں بے پناہ تجربہ ومشاہدہ بھی ہوا۔ ہماری سندھی زبان، جو جدید اسلوب میں دعوتی لٹریچر سے خالی تھی، اس میں انہوں نے بعض ایسی اہم بنیادی کتابیں شائع کرکے پھیلا دیں جن کتابوں کی اشاعت سندھ نیشنل اکیڈمی جیسے کمزور اداروں کے لیے مشکل تھی۔ اس طرح انہوں نے سندھی نوجوانوں اور سندھ کے علم وادب پر احسان فرمایا۔
ڈاکٹر محمود احمد غازی صاحب کو اللہ تعالیٰ نے قلب سلیم بھی عطا فرمایا ہے، وہ علم وفضل کے حامل خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کے والد صاحب ممتاز عالم دین تھے۔ جن کے برصغیر ہند کے ممتاز علما وصلحا سے گہرے تعلقات تھے۔ ان کے گھر پر علما وصلحا کی آمد ورفت رہتی تھی۔ وہ کتابوں کے ماحول میں پلے اور بڑھے۔ ان کی ابتدائی تربیت نہایت پختہ تھی۔ انہیں شروع سے فکری طور پر صحیح فکری خطوط اور لائن حاصل ہوگئی، چنانچہ ذہانت، صحیح تربیت، فطرت سلیمہ کی بڑی حد تک حفاظت اور صحیح اساتذہ کی رہنمائی اور مسلسل مطالعے ومشاہدے نے ان کو علم وعمل کی ایک مثالی اور پاکیزہ شخصیت بنا دیا۔ ڈاکٹر موصوف کو اللہ تعالیٰ نے پاکیزہ دل بھی عطا فرمایا ہے۔ سب سے بڑی بات یہ کہ ان کے لیے اللہ تعالیٰ نے دین کی خدمت کی راہیں کھول دی ہیں۔ تقریر سے بھی، تو تحریر سے بھی اور حکومتی اداروں کے ذریعہ سے بھی۔ اب سپریم کورٹ کے شریعت اپیلٹ بنچ کے جج کی حیثیت سے اس خدمت کی توفیق دی ہے۔
ان کی ان ساری سعادتوں میں جہاں ان کے گہرے مطالعے ومشاہدے اور طویل تجربات کو عمل دخل حاصل ہے، وہاں اس میں ان کی ایک خاص صفت کو بھی بنیادی عمل دخل ہے۔ وہ صفت ان کی بڑے پن سے دستبرداری، چھوٹے پن کا مظاہرہ اور عاجزی وخاکساری کا رویہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے باصلاحیت افراد پر ساری نوازشیں ان کی اس خاص ادا کی وجہ سے ہی ہوتی ہیں جس کا اندازہ ظاہر بین افراد کے لیے مشکل ہے۔ اس عاجز کے ساتھ ان کی محبت محض ان کے حسن ظن کی بنا پر ہے۔ دل سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سے اپنے دین کی خدمت کا وسیع ترکام لے اور اخلاص عظمیٰ کی دولت عطا فرمائے۔ (آمین)
(بشکریہ ماہنامہ بیداری، حیدر آباد)