رات ساڑھے دس بجے کے قریب اچانک فشارِ خون کی وجہ سے بایاں بازو سُن ہوتا ہوا محسوس ہوا۔ میں نے اس کا تذکرہ گھر والوں سے کیا تو انہوں نے فوری طور پر پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (PIMS) جانے کا مشورہ دیا۔ میں نے جواب میں کہا کہ فشار خون کم کرنے والی دوا لے لیتا ہوں۔اُمید ہے جلدہی طبیعت ٹھیک ہو جائے گی۔ لیکن گھر والوں کا اصرار تھا کہ احتیاط کا تقاضا ہے کہ اسپتال جاکر ایمر جنسی وارڈ میں چیک اَپ کروالیا جائے۔
رات ساڑھے گیارہ بجے PIMS کے ایمر جنسی وارڈ کے کمرہ نمبر۳ میں ابتدائی چیک اَپ کے لیے داخل ہوا تو وہاں ڈاکٹر محمد الغزالی نظر آئے۔ میں نے ڈاکٹر غزالی صاحب سے حیرت بھرے لہجے میں پوچھا کہ آپ اس وقت ایمرجنسی وارڈ میں موجود ہیں، خیریت تو ہے؟ ڈاکٹر غزالی صاحب نے یہ سن کر میری توجہ ایمرجنسی ڈاکٹر کی میز کے عقب میں موجود کرسی کی جانب دلائی، میں نے اس جانب دیکھا تو وہاں محترم ڈاکٹر محمود احمد غازی صاحب موجود تھے۔ میں نے آگے بڑھ کر ڈاکٹر غازی صاحب کو سلام کیا اور تشویش بھرے لہجے میں پوچھا: غازی صاحب خیریت توہے؟ غازی صاحب نے تکلیف بھرے انداز میں اپنے سینے پر ہاتھ رکھتے ہوئے جواب دیا کہ یہاں سینے میں درد ہے۔ میں سمجھ گیا کہ یہ دل کی تکلیف کی کیفیت ہے۔ ڈاکٹر غزالی صاحب ڈیوٹی پر موجود ڈاکٹر کو بار بار کہہ رہے تھے کہ جلدی کریں، غازی صاحب کی طبیعت مزید خراب ہوتی جارہی ہے۔ لیکن ڈاکٹر روایتی انداز میں دوسرے مریضوں میں الجھا ہو ا تھا۔ ڈاکٹر غزالی صاحب کے مسلسل اصرار پر بالآخر ڈاکٹر غازی صاحب کی جانب متوجہ ہوا۔
اتنی دیر میں کمرے میں موجود دوسرے ڈاکٹر نے مجھے مشورہ دیا کہ پہلے ای سی جی کرواکے لاؤں۔ اس کے بعد مزید کاروائی ہو گی۔ میں ای سی جی کرواکے امراض قلب کے شعبہ انتہائی نگہداشت میں پہنچا تو وہاں کاؤنٹر کے قریب ڈاکٹر غزالی صاحب مضطرب حالت میں موجود تھے۔
ڈاکٹر غازی صاحب شعبہ انتہائی نگہداشت کے ایک کمرے میں منتقل ہو چکے تھے اور ڈاکٹر طبی امداد کے حوالے سے مصروف تھے۔ میں نے کاؤنٹر کے قریب موجود ایک ڈاکٹر کو اپنی ای سی جی رپورٹ دکھائی تو اس نے اطمینان کا اظہار کیا کہ تشویش کی کوئی بات نہیں۔ یہ سن کر میرے ساتھ ڈاکٹر غزالی صاحب نے بھی اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا کہ دل کے حوالے سے تشویش کی بات نہیں۔
ڈاکٹر غازی صاحب کے کمرے میں ان کی اہلیہ محترمہ بھی موجود تھیں، اس لیے وہاں جانا ممکن نہیں تھا، اس لیے ڈاکٹر غزالی صاحب کو تسلی دی کہ ان شاء اللہ غازی صاحب بہت جلد صحت یا ب ہو جائیں گے۔ ان دعائیہ کلمات کے بعد میں نے ڈاکٹر غزالی صاحب سے اجازت لی اور رات دوبجے واپس گھرپہنچا۔ نماز فجر کے بعد اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ غازی صاحب جلد صحت یاب ہو جائیں۔ نماز ظہر سے پہلے موبائل پر مجھے ایک ایس ایم ایس وصول ہوا۔ ایس ایم ایس پڑھا تو ناقابل یقین اطلاع تھی کہ ڈاکٹر محمود احمد غازی صاحب کا انتقال ہو گیا ہے اور ان کی نماز جنازہ دوپہر دو بجے قبرستان ایچ ٹن میں ادا کی جائے گی۔ وہ عظیم ہستی جس سے میر ی چند گھنٹے پہلے PIMS کے شعبہ انتہائی نگہداشت میں ملاقات ہوئی تھی، وہ اس طرح اچانک ہم سے ہمیشہ کے لیے جدا ہو جائے گی، یہ سوچا بھی نہیں تھا۔ مجھے اس موقع پر بے اختیار حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کے خادم کا واقعہ یاد آگیا جس میں حضرت خضرؐ کے ساتھ ملاقات سے قبل حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بھوک نے ستایا تو خادم سے مچھلی طلب کی تو اس نے کہا کہ راستے میں جہاں ہم نے پڑاؤ کیا تھا، وہاں اچانک اس کے ہاتھ سے پھسل کر مچھلی دریا میں چلی گئی تھی۔ مجھے بھی ایسے لگا کہ غازی صاحب بھی میرے سامنے اچانک ہمیشہ کی دنیا میں چلے گئے۔
ڈاکٹر محمود احمد غازی، طویل عرصہ دعوۃ اکیڈمی کے ڈائریکٹر جنرل رہے۔ اس دوران ان کے بہت قریب رہنے، ان سے سیکھنے اور کام کرنے کا موقع ملا۔ ممکن ہے وہ اکیڈمی کے دوسرے رفقائے کار کے لیے ڈائریکٹر جنرل ہوں، مگر میں نے انہیں ہمیشہ شفیق و مشفق بڑے بھائی کی طرح محسوس کیا۔ یہی وجہ ہے کہ جب ڈاکٹر غازی صاحب نے دعوۃ اکیڈمی کے تحت ماہنامہ ’’ دعوۃ‘‘ کے اجرا کا پروگرام بنایا تو انہوں نے مجھ ناچیز کے ذمے لگایا کہ’’ دعوۃ‘‘کے اجرا سے پہلے وطن عزیز کی معروف دینی، علمی وادبی شخصیات سے رابطہ کرکے اُن سے رہنمائی حاصل کی جائے۔ اسی مقصد کے لیے راقم الحروف نے ایک خط کا مسودہ تیار کیا اور ممتاز علمی وادبی شخصیات کی فہرست مرتب کرکے غازی صاحب کی خدمت میں پیش کی۔ غازی صاحب نے خط کے مسودہ کو مناسب قرار دیا اور دینی علمی وادبی شخصیات والی فہرست پر بھی پسندیدگی کا اظہار کیا۔
دو روز بعد ، ڈاکٹر غازی صاحب، دعوۃ اکیڈمی کے تحت ہونے والے ایک ماہ کے بین الاقوامی تربیتی پروگرام میں شرکت کے لیے بیرون ملک روانہ ہوگئے۔اَب ایک صورت یہ تھی کہ سرکاری اور روایتی انداز میں غازی صاحب کی واپسی کا انتظار کیا جائے کہ وہ ایک ماہ بعد واپس وطن تشریف لائیں گے تو خط کمپوز کرواکے اس پر ان کے دستخط کروانے کے بعد ممتاز علمی وادبی شخصیات کو خط بھجوایا جائے۔ دوسری صورت یہ تھی کہ اس کام کو سرکاری کی بجائے دعوتی و ذاتی سمجھتے ہوئے اور غازی صاحب کو ڈی جی کی بجائے مشفق ومہربان بھائی سمجھتے ہوئے، خط کو کمپوز کروانے کے بعد کسی فائل میں موجود نوٹ پر اُن کے موجود ہ دستخطوں کی فوٹو سٹیٹ کرواکے ان کے خط کے نیچے لگا کر تمام خطوط کی فوٹو کاپی کروالی جائے۔ یہ خیال آتے ہی میں نے اگلے ہی روز خط کمپوز کرواکے خط کے نیچے ان کے فوٹو کاپی شدہ دستخط لگا کر پچاس ساٹھ خطوط تیار کرکے ممتاز علمی ادبی شخصیات کو روانہ کردیے۔دو تین ہفتے کے دوران ممتاز علمی وادبی شخصیات کی بہت بڑی تعداد نے مجوزہ ’’دعوۃ ‘‘ کے اجرا کے حوالے سے پسندیدگی کا اظہار کیا اور اپنے گراں قدرمشوروں اور تجاویز سے نوازا۔ میں نے ان تمام خطوط کو ایک فائل میں محفوظ کر لیا۔
ایک ماہ کے بین الاقوامی تربیتی پروگرام کے بعد جب ڈاکٹر غازی صاحب واپس وطن تشریف لائے تو میں نے ملاقات کے موقع پر ان کی خدمت میں مجوزہ پرچے ’’دعوۃ‘‘ کے حوالے سے ممتاز علمی وادبی شخصیات کے خطوط والی فائل پیش کی تو انہوں نے حیرت سے پوچھا کہ میری جانب سے باضابطہ طور پر تو خط ان شخصیات کو روانہ ہی نہیں کیے گئے تھے تو یہ کس طرح ممکن ہوا ہے؟ اس پر میں نے بتایا کہ کس طرح ان کے دستخطوں کی فوٹو کاپی کرکے خط ممتاز علمی وادبی شخصیات کو بھجوایا گیا جس کے نتیجے میں اتنے سارے خطوط وصول ہوئے۔ یہ سن کر ڈاکٹر غازی صاحب زیرلب مسکراکر رہ گئے۔ کیا کسی سرکاری ادارے میں معمولی درجے کا ملازم یہ تصور کرسکتا ہے کہ وہ ادارے کے سربراہ کے نام کا خط، اس کے علم میں لائے بغیر بھجوادے اور اس پر اس کا مواخذہ نہ کیا جائے؟ یقیناًڈاکٹر غازی صاحب کی اعلیٰ ظرفی تھی کہ انہوں نے میری اس حرکت کو درگزر کردیا۔
دعوۃ اکیڈمی اسلام آباد آنے سے پہلے مجھے رمضان المبارک کے آخری عشرے میں جامع مسجد پنجاب یو نیورسٹی لاہور اور چند دیگر مساجد میں اعتکاف کا موقع ملاتھا۔ اسلام آباد میں جب پہلی بار فیصل مسجد میں اعتکاف کا سلسلہ شروع ہوا تو راقم الحروف نے مسلسل تین سال فیصل مسجد میں اعتکاف کی سعادت حاصل کی۔ پہلے سال صرف ۶۵ لوگوں نے اعتکاف کیا، دوسرے سال ۱۱۵ لوگ معتکف ہوئے جبکہ تیسرے برس شبینہ کا سلسلہ فیصل مسجد میں شروع ہونے کی وجہ سے لوگوں کی بہت بڑی تعداد نے اعتکاف کیا۔ میں نے محسوس کیا کہ عوام الناس میں بالعموم اور نوجوانوں میں بالخصوص معتکف ہونے کا سلسلہ ہر سال بڑھتا جارہا ہے لیکن اعتکاف کے مسائل سے عدم واقفیت کی وجہ سے کچھ لوگوں نے اس کوچھوئی موئی بنا لیا ہے اور کچھ نے اس کو پکنک کا درجہ دے دیا ہے۔ ضرورت اس بات کی تھی کہ افراط وتفریط سے بچتے ہوئے معتکف ہونے والوں کو قرآن وسنت کی روشنی میں رہنمائی مہیا کی جائے۔
اس مقصد کے لیے راقم الحروف نے تمام مکاتب فکر کی قدیم وجدید کتب اور دینی رسائل و جرائد میں شائع ہونے والے مضامین کا جائزہ لے کر اعتکاف کے مسائل پر مختصر کتاب کا مسودہ تیار کرکے ڈاکٹر غازی صاحب کی خدمت میں پیش کیا تاکہ وہ اس کو دیکھ لیں کہ یہ قابل اشاعت بھی ہے یا نہیں؟ محترم غازی صاحب نے مجھ ناچیز پر بے پناہ اعتماد کرتے ہوئے مسودے کے صفحہ اول پر اکیڈمی کے شعبہ مطبوعات کے انچارج کو لکھا کہ اس کی کتابت و طباعت کا اہتمام کیا جائے۔ میں نے اس موقع پر فوراً غازی صاحب سے گزارش کی کہ راقم الحروف کو علم فقہ پر دسترس حاصل نہیں، اس لیے مسودے کو کتابت وطباعت سے پہلے علم فقہ کے کسی ماہر سے نظرثانی کروالی جائے۔ میری تجویز پر یہ مسودہ اکیڈمی کے ممتاز اسکالر اور فقہی ماہر مولانا فضل ربی کو بھجوادیا گیا۔ انہوں نے کمال شفقت سے مسودے پر نظرثانی کردی تو اس کے بعد اسے شعبہ مطبوعات کے حوالے کیا گیا۔ الحمد للہ اب تک ’’ اعتکاف، فضائل ومسائل‘‘ کے پانچ ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔
ڈاکٹر محمود احمد غازی صاحب کو جب حکومت پاکستان کی جانب سے وفاقی وزارت مذہبی امور پر فائز کیا گیا تو اُن دنوں وہ بین الاقوامی اسلامی یو نیورسٹی اسلام آباد کے نائب صدر (علمی) کی ذمہ داریاں نبھا رہے تھے۔ انہی دنوں کسی کام کے حوالے سے ڈاکٹر غازی صاحب سے ملاقات کے لیے نائب صدر جامعہ کے کمرے میں جانے کا موقع ملا۔ اسی دوران انہوں نے یو نیورسٹی کے ایڈیشنل ڈائریکٹر فنانس خورشید عالم صاحب کو بلوایا۔ خورشید عالم صاحب تشریف لائے تو ڈاکٹر غازی صاحب نے انہیں مخاطب کرکے کہا کہ انسان بنیادی طور پر لالچی واقع ہوا ہے۔ اب جبکہ میں وفاقی وزیر مذہبی امور بن چکا ہوں تو وفاقی وزیر کی تنخواہ، یو نیورسٹی کے نائب صدر (علمی) سے زیادہ ہے، اس لیے میں نے فیصلہ کیا ہے کہ جب تک میں وفاقی وزیر کی ذمہ داری پر فائز رہوں گا، روزانہ بعد دوپہر یونیورسٹی آکر نائب صدر جامعہ(علمی) کے طور پر اپنی تمام ذمہ داریاں ادا کروں گا، لیکن اس دوران یو نیورسٹی سے نہ تو تنخواہ وصول کروں گا اور نہ دیگر مراعات سے استفادہ حاصل کروں گا۔ یقیناًیہ کام کوئی اعلیٰ درجے کا صاحب تقویٰ ہی کرسکتا ہے۔
برصغیر ہی نہیں، عالم اسلام کی ممتاز علمی وادبی شخصیت مولانا ابوالحسن علی ندوی نے جب عالم اسلام کے اہل قلم کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کے لیے رابطہ ادب الاسلامی العالمیہ قائم کی تو عالم اسلام کے مختلف ممالک کے ساتھ پاکستان چیپٹر کا قیام بھی عمل میں لایا گیا۔ پاکستان چیپٹرکے صدر پنجاب یونیورسٹی لاہور کے شعبہ علوم اسلامیہ کے سربراہ ڈاکٹر ظہور احمد اظہر مقرر کیے گئے جبکہ اسلام آبادچیپٹر کے لیے ڈاکٹرمحمود احمد غازی کو ذمہ دار بنایا گیا۔ اس موقع پر ڈاکٹر غازی صاحب کی ایف سکس والی رہائش گاہ میں اسلام آباد اور راولپنڈی کی ممتاز علمی وادبی شخصیات کو جمع کیا گیا تاکہ کام کا نقشہ تیار کیا جاسکے۔ ممتاز علمی وادبی شخصیات کی موجود گی میں ڈاکٹر غازی صاحب نے مجھ ناچیزکو رابطہ ادب الاسلامی العالمیہ ، اسلام آباد شاخ کا سیکرٹری مقرر کیا۔ میرے مسلسل انکار کے باوجود انہوں نے یہ ذمہ داری میرے سپرد کردی۔ اس کے بعد رابطہ کی اسلام آباد شاخ کے تحت مختلف دینی اور علمی موضوعات پر لیکچرز کی سیریز کا پرگرام بنایا گیا۔ لیکن اسی دوران رابطہ ادب الاسلامی العالمیہ پاکستان چیپٹرکے ذمہ داروں کی روایتی سستی کی وجہ سے لاہور کے علاوہ فیصل آباد اور اسلام آباد میں بھی کام کا سلسلہ آگے نہ بڑھ سکا۔
بچوں کے لیے راقم الحروف کی اب تک تین درجن سے زیادہ کتب شائع ہو چکی ہیں۔ اپنی شائع شدہ کتب وقتاً فوقتاً محترم غازی صاحب کی خدمت میں پیش کرتا رہتا تھا۔جب میری کتاب ’’اقبال کہانی‘‘ چھپ کر آئی تو میں نے ان سے گزارش کی کہ آپ نے اب تک میری کسی کتاب کے متعلق اپنی تحریری رائے سے آگاہ نہیں کیا ۔ اس لیے اقبال کہانی پر اپنی رائے سے ضرور نوازیں۔ اس پر انہوں نے حسب ذیل تاثرات سے نوازا۔
’’ڈاکٹر افتخار کھو کھر اور بچوں کا اسلامی، دینی اور ملّی ادب اب لازم وملزوم بنتے جارہے ہیں۔ کھو کھر صاحب نے گزشتہ دو عشروں کے دوران بچوں کے ادب پر اتنا کام کیا ہے کہ اب اُردو کی ’’ تاریخ ادبیات اطفال‘‘ میں ان کا ایک مقام بن چکا ہے۔ ہمارے ملک میں اور بہت سے شعبوں کے علاوہ یہ اہم شعبہ بھی ایک عرصہ تک بے توجہی کا شکار رہا۔ پورے ملک میں صرف سعیدِ ملت حکیم محمد سعید ، میرزا ادیب اور اشتیاق احمد کے علاوہ ہمدرد نونہال اور تعلیم وتربیت کے لکھنے والوں نے چالیس سال یہ اہم ذمہ داری نبھائی اور حق یہ ہے کہ حق ادا کردیا۔
افتخار کھو کھر اسی روایت کے امین ہیں۔ اُن کے ہاں حکیم محمد سعید جیسی مقصدیت، میرزا ادیب جیسا فنی اسلوب اور اشتیاق احمد جیسی آسان اور رواں زبان یکجا ملتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بچوں میں کھو کھر صاحب کی تحریریں دن بدن مقبول ہورہی ہیں۔ ان کی درجنوں تحریروں میں بہت سی انعام یافتہ کتب بھی شامل ہیں۔ بعض کتابوں کے ایک ایک درجن ایڈیشن نکل چکے ہیں جن سے ان کتابوں کی مقبولیت کا بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے۔
زیر نظر کتاب ’’ اقبال کہانی‘‘ ان شاہین صفت بچوں کے لیے لکھی گئی ہے جو اقبال کے پیغام کو دنیا بھر میں پھیلانے کا عزم اور جذبہ رکھتے ہیں ۔کتاب کا انداز بیان بہت آسان اور اسلوب بچوں کی سطح کے مطابق ہے۔ مصنف نے علامہ اقبال کی زندگی کے تمام اہم واقعات کو مکالمہ کے دلچسپ انداز میں بیان کیا ہے۔
مجھے امید ہے کہ یہ کتاب اقبالیات اطفال میں ایک اہم اور مفید اضافہ شمار ہو گی۔ میں جناب ڈاکٹر محمد افتخار کھوکھر کو اُن کی اِس مفید کاوش پر دلی مبارک باد پیش کرتا ہوں اور دعاگو ہوں کہ اللہ تعالیٰ اس کتاب کو کم سن قارئین میں مقبولیت عطا فرمائے۔‘‘
محترم ڈاکٹر محمود احمد غازی صاحب جیسی بین الاقوامی سطح کی علمی وادبی شخصیت کی جانب سے مجھ ناچیز کے متعلق یہ تاثرات میرے لیے متاع زندگی ہیں۔ اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ محترم غازی صاحب کو جنت الفردوس کے اعلیٰ ترین مقام پر فائز فرمائیں اور ہمیں دنیا کی طرح آخرت میں بھی نعمت بھری جنتوں میں ان کی رفاقت نصیب ہو۔ آمین