شمع روشن بجھ گئی

مولانا سید متین احمد شاہ

۲۶ ستمبر ۲۰۱۰ء کی سہانی صبح تھی۔ مہر درخشاں، ملکۂ عالم کی رسمِ تاجپوشی کے لیے مشرقی افق سے کافی بلندی پہ آچکا تھا۔ فطرت کا حسین منظر، عنادل کا شور، صبح بنارس کی مانند باد نسیم کی اٹھکیلیاں۔ اس جمالِ دل فروز کے جلو میں میں اسلام آباد کی ایک شارع عام پر محوِ سفر تھا کہ ایک پیغام موصول ہوا: ’’ڈاکٹر محمود احمد غازی کا انتقال ہوگیا۔‘‘ مولانا عمار خان ناصر صاحب کو فون کیا تو خبر کی تصدیق ہوگئی۔ دل غمگین ہوا، نینوں سے اشک چھلکے اور صبر وشکیب کا خرمن پل دو پل میں خاکستر ہوگیا۔ اس سوال کا جواب بھی مل گیا کہ عروس فطرت آج کس کے استقبال میں اپنی سج دھج دکھا رہی ہے اور ۲۴؍جنوری ۲۰۱۰ء کو کردار کے ’’غازی‘‘ سے ہونے والی پہلی اور آخری ملاقات کی جھلکیاں سامنے آنے لگیں اور میں خود کلامی کے خاموش پربت کے دامن میں فروکش ہوگیا۔

کیا ڈاکٹر غازی کا انتقال ہوگیا؟

سورۂ رحمن پکار کر کہنے لگی: کُلُّ مَنْ عَلَیْھا فَانٍ۔

خیال آیا: کیا آج اورنگ فکر کا سلیمان اپنے دربار کو سونا کر گیا؟

سورۂ انبیاء نے جواب دیا: کُلُّ نَفْسٍ ذَآئِقَۃُ الْمَوْتِ۔

تخیل نے پوچھا: کیا آج ہم ایک ایسی محرومی سے دوچار ہو چکے ہیں جس کی تلافی اب نہ ہوسکے گی؟

قطری بن فجأۃ نے آکر تسلی دی:

فصبراً فی مجال الموت صبراً
فما نیل الخلود بمستطاع

اک ہوک سی اٹھی: ہائے! کیا واقعی؟

روح اقبالؒ نے خطاب کیا:

موت ہے ہنگامہ آرام قلزمِ خاموش میں
ڈوب جاتے ہیں سفینے موج کی آغوش میں

اتنے جوابات مل جانے کے بعد بھی یقین کا سرمایہ کہاں سے لاتا؟

مری بے تاب نظریں ڈھونڈتی پھرتی ہیں گلشن میں
صبا تو نے کہاں لے جا کے خاک آشیاں کھو دی

ڈاکٹر محمود احمد غازی (اللہ ان کو جنت الفردوس کی ابدی بہاروں کا مکین بنائے) کے نام سے شناسائی مجھے بچوں کے ایک جریدے ماہنامہ ’’مجاہد‘‘ کے ذریعہ گیارہ برس کی عمر میں حاصل ہوئی جبکہ وہ دعوۃ اکیڈمی اسلام آباد کے ڈائریکٹر جنرل تھے۔ میٹرک کے امتحان کے بعد علامہ عبداللہ یوسف علی کا انگریزی ترجمہ قرآن لیا۔ اس پر ڈاکٹر غازی کے لکھے گئے جامع دیباچہ سے ان کے علمی مقام کا نقش اوّلین دل پہ مرتسم ہوگیا۔ مختلف جرائد کی وساطت سے ان کے البیلے مضامین کی ایک ایک سطر علم وآگہی میں اضافہ کا موجب تو بنتی ہی تھی مگر باضابطہ طور پر ان کے فکری و علمی آفاق کی وسعت و عظمت کا ادراک ان کے عظیم سلسلہ محاضرات کے ذریعہ ہوا۔ علوم، موضوعات اور مضامین کے اس تنوع کی مثال یکجا طور پر شاید عربی زبان میں بھی مشکل سے ملے۔ اپنی خوابگاہ کی الماری میں میں نے ان خطبات کو قرینے سے رکھا ہے اور ڈاکٹر غازیؒ کی وفات کے بعد آج تک کتنی بار ایسا ہوا کہ ان پر نظر پڑی تو دل پہ رقت طاری ہوگئی، آنکھوں سے آنسو چلنے لگے اوربے اختیار ہاتھ دعائے مغفرت کے لیے اٹھ گئے۔

۲۴؍جنوری ۲۰۱۰ء کو ایک ساتھی نے ڈاکٹر غازیؒ سے ملاقات کا پروگرام بنایا اور مجھے بھی ساتھ چلنے کو کہا۔ میں نے موقع کو غنیمت جانا کیونکہ اپنے ایم فل کے مقالے کے لیے ’’نظم قرآن‘‘ کے تصور پر ڈاکٹر غازیؒ کے علم سے استفادہ بھی مقصود تھا۔ یہ ملاقات ان سے زندگی کی پہلی اور آخری ملاقات تھی اور اس نے ان کی تواضع، محبت اور وقار ومتانت کا ایک گہرا تاثر دل پر چھوڑا۔ ڈاکٹر محمد میاں صدیقی صاحب بھی ڈاکٹر غازیؒ سے ملاقات کے لیے آئے ہوئے تھے۔ ہم نے ملاحظہ کیا کہ ان کی عمر کے احترام کے پیش نظر ڈاکٹر صاحب نے بہت کم گفتگو فرمائی اور صرف اسی سوال کا جواب خود ارشاد فرمایا جو انھی سے تعلق رکھتا تھا۔ سلسلہ گفتگو میں امام شاطبی ؒ کی کتاب ’’الموافقات‘‘ کا کسی حوالہ سے میں نے ذکر کیا اور اپنی لاعلمی سے اس کو ’بکسر الفاء‘ ادا کیا۔ انہوں نے فوراً اصلاح فرمائی کہ یہ لفظ ’بفتح الفاء‘ ہے اور یوں مجھے ایک لفظ میں ڈاکٹر غازیؒ کے تلمذ کا اعزاز مل گیا اور یہی کیا کم ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے کہ جس نے مجھے ایک لفظ بھی سیکھایا میں اس کا غلام ہوں چاہے مجھے آزاد کر دے یا بیچ دے۔

سلسلہ مراسلت قائم کرنے کے لیے میں نے ای میل مانگا تو انہوں نے لکھوایا: 

mahmoodghazi23@yahoo.com

فرمایا کہ یہاں ۲۳ کا عدد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات نبوت کی مدت کی طرف اشارہ ہے۔ اتنے معمولی امور میں بھی اس بات کا خیال ان کی ذاتِ نبوت صلی اللہ علیہ وسلم سے وابستگی ومحبت کی روشن دلیل ہے۔ اس مختصر ملاقات میں بھی ڈاکٹر غازیؒ کے خوانِ علم سے مجھ جیسا کم سواد طالب بہت کچھ لے کر اٹھا۔

بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی، اسلام آباد کے اولڈ کیمپس (فیصل مسجد) میں ڈاکٹر غازیؒ پر ایک تعزیتی ریفرنس میں ڈاکٹر شیر محمد زمان صاحب نے فرمایا کہ ہماری رفاقت طویل عرصہ پر محیط ہے اور اس کی روشنی میں بلاخوف تردید کہہ سکتا ہوں کہ اپنی زندگی میں ڈاکٹر غازی جن مناصب پر رہے اور ان میں چھوٹے چھوٹے امور میں بھی انہوں نے جس دیانت،تقویٰ اور ورع کا مظاہرہ کیا، اس کی اب کوئی دوسری مثال میں پیش کرنے سے قاصر ہوں۔

ڈاکٹر غازیؒ کے علمی ذوق اور ولولہ کے حوالہ سے ڈاکٹر ظفر اسحاق انصاری صاحب نے فرمایا کہ ایک بار غازی صاحب نے مجھ سے ذکر کیا کہ میں نے امام شافعیؒ کی کتاب ’’الأم‘‘ کا سات مرتبہ از اوّل تا آخر مطالعہ کیا ہے۔ باریک ٹائپ سے لکھے گئے سات جلدوں کے اتنے بڑے علمی موسوعہ کو سات مرتبہ بالاستیعاب پڑھنے کی نظیر اس دور میں شاید مشکل ہی سے ملے گی جہاں اب تن آسانی، تضییع اوقات اور سطحیت ایک عمومی مزاج بن چکا ہے۔جامعۃ الرشید کی ایک مجلس میں ڈاکٹر صاحب نے علماے کرام سے فرمایا کہ میں اس کو عالم نہیں مانتا جس نے ہدایہ کم ازکم پانچ بار بالا ستیعاب نہ پڑھی ہو۔ میں تین بار پڑھ چکا ہوں، چوتھی بار شروع کر رکھی ہے، آپ بھی وعدہ کریں۔ نیز فرمایا کہ موطا امام مالک حفظ کر رہا ہوں، آپ تکمیل کی دعا کریں۔ ڈاکٹر غازی کا یہ علمی مزاج بجا طور پر علماے سلف کی یاد دلاتا ہے۔ اب ایسے عشاق علم، رُخِ زیبا کا چراغ جلا کر ڈھونڈے سے بھی نہ ملیں گے۔

جو سختی منزل کو سامانِ سفر سمجھے
اے واے تن آسانی ناپید ہے وہ راہی

عربی زبان وادب پر ڈاکٹر صاحب کی قدرت کے حوالے سے ڈاکٹر انصاری صاحب ہی نے بتایا کہ جب وہ عربوں کے سامنے گفتگو فرماتے تو وہ ان کی قدرتِ بیان، فصاحت وبلاغت اور استخصار علمی پہ انگشت بدنداں رہ جاتے تھے۔ کچھ عرصہ قبل درالکتب العلمیہ، بیروت سے حضرت مجدد کے احوال وافکار پر شائع ہونے والی ڈاکٹر غازی ؒ کی کتاب ’’الحرکۃ المجددیہ‘‘ میں ان کے باغ وبہار قلم کے کمال کو ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔

آج جب کہ قحط الرجال کا دور ہے، پرانے بادہ کش اٹھتے جاتے ہیں، ایک چراغ بجھتا ہے تو ظلمتوں کے بسیرے مزید طویل ہو جاتے ہیں، ہر میدان میں موثر افراد ی تیاری بند ہو رہی ہے اور ’’تبقی حثالۃ کحثالۃ الشعیر اوالتمر‘‘ کی نبوی پیشین گوئی مکمل طور پر پوری ہوتی دکھائی دے رہی ہے، ایسے میں ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ کا وجود ایک ابرنیساں، ایک آتش عالم افروز، ایک قلزم بے پایاں تھا۔ وہ فکرارجمند والا ایک بلند دماغ اور زبانِ ہوشمند ودلِ درد مندوالا ایک بے چین داعی تھا جو زندگی کے مختلف میدانوں میں امت کی زبوں حالی پہ وفورِ جذبات میں پکار اٹھتا تھا۔ ؂

نواے من ازاں پر سوز و بے باک و غم انگیز است
بخاشاکم شرار افتاد وبادِ صبح دم تیز است

حضرت سعید بن جبیرؓ (جو حجاج بن یوسف کے ظلم کا نشانہ بنے ) کی موت کے بارے میں میمون بن مہرانؒ اور امام احمد بن حنبلؒ جیسی شخصیات نے کہا تھا: قتل سعید بن جبیر و ما علی وجہ الارض الا ھو محتاج الی علمہ  (سعید بن جبیر کی شہادت ایک ایسے وقت میں ہوئی کہ روئے زمین پہ ہر فرد ان کے علم کا محتاج تھا۔) ڈاکٹر غازیؒ دنیا سے اٹھے ہیں تو اس جملے کا اطلاق ان کی وفات پر کرنا شاید مبالغہ نہ ہو۔ معیشت و تجارت کے مسائل آپ کی بصیرت کے ضرورت مند تھے، قضاو تعلیم کا شعبہ آپ کی دقیقہ رسی کا طالب تھا، دینی مدارس کے نصاب ونظام پر گفتگو کی بات ہوتی تو نظریں ڈاکٹر غازیؒ کی طرف اٹھتی تھیں۔ وہ دنیا سے کیا گئے، علوم دینی ودنیوی کا ایک مفکر داغ مفارقت دے گیا، تفقہ وتدبر کا ایک دبستان بند ہوگیا، وسعت فکر ونظر کا ایک بہتا دریا سوکھ گیا، اپنی ہی ذات میں ایک انجمن اجڑ گئی۔ اے دریغا! کہ بساطِ علم ماتم گسار ہے، فکر ونظر کے افق پہ شامِ غم کی تاریکیاں بکھر گئی ہیں، انسانیت واخلاق کا ایک نمونہ نظروں سے روپوش ہوگیا ہے۔ جی ہاں!یہ مبالغہ نہیں۔ ڈاکٹر ظفر اسحاق انصاری صاحب نے فرمایا کہ کوئی علمی مسئلہ درپیش ہوتا تھا تو ہماری نظریں غازی صاحب کی طرف اٹھتی تھیں اور اطمینان رہتا تھا کہ ان سے مشاورت کر لیں گے، لیکن اب 

شمع روشن بجھ گئی 
بزمِ سخن ماتم میں ہے

ان کے مشہور محاضرات کا سلسلہ قرآن سے شروع ہوا اور دینی مدارس میں قرآن ہی کی تدریس کے حوالہ سے الشریعہ اکادمی میں ان کا محاضرہ ہونا تھا کہ وقت موعود آن پہنچا۔ آغاز و انجام میں حسن مطابقت محض اتفاق ہی نہیں خداوند قدوس کی کسی مشیت کی جانب اشارہ بھی ہے۔

ڈاکٹر غازیؒ کے علمی وفکری کمالات پر اہل علم وفکر ہی گفتگو کریں گے اور وہ اس کے اہل بھی ہیں۔مجھے تو ایک ادنی طالب علم کی حیثیت سے ملک و ملت اسلامیہ کے اس گوہر یک دانہ کے فقدان پہ ان جذبات غم کا اظہار کرنا تھا جو دل کی خاموشیوں میں تموج پید اکرتے ہیں۔

من نیز حاضر می 
شوم تذکار غازی برقلم

میں عالم تصور میں ڈاکٹر غازیؒ کی مرقد پہ کھڑا ہوں اور کسی شاعر کا شعر تصرف کے ساتھ گنگنارہا ہوں۔

ایا قبر غازی! کیف واریت علمہ
و قد کان منہ البر والبحر مترعا

شخصیات

(جنوری و فروری ۲۰۱۱ء)

جنوری و فروری ۲۰۱۱ء

جلد ۲۲ ۔ شمارہ ۱ و ۲

حرفے چند
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ ۔ حیات و خدمات کا ایک مختصر خاکہ
ادارہ

شیخ الحدیث حضرت مولانا عبد الرحمٰن المینویؒ (ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ کے استاذ حدیث)
مولانا حیدر علی مینوی

میری علمی اور مطالعاتی زندگی ۔ (ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ کا ایک غیر مطبوعہ انٹرویو)
عرفان احمد

بھائی جان
ڈاکٹر محمد الغزالی

بھائی محمود
مولانا نور الحسن راشد کاندھلوی

ہمارے بابا
ماریہ غازی

ایک معتمد فکری راہ نما
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

ایک عظیم اسکالر اور رہنما
مولانا محمد عیسٰی منصوری

ڈاکٹر محمود احمد غازی مرحوم
محمد موسی بھٹو

ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ : ایک اسم با مسمٰی
جسٹس سید افضل حیدر

ایک باکمال شخصیت
پروفیسر ڈاکٹر علی اصغر چشتی

ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ - نشانِ عظمتِ ماضی
ڈاکٹر قاری محمد طاہر

مولانا ڈاکٹر محمود احمد غازی ۔ کچھ یادیں، کچھ تأثرات
مولانا مفتی محمد زاہد

ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ ۔ چند خوشگوار یادیں
محمد مشتاق احمد

معدوم قطبی تارا
ڈاکٹر شہزاد اقبال شام

میرے غازی صاحب
ڈاکٹر حیران خٹک

علم و تقویٰ کا پیکر
قاری خورشید احمد

میری آخری ملاقات
ڈاکٹر محمد افتخار کھوکھر

مرد خوش خصال و خوش خو
مولانا سید حمید الرحمن شاہ

ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ ۔ کچھ یادیں، کچھ باتیں
ڈاکٹر محمد امین

ایک بامقصد زندگی کا اختتام
خورشید احمد ندیم

اک دیا اور بجھا!
مولانا محمد ازہر

ایک معتدل شخصیت
مولانا محمد اسلم شیخوپوری

ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ، ایک مشفق استاد
شاہ معین الدین ہاشمی

روئے گل سیر نہ دیدم و بہار آخر شد
ڈاکٹر حافظ سید عزیز الرحمن

یاد خزانہ
ڈاکٹر عامر طاسین

ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ ۔ چند تاثرات
محمد عمار خان ناصر

ڈاکٹر محمود احمد غازی علیہ الرحمۃ
ڈاکٹر حافظ صفوان محمد چوہان

ڈاکٹر غازیؒ ۔ چند یادداشتیں
محمد الیاس ڈار

ایک ہمہ جہت شخصیت
ضمیر اختر خان

اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا
محمد رشید

آفتاب علم و عمل
مولانا ڈاکٹر صالح الدین حقانی

شمع روشن بجھ گئی
مولانا سید متین احمد شاہ

علم کا آفتاب عالم تاب
ڈاکٹر حسین احمد پراچہ

دگر داناے راز آید کہ ناید
حافظ ظہیر احمد ظہیر

ایک نابغہ روزگار شخصیت
سبوح سید

تواریخ وفات ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ
مولانا ڈاکٹر خلیل احمد تھانوی

ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ ۔ تعزیتی پیغامات و تاثرات
ادارہ

ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ ۔ فکر و نظر کے چند نمایاں پہلو
ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی

ڈاکٹر غازی مرحوم ۔ فکر و نظر کے چند گوشے
ڈاکٹر محمد شہباز منج

کاسموپولیٹن فقہ اور ڈاکٹر غازیؒ کے افکار
محمد سلیمان اسدی

آتشِ رفتہ کا سراغ
پروفیسر محمد اسلم اعوان

اسلام کے سیاسی اور تہذیبی تصورات ۔ ڈاکٹر محمود احمد غازی کے افکار کی روشنی میں
محمد رشید

سلسلہ محاضرات: مختصر تعارف
ڈاکٹر علی اصغر شاہد

’’محاضراتِ قرآنی‘‘ پر ایک نظر
حافظ برہان الدین ربانی

ڈاکٹر غازیؒ اور ان کے محاضرات قرآن
سید علی محی الدین

’’محاضرات فقہ‘‘ ۔ ایک مطالعہ
چوہدری محمد یوسف ایڈووکیٹ

محاضراتِ معیشت و تجارت کا ایک تنقیدی مطالعہ
پروفیسر میاں انعام الرحمن

تحریک سید احمد شہید رحمہ اللہ کا ایک جائزہ
ڈاکٹر محمود احمد غازی

اسلام میں تفریح کا تصور
ڈاکٹر محمود احمد غازی

اسلام اور جدید تجارت و معیشت
ڈاکٹر محمود احمد غازی

ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ سے ایک انٹرویو
مفتی شکیل احمد

ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ ۔ منتخب پیش لفظ اور تقریظات
ادارہ

مختلف اہل علم کے نام ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ کے چند منتخب خطوط
ڈاکٹر محمود احمد غازی

مکاتیب ڈاکٹر محمد حمیدؒ اللہ بنام ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ
ادارہ

ڈاکٹر غازیؒ کے انتقال پر معاصر اہل علم کے تاثرات
ادارہ

ریجنل دعوۃ سنٹر کراچی کے زیر اہتمام تعزیتی ریفرنس
آغا عبد الصمد

ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ کی یاد میں رابطۃ الادب الاسلامی کے سیمینار کی روداد
ادارہ

ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ ۔ ورلڈ اسلامک فورم کے زیر اہتمام تعزیتی نشست
ادارہ

ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ ۔ رسائل و جرائد کے تعزیتی شذرے
ادارہ

ایک نابغہ روزگار کی یاد میں
پروفیسر ڈاکٹر دوست محمد خان

تلاش

Flag Counter