بھائی جان

ڈاکٹر محمد الغزالی

(۱۹ دسمبر ۲۰۱۱ء کو رابطۃ الادب الاسلامی پاکستان کے زیر اہتمام جامعہ اسلامیہ امدادیہ فیصل آباد میں ڈاکٹر محمود احمد غازی کی یاد میں منعقدہ سیمینار میں خطاب۔)


الحمد للہ رب العالمین والصلوۃ والسلام علی رسولہ الکریم وعلیٰ آلہ واصحابہ اجمعین۔

واقعہ یہ ہے کہ آپ سب حضرات بھائی جان کو مجھ سے شاید زیادہ ہی جانتے ہوں گے۔ میں بطور بھائی کے یقیناًنسبی رشتہ رکھتا ہوں، لیکن مجھے آپ حضرات کی گفتگو سن کر بہت رشک آیا۔ اس سے اندازہ ہوا کہ بھائی صاحب کی کوششیں جو وہ بہت خاموشی سے کرتے رہتے تھے اور پتہ بھی نہیں چلتا تھا، الحمد للہ اس قدر اس کی بازگشت ہے، اہل علم کے ہاں اعتراف ہے اور طلبہ اور تشنگان علم کے ہاں اس کی پوری قدر ہے۔ ابھی میرے چچا مولانا اسعد تھانوی صاحب نے اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ والد مرحوم نے بہت عزیمت کے ساتھ فیصلہ کیا تھا کہ اپنے بچوں کو قرآن حفظ کرائیں گے اور دینی تعلیم سے ان کوبہرہ مند کریں گے۔ اس پر ایک واقعہ یاد آتا ہے جس سے اس بات کی مزید توضیح اور تاکید ہوتی ہے جو میرے چچا صاحب نے بیان فرمائی۔ 

بچپن کا واقعہ ہے ۔ بھائی صاحب کو بہت ابتدائی عمر میں کوئی بخار ہوا تھا جس کی کوئی بہت سخت دوا کسی ڈاکٹر نے دی تھی تو ان کی زبان میں لکنت ہو گئی تھی ۔ جب وہ قرآن حفظ کرنے کے لیے بیٹھے تو اس وقت ان کی زبان میں اچھی خاصی لکنت تھی۔ رفتہ رفتہ وہ لکنت کم ہو گئی، شاید بہت سے لوگوں کو علم نہ ہو کہ تھوڑی بہت اخیر تک رہی۔ آخر میں انھوں نے بڑی حد تک اس پر قابو پا لیا تھا۔ آپ کو پتہ ہے کہ مکتبوں میں پڑھانے والے جو ہوتے ہیں، وہ کس قماش کے لوگ ہوتے ہیں۔ کراچی میں جس کے پاس ان کو بٹھایا، اس نے یہ سوچے بغیر کہ ایک بچے پر نفسیاتی طور پر کتنا برا اثر ہوتا ہے، کہہ دیا کہ یہ نہیں پڑھ سکتا، اس کو اٹھا لیجیے۔ والد صاحب گئے، اس سے ملے اور پوچھا کہ کیا بات ہے، یہ کیوں حفظ نہیں کر سکتا؟ انھوں نے کہا کہ یہ اٹکتا ہے، اس کی زبان سے لفظ نکلتا ہی نہیں۔ اس کی زبان میں لکنت ہے، یہ نہیں حفظ کر سکتا۔ والد صاحب مرحوم نے کہا کہ اچھا بیس برس میں تو کر لے گا نا؟ اب وہ کیا کہتا کہ بیس برس میں بھی نہیں کرے گا! خاموش ہوگیا۔ والد صاحب نے کہا کہ مجھے منظور ہے۔ یہ کچھ نہ کرے، قرآن حفظ کر لے، مجھے منظور ہے۔ اتنا یقین تھا ان کا اور یہ یقین ایک ایسے شخص کا تھا جو دن رات ایسے لوگوں میں اٹھتا بیٹھتا تھا جو نہ صر ف یہ کہ ایک دوسرے رنگ کے تھے بلکہ ہمارے والد اور والدہ کو طعن وتشنیع کرنے والے بھی بہت ملتے تھے۔ ایسے کلمات بھی سننے کو ملتے تھے کہ اگر آپ کے پاس اسکول کی فیس نہیں ہے تو ہم دینے کو تیار ہیں، آپ کیوں ان کی زندگی برباد کرتے ہیں۔ مگر ہمارے والدین نے کبھی کوئی جواب ہی نہیں دیا۔ نہ دفاع کیا، نہ وضاحت کی، نہ کسی سے لڑائی جھگڑا کیا۔

دوسری بات یہ ہے کہ بھائی صاحب کے اندر کچھ خدادا دا ملکہ اور صلاحیت عجیب وغریب تھی اور بہت ذوق وشوق تھا پڑھنے کا۔ مجھے یاد نہیں ہے اور اس میں ذرہ برابر بھی مبالغہ نہیں کہ کبھی بچپن میں بھی انھوں نے کھیل کھلونے میں کوئی دلچسپی لی ہو۔ ہمارے والد کہیں سفر پر جاتے تھے تو وہ ان سے کتاب ہی کی فرمائش کرتے تھے۔ کبھی نہیں ہوا کہ انھوں نے کبھی کوئی کھلونا یا بچپن یا لڑکپن میں جن چیزوں سے دلچسپی ہوتی ہے، اس کا کبھی مطالبہ کیا ہو۔ ویسے وہ مطالبہ ہی بہت کم کرتے تھے۔ یہ بھی ان کی ایک عجیب وغریب بات تھی کہ بہت بے نیاز تھے۔ کبھی کسی سے کچھ نہیں کہتے تھے، حتیٰ کہ والدین سے بھی اپنی کوئی ذاتی خواہش یا فرمائش کرتے میں نے نہیں دیکھا۔ آپ حضرات جو واقف ہیں، وہ بھی اس کی گواہی دیں گے۔ اگر کبھی والد صاحب نے اصرار کیا کہ ہاں بتاؤ، تمھارے لیے کیا لاؤں تو کوئی کتاب بتا دی۔ کتاب سے بہت زیادہ دلچسپی اور علم کا حصول ان کی اولین priority تھی۔ کوئی ambition نہیں تھی، دنیا کی کوئی خواہش نہیں تھی۔ 

کراچی میں ہم جیکب لائن سے بنوری ٹاؤن پڑھنے جاتے تھے۔ فاصلہ غالباً چار پانچ کلومیٹر ہوگا تو وہ اکثر مجھے ورغلا کر لے جاتے تھے کہ ہم پیدل چلیں گے۔ راستے میں قائد اعظم کا مزار آئے گا اور پھر وہاں سے مدرسے چلیں گے ۔ وہ اس میں کچھ تفریح کا رنگ پیدا کرتے اور میں ان کی باتوں میں آ جاتا تھا۔ پتہ یہ چلا کہ وہ پیسے بچا کر کتابیں خریدتے ہیں۔ اس طرح ’’سازشیں‘‘ کر کے انھوں نے بچپن سے کتابیں جمع کیں اور کیا کسی عورت کو زیور سے دلچسپی ہوگی اور کسی اور شخص کو اپنی پسندیدہ چیز سے جو انھیں کتاب سے تھی۔ اخیر عمر تک کتابیں سنبھال سنبھال کر رکھتے رہے، یہاں تک کہ گھر میں جگہ تنگ پڑ گئی۔ بیڈ روم میں کتابیں، لاؤنج میں کتابیں، ڈرائنگ روم میں کتابیں، ڈائننگ روم میں کتابیں ہی کتابیں۔ تو جب کوئی شخص علم کی طلب ایسی رکھتا ہو تو پھر اللہ تعالیٰ کے یہاں سے بھی اس پر فضل ہوتا ہے۔ ہوتا یہ ہے کہ دعویٰ تو ہم لوگ کرتے ہیں کہ ہم علم دوست ہیں، کتاب دوست ہیں، لیکن حقیقت میں ہماری دل کی خواہش جس کو کہتے ہیں: ہوی الاحبۃ منہ فی سوداءہ، وہ نہیں ہوتی۔ جب وہ ہو جائے تو پھر عطا ہوتی ہے۔ کلا نمد ہولاء وہولاء، اللہ تعالی کا اصول ہے۔ جو چیز جو طلب کرتا ہے، ضرور ملتی ہے۔جتنی طلب کرتا ہے، اتنی ملتی ہے۔ 

دیتے ہیں بادہ ظرف قدح خوار دیکھ کر

تو بھائی صاحب میں غیر معمولی صلاحیتیں پیدا ہوئیں، حالانکہ ظاہری اسباب کو دیکھا جائے تو چار سال انھوں نے بنوری ٹاؤن میں پڑھا، اس کے بعد دار الحکومت منتقل ہوا تو ہم لوگ اسلام آباد آ گئے۔ ایک چھوٹا سا مدرسہ تھا قاری محمد امین صاحب کا۔ وہ ہمارے والد صاحب کے دوست تھے او رمسجد فتح پوری دہلی میں جومشہور مدرسہ ہے، وہاں کے پڑھے ہوئے تھے۔ مولانا یوسف بنوری صاحب مرحوم نے ایک ذاتی خط لکھا تھا کہ یہ دو بچے ہیں، ان کا خیال رکھیے گا اور ان کو اپنے مدرسے میں داخل کر لیجیے گا تو وہاں ہم کچھ دن رہے۔ وہاں قاری امین صاحب ہی ایک کام کے آدمی تھے، باقی وہ مدرسہ ایسا ہی تھا۔ پھر ہم مولانا غلام اللہ خان کے مدرسے میں داخل ہوئے۔ ان کے نام مولانا احتشام الحق تھانوی نے خط لکھ دیا تھا کہ ان کا خیال رکھیے گا اور انھوں نے واقعی بہت خیال رکھا۔ان کے ہاں دورۂ حدیث پشتو میں ہوتا تھا۔ اس زمانے میں بہت مشہور حدیث کے عالم تھے، مولانا عبد الرحمن۔ان کے بھائی تھے، مولانا عبد الحنان۔ دونوں سوات کے کسی دیہات کے رہنے والے تھے۔ غیر معروف تھے، لیکن فنا فی الحدیث اور بہت عالم فاضل شخصیت تھے۔ بہت سے لوگ افغانستان میں ان کے معتقد تھے۔ اکثریت چونکہ پشتون لوگوں کی تھی تو دورۂ حدیث پشتو میں ہوتا تھا۔ بھائی صاحب کا جب نمبر آیا تو ان کو ایک اور ملکہ یہ تھا کہ مسئلہ یوں چٹکیوں میں حل کرتے تھے۔ جو مسئلہ بہت مشکل لگتا، اس کو وہ بہت آسانی سے حل کر لیتے تھے۔ استاد نے کہا کہ تمھارا کیا ہوگا، یہاں تو دورہ پشتو میں ہوتا ہے۔ بھائی صاحب نے کہا کہ آپ عربی میں دورہ کرایا کریں۔ اب استاد کے لیے یہ کہنا مشکل ہوا کہ بھئی عربی میں نہیں ہو سکتا، اس لیے کہ جب آدمی اس درجے کو پہنچ گیا کہ بخاری، مسلم، ترمذی پڑھے تو وہ کیسے کہہ سکتا ہے کہ میں عربی نہیں سمجھ سکتا۔ چنانچہ اس کے بعد عربی میں دورہ شروع ہو گیا۔ مجھے بھی فائدہ ہو گیا۔ جب میری باری آئی تو دورۂ عربی میں ہی ہوتا تھا۔ کہیں کہیں وہ وضاحت کے لیے کچھ بات پشتو میں بھی بتا دیتے تھے۔ استاد کو عربی میں پڑھانے میں کوئی دقت نہیں تھی، طلبہ کچھ تھوڑے بہت چیں بجبیں ہوئے، لیکن کوئی کچھ کہہ نہیں سکا۔ بہت متبحر، بہت ہی اعلیٰ پایے کے استاذ تھے۔ ان کی اصول حدیث پر عربی میں ایک دو کتابیں بھی ہیں۔ 

اسی طرح کا ایک واقعہ ہے کہ میرا نام والد نے صرف ’’محمدؒ ؒ ‘‘ رکھا تھا۔ عربوں میں تو اس کا بہت رواج ہے کہ مفرد نام ہوتا ہے، جیسے محمد، علی، احمد۔ ہمارے ہاں اکثر مرکب ناموں کا رواج ہے اور خاص طور پر اگر کسی کا نام اکیلا محمد ہو تو اسے بے ادبی سمجھتے ہیں۔ جب بھائی جان مجھے بنوری ٹاؤن میں داخل کروانے لے گئے تو جو صاحب رجسٹر پر نام لکھ رہے تھے، انھوں نے کہا کہ یہ اکیلا محمد کیا نام ہوا؟ مرکب نام ہونا چاہیے۔ بھائی صاحب نے ایک سیکنڈ کے توقف کے بغیر کہا کہ محمد الغزالی لکھ دیں۔ پہلے یہ مسئلہ زیر غور نہیں آیا، نہ انھوں نے اس پرسوچا۔ بس چھٹتے ہی کہہ دیا۔ تب سے میرا یہ نام پڑ گیا۔ اسی طرح ہمارے والد کے ایک دوست تھے مولانا ابوالخیر مسلم علوی، اسلامی کاموں میں بہت پیش پیش رہتے تھے۔ انھوں نے ایک دفعہ ان سے کہا کہ تمہار انام محمود احمد ہے۔ کوئی لقب بھی ہونا چاہیے ، لقب کے بغیر نام اچھا نہیں لگتا۔ بھائی جان نے اسی وقت کہا کہ: محمود احمد غازی۔ 

اسی طرح ایک لطیفہ بھی عرض کر دوں۔ مرحوم ضیاء الحق کی شہادت ہوئی تو غلام اسحاق خان مرحوم نے بھائی صاحب کوبلا کر کہا کہ نماز جنازہ آپ پڑھائیے گا۔ انھوں نے پڑھا دی۔ اس کے چند ماہ بعد بے نظیر کی حکومت آگئی اور ایک دوسرارنگ پیدا ہو گیا تو ہمارے بچوں میں سے کسی نے کہا کہ دیکھیے، آپ کی بڑی شہرت ہوئی ہے کہ آپ نے ضیاء الحق کی نماز جنازہ پڑھائی ہے۔ بے نظیر اس کی بہت مخالف ہے۔ اگراس نے آپ سے پوچھا کہ آپ نے کیوں نماز جنازہ پڑھائی ہے تو آپ کیا جواب دیں گے؟ کہنے لگے کہ میں کہوں گا کہ میں تمھاری بھی پڑھانے کو تیار ہوں۔ تو کتنا ہی گمبھیر مسئلہ ہو، الحمد للہ ان میں اس کو فوراً حل کر دینے کی خاص صلاحیت تھی۔

آپ حضرات نے علم میں ان کے توسع کا ذکر کیا۔ خالص درسی جو دائرہ ہے، اس سے باہر دینی علوم اور عصری علوم پر جو کچھ اس زمانے میں عربی اور اردو میں لکھا گیا، اس سے بہت پہلے سے انھوں نے ابتدائی زندگی سے ہی بہت استفادہ کرنا شروع کر دیا تھا۔ ایک دو اساتذہ انھیں بہت اچھے ملے۔ ان میں ایک تھے استاد محمد یوسف عطیہ۔ وہ ان چند اولین لوگوں میں سے تھے جو مصر سے تشریف لائے تھے۔ مولانا بنوری مرحوم کے مدرسے میں انھوں نے عربی زبان پڑھائی تو بھائی صاحب نے بہت استفادہ کیا۔ ان کے گھر بھی جاتے تھے۔ جب وہ یہاں سے چلے گئے تو خط وکتابت بھی کرتے تھے۔ پھرایک بڑی عظیم شخصیت ہمارے ملک میں ہوئے ہیں مولانا عبد القدوس ہاشمی مرحوم۔ غالباً مولانا مجاہد الحسینی صاحب کو بھی ان سے تعارف حاصل ہوگا۔ ان سے بہت کسب فیض کیا۔ یہ بات بہت اہم ہے کہ صرف کتاب سے ہی علم حاصل نہیں ہوتا۔ اس سے بہت زیادہ علم حاصل ہو جاتا ہے اگر کسی چلتی پھرتی کتاب سے آپ صحبت کریں اور اکتساب فیض کریں۔ اس کی ان کوبڑی لگن تھی۔ جہاں کسی صاحب علم کو دیکھا، وہ بس اس کے ہو کر رہ جاتے تھے۔ آپ نے سنا کہ صاوی شعلان صاحب آئے ہوئے تھے۔ ایوب خان مرحوم نے ان کو بلایا تھا اور ان کے ذمے اقبال کے کلام کا ترجمہ تھا۔ وہ ہمارے ادارۂ تحقیقات اسلامی کی لائبریری میں بیٹھے تھے۔ ان سے تعارف ہوا او ر ان کے پاس گھنٹوں بیٹھے رہے۔ انھوں نے سوچا کہ یہی میرے کام کا آدمی نکلے گا۔ اس وقت بھائی جان اتنے کم عمر تھے کہ ڈاڑھی بھی پوری طرح نہیں نکلی تھی۔ انھوں نے ایک سال صاوی شعلان کے پایے کے ادیب اور شاعر کے ساتھ کام کیا جو بہت ہی غیر معمولی صلاحیتوں کے حامل آدمی تھے اور جناب ڈاکٹر ابراہیم صاحب نے بجا کہا کہ کلام اقبال کے عربی ترجمے درجنوں ہیں، لیکن جو درجہ صاوی صاحب کے منظوم ترجمے کوحاصل ہوا ہے، کسی کو نہیں ملا۔ کہیں کہیں تو لگتا ہے کہ ترجمہ اصل سے بھی آگے بڑھ گیا ہے۔ 

ختم نبوت کے مسئلے سے انھیں کوئی خاص اعتنا نہیں تھا۔ جیسے ہر مسلمان اس سے واقف ہوتا ہے، وہ بھی واقف تھے، لیکن ایک موقع پر ساؤتھ افریقہ کی سپریم کورٹ میں یہ مسئلہ زیر بحث آیا تو سوال ہوا کہ کون وہاں پیش ہو کر اسلام کا موقف بیان کرے۔ سب علماء کرام نے جو اس سلسلے میں سرگرم تھے، ان کو کہا کہ آپ یہ کام کریں تو وہ اس پرتیار ہو گئے۔ ایک دفعہ وہ چیلنج قبول کر لیتے توپھر اپنی صلاحیتوں کے ساتھ اس میں ہمہ تن لگ جاتے تھے۔ پانچ ہفتے تک ان کا سپریم کورٹ میں بیان ہوا۔ یہ آسان کام نہیں تھا، اس لیے کہ دوسری طرف سے پوری دنیا کی قادیانی جماعت، اس کے نمائندے اور ان کے وکیل پوری تیاری کے ساتھ اعتراض کرنے کے لیے، جرح کرنے کے لیے کھڑے ہوتے تھے۔ اس طرف سے مسلمان علما اور دوسرے لوگوں کی جماعت تھی جو ان کی مدد کرتی تھی، لیکن جتنی بھی مدد ہو، بہرحال سپریم کورٹ میں پیش ہونا تھا جہاں ہر بات کے لیے دلیل طلب کی جاتی ہے۔ الحمد للہ پانچ ہفتے تک روزانہ صبح نو بجے سے ایک بجے تک ان کا بیان ہوا۔ وہ جب لکھا گیا تو تقریباً ساڑھے پانچ ہزار صفحوں پر محیط تھا۔ اب اس میں اس طرح کی بحثیں آئیں کہ ختم نبوت اسلام کا ایسا عقیدہ ہے کہ جو اس کامنکر ہو، وہ کافر ہے۔ انھوں نے چیلنج کیا کہ جناب، دلیل دیجیے۔ ختم نبوت کو define کیجیے، نبوت کو ڈیفائن کیجیے، وحی کو کیجیے، الہام کو کیجیے۔ مرزا صاحب کہتے تھے الہام آتا ہے، میں بروزی نبی ہوں، ظلی نبی ہوں تو نبوت کیا ہے، اس کی حقیقت کیا ہے اور آپ کے پاس دلیل کیا ہے؟ یہ بات جب آپ کہتے ہیں کہ جو ختم نبوت کا منکر ہے، وہ دائرۂ اسلام سے خارج ہے تو اس میں بہت سارے مقدمات ہیں۔ ہر مقدمے کے لیے دلیل چاہیے۔ پھر آپ کہتے ہیں کہ اس پر اجماع ہے تو بتائیے، اجماع کیا چیز ہے۔ اجماع پر بحث شروع ہو گئی۔ علیٰ ہذا القیاس مرزا صاحب صوفیہ کی بعض تحریروں کا سہارا لیا کرتے تھے تو تصوف پر بحث شروع ہو گئی کہ کشف کیا ہے؟ الہام کیا ہے؟ صوفیانہ انداز کا جو اکتساب علم ہوتا ہے، وہ کیا ہے؟ وحی کیا ہے جس کی بنا پر ایمان وکفر کا مسئلہ طے ہوتا ہے؟ وغیرہ وغیرہ۔

اسی طرح ایک زمانہ آیا جب کچھ اسلامی قوانین کا نفاذ ہو رہا تھا۔ اسلامی نظریاتی کونسل میں اور شریعت کورٹ میں مسائل زیر بحث تھے۔ مرحوم ضیاء الحق صاحب اس میں کچھ پیش پیش تھے۔ بھائی صاحب کو اس میں کچھ حصہ لینے کا موقع ملا تو بعض مواقع پر ایسا لگتا تھا کہ شاید انھوں نے یہی کام ساری عمر کیا ہے۔ میں ایک واقعے کی طرف اشارہ کروں گا۔ ضیاء الحق صاحب نے جب جونیجو حکومت کو برخواست کیا تو وہ یہ چاہتے تھے کہ ایک شریعت آرڈیننس نافذ کریں جس کا مقصد فیڈرل شریعت کورٹ کے اختیار سماعت میں توسیع کرنا تھا۔ آپ کو یاد ہوگا کہ ۸۱ء میں فیڈرل شریعت کورٹ بنی تھی تو اس کے اختیارات دو قسم کے تھے۔ ایک تو یہ کہ سیشن کورٹ میں جو حدود اور قصاص وغیرہ کے مقدمات کے فیصلے ہوتے ہیں، اس کے خلاف اپیل شریعت کورٹ سنے گی اور اس کے بعد اپیل ہوگی سپریم کورٹ کی شریعت اپیلٹ بنچ میں۔ اس کا دوسرا اختیار جس کو original jurisdiction کہتے ہیں، یہ تھا کہ کوئی بھی شہری شریعت پٹیشن دائر کر سکتا ہے جس میں وہ پاکستان کے کسی بھی قانون کو یا قانون کے جز کو چیلنج کر سکتا ہے کہ یہ قرآن وسنت سے متعارض ہے، لہٰذا اس کو کالعدم کیا جائے یابدلا جائے۔ شروع میں وفاقی شرعی عدالت کے اختیار سماعت سے مالی قوانین، دستور اور پروسیجر کو مستثنیٰ رکھا گیا تھا۔ بہت سے استثناء ات تھے جن میں کچھ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کم ہو گئے ہیں، کیونکہ وہ خاص وقت تک کے لیے تھے۔ ضیاء الحق صاحب چاہتے تھے کہ ایک شریعت آرڈیننس آئے جس میں یہ استثناء ات ختم کر دیے جائیں۔ ان کی لیگل ٹیم میں اس وقت جسٹس ارشاد حسن خان تھے جو بعد میں چیف جسٹس ہوئے۔ اس وقت وہ لاء سیکرٹری تھے۔ ان کے علاوہ عزیز منشی صاحب اٹارنی جنرل تھے اور شریف الدین پیرزادہ بھی تھے۔ ان تینوں حضرات نے ضیاء الحق صاحب سے کہا کہ آپ کچھ نہیں کر سکتے، اس لیے کہ اگر آپ آرڈیننس لائیں گے تو یہ دستور میں ترمیم ہے اور دستور میں ترمیم پارلیمنٹ کے بغیر نہیں ہو سکتی جسے آپ نے ڈس مس کر دیا ہے۔ آرڈیننس تو قانون ہوتا ہے جو چھ مہینے کے لیے ہوتا ہے، تا آنکہ پارلیمنٹ اس کو منظور کرے یامسترد کرے۔ آرڈیننس کے ذریعے قانون سازی تو ہو سکتی ہے، دستور سازی نہیں ہو سکتی نہ دستور میں ترمیم ہو سکتی ہے، لہٰذا یہ کام نہیں ہو سکتا۔ 

ضیاء الحق صاحب اس پر بہت frustrated ہوئے۔ ان دنوں ان پر اس خیال کا بہت غلبہ تھا کہ میں نے اب تک جو کیا ہے، وہ کافی نہیں ہے۔ شاید بعض اہل ایمان وتقویٰ کو احساس بھی ہو جاتا ہے کہ اب وہ جانے والے ہیں تو ان کو بہت لگن تھی کہ کچھ ہو جائے۔ ہمارے بھائی صاحب کی موجودگی میں ان تینوں آدمیوں نے ضیاء الحق صاحب سے کہا کہ جی، یہ نہیں ہو سکتا۔ آپ جو چاہیں اس آرڈیننس میں لکھ دیں، لیکن وہ جو استثنا ہے کہ شریعت کورٹ مالیات سے متعلق معاملات کو نہیں سن سکتی، پروسیجر کو نہیں سن سکتی، کانسٹی ٹیوشن کے خلاف نہیں کچھ سن سکتی، اسی طرح ایک دو اور چیزیں ہیں، یہ استثنا ختم نہیں ہو سکتا۔ یہ میٹنگ رات کے بارہ بجے تک چلتی رہی۔ ضیاء الحق صاحب بھی بہت دیر تک کام کرنے کے عادی تھے۔ میٹنگ کے بعد بھائی صاحب تھکے ہارے گھر آئے اور آ کر کہا کہ مجھے کچھ چائے یا کافی پلا دو، مجھے کام کرنا ہے اور کمرے میں بند ہو گئے۔ صبح کی نماز تک وہ دستور، دستورکی شرحیں اور اس سے متعلق کچھ اہم فیصلوں کا پلندہ جو وہ کہیں سے لے آئے تھے، پڑھتے رہے۔ ساری رات اس میں لگے رہے اور صبح کے قریب وہ اچھل پڑے اور انھوں نے مجھے بھی بتایا۔ انھیں بڑی خوشی ہوئی کہ کہیں ایک جگہ یہ لکھا ہوا مل گیا کہ کسی کورٹ کی جورس ڈکشن وہ ہوگی جو اس دستور میں طے کر دی گئی ہے اور جس کی وضاحت فلاں فلاں جگہ کی گئی ہے اور آخر میں ایک چھوٹا سا جملہ یہ لکھا ہوا تھاکہ: by law۔ تو انھوں نے کہا کہ جب قانون کے ذریعے کسی عدالت کی جورس ڈکشن طے ہو سکتی ہے تو آرڈیننس جو ہوتا ہے، وہ قانون کا متبادل ہوتا ہے، اس لیے آرڈی ننس سے بھی ہو سکتی ہے۔ چنانچہ اس مقصد کے لیے آرڈی ننس لایا جا سکتا ہے کہ شریعت کورٹ کے اختیارات پر قدغن کم کیے جائیں یا ختم کیے جائیں۔ 

اگلے دن وہ لیس ہو کر ان کے سامنے پہنچ گئے۔ اب میٹنگ شروع ہوئی تو ضیاء الحق صاحب نے ان سے شاید کہا تھا کہ آپ تیاری کر کے آئیے گا۔ انھوں نے ضیاء الحق صاحب کے سامنے بہت مدلل انداز میں یہ ساری بات رکھ دی تو ضیاء الحق صاحب اپنی لیگل ٹیم پر بہت ناراض ہوئے۔ وہ عام طور ناراض نہیں ہوتے تھے،لیکن ہوتے تھے تو بہت زیادہ ہوتے تھے۔ وہ جو عربی میں کہتے ہیں کہ اتقوا غضب الحلیم تو غضب الحلیم تھا ان میں۔ انھوں نے ان حضرات یعنی شریف الدین پیرزادہ، جسٹس ارشاد حسن خان اور عزیز منشی سے کہا کہ میں نے تمھیں یہاں گھاس چرنے کے لیے بلایا تھا؟ تم اتنے دن سے مجھے دھوکہ دے رہے ہو، جھوٹ بول رہے ہو؟ جو کچھ کہہ سکتے تھے، انھوں نے کہا۔ بھائی صاحب کہہ رہے تھے کہ جب انھیں ڈانٹ پڑ رہی تھی تو مجھے تھوڑا تھوڑا ڈر بھی لگا کہ باہر نکل کر یہ میرا کیا حشر کریں گے۔ بہرحال وہ بات مانی گئی اور آرڈیننس بن گیا۔ ضیاء الحق صاحب نے نافذ بھی کر دیا، لیکن اس کے بعد دن بے نظیر کی حکومت آئی، چھ مہینے گزر گئے اور پارلیمنٹ نے اس کو منظور نہیں کیا۔ 

یہ ایک چھوٹی سی مثال ہے ان کی لگن، commitment اور دلی شوق کی۔ دنیا کی تہذیب اور تمدن میں جوبھی کارنامے ہوئے ہیں، وہ شوق کے بغیر نہیں ہو سکتے تھے۔ تاریخ انسانی میں جو کچھ دنیاے انسانیت نے حاصل کیا ہے، وہ شوق اور عشق کا کرشمہ ہے۔ بڑے بڑے کارنامے اسی سے انجام پاتے ہیں۔ تو ان کو ایک شوق تھا، ایک عشق تھا اور میں نے ان کو پچاس سال دیکھا ہے۔ پچاس سال کے دوران وہ جس بات پرخوش ہوتے تھے، وہ یہی تھی کہ کوئی علمی کام ہو گیا، کوئی علمی نکتہ مل گیا، کوئی کتاب مل گئی، کوئی بات سمجھ میں آ گئی، کسی نے کوئی بات سمجھ لی، کوئی اچھا طالب علم ان کے پاس آکر اچھا کام کر گیا۔ کنفیوشس چینی فلسفی ہے۔ اس کا مشہو رجملہ ہے کہ ایک آدمی کو دیکھو، اس کی خوشی کے لمحات کودیکھو، اس کے غم کے لمحات کو دیکھو، اس کے حیرت کے لمحات کو دیکھو، اس کے دوست کو دیکھو، دشمن کو دیکھو، آدمی اپنے آپ کو کیسے چھپا سکتا ہے؟ تو حقیقت یہ ہے کہ علم دین کا حصول ، اس کا فروغ، اسی کے لیے وہ جیے، اور کسی چیز میں دلچسپی نہیں لی، حتیٰ کہ اپنی صحت کی طرف سے بے انتہا لاپروائی برتی۔ آپ کو حیرت ہوگی کہ انھوں نے زندگی میں کبھی کسی ڈاکٹر سے رجوع نہیں کیا۔ کبھی بیمار نہیں ہوئے، ایک دن کے لیے صاحب فراش نہیں ہوئے۔ ظاہر ہے کہ بیماریاں تو لگی رہتی ہیں انسان کے ساتھ، لیکن چھوٹی موٹی تکلیف کو کبھی خاطرمیں نہیں لاتے تھے۔ آخری دن چند گھنٹے وہ ہسپتال میں لیٹے۔ اس دوران وہ قرآن پڑھتے رہے اور زیادہ بات نہیں کی۔ پھر فجر کا وقت ہوا تو اسی بستر میں بیٹھے بیٹھے وضو کر لیا، ڈاکٹر سے پوچھا ہی نہیں۔ عموماً آئی سی یو، سی سی یو میں اتنی حرکت کی اجازت نہیں ہوتی۔ ہمارا بیٹا تھا۔ انھوں نے اس سے کہا جلدی میں کہ وضو کرواؤ، اس نے وہیں وضو کروا دیا۔ بستر میں نماز پڑھی اور پھر یہ جا وہ جا۔ و آخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔

شخصیات

(جنوری و فروری ۲۰۱۱ء)

جنوری و فروری ۲۰۱۱ء

جلد ۲۲ ۔ شمارہ ۱ و ۲

حرفے چند
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ ۔ حیات و خدمات کا ایک مختصر خاکہ
ادارہ

شیخ الحدیث حضرت مولانا عبد الرحمٰن المینویؒ (ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ کے استاذ حدیث)
مولانا حیدر علی مینوی

میری علمی اور مطالعاتی زندگی ۔ (ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ کا ایک غیر مطبوعہ انٹرویو)
عرفان احمد

بھائی جان
ڈاکٹر محمد الغزالی

بھائی محمود
مولانا نور الحسن راشد کاندھلوی

ہمارے بابا
ماریہ غازی

ایک معتمد فکری راہ نما
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

ایک عظیم اسکالر اور رہنما
مولانا محمد عیسٰی منصوری

ڈاکٹر محمود احمد غازی مرحوم
محمد موسی بھٹو

ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ : ایک اسم با مسمٰی
جسٹس سید افضل حیدر

ایک باکمال شخصیت
پروفیسر ڈاکٹر علی اصغر چشتی

ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ - نشانِ عظمتِ ماضی
ڈاکٹر قاری محمد طاہر

مولانا ڈاکٹر محمود احمد غازی ۔ کچھ یادیں، کچھ تأثرات
مولانا مفتی محمد زاہد

ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ ۔ چند خوشگوار یادیں
محمد مشتاق احمد

معدوم قطبی تارا
ڈاکٹر شہزاد اقبال شام

میرے غازی صاحب
ڈاکٹر حیران خٹک

علم و تقویٰ کا پیکر
قاری خورشید احمد

میری آخری ملاقات
ڈاکٹر محمد افتخار کھوکھر

مرد خوش خصال و خوش خو
مولانا سید حمید الرحمن شاہ

ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ ۔ کچھ یادیں، کچھ باتیں
ڈاکٹر محمد امین

ایک بامقصد زندگی کا اختتام
خورشید احمد ندیم

اک دیا اور بجھا!
مولانا محمد ازہر

ایک معتدل شخصیت
مولانا محمد اسلم شیخوپوری

ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ، ایک مشفق استاد
شاہ معین الدین ہاشمی

روئے گل سیر نہ دیدم و بہار آخر شد
ڈاکٹر حافظ سید عزیز الرحمن

یاد خزانہ
ڈاکٹر عامر طاسین

ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ ۔ چند تاثرات
محمد عمار خان ناصر

ڈاکٹر محمود احمد غازی علیہ الرحمۃ
ڈاکٹر حافظ صفوان محمد چوہان

ڈاکٹر غازیؒ ۔ چند یادداشتیں
محمد الیاس ڈار

ایک ہمہ جہت شخصیت
ضمیر اختر خان

اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا
محمد رشید

آفتاب علم و عمل
مولانا ڈاکٹر صالح الدین حقانی

شمع روشن بجھ گئی
مولانا سید متین احمد شاہ

علم کا آفتاب عالم تاب
ڈاکٹر حسین احمد پراچہ

دگر داناے راز آید کہ ناید
حافظ ظہیر احمد ظہیر

ایک نابغہ روزگار شخصیت
سبوح سید

تواریخ وفات ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ
مولانا ڈاکٹر خلیل احمد تھانوی

ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ ۔ تعزیتی پیغامات و تاثرات
ادارہ

ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ ۔ فکر و نظر کے چند نمایاں پہلو
ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی

ڈاکٹر غازی مرحوم ۔ فکر و نظر کے چند گوشے
ڈاکٹر محمد شہباز منج

کاسموپولیٹن فقہ اور ڈاکٹر غازیؒ کے افکار
محمد سلیمان اسدی

آتشِ رفتہ کا سراغ
پروفیسر محمد اسلم اعوان

اسلام کے سیاسی اور تہذیبی تصورات ۔ ڈاکٹر محمود احمد غازی کے افکار کی روشنی میں
محمد رشید

سلسلہ محاضرات: مختصر تعارف
ڈاکٹر علی اصغر شاہد

’’محاضراتِ قرآنی‘‘ پر ایک نظر
حافظ برہان الدین ربانی

ڈاکٹر غازیؒ اور ان کے محاضرات قرآن
سید علی محی الدین

’’محاضرات فقہ‘‘ ۔ ایک مطالعہ
چوہدری محمد یوسف ایڈووکیٹ

محاضراتِ معیشت و تجارت کا ایک تنقیدی مطالعہ
پروفیسر میاں انعام الرحمن

تحریک سید احمد شہید رحمہ اللہ کا ایک جائزہ
ڈاکٹر محمود احمد غازی

اسلام میں تفریح کا تصور
ڈاکٹر محمود احمد غازی

اسلام اور جدید تجارت و معیشت
ڈاکٹر محمود احمد غازی

ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ سے ایک انٹرویو
مفتی شکیل احمد

ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ ۔ منتخب پیش لفظ اور تقریظات
ادارہ

مختلف اہل علم کے نام ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ کے چند منتخب خطوط
ڈاکٹر محمود احمد غازی

مکاتیب ڈاکٹر محمد حمیدؒ اللہ بنام ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ
ادارہ

ڈاکٹر غازیؒ کے انتقال پر معاصر اہل علم کے تاثرات
ادارہ

ریجنل دعوۃ سنٹر کراچی کے زیر اہتمام تعزیتی ریفرنس
آغا عبد الصمد

ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ کی یاد میں رابطۃ الادب الاسلامی کے سیمینار کی روداد
ادارہ

ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ ۔ ورلڈ اسلامک فورم کے زیر اہتمام تعزیتی نشست
ادارہ

ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ ۔ رسائل و جرائد کے تعزیتی شذرے
ادارہ

ایک نابغہ روزگار کی یاد میں
پروفیسر ڈاکٹر دوست محمد خان

تلاش

Flag Counter