ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ سے میری پہلی باقاعدہ ملاقات علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے زیر انتظام ۱۹۹۳ء میں ایم فل علوم اسلامیہ کی ورکشاپ کے دوران ہوئی۔ وہ ریسورس پرسن کی حیثیت سے ورکشاپ میں تشریف لائے تھے۔ ڈاکٹر صاحب نے اس ورکشاپ میں علوم اسلامیہ کے بنیادی مصادر پر تعارفی گفتگو فرمائی۔ یہ گفتگو اتنی علمی اور موضوع پر اتنی مربوط تھی کہ اس سے قبل نہ تو کہیں پڑھی اور نہ سنی تھی۔ اس گفتگو میں ڈاکٹر صاحب نے علوم اسلامیہ کے مصادر سے متعلق تفصیل سے بات کی۔ علوم القرآن، علوم الحدیث، فقہ، تصوف کے تمام بنیادی مصادر پر تعارفی گفتگو فرمائی۔ ڈاکٹر صاحب کے اس لیکچر نے مجھے بہت متاثر کیا۔ اس سے ایک طرف مجھے یہ شوق پیدا ہوا کہ ہمیں اپنی تراث کا گہرائی سے مطالعہ کرنا چاہیے، دوسری طرف غازی صاحب سے قلبی تعلق بڑھتا چلا گیا۔
اس کے بعد دوسری ملاقات اس وقت ہوئی جب ہم ایم فل علوم اسلامیہ کے تھیسس کے لیے عنوان کی تلاش کے مرحلے میں تھے۔ یہ ۱۹۹۴ء کی بات ہے کہ شعبہ علوم اسلامیہ نے میری ریسرچ کے لیے عنوان منظور کرلیا اورمجھے ’’عہد نبوی میں اسلامی ریاست کے داخلی نظم و نسق‘‘ پر خطہ بنانے کو کہا۔ ڈاکٹر صاحب نے اس موضوع کو عرب قبائل کی شیرازہ بندی کے ساتھ مخصوص کر دیا اور میری خوش قسمتی کہ میرا اشراف بھی قبول فرما لیا۔ اپنے موضوع پر کام کرنے کے لیے ہدایات لینے کی غرض سے میں ان کے پاس حاضر ہوا۔ اس وقت آپ دعوۃ اکیڈمی کے ڈائریکٹر جنرل تھے۔ اگرچہ ملاقات طے شدہ نہ تھی اور آپ کی دیگر مصروفیات بہت تھیں، تاہم آپ نے مجھے اندر بلا لیا ۔ ساتھ ساتھ دفتری لوگوں سے ملتے رہے اور مجھے موضوع سے متعلق بنیادی باتیں بتاتے رہے۔ یہ ملاقات تقریباً پچاس منٹ تک رہی جس میں مجھے بیس پچیس منٹ ملے۔ آپ نے موضوع پر مجھے ابتدائی اور اہم نکات بتائے۔ اس پہلی ملاقات میں ڈاکٹرصاحب نے میرے ذہن کو سیرت کے ان اطراف کی طرف منتقل کر دیا جن پر پہلے میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔ میرا یقین یہ ہے کہ مجھے سیرت پر پڑھنے پڑھانے یا کچھ لکھنے لکھانے کاجو موقع ملا ہے، وہ اسی پہلی ملاقات کا ثمر ہے اور یہ ملاقات شاید ساری زندگی مجھے سیرت پر کام کرنے میں مدد دیتی رہے گی۔
ڈاکٹرغازیؒ گزشتہ دو دہائیوں سے اعلیٰ انتظامی عہدوں پر فائز رہے جس کی وجہ سے آپ کی مصروفیات زیادہ ہو گئیں۔ اس کے باوجود آپ نے اپنا استاد ہونے کے تشخص کو نمایاں رکھا اور طلبہ سے تعلق میں کمی نہ آنے دی۔ میرے سمیت آپ کے اکثرشاگرد ہمیشہ وقت لیے بغیر ہی ملاقات کی غرض سے جاتے رہے۔ آپ طلبہ کے معاملے میں نہایت تحمل سے کام لیتے تھے اور نہایت شفقت سے پیش آتے تھے۔ میں نے دیکھا کہ آپ اپنے طلبہ کو زیادہ دیر تک انتظار میں نہیں بٹھاتے تھے اور نہ ہی مصروفیت کی وجہ سے واپس بھیجتے تھے۔
ڈاکٹر صاحب مرحوم خود بھی کثیر المطالعہ تھے۔ اسی طرح وہ اپنے طلبہ میں بھی مطالعہ کا شوق پیدا کرتے رہتے تھے اور ان کی مناسبت سے مختلف کتب کی طرف نشان دہی بھی فرماتے تھے۔ ایک مرتبہ فرمایا کہ ڈاکٹر فواد سیزگین کی کتاب Geschischte der Arabischen Schriftum (تاریخ التراث العربی)اس قابل ہے کہ اس کے براہ راست مطالعہ کے لیے جرمن زبان سیکھ لی جائے۔ پھر فرمانے لگے کہ میں نے چار چھ مہینے لگا کر جرمن زبان کو اتنا سیکھ لیا ہے کہ اب میں آسانی سے اس زبان میں لکھے گئے مصادر سے استفادہ کر سکتا ہوں۔ ایک مرتبہ مجھے کہا کہ آپ نے قبائل عرب کے حوالے سے کام کیا ہے، لہٰذا آپ ابوالفرج اصبہانی کی کتاب الاغانی کا، جو کہ بائیس یا چوبیس جلدوں پر مشتمل ہے، شروع سے آخر تک مطالعہ کریں کیونکہ اس میں سیرت کے مختلف پہلوؤں سے متعلق خاصا مواد موجود ہے۔ پھر فرمانے لگے کہ میں نے یہ کتاب شروع سے آخر تک مکمل پڑھ لی ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے امام شافعی کی کتا ب ’’الام‘‘ کا سات مرتبہ شروع سے آخر تک بالاستیعاب مطالعہ کیا۔ درجنوں مصادر علوم اسلامیہ ایسے تھے جنہیں آپ نے شروع سے آخر تک پڑھا۔
ایم فل علوم اسلامیہ کی تکمیل کے بعد مجھے یہ خیال ہوا کہ مجھے جلدپی ایچ ڈی کے لیے رجسٹریشن کروا نی چاہیے۔ میں نے جلدی میں معاہدات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے ایک خاکہ تیار کیا اور ڈاکٹر صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اپنے ارادہ اور خواہش کا اظہار کیا اور اپنا خاکہ آپ کے سامنے رکھ دیا کہ اس پر رائے دیں۔ خاکہ دیکھنے کے بعد ڈاکٹر صاحب نے علامہ اقبال ؒ کا یہ شعر سنایا:
نالہ ہے بلبل شوریدہ ترا خام ابھی
اپنے سینے میں اسے اور ذرا تھام ابھی
اور اس موضوع پر مختلف کتب کی طرف نشان دہی فرمائی اور مزید مطالعہ کاکہا ۔ پھر چار برس تک مختلف اوقات میں مختلف کتب کے مطالعہ کا حکم دیتے رہے۔ بالآخر ۲۰۰۰ء میں جب میں نے اپنا خاکہ دوبارہ پیش کیا تو آپ نے نہ صرف اس سے اتفاق فرمایا بلکہ اس کا اشراف بھی قبول فرمایا۔ کلیہ عربی و علوم اسلامیہ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد میں گزشتہ پندرہ برسوں کے تجربہ میں،میں نے یہ دیکھا کہ طلبہ کی رہنمائی کے حوالے سے آپ کو جب بھی کلیہ میں آنے کی دعوت دی گئی، آپ نے ایک مرتبہ بھی دعوت رد نہیں کی بلکہ نہایت خوشی خوشی کلیہ میں تشریف لاتے تھے اور اپنی دیگر مصروفیات کو ترک یا مؤخر کردیتے۔ اس کے لیے آپ عام طور پر مغرب کے بعد کا وقت پسند فرماتے تھے تاکہ وقت تنگ نہ ہو اورطلبہ زیادہ سے زیادہ استفادہ کر سکیں۔
ڈاکٹر صاحب کے فکر کی بہت سی اہم جہات ہیں جن پر بات کرنے کے لیے خاصا وقت درکار ہوگا، لیکن اس بات پرآپ کا ارتکاز رہا اور آپ اپنے طلبہ کے سامنے مختلف اوقات میں اس بات کو پرزور طریقے سے بیان کرتے رہے کہ اسلامی تحقیق کا سب سے بڑا کام تعمیر فکر کا ہے۔اس سے ان کی مراد اسلامی نقطہ نظر سے تمام علوم و فنون کی ترتیب نو اور تشکیل جدید ہے۔ اس میں جدید علوم کی تشکیل بھی شامل ہے اور قدیم اسلامی علوم کی تعمیر نو بھی، لیکن ڈاکٹر صاحب کے خیال میں تطہیر فکر کا عمل اس سے قبل ضروری ہے اور وہ یہ ہے کہ رائج الوقت علوم و فنون کا اسلامی نقطہ نظر سے تنقیدی جائزہ لے کر کھرے اور کھوٹے کو الگ کر دیا جائے۔ لیکن ان کے نزدیک علوم وفنون کی تدوین نوکے اس عمل کے انتظار میں ہم دوسرے شعبوں میں اسلامی نقطہ نظر سے اصلاحات کے عمل کو نہ تو ملتوی کر سکتے ہیں اور نہ مؤخر کر سکتے ہیں۔ ان کی رائے میں یہ دونوں کام ایک ساتھ ہی ہونے چاہئیں بلکہ اگر یہ دونوں کام ایک ساتھ شروع کیے جائیں تو دونوں ایک دوسرے کے ممد ومعاون اور تکمیل کنندہ ثابت ہوں گے اور ایک کی راہ میں حائل دشواریوں کو دور کرنے کی ہر کوشش دوسرے کی راہ میں حائل دشواریوں کو ختم کرنے میں بھی مدد دے گی۔ ڈاکٹر صاحب تعمیر و تطہیر فکر کے لیے ہمہ وقت کوشاں رہتے تھے اور اپنے طلبہ اور دیگر اہل علم کو اس جانب توجہ دلاتے رہتے تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ آپ کے خیال میں علوم کی تنقید و تنقیح کے لیے امت مسلمہ کے پاس اب زیادہ وقت نہیں۔ آپ نے فرمایا کہ اگر مستقبل قریب میں امت مسلمہ یہ کام کرنے میں کامیاب ہوگئی تو خیر، ورنہ اسلامی اقدار و تہذیب کا احیا شاید ممکن نہ ہوسکے گا۔
علامہ اقبالؒ نے آج سے ساٹھ برس قبل جو بات اسلامی فقہ کے بارے میں کہی تھی، ڈاکٹر صاحب مرحوم کے خیال میں وہ آج سارے علوم و فنون پر صادق آرہی ہے اوراس وقت اس کی جتنی اہمیت تھی، آج اس سے کہیں بڑھ کر ہے۔ علامہ نے فرمایا تھا:
’’میرا عقیدہ یہ ہے کہ جو شخص زمانہ حال کے جورس پروڈنس (اصول قانون) پر ایک تنقیدی نگاہ ڈال کر احکام قرآنیہ کی ابدیت کوثابت کرے گا، وہی اسلام کا مجدد ہوگا اور بنی نوع انسان کا سب سے بڑا خادم بھی وہی شخص ہوگا۔ قریباً تمام ممالک اسلامیہ میں مسلمان یا تو اپنی آزادی کے لیے لڑ رہے ہیں یا قوانین اسلامیہ پر غور کررہے ہیں۔ غرض یہ وقت عملی کام کا ہے کیونکہ میری رائے میں مذہب اسلام گویا زمانہ کی کسوٹی پر کسا جارہا ہے اور شاید تاریخ اسلام میں ایسا وقت اس سے پہلے کبھی نہیں آیا۔‘‘
ڈاکٹر غازیؒ نے اپنی ساری زندگی ایسے ادارے اور رجال کار کی تیاری کے لیے وقف کر دی جو علامہ اقبال کے اس تصور کی تکمیل کر سکیں۔
ڈاکٹر صاحب کی فکر کا ایک اہم پہلو برصغیرپاک وہند کے دینی مدارس،ان کا نصاب اور ان کے فاضلین سے متعلق ہے۔ ڈاکٹر صاحب مدارس علوم دینیہ کے بارے میں نہایت متفکر رہتے تھے۔ وہ یہ چاہتے تھے کہ اس نظام میں پڑھنے والے طلبہ بالخصوص ملک پاکستان میں اور بالعموم پوری دنیا میں خاص کردار ادا کرسکتے ہیں۔ ان کا خیال یہ تھا کہ اس کے لیے کسی بڑے پیمانے کی نہیں بلکہ تھوڑی لیکن مناسب تبدیلیوں کی ضرورت ہے جن میں ایک ضروری چیز زبان ہے۔ مدارس کے طلبہ کو عربی اور انگریزی زبانوں کو بالخصوص اور دیگر اہم زبانوں کو بالعموم سیکھنے کی ضرورت ہے۔ آپ کا خیال تھا کہ زبانوں کو سیکھنے سے معاشر ے میں علما کی افادیت کہیں زیادہ بڑھ جائے گی۔ درس نظامی کے نصاب کے مقصد سے متعلق ایک مرتبہ فرمایا: سوال یہ ہے کہ درس نظامی کا یہ نصاب ملا نظام الدین سہالوی ؒ مرحوم و مغفور نے کیوں اور کس مقصد کے تحت مرتب کیا تھا؟ اس پر اگر ذہن صاف ہو اور تاریخی حقائق سامنے ہوں تو یہ بات واضح ہو جائے گی کہ بر صغیر میں سلطنت مغلیہ کے آخری دور میں (جس کو آپ بر صغیر کی اسلامی تاریخ کا دور زوال اور دور انحطاط بھی کہہ سکتے ہیں) ریاستی نظام چلانے ،اسلامی عدالتوں کو قاضی ،مفتی اور مقنن فراہم کرنے کی خاطر یہ نصاب تیار کیا گیا تھا۔ یہ زمانہ ایسٹ انڈیا کمپنی کا ابتدائی دور تھا۔جب اٹھارویں صدی میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے شاہ عالم سے دیوانی خرید لی تو کمپنی کے زیر انتظام صوبوں کے بارے میں یہ شرط رکھی گئی کہ وہاں کا نظام بدستور فقہ حنفی کے مطابق چلتا رہے گا۔اس نظام کے لیے کمپنی کے کار پردازوں نے بھی اپنے اہتمام میں درس نظامی کے کئی ادارے قائم کیے۔ یہ سلسلہ ۱۸۵۷ء میں سلطنت مغلیہ کے مکمل اور حتمی سقوط تک جاری رہا۔ بہر حال اس کے بعدچونکہ یہی نصاب موجود تھا اور اسی نصاب کے تیار کردہ علما دستیاب تھے،اس لیے جب دار العلوم دیو بند اور دوسرے مدارس قائم ہوئے تو انہوں نے اسی نصاب کو قابل عمل پایا اور اس کو اختیار کر لیا۔ لیکن دار العلوم دیوبند کے قیام کے بعد خود اس نصاب کو ’’حقیقی درس نظامی‘‘ نہیں رہنے دیا۔ آج کا رائج الوقت درس نظامی اصل درس نظامی سے بہت مختلف چیز بن چکا ہے، لیکن تاریخی تسلسل میں اگر اس کو درس نظامی کہا جائے تو اس میں کوئی قباحت معلوم نہیں ہوتی۔
ایک گفتگو کے دوران دینی مدارس کے مقصد سے متعلق فرمایا کہ ان اداروں کا بنیادی مقصد دینی علوم کے محققین، محدثین، مفسرین، فقہا، مبلغین اور عربی دان پیدا کرنا ہے۔ ان اداروں کا مقصد ہرگز یہ نہیں کہ ان میں محدثین، مفسرین، متکلمین اور فقہاے اسلام کے بجائے کمپیوٹر کے ماہرین پیدا ہوں۔ یہ دینی تخصص کے ادارے ہیں اور انہی رجال کار کی تیاری کے ادارے رہیں گے،لیکن ہم سب لوگ فرداً فرداً یہ بات محسوس کرتے ہیں کہ دینی مدارس کے متخصصین علما، فقہا، محدثین، مفسرین کو عصر حاضر میں اپنے تخصص کو عام لوگوں تک پہنچانے کی ضرورت ہے۔ اس تخصص کے مطابق، ملکی نظام کو ڈھالنے اور اس کے مطابق ملک کے مختلف اداروں کی تشکیل نو کے لیے بعض ایسی جزوی، معنوی تبدیلیوں یا جامع علوم اور مہارتوں کی ضرورت ہے جس کے بغیر دور جدید میں دینی تعلیم کے تقاضوں پر کما حقہ عمل درآمد نہیں کیا جا سکتا ۔
درس نظامی اور موجودہ حکومتی نظام کی دو الگ جدولوں کے نقصان کے بارے میں وہ فرماتے ہیں کہ ’’دو متوازی جدولوں کا وجود ہمارے ملک میں خاص طور پر اور دنیاے اسلام میں عام طور پر دین ودنیا میں تفریق کے نظریہ کو فروغ دے رہا ہے اور یوں سیکولر ازم کے غیر اسلامی تشخص کو پروان چڑھا رہا ہے۔ سیکولر ازم کا مقصد یہ ہے کہ دینی تعلیم اور مذہبی ہدایت ورہنمائی کو زندگی کے عملی میدان سے نکال دیا جائے جیسا کہ مغرب میں ہوا ہے اور دوسرے کئی ممالک میں ہو رہا ہے۔ ہمارے ملک میں تعلیم کے ان دو متوازی نظاموں کی وجہ سے اس کومزید مہمیز مل رہی ہے۔ تعلیم کے ایک نظام کا دائرہ صرف مسجد تک محدود رہے اور دوسرا نظام، زندگی کے بقیہ سب پہلوؤں کو چلاتا رہے تو اسی کو سیکولر ازم کہتے ہیں۔ اس اعتبار سے عملاً سیکولر ازم ہمارے ملک میں آچکا ہے اور اگر گستاخی نہ ہو تو میں یہ بھی عرض کرنے کے لیے تیار ہوں کہ علما کے اس رویے سے سیکولر ازم کو فروغ ملا ہے۔‘‘
سیکولر ازم کی نظریاتی بنیاد کیا ہے؟ اس سوال کے جواب میں فرماتے ہیں کہ ’’وہ بنیاد موجودہ بائبل میں مندرج ہے (کس نے اور کب اس جملے کا اندراج کیا، اللہ ہی بہتر جانتا ہے) کہ ’’جو قیصرکا ہے، وہ قیصر کو دے دو اور جو اللہ کا ہے، وہ اللہ کو دے دو۔‘‘ اگر یہ سیکولر ازم کی بنیاد ہے تو پھر یہ بھی سیکولر ازم ہے کہ جو مذہبی تعلیم ہے، وہ مسجد میں ہو اور جو غیر مذہبی تعلیم ہے، وہ مسجد سے باہر ہو۔مسجد سے باہر دی جانے والی تعلیم معاشی، معاشرتی اور سرکاری نظام چلا رہی ہواور مسجد کی تعلیم کا دنیا کے ان مشاغل سے کوئی تعلق نہ ہو۔ یہی سیکولر ازم ہے۔‘‘
انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز کے زیر اہتمام دینی مدارس میں تعلیم کے حوالے سے ایک سیمینار میں جس میں راقم بھی شامل تھا ،ڈاکٹر صاحب نے فرمایا کہ ’’پچھلے چند مہینوں میں مجھے خاص طور پرملک کے انتہائی جید اہل علم سے اور بالخصوص بعض جید محترم علمائے کرام سے تبادلہ خیال اور استفادے کا موقع ملا ہے۔ علمائے کرام کی قابل لحاظ تعداد اس ضرورت کو محسوس کرتی ہے کہ’’دینی مدارس کے نظام اور نصاب میں مثبت تبدیلی لائی جانی چاہیے‘‘ لیکن اس کے ساتھ یہ بات بھی بڑی اہمیت رکھتی ہے کہ ملک کی دینی قیادت میں بعض انتہائی قابل احترام بزرگ ابھی تک ایک مختلف تصور پر سختی کے ساتھ قائم ہیں۔ وہ فرماتے ہیں کہ مجھے ان میں سے بعض کی خدمت میں نیاز حاصل کرنے کی سعادت بھی حاصل ہوئی ہے جنہوں نے ہر ایسے موضوع پر کسی قسم کی گفتگو کرنے، گفتگو میں حصہ لینے یا گفتگو میں شریک ہونے سے صاف صاف انکار فرمایا جس کا مقصد یہ ہو کہ دینی مدارس کی پیداوار یا دینی مدارس کے طلبہ کا معاشرے میں مسجد کی خدمت کے علاوہ بھی کوئی اور رول یا کردار ہو سکتا ہے۔ ایک بزرگ نے واضح اور دوٹوک الفاظ میں ارشاد فرمایا کہ :ہم تو مسجد کے ٹکڑوں پر پلنے والے کٹھ ملا ہی تیار کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہمارا اور کوئی مقصد نہیں اور دینی مدارس اس وقت تک ہی قائم رہ سکتے ہیں جب تک ان کو صرف مسیتیے پیدا کرنے ہوں۔ یہ الفا ظ خود انہوں نے اپنی زبان مبارک سے ادا فرمائے۔‘‘
ڈاکٹر صاحب کے خیال میں اسلامی تعلیمات کی کما حقہ تفہیم دینی مدارس کا امتیاز ہے۔ آپ دینی مدارس کے کردار کو وسیع اور مفید بنانا چاہتے تھے۔ پاکستان مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کے زیر اہتمام ایک اجلاس میں آپ نے فرمایا: ’’کم و بیش گزشتہ ۳۵، ۴۰ سال سے میرے ذہن میں یہ خیال نہایت مستحکم ہے کہ ملک میں دینی اور اسلامی تعلیم کا ایک نیا جامع اور متوازن نظام وضع کیا جائے۔ اس نئے نظام کا بنیادی ہدف یہ ہونا چاہیے کہ پاکستان میں ایسے اہل علم اور ایسے علما تیار کیے جائیں جو ایک طرف اسلام کی تعلیمات کو کما حقہ گہرائی اور تعمق کے ساتھ سمجھتے ہوں، اخلاق و کردار میں ائمہ سلف کی تعلیم اور اسوہ حسنہ کا نمونہ ہوں اور دوسری طرف وہ دور جدید اور نئی تعلیم کی تحدیات (Challanges) کو ایک ناقدانہ انداز میں سمجھنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ دینی مدارس کے طلبہ کے لیے عہد جدید کے امور و حالات کو اچھے طریقے سے سمجھنے اور پرکھنے کی ضرورت ہے اور یہ اسلامی شریعت کے نفاذ کے لیے نہایت ضروری ہے۔‘‘
ایک مرتبہ آپ نے فرمایاکہ ہمیں جس دور میں، جن حالات اور جس ماحول میں کام کرنا ہے، جن مسائل کا حل پیش کرنا ہے اور جن رکاوٹوں کو دور کرکے مملکت میں اسلامی شریعت کے نفاذ کے لیے کوشاں رہنا ہے، ان سب سے گہری اور ناقدانہ واقفیت حاصل کرنا ضروری ہے۔ اس کے لیے انہوں نے حضرت عمرؓ کی ایک مثال ذکر کی کہ آپؓ نے ایک مرتبہ کسی کو ایک خاص ذمہ داری پر فائز کرنے کے لیے اپنے ساتھیوں سے مشورہ مانگا۔ ایک صاحب کے بارے میں انہیں کہا گیا کہ وہ بہت متقی، پرہیزگار ہیں اور اتنے نیک ہیں کہ ’’کانہ لا یعرف الشر‘‘ (گویا کہ وہ شر کو جانتے ہی نہیں)۔ حضرت عمرؓ نے فوراً جواب دیا کہ مجھے ایسا آدمی نہیں چاہیے جو شر کو نہیں جانتا، اس لیے کہ ’’من لم یعرف الشر یوشک ان یقع فیہ‘‘ لہٰذا معلوم ہوا کہ شر سے بچنے کے لیے شر کو جاننا ضروری ہے۔اس بات کی مزید تفہیم کے لیے آپ نے ایک اور مثال بھی ذکر فرمائی۔ وہ یہ کہ اگر امام محمد کی کتابیں نہ ہوتیں تو امام ابو حنیفہ کے اجتہادات کا نوے فی صد حصہ ہم تک نہ پہنچ سکتا۔امام محمد بن حسن الشیبانی جب اپنی کتابیں مرتب فرما رہے تھے تو انہوں نے یہ اہتمام کیا تھا کہ اپنے وقت کا کچھ حصہ بازار میں گزاریں اور مختلف تجا رتی وبازاری سرگر میوں کا بذات خود جائزہ لیتے رہا کریں تاکہ ان کو یہ پتہ چلے کہ کاروبار کس طرح ہوتا ہے اور کس طرح کے مسائل ومشکلات کا کاروباری طبقے کو واسطہ پڑتا ہے تاکہ اسلامی فقہ کی تدوین میں ان مسائل ومشکلات کا خیال رکھا جا سکے۔بعد کے فقہاء کرام نے بھی اس رائے کا اظہار کیا ہے۔کہ ’’من لم یعرف اھل زمانہ فھو جاہل‘‘ یا ’’لیس بفقیہ‘‘ یعنی جو اپنے زمانے کے حالات نہیں جانتا، اس کو فقیہ بننے کا حق نہیں۔دوسرے لفظوں میں جو فقیہ بننا چاہتا ہے،جہاں وہ اسلامی علوم میں گہری بصیرت رکھتا ہو، وہاں اس کو زمانے کے حالات میں بھی گہری بصیرت رکھنی چاہیے۔
ڈاکٹر محمود احمد غازی ؒ قدیم وجدید اسلامی افکار کے جامع تھے۔ ایک طرف آپ قدیم دینی افکار کے امین تھے اور دوسری طرف تیزی سے تغیر پذیر جدید معاشرے پر بھی نظر رکھے ہوئے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ آپ کا مقصد زندگی صرف اور صرف اسلام کا احیا اور اعلاء کلمۃ اللہ تھاجس کے لیے آپ نے اپنی حیات کے لمحات کو صرف کر دیا تھا۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ آپ کی مساعی جمیلہ کو شرف قبولیت عطا فرمائے اور آپ کے درجات کو بلند فرمائے، آمین۔
مصادر ومراجع
ڈاکٹر محموداحمد غازی صاحب کے مندرجہ بالا فرمودات مختلف مقامات پر منعقد ہونے والی تقاریر کا حصہ ہیں جنہیں راقم نے خود سنا ہے، البتہ یہ مختلف کتب میں موجود ہیں۔ کتب کی تفصیل حسب ذیل ہے:
۱۔پہلی سالانہ رپورٹ،پاکستان مدرسہ ایجوکیشن بورڈ ،اسلا م آبا د ،طبع ،اکتوبر۲۰۰۲،ص:۱۳۳۔۱۴۰
۲۔دینی مدارس میں تعلیم،مرتبہ سلیم منصور خالد،طبع، iiit،اسلا م آبا د،ص:۶۱۔۷۸