(۳ اکتوبر ۲۰۱۰ء کو الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ میں منعقدہ تعزیتی نشست سے خطاب جسے مصنف کی نظر ثانی اور اضافوں کے ساتھ پیش کیا جا رہا ہے۔)
نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم، اما بعد!
جیسا کہ برادرم عمار صاحب بتلا رہے تھے، طے شدہ پروگرام کے مطابق اس وقت ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ سے ہم سب نے مستفید ہونا تھا اور انتظار میں تھے کہ کب وہ وقت آئے گا کہ ہم ڈاکٹر صاحب ؒ کی گفتگو کے سحر میں مبتلا ہوں گے۔ تقریباً دو ہفتے پہلے جب مجھ سے عمار صاحب نے رابطہ کیا اور پوچھا کہ اتوار کی صبح کو آئیں گے یا ہفتہ کی شام کو توشاید پہلے میری ترجیح یہ ہوتی کہ صبح کو وہاں سے نکلوں گا، لیکن جب انہوں نے بتایا کہ ڈاکٹر صاحب شام کو آجائیں گے تو میں نے بھی تقریباًذہن بنا لیا تھا کہ ہفتہ شام کو آ جاؤں گا اور ڈاکٹر صاحب سے مستفید ہونے کا موقع مل جائے گا اور اگلے دن بھی ڈاکٹر صاحب کا پورا بیان اول سے آخر تک سنیں گے ۔ انتظار میں لمحے گزر رہے تھے۔ آج اتوار کا د ن ہے۔ پچھلے اتوارکی صبح ساڑھے سات کے قریب ایک صاحب کا فون آیا کہ ڈاکٹر صاحب اس دنیا سے رخصت ہو گئے ہیں۔ وہ جو انتظار کے لمحے چل رہے تھے، اب وہ انتظار یک دم ایک حسرت بن کر رہ گئی۔ ایسی ناگہانی خبر تھی کہ اس پر یقین کرنا مشکل تھا۔ دو تین حضرات نے فون پر اطلاع دی، پھر بھی اطمینان نہیں ہورہا تھا۔ خیال ہوا کہ ان کے بھائی ڈاکٹر غزالی صاحب سے رابطہ کر لوں، لیکن ایسی خبر تھی کہ ان سے رابطہ کرنے میں بھی ڈر لگ رہا تھا۔ خدانخواستہ اگر خبر غلط ہوئی تو! لیکن دل کڑا کر کے ان سے پوچھا۔ انہوں نے سلام کا جواب دیتے ہی کہا: ’’مولانا! دعا فرمائیے، بھائی صاحب دنیا سے رخصت ہو گئے ہیں۔‘‘
جیسا کہ عمار صاحب ابھی ڈاکٹر صاحب کے بارے میں فرما رہے تھے کہ ڈاکٹر صاحب ہمہ جہت شخصیت تھے، سب کا مشترکہ اثاثہ تھے اور ہر پہلو سے، صرف علم ہی نہیں، علم و عمل اور کردار ہر پہلو سے ایک جامع شخصیت تھے۔ ڈاکٹر صاحب مرحوم کو اللہ تعالیٰ نے بے شمار اور متنوع کمالات سے نوازا تھا۔ وہ اپنے وقت کے بہت بڑے عالمِ دین، جدید وقدیم کے جامع اسلامی اسکالر، بہت اچھے مقرر، مصنف ومحقق، ماہر تعلیم، منتظم اور نہ جانے کیا کچھ تھے۔ رسمی طور پر تو عام طور پر کہہ ہی دیا جاتا ہے کہ فلاں صاحب کے جانے سے بہت بڑا خلا پیدا ہوگیا ہے، لیکن غازی صاحب کی رحلت سے جوخلا پیداہوا، علمی اور دینی حلقوں کو جو نقصان پہنچا، دینی تعلیم وتحقیق کے مستقبل کے بارے میں سوچنے والوں کو جو دھچکا لگا، اسے اس طرح کے رسمی جملوں سے تعبیر کرنا ممکن نظر نہیں آتا۔ کہنے والے صحیح کہاہے :
وماکان قیس ھُلکہ ھلک واحد
ولکنہ بنیان قوم قد تہدّما
(قیس کا مرنا ایک آدمی کا مرنا نہیں۔ ایک پوری قوم کی عمارت منہدم ہو گئی ہے۔)
ہمارے درمیان جناب ڈاکٹر شہزاد اقبال شام صاحب موجود ہیں۔ ان کو ڈاکٹرصاحب کی رفاقت کا شرف حاصل رہا ہے۔ وہ ان کی زندگی کے پرت ہمارے سامنے کھولیں گے اور ڈاکٹر صاحب کے علم و عمل کے اعتبار سے کئی خوبیاں جو اب تک راز ہیں، وہ کھل کر سامنے آئیں گی۔ اسی طرح ہمارے محترم مخدوم و بزرگ جناب مولانا زاہدالراشدی صاحب موجود ہیں۔ کہتے ہیں کہ ’’ولی را ولی می شناسد‘‘، ولی کو ولی ہی پہچانتا ہے ۔ اسی طرح کہتے ہیں کہ ’’جوہر کو جوہری ہی جانتا ہے‘‘۔ مولانا راشدی جیسے جوہری اور ولی ہمیں بتلائیں گے کہ ڈاکٹر صاحب کتنا قیمتی اثاثہ تھے۔ میں تو ایک طالب علم ہوں، اپنے چند تأثرات پیش کرنے پر اکتفا کروں گا۔
اس موقع پر مجھے ایک بات یاد آ رہی ہے۔ ہمارے چھوٹے بھائی مفتی محمد مجاہد شہید ؒ ،وہ بھی اسی طرح دہشت گردی کا نشانہ بنے تھے جیسا کہ آج یہاں آکر معلوم ہوا کہ ڈاکٹر فاروق خان بھی دہشت گردی کانشانہ بن گئے اور انہیں شہید کردیا گیا ہے، إنا للہ وإنا إلیہ راجعون۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے اور جوارِ رحمت میں جگہ عطا فرمائے۔ مفتی محمد مجاہد ؒ کی شہادت کے کچھ عرصہ بعد حضرت مولانا مفتی زین العابدین ؒ [معروف مبلغ تبلیغی جماعت و بانی دارالعلوم،فیصل آباد] تعزیت کے لیے تشریف لائے۔ جن دنوں ان کی شہادت ہوئی، اس وقت وہ بیرون ملک سفر پر تھے۔ جب سفر سے واپس آئے تو گھر جانے کی بجائے سیدھا ایئرپورٹ سے جامعہ امدادیہ میں تشریف لائے اور طلبہ اوراساتذہ سے خطاب فرمایا۔ جن حضرات نے حضرت مفتی صاحبؒ کی گفتگو سنی ہے، ان کو یاد ہو گا کہ حضرت مفتی صاحب کے بیان کی تمہید بہت دلچسپ اور شاندار ہوتی تھی۔ اس میں تبلیغی رنگ بھی ہوتا تھا اور مفکرانہ بھی۔ مجھے ان کے الفاظ تو اچھی طرح یاد نہیں ہیں، لیکن انہوں نے بات اس طرح شروع کی۔فرمایا:
’’اللہ جل جلالہ کو انسان سے بہت محبت ہے اور اللہ تعالیٰ یہ چاہتے ہیں کہ انسان کی قدر کی جائے۔ پھر جس میں جتنے کمالات ہوں، اللہ تعالیٰ چاہتے ہیں کہ اتنی ہی اس کی قدر کی جائے۔ جب کسی بندے کی اس طرح قدر نہیں کی جاتی جس طرح قدر کی جانی چاہیے تھی تو بعض اوقات اس نعمت کو اللہ تعالیٰ جلد واپس لے لیتے ہیں۔‘‘
میں یہ تو نہیں کہتا کہ ڈاکٹرصاحب کی قدر نہیں کی گئی۔ الحمد للہ ایک حد تک ان کی قدر کی گئی اور ان سے استفادہ کیا گیاہے، لیکن غالباً یہ کہنا صحیح ہو گا کہ ہم لوگوں نے انہیں صحیح طور پر بر وقت پہچانا نہیں تھا۔ ان کی خوبیوں کی طرف جو آج ہماری توجہ ہوئی، کہیں پہلے ہونی چاہیے تھی اور یہ شاید ہمارا عمومی المیہ ہے کہ صحیح وقت پر ہمیں بندے کی قدر نہیں ہوتی۔ آج بھی اللہ کے فضل وکرم سے بہت سے قابل قدر لوگ موجود ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان کی قدر اور ان سے استفادے کی توفیق عطا فرمائے۔ چند دن پہلے جب مولانا زاہد الراشدی صاحب فیصل آباد تشریف لائے تو میں نے ان سے عرض کیا کہ ایک تو عمر کے اس حصے میں آپ کو سفر زیادہ آرام دہ کرنا چاہیے، دوسرے ایک رفیقِ سفر بھی ساتھ ہونا چاہیے، بلکہ اگر ایسا ذی استعداد نوجوان عالم جو کمپیوٹر کا استعمال بھی جانتا ہو، بالخصوص اچھی رفتار سے ٹائپ کرسکتا ہو، آپ کے ساتھ رہے۔ دورانِ سفر جب موقع ملے، آپ اسے املا کراتے رہیں اور وہ لیپ ٹاپ پر لکھتا جائے۔
مولانا چند سال پہلے بطور لطیفہ کے بتارہے تھے کہ ان کے ایک پوتے کے سامنے کچھ مہمانوں نے ذکر کیا کہ آپ کے دادا بہت بڑے اسکالر ہیں۔ اس پر اس نے (جو کہ اس وقت بہت چھوٹا ہوگا) کہا کہ بنے پھرتے ہیں بڑے صحافی، کمپیوٹر تو استعمال کرنا آتا نہیں! اب پوتا صاحب کی تازہ ترین رائے معلوم نہیں کہ کیا واقعی مولانا اسکالری کے امتحان میں پاس ہوگئے یا نہیں! پاس ہوبھی گئے ہوں تو اس عمر میں اعصاب کمپیوٹر پر کام کے کہاں متحمل ہوتے ہیں۔ بہر حال میں نے مولانا سے عرض کیا کہ اس طرح سے بہت سے لکھنے پڑھنے کے کام جو محض اسفار کی وجہ سے نہیں ہوپاتے، وہ ہوجائیں گے اور آپ کے بہت سے افادات جلد لوگوں تک پہنچنے کے قابل ہوجائیں گے۔ اگرچہ اس پر مولانا کا جواب تھا کہ بہت سے دعوت دینے والے مدارس خود مالی اعتبار سے کمزور ہوتے ہیں، ان کی دعوت پر انکار بھی نہیں کر سکتا اور ان پر زیادہ بوجھ بھی نہیں ڈال سکتا۔ خیر یہ تو ضمناً بات آگئی، اصل بات یہ عرض کررہا تھا کہ کسی کی خوبیوں سے صحیح وقت پر استفادے کی ہمارے ہاں روایت ہونی چاہیے۔
میری غازی صاحب سے پہلی شناسائی اس زمانے میں ہوئی جب میں ۱۹۸۵ء میں بین الأقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد میں زیر تعلیم تھا۔ اس زمانے میں ڈاکٹر صاحب یونیورسٹی ہی کے ذیلی ادارے دعوہ اکیڈمی میں غالباً ڈائریکٹر تھے اور فیصل مسجد میں عموماً جمعہ بھی وہی پڑھاتے تھے۔ اس زمانے میں ڈاکٹر صاحب کے علمی مقام کا بھی خاص اندازہ نہیں تھا، نہ ہی ان سے کسی طرح کے استفادے کا موقع ملا تھا۔ اسی زمانے میں حضرت مولانا نجم الحسن تھانویؒ بھی دعوہ اکیڈمی میں ہوتے تھے جس کا ایک دفتر اس زمانے میں کراچی کمپنی (مرکز جی نائن) میں ہوتا تھا۔ جامعہ امدادیہ نیا نیا قائم ہوا تھا، اس کے کسی معاملے میں مشورہ کرنے کا کام ہمارے والد ماجد ؒ نے میرے ذمہ لگایا۔ انہوں نے غازی صاحب مرحوم کو بھی بلالیا۔ کیا صورت اور تقریب ہوئی، یہ تو یادنہیں، البتہ اتنا یاد ہے کہ غازی صاحب سے بات حضرت مولانا نجم الحسن صاحب ؒ ہی کے کمرے میں ہوئی، حالانکہ غازی منصب کے لحاظ سے مولانا سے اوپر تھے ۔ اس کا تقاضا یہ تھا کہ مولانا مجھے ساتھ لے کر خود ڈاکٹر صاحب کے پاس جاتے۔ اس وقت تو نوعمری کی وجہ سے اس طرف اتنا دھیان نہیں گیا۔ ڈاکٹر صاحب کی ظاہری اعتبار سے اپنے ایک ماتحت کے ہاں حاضری اس بات کی غماز تھی کہ ڈاکٹر صاحب کی شخصیت بزرگوں کے احترام جیسی مشرقی اور اسلامی روایات میں گندھی ہوئی تھی۔ زیر مشورہ معاملے میں ڈاکٹر صاحب نے جس انداز سے اپنی رائے دی، اس کی اصابت کے علاوہ ڈاکٹر صاحب کے مرتب اور منقح اندازِ گفتگو نے مجھے خاصا متأثر کیا۔
کسی علمی موضوع پر ڈاکٹر صاحب کی مفصل گفتگو سننے کا پہلی مرتبہ اتفاق مولانا نصیب علی شاہ صاحب ؒ کے زیر اہتمام منعقد ہونے والی بنوں فقہی کانفرنس میں ہوا۔ ایک تو اس طرح کی دور افتادہ جگہ پر جانے کے لیے ڈاکٹر صاحب کا تیار ہوجانا یقیناًان کے حسن خلق کی دلیل تھا۔ اس کے علاوہ فقہ اسلامی کے موضوع پر انہوں نے جو مفصل گفتگو فرمائی، اس میں معلومات کی وسعت اور ندرت، گفتگو میں ایک خاص قسم کا بہاؤ اور تسلسل، زبان میں قدرے لکنت کے باوجود سامعین کو اپنے کنٹرول میں لے لینے والا مخصوص اندازِ گفتگو جیسی صفات متاثر کن تھیں جنہیں کوئی بھی شخص محسوس کیے بغیر نہیں رہتا تھا۔ اس کے بعد ڈاکٹر صاحب سے مختلف سیمینارز، کانفرنسز اور میٹنگز میں زیارت اور استفادے کا موقع ملتا رہا اور وسعت مطالعہ، قابل رشک حافظہ اور یادداشت، مضبوط طرزِ استدلال، ایک موضوع پر جماؤ اور استطرادات سے گریز، موضوع کا احاطہ، گفتگو میں ربط اور انضباط اور مسحور کن طرزِ بیان جیسی بے شمار خوبیوں کا نقش ذہن پر مستحکم ہوتا رہا۔ اسے میری کمزوری سمجھ لیا جائے یا افتادِ طبع کہ ہمیشہ معروف اور بڑی شخصیات سے رابطہ کرنے میں حجاب سا محسوس ہوتا رہتاہے۔ اس کے باوجود جہاں کہیں ڈاکٹر صاحب سے ملاقات ہوتی، ان کی شفقتوں سے مستفید ہونے کا موقع ضرور ملتا۔
ایک مجلس میں ڈاکٹر صاحب سے کسی نے پوچھا کہ آپ کی بہتر یاد داشت کا راز کیا ہے؟ کیا کوئی نسخہ یا وظیفہ ایسا ہے جو اس چیز کے حصول میں معین ہو؟ تو اس پر، جہاں تک مجھے یاد پڑتاہے، فرمایا کہ مجھے کسی بزرگ نے یہ دعا بتائی تھی: أللہم إنّی أسألک علما لا یُنسی۔ غالباً ایک مرتبہ یہ بھی فرمایا کہ آدمی کو چاہیے کہ جب ایک کتاب کو شروع کرے تو اسے پورا پڑھنے کی کوشش کرے۔ اصل بات یہ ہے کہ جس چیز کو آدمی اپنی فکر اور توانائیوں کا محور بنالیتا ہے، وہ چیز اسے بآسانی یاد رہنے لگ جاتی ہے۔ ایک تاجر کو مختلف اشیا کے نرخ اور ان میں اتار چڑھاؤ اس طرح یاد ہوتا ہے کہ دوسرے آدمی کو حیرت ہوتی ہے کہ اتنی باریک تفصیلات اسے کیسے یاد رہ جاتی ہیں۔ قوت حافظہ اور یاد داشت کے یقیناًبہت سے اسباب بھی ہیں۔ ان میں طبی اسباب بھی ہوں گے، ہموم و افکار کی کمی بھی اس کا ایک ذریعہ بنتی ہے۔ اس کے علاوہ یہ ایک پیدائشی اور قدرتی ملکہ بھی ہے جسے اللہ تعالیٰ اپنے حکیمانہ نظام کے تحت تقسیم فرماتے ہیں، لیکن اس کے ساتھ ساتھ جب آدمی علم ہی کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیتا ہے تو اسے علم سے متعلق باتیں زیادہ یاد رہنے لگ جاتی ہیں۔ جس شخصیت میں یاد داشت کا یہ غیر معمولی وصف ہو، اس سے یہ سوال ضرور ہوتاہے کہ یاد داشت مضبوط کرنے کا طریقہ کیا ہے۔ امام بخاری سے بھی یہ سوال کیا گیا کہ کیا حافظے کی کوئی دوائی ہے؟ پہلے تو امام بخاری نے جواب دیا کہ مجھے معلوم نہیں، اس لیے کہ اس طرح کی ظاہری دوائی واقعی انہیں معلوم نہیں ہوگی اور نہ ہی امام بخاری کا بے مثال حافظہ ایسے کسی ’نسخہ‘ کا مرہونِ منت تھا۔ پھر تھوڑے توقف کے بعد امام بخاری نے فرمایا : لا أعلم شیئا أنفع للحفظ من نہمۃ الرجل ومدوامۃ النظر، یعنی یاد داشت کے لیے دو کاموں سے زیادہ کوئی چیز میرے علم کے مطابق مفید نہیں ہے۔ ایک آدمی کی علم کے لیے بھوک اور اس کا شوق ولگن اور دوسرے کثرتِ مطالعہ۔ ( لامع الدراری از شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا کاندھلوی ۱/۳۹)۔
ڈاکٹر صاحب پر متعدد اوقات میں جس طرح کی انتظامی ذمہ داریاں رہیں، ان کے ہوتے ہوئے عموماً آدمی مطالعہ وغیرہ سے کٹ جاتاہے، لیکن ڈاکٹر صاحب کے بارے میں معلوم ہوتاہے کہ ان میں نہمۃ الرجل اور مداومۃ النظر والی بات آخروقت تک موجود رہی۔ اس بات کی گواہی ان کے خطابات اور گفتگو کے علاوہ انہیں قریب سے دیکھنے والے بھی دیتے تھے اور کبھی کبھار شرفِ رفاقت حاصل کرنے والے بھی ۔
مولانا قاری محمد حنیف جالندھری بتارہے تھے کہ ایک دفعہ مراکش کے سفر میں وہ ان کے ساتھ تھے۔ ڈاکٹر صاحب روزانہ کتب خانوں کا چکر لگانے نکل جاتے اور شام کو کئی کتابیں خرید کر لاتے اور فرماتے تھے کہ سفرمیں میری شاپنگ یہی ہوتی ہے۔ اس سفر سے واپسی پر بھی کتابوں کے دو بڑے صندوق ان کے ساتھ تھے۔ پھر کتابیں خریدتے ہی قیام گاہ پر آکر انہیں پڑھنا بھی شروع کردیتے تھے۔ ایک اور بات جو ڈاکٹر صاحب کی زندگی میں بھی ان کے ساتھ سفر کرنے والے ایک دوست سے سنی، لیکن اس وقت اسے وقتی چیز خیال کیا، ان کے انتقال کے بعد کئی لوگوں کے ذریعے یہ بات معلوم ہوئی کہ ڈاکٹر صاحب کثیر التلاوۃ تھے۔ بعض احباب سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ان کی کوشش ہوتی تھی کہ وہ روزانہ قرآن کریم کی ایک منزل کی تلاوت کرلیں۔علمی مصروفیات رکھنے والوں میں کثرتِ تلاوت کا ذوق خال خال ہی نظر آتا ہے۔ حکیم الامت حضرت مولانا تھانوی ؒ کے بارے میں یہ بات معروف ہے کہ وہ صبح سیر کے دوران روزانہ سات منزلوں میں سے ایک منزل کی تلاوت فرمالیا کرتے تھے، بلکہ اس دوران پنسل اور کاغذ بھی جیب میں رکھتے تھے۔ ہوسکتا ہے ڈاکٹر صاحب کے ہاں یہ اسی ’’تھانوی‘‘ روایت کا تسلسل ہو۔ بہرحال ڈاکٹر صاحب کے علم میں آمد اور برکت کی ایک وجہ یہ کثرتِ تلاوت بھی ہوسکتی ہے۔
ڈاکٹر صاحب کو ذوقِ مطالعہ کے علاوہ اپنے وقت کے کئی مشاہیر سے ملاقاتوں، ان کے ساتھ وقت گزارنے اور ان سے مختلف طریقوں سے استفادے کا وسیع موقع ملا تھا جس کا اظہار ان کی گفتگو سے بے ساختہ ہوجاتا تھا ۔ میرے لیے واقفیت کی کمی کی وجہ سے یہ کہنا تو مشکل ہے کہ وہ کس شخصیت سے سب سے زیادہ مستفید اور متاثر ہوئے، لیکن اندازہ یہ ہے کہ ایسی فہرست میں ڈاکٹر حمید اللہ مرحوم کا نام کافی اوپر ہوگا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ایسا لگتا تھا کہ سیرت طیبہ علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والتسلیم اور اسلام کا قانون بین الممالک ڈاکٹر صاحب کے پسندیدہ موضوعات تھے ۔ ڈاکٹر حمید اللہ ؒ کے علاوہ بھی متعدد شخصیات سے انہیں قرب کے مواقع حاصل ہوئے۔ ان میں مولانا سید ابوالحسن علی ندوی کا نام بھی خاص طور پر قابل ذکر ہے۔ شام کے معروف عالم ڈاکٹر معروف الدوالیبی کے ساتھ انہیں وقت گزارنے کا موقع ملا۔ اس کے علاوہ اور کئی متعدد شخصیات کا تذکرہ دورانِ گفتگو نوکِ زبان پر آجاتاتھا۔
ماضی قریب میں علمی نوعیت کے بہت سے واقعات کے وہ یا تو چشم دید گواہ اور ان میں شریک تھے یا ایک آدھ روای کے واسطے کے ساتھ اسے روایت کرتے تھے۔ مثال کے طور پر یہ بات تو مشہور ومعروف ہے کہ علامہ اقبال کی یہ بہت بڑی خواہش تھی کہ فقہ اسلامی کی تدوینِ نو کا ایک خاص نہج پر کام ہو جو یقیناًاجتہادی نوعیت کا کام ہوتا اور یہ بات بھی معروف ہے کہ ان کی نظر علامہ سید انور شاہ صاحب کشمیری ؒ پر تھی اور انہوں نے اس سلسلے میں انہیں لاہور تشریف آوری کی دعوت بھی دی تھی جسے شاہ صاحب قبول نہیں فرماسکے تھے۔ اسلام آباد میں منعقدہ ایک سیمینار میں امریکا سے تشریف لائے ہوئے ایک اسکالر نے یہی بات کچھ اس انداز سے بیان کی جس سے یہ تاثر ملتا تھا کہ شاہ صاحب ؒ کے انکار کی وجہ یہ تھی کہ علماے دیوبند فقہ اسلامی پر کسی نئے انداز کے کام میں ہچکچاہٹ محسوس کرتے تھے۔ ان کے خطاب کے بعد ڈاکٹر صاحب نے اپنے صدارتی خطاب میں اس معاملے کی وضاحت فرمائی اور ایک ایسے عالم کا حوالہ دیا جو شاہ صاحب ؒ اور علامہ اقبالؒ کے درمیان ہونے والی اس ملاقات میں بنفس نفیس شاہ صاحب کے ساتھ موجود تھے اور ڈاکٹر صاحب نے اس ملا قات کی سر گزشت ان سے براہِ راست سنی تھی۔ ڈاکٹر صاحب نے صرف ایک واسطے کی سند متصل کے ساتھ بیان فرمایا کہ شاہ صاحبؒ کے انکار میں ایسی کوئی بات نہیں تھی جس سے یہ تاثر ابھرے کہ وہ اس طرح کے کسی منصوبے کو پسند نہیں فرماتے تھے، بلکہ انہوں نے اس کی وجہ یہ بیان فرمائی کہ وہ علامہ اقبالؒ کی لاہور کے لیے دعوت موصول ہونے سے پہلے ڈابھیل والوں سے وعدہ کر چکے تھے۔ اب وعدے کی خلاف ورزی مناسب نہیں تھی، اگر یہ دعوت پہلے موصول ہوجاتی تو وہ اس پر ضرور غور کرتے۔
ڈاکٹر صاحب کی یہ عجیب خصوصیت تھی کہ جو بات ان سے متعدد مرتبہ سننے کا اتفاق ہوا، ہر دفعہ تقریباً الفاظ ایک ہی جیسے تھے۔ ایسا لگتا تھا جیسے انہوں نے باقاعدہ یہ تعبیر بناکر اسے کہیں بیٹھ کر رَٹ لیا ہو۔ یقیناًحقیقت میں ایسا نہیں ہوگا، لیکن یاد داشت کی خاص نوعیت کی پختگی کا یہ اثر تھا۔ ایک دفعہ ایک نجی مجلس میں تبلیغی جماعت کے کام کے ابتدائی دور کے بارے میں حضرت مولانا محمد الیاس صاحب اور حضرت مولانا اشرف علی تھانوی کا ایک مکالمہ انہوں نے سنایا جو ڈاکٹر صاحب کی دادی صاحبہ کے گھر میں تھانہ بھون میں پیش آیا۔ ڈاکٹر صاحب اپنے والد مرحوم کے حوالے سے یہ واقعہ نقل کرتے تھے جو اس واقعے کے عینی گواہ تھے۔ بات چونکہ بہت اہم، تاریخی اور کام کی تھی اور تھی بھی سند متصل کے ساتھ، اس لیے کئی سال بعد جب فیصل آباد جامعہ امدادیہ میں ان کی تشریف آوری ہوئی تو ناشتے کے موقع پر وہی واقعہ دوبارہ سنانے کی فرمائش کی گئی۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ پہلی مرتبہ اور اس مرتبہ کے الفاظ بھی تقریباً ایک ہی تھے۔ راقم الحروف تو دو مرتبہ سننے کے بعد بھی ہو بہو اسے نقل کرنے کی ذمہ داری قبول نہیں کرسکتا، لیکن ڈاکٹر صاحب کو ہر مرتبہ ایک ہی تعبیر کے ساتھ یعنی روایت باللفظ کرتے ہوئے سنا جو آج کے دور میں یقیناًعجیب بات ہے۔بعض اوقات ایسا محسوس ہوتا تھا کہ ڈاکٹر صاحب ایک مرتبہ جو بات ایک تعبیر میں کہہ دیتے تھے، وہ الفاظ ان کے ذہن پر نقش ہو جاتے تھے اور جب بھی وہ بات دوبارہ کہنا ہوتی تو تقریباً انہی لفظوں میں ادا کرتے تھے۔
اوپر مولانا محمد الیاسؒ اور مولانا تھانوی ؒ کے جس مکالمے کا ذکر ہوا، وہ بات چونکہ عام فائدے کی ہے، اس لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ جتنی بات یاد ہے، اس قدر قارئین کے سامنے عرض کردی جائے۔ اگر روایت میں مجھ سے کمی کوتاہی ہوجائے تو کوئی صاحب اس کی تصحیح فرما دیں۔
جس زمانے میں حضرت مولانا محمد الیاس صاحب ؒ نے ایک خاص منہج سے دعوت وتبلیغ کا کام شروع کیا تو چونکہ یہ حضرات خود پسندی اور اعجاب برأیہ جیسی چیزوں سے بالکل دور ہوتے ہیں، اس لیے اپنی کار کردگی کو نمایاں کرنے، اسے ہر قیمت پر درست ثابت کرنے یا کسی بھی قسم کے اعتراض پر برافروختہ ہونے کی بجائے خود اس بارے میں متفکر رہتے ہیں کہ نہ معلوم میرا کام صحیح نہج پر ہوبھی رہاہے یا نہیں۔ اللہ کے مقبولین کے کاموں میں یہ بات قدرِ مشترک ہوتی ہے۔ بانی تبلیغی جماعت کے متعدد واقعات اور ملفوظات اس بات پر گواہ ہیں کہ وہ بھی اس جذبے سے سرشار تھے۔ اسی جذبے کے تحت مولانا محمد الیاس ؒ نے اپنے وقت کے اکابر سے رابطہ رکھا۔ اسی موضوع پر تبادلہ خیال کرنے اور راہ نمائی حاصل کرنے کے لیے مولانا تھانوی ؒ کے ہاں بھی حاضری دی اور کچھ دن تھانہ بھون میں قیام فرمایا۔ غالباً قیام کے آخری دن میں ڈاکٹر محمود احمد غازی ؒ کی دادی مرحومہ نے، جن کی دونوں حضرات کے ساتھ رشتہ داری تھی، دونوں (مولانا محمد الیاس ؒ اور مولانا تھانویؒ ) کی دعوت کی۔ اس موقع پران حضرات کے درمیان جو گفتگو ہوئی، وہ ڈاکٹر صاحب نقل فرمایا کرتے تھے۔ حضرت مولانا محمد الیاس ؒ نے عرض کیا کہ میں نے یہاں رہ کر کافی غور وتدبر بھی کیا ہے اور استخارہ بھی، مجھے تو اس کام پر شرح صدر ہے۔ اس کی وجوہات بھی انہوں نے تفصیل سے بیان فرمائیں۔ زیادہ گفتگو انہوں نے ہی فرمائی۔ مولانا تھانویؒ زیادہ تر خاموش ہی رہے، البتہ آخر میں حضرت مولانا تھانویؒ نے فرمایا کہ اگر آپ کو اس کام پر شرح صدر ہے تو اللہ کا نام لے کر اسے شروع کردیجیے، لیکن اس میں تین باتوں کا خاص خیال رکھا جائے۔ ایک تو یہ کہ شریعت میں جو چیزیں بھی مطلوب اور مستحسن ہیں، ان کے درجات ہیں۔ کوئی فرض ہے، کوئی واجب ہے، کوئی مستحب ہے وغیرہ وغیرہ ( بلکہ ایک ہی کام کے مختلف حالات کے اعتبار سے مختلف احکام ہوتے ہیں)۔ اس کام کے دوران شریعت کی اس درجہ بندی کو بطور خاص ملحوظ رکھا جائے کہ اس میں رد وبدل نہ ہو۔ دوسری بات یہ ارشاد فرمائی کہ جو لوگ دین کے دوسرے کاموں میں لگے ہوئے ہیں یا ان میں دوسرے کام انجام دینے کی زیادہ صلاحیت ہے، انہیں اگر دعوت کے اس خاص انداز کے کام میں لگنے پر شرح صدر نہ ہو تو انہیں شامل کرنے کے لیے اصرار نہ کیا جائے۔ یہ میری ’یاد داشت ‘ کا کمال ہے کہ تیسری بات مجھے اچھی طرح یاد نہیں رہی۔ غالباً کچھ اس طرح کی تھی کہ جس طرح کا خطابِ عام کرنا صرف اہل علم کا کام ہے، وہ غیر اہل علم سے نہ کروایا جائے۔
یہ واقعہ ایک طرف تو حضرت مولانا محمد الیاس ؒ کے اخلاص اور للہیت پر دلالت کرتا ہے کہ مولانا تھانوی ؒ کے اس مشورے کو انہوں نے اپنے کام کی مخالفت کا نام دینے کی بجائے طلب کے انداز میں اسے سنا، دوسری طرف اس سے مولانا تھانوی ؒ کی دور اندیشی اور فہم وفراست کا بھی اندازہ ہوتاہے ۔ چنانچہ مولانا محمد الیاس ؒ نے اپنے اس شرح صدر کی بنیاد پر جو کام شروع کیا، آج وہ ایک عالمی تحریک کی شکل اختیار کر چکا ہے اور اس کے مبارک فوائد اور ثمراتِ حسنہ کا انکار صرف وہی شخص کرسکتاہے جس نے آنکھیں بند کرنے کا ہی فیصلہ کر رکھا ہو۔ اسی کے ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مولانا تھانوی ؒ نے کام کے آغاز میں جو مشورے دیے تھے، آج پون صدی گذرنے کے بعد بھی وہ مشورے زندہ، تازہ اور حالات سے متعلقہ معلوم ہوتے ہیں۔
میں نے ڈاکٹر صاحب سے یہ عرض کیا کہ یہ واقعہ اور مکالمہ خود انہی کی طرف سے لکھ کر شائع ہوجائے تو اچھا ہے، تاکہ یہ بات ریکارڈ کا بھی حصہ بن جائے۔ کسی حد تک اس ضرورت کو تسلیم کرتے ہوئے یہ کہہ کر ہچکچاہٹ کا اظہار فرمایا کہ اس میں چونکہ بڑوں کی طرف اپنی نسبت کا اظہار بھی ہے، اس لیے اچھا نہیں لگتا۔
ڈاکٹر صاحب کی ایک اہم خوبی یہ تھی کہ جس کام میں افادیت کا کوئی پہلو ہوتا تو محض چھوٹے شخص کے ہاتھوں ہونے یا بظاہر معمولی نظر آنے کے باوجود اس کی حوصلہ افزائی اور راہ نمائی سے گریز نہیں فرماتے تھے۔جامعہ امدادیہ کے ایک فاضل نے، جو ایک دینی مدرسے میں استاذ ہیں، ڈاکٹر حمید اللہ ؒ کے سیرت پر کسی پرانے مضمون کو ایڈٹ کر کے کتابچے کی شکل شائع کرنے کا ارادہ کیا۔ انہوں نے مسودہ مجھے بھی دکھایا۔ اس سے اندازہ ہوا کہ ایک بظاہر چھوٹے شخص کے کام کو بھی انہوں نے کس دقیقہ رسی سے ملاحظہ کیا تھا۔
ڈاکٹر صاحب کی رحلت سارے ہی دینی اور علمی حلقوں کا بہت بڑا نقصان ہے، لیکن ان کی شخصیت کا ایک پہلو ایساہے جس کی بنیاد یہ کہا جاسکتاہے کہ سب سے زیادہ نقصان دینی مدارس کا ہواہے، اس لیے کہ ڈاکٹر صاحب کی جدید فکری اور تعلیمی رجحانات پر نظر تو معروف ہے ہی، اس حوالے سے وہ صرف صاحب مطالعہ ہی نہیں، صاحب تجربہ بھی تھے۔ انہیں زندگی میں مختلف رجحانات رکھنے والی شخصیات سے قرب اور ان سے استفادے کے مواقع نصیب ہوئے۔ انہیں بے شمار ایسے اسفار کا موقع ملا جن میں کئی مسلم اور غیر مسلم مفکرین اور قائدین سے تبادلۂ خیال اور مکالمے کا موقع ملا۔ وہ متعدد ایسے اہم مناصب پر بھی فائز رہے جو نہ صرف اختیارات کے اعتبار سے اہم ہوتے ہیں بلکہ ان کی یہ اہمیت بھی ہوتی ہے کہ ان کی بدولت بہت سی ایسی معلومات تک آدمی کی کسی رسائی ہوجاتی ہے جس کی عام حالات میں توقع کم ہوتی ہے۔ اس اعتبار سے انہیں جہاں دیدہ شخص کہا جاسکتاتھا۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ دینی مدارس کے نظام اور مزاج سے نہ صرف واقف تھے بلکہ باقاعدہ اس نظام کے اندر سے گذرے ہوئے تھے اور ان کی شخصیت کی ابتدائی ساخت پرداخت میں اس نظام کا بڑا حصہ تھا۔ حقیقت میں انہیں جو نسبتیں حاصل تھیں اور ذاتی طور وہ جن اوصاف کے مالک تھے، ان کے مطابق یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ ان کے اندر ایک صوفی اور ملا چھپا ہوا تھا یا انہوں نے چھپایا ہوا تھا، اس لیے انہیں مسٹر وملا کی خصوصیات کے امتزاج کا ایک اچھا نمونہ قرار دیا جاسکتا ہے۔
خاندانی طور پر ایک طرف وہ کاندھلہ کے اس معروف علمی خانوادے سے تعلق رکھتے تھے جس نے حضرت مولانا محمد الیاس رحمہ اللہ جیسی عظیم شخصیت کو جنم دیا اور دوسری طرف سے وہ تھانہ بھون کے فاروقی خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ان کی ابتدائی تعلیم وتربیت بھی دینی ماحول میں ہوئی۔ وہ بنیادی طور پر دینی مدارس کے پڑھے ہوئے تھے، محدث العصر حضرت مولانا محمد یوسف بنوری ؒ جیسی شخصیات ان کے اساتذہ میں شامل تھیں۔ اس وجہ سے جب سوال آتا تھا کہ دینی مدارس کے اصل اہداف اور مزاج کو برقرار رکھتے ہوئے عصرِ حاضر کے تقاضوں کے مطابق ان کے نصاب و نظام میں کیا تبدیلی لائی جاسکتی ہے تو اس سلسلے میں کردار ادا کرسکنے والی جن گنی چنی شخصیات پر نظر جاتی تھی، ان میں ڈاکٹر صاحب سرِ فہرست تھے ۔
دینی مدارس پر خاصا وقت ایسا گزرا کہ جو شخص عصری جامعات کی لائن اختیار کرلے، اس سے گریز کی راہ اختیار کی جاتی تھی اور ایسے شخص کی کسی بات پر دھیان نہیں دیا جاتا تھا، خواہ وہ ان کے اندر سے ہی نکل کر کیوں نہ گیا ہو ، تاہم پچھلے کچھ عرصے میں اس رجحان میں خاصی تبدیلی آئی ہے اور خود ڈاکٹر صاحبؒ سے بھی بعض اہل مدارس استفادے کے لیے رجوع کرنے لگے تھے۔خصوصاً ملک کے ایک اہم اور معروف ادارے جامعۃ الرشید نے، جس کے فکری پس منظر اور ’’مسٹر گریزی‘‘ کی روایت کو دیکھتے ہوئے اس پر تجدد پسندی کا الزام لگانا اتنا آسان نہیں ہے، کچھ عرصہ سے بہت اہتمام سے ڈاکٹر صاحب ؒ کو اپنے ہاں مدعو کرنے کا سلسلہ شروع کردیا تھا جو نہ صرف بذاتِ خود خوش آئند بات تھی بلکہ اس کے فوائد کے متعدی ہونے کے امکانات واضح ہورہے تھے اور یہ توقع بندھنے لگی تھی کہ دینی مدارس ڈاکٹر صاحب ؒ جیسی شخصیات، جو دونوں جہتوں کو گہرائی کے ساتھ سمجھتی ہیں، کی فکر اور تجربے سے استفادہ کرنے لگیں گے اور ڈاکٹر صاحب دو ایسے طبقوں کے درمیان پل کا کام دیں گے جن کے درمیان قدرِ مشترک اسلام اور مسلمانوں کی خدمت کا جذبہ اور اسلامی تعلیمات کو زندگی کے ہر شعبے میں جیتے جاگتے انداز میں دیکھنے کی تڑپ ہے۔ بہرحال کہنے کا مقصد یہ ہے کہ لگتا تھا کہ اب وہ وقت آگیا ہے کہ ڈاکٹر صاحب ؒ نے دنیا میں گھوم پھر کر اور مختلف اداروں میں اور مختلف شخصیات کے ساتھ کام کرکے جو تجربہ حاصل کیا ہے، اسے دینی مدارس کے اہداف کے مطابق بنا کر اس سے استفادے کا ایک سلسلہ چل نکلے گا، اس لیے میں نے اوپر عرض کیا کہ غالباً یہ کہنا درست ہوگا کہ ڈاکٹر صاحب کی رحلت سے سب سے زیادہ نقصان دینی مدارس کو ہوا ہے۔
چند دن پہلے ایک صاحب کہنے لگے کہ ڈاکٹر صاحبؒ مدرسہ کی لائن کے آدمی تھے، دوسری طرف کیوں نکل گئے؟ میں نے کہا: دوسری طرف نکل گئے تو اچھا ہوا۔ ادھر سے جو کچھ لے کر آئے، اس کو ہم لے لیتے اور مدرسوں میں منتقل کر دیتے۔ ان کے علم سے استفادہ کرتے۔ اگر بچوں کا والد کہیں باہر سفر پر جائے تو بچوں کو امید ہوتی ہے کہ ہمارا والد ہمارے لیے کوئی تحفہ لے کر آئے گا۔ ڈاکٹر صاحبؒ اگر دوسری طرف نکلے ہیں تو ہمیں انتظار ہونی چاہیے تھی کہ ہمارے لیے ڈاکٹر صاحبؒ کیا تحفہ لے کر آئیں گے۔ یقیناًدینی مدارس کو دینے کے لیے ان کے پاس بہت کچھ تھا۔
دو سال پہلے جب راقم الحروف کی طالب علمانہ کاوش ’’ تکملۃ معارف السنن‘‘ کی پہلی جلد چھپ کر منظر عام آئی تو کئی احباب کا اصرار تھا کہ اس حوالے سے ایک تقریب منعقد ہوجائے۔ جامعہ امدادیہ میں دورۂ حدیث شریف کے طلبہ سال کے اختتام پر ایک الوداعی تقریب منعقد کرتے ہیں، ان کی بھی خواہش تھی کہ یہ تقریب اس حوالے سے ہو۔ اس مقصد کے لیے پہلے مولانا زاہد الراشدی اور بعض دیگر اہل علم سے رابطہ ہوا ، لیکن ان سے وقت کے حصول کی کوئی صورت نہ بن سکی۔ پتہ چلا کہ ڈاکٹرصاحب قطر سے پاکستان تشریف لائے ہوئے ہیں۔ موقع غنیمت جانتے ہوئے برادرِ مکرم مفتی محمد طیب صاحب مدظلہم کے کہنے پر ان سے گذارش کی۔ انہوں نے کمالِ شفقت فرماتے ہوئے بلا ترد د وقت عنایت فرمایا۔ احقر نے کتاب کا ایک نسخہ ملاحظہ کے لیے روانہ کیا۔ تشریف آوری کی تاریخ سے چند دن پہلے جب راقم الحروف نے فون پر حتمی انتظامات اور ترتیب کے لیے رابطہ کیا تو یہ ان کی بڑائی اور خورد نوازی تھی کہ فرمایا کہ آپ کی کتاب میں نے دیکھ لی ہے، اس نے مجھے مسخر کرلیا ہے۔ اب آپ جیسے کہیں گے، ویسے ہی ہوگا۔ ڈاکٹر صاحب کے قیام کے لیے اچھے ہوٹل میں انتظام کا ارادہ کیا گیا، لیکن ڈاکٹر صاحبؒ کو معلوم ہوا تو انہوں نے سختی سے منع کردیا اور فرمایا کہ میں مدرسے میں ہی ٹھہرنا پسند کروں گا۔ ڈاکٹر صاحب ؒ نے علما اور طلبہ سے ان کی ذمہ داریوں کے موضوع پر بھی خطاب فرمایا اور تکملہ معارف السنن کے حوالے سے ہونے والی تقریب میں تدوین حدیث اور صحاحِ ستہ کے موضوع پر بہت ہی مؤثر اور انکشافات سے پر بیان فرمایا ( جو قلم بند ہوچکاہے اور ڈاکٹر صاحب اس پر نظر ثانی اور نظر ثالث بھی فرما چکے ہیں، ان شاء اللہ جلد شائع کرنے کا ارادہ ہے۔) حقیقت یہ ہے کہ متعدد حضرات کو حدیث شریف کے حوالے سے منعقد ہونے والی ایک مجلس میں یونیورسٹی کے کسی پروفیسر کو مدعو کرنا ہوسکتا ہے کہ عجیب سا معلوم ہوا ہو، لیکن ڈاکٹر صاحب ؒ کا خطاب خود ہی ایسے اشکالات کا جواب تھا۔ سچی بات یہ ہے کہ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ حدیث کے استناد پر جو یقین اب حاصل ہوا ہے، پہلے نہیں تھا، فجزاہ اللہ عنا خیر الجزاء وأحسنہ۔
ڈاکٹر صاحب کے خاندان اور ابتدائی تعلیمی پس منظر کو دیکھا جائے تو ایک خاص حلقۂ فکر سے ان کا تعلق نظر آتاہے جو بر صغیر میں اپنی گہری جڑیں رکھتاہے۔ ایک حد تک یہ فطری سی بات ہے کہ آدمی کے لیے اپنی جڑوں سے الگ ہونا انتہائی مشکل ہوتاہے۔ ڈاکٹر صاحب کے فکر و عمل پر یقیناًیہ پس منظری اثرات ضرور ہوں گے، لیکن نہ صرف یہ کہ انہوں نے خود کو ہر قسم کے تعصبات سے پاک رکھا، بلکہ غالباً یہ کہنا درست ہوگا کہ انہوں نے خود کو کسی خاص حلقۂ فکر کی طرف منسوب کرنے یا اس کا ترجمان باور کرانے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ ان کی شناخت دینی علوم کے ایک ایسے شناور کی تھی جسے مسلمانوں کے تمام طبقات اپنا اثاثہ سمجھتے تھے۔ ان کا اگر کوئی ’’ تعصب‘‘ تھا تو صرف امت مسلمہ کا درد اور اس کا عمومی مفاد تھا، اس حوالے سے وہ مغرب شناس ضرور تھے، اس سے مرعوب یا اس کے بارے میں کسی خوش فہمی کا شکار ہرگز نہیں تھے۔
میں نے ڈاکٹر صاحب ؒ کا گھر سب سے پہلے اس وقت دیکھا جب جنازے کے لیے حاضری ہوئی۔ جب ہم وہاں پہنچے تو جنازے کو اٹھا کر باہر لایا جا رہا تھا۔ ڈاکٹر صاحب جیسی معروف شخصیت جو اہم مناصب پر فائز رہی ہو، ایک ایسے حاکم کے زمانے میں وزیر اور نیشنل سیکورٹی کونسل کے رکن رہے جس کی طاقت کا سورج اس وقت سوا نیزے پر تھا۔ میرا اندازہ تھا کہ ان کا خاصا بڑا مکان ہوگا، لیکن سرسری طور پر باہر ہی سے ان کا مکان دیکھنے کا اتفاق ہوا جو میرے لیے ان کے مقام کے لحاظ سے حیرت کا باعث بھی تھا اور ان کی درویشی کی دلیل بھی۔
بہر حال موت سے کسی کو مفر نہیں۔ جو اس دنیا میں آیا ہے، اسے یہاں سے جانا بھی ہے۔ اللہ کے ہاں ان کی حکمت بالغہ کے تحت ہر چیز کا ایک وقت مقرر ہے، لیکن مفارقت اور جدائی کا غم فطری امر ہے۔ اس حادثے پر نہ معلوم کتنے لوگ خود کو تعزیت کا مستحق سمجھتے ہوں گے۔ سب کی خدمت میں تعزیت پیش ہے، خاص طور پر ڈاکٹر صاحب ؒ کے اہل خانہ، ان کی والدہ ماجدہ، ان کے برادر مکرم جناب ڈاکٹر احمد الغزالی، ان کی اولاد اور ان کے برادرِ نسبتی جناب ڈاکٹر محمد یوسف فاروقی صاحب کی خدمت میں تعزیت پیش ہے۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کی کامل مغفرت فرمائے، ان کی لغزشوں کو معاف فرمائے اور ان کی حسنات کو قبول فرمائے۔ ان کے درجات کو بلند فرمائے اور پس ماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ اللہم لا تحرمنا اجرہ ولا تفتنا بعدہ۔