شیخ الحدیث حضرت مولانا عبدالرحمن المینویؒ ؒ نے ضلع صوابی ( صوبہ پختونخواہ) کے ایک دور افتادہ خوبصورت گاؤں ’’مینی‘‘ میں آنکھیں کھولیں جہاں کوہ مہا بن کا پرشکوہ نظارہ دکھائی دیتا ہے۔ یخ بستہ ہوائیں کوہ مہابن کی فلک بوس وبرف پوش چوٹیوں سے پھسل کر اس گاؤں میں اترتی ہیں۔ یہاں ٹھنڈے پانی کے بل کھاتے چشمے، مالٹے اور خوبانی کے باغات کو سیراب کرتے ہوئے گزرتے ہیں۔ اس چھوٹے سے قصبے کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ سید احمد شہید ؒ اور ان کے ساتھیوں کے قافلے یہاں آکر رکے اور اس کی زمین شہیدوں کے لہو سے لالہ زار بنی۔
حضرت موصوف کا شمار دارالعلوم دیوبند کے ان فضلا میں ہوتا ہے جن کی حیات مستعار کا ایک ایک لمحہ علم حدیث کے لیے وقف تھا۔ فراغت کے بعد آپ نے ایک مشہور ادارے دارالعلوم میرٹھ سے تدریس کی ابتدا کی اور پہلے ہی سال سے آپ کو حدیث پڑھانے کا شرف حاصل ہوا جو بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتا ہے۔ اس کے بعد تادم واپسیں آپ کے لیل ونہار اسی میں گزرے۔ ہندوستان سے واپسی پر آپ نے ملک کے بڑے بڑے اداروں میں حدیث کی خدمت کی۔ دارالعلوم چارسدہ، خیرا لمدارس مردان، جامعہ اسلامیہ اکوڑہ خٹک میں پڑھاتے رہے، پھر مولانا غلام اللہ خانؒ کے شدید اصرار پر تعلیم القرآن راولپنڈی چلے آئے اور زندگی کے آخری دس سال یہیں گزارے۔ اس دوران میں اس چشمہ فیض سے ہزاروں طلبہ سیراب ہوئے اور اپنی اپنی بساط کے مطابق اکتساب علم کر کے اپنے علاقوں کو لوٹ گئے۔ درس کی عظمت اور وقار کا یہ عالم ہوتا تھا کہ اگر درس کبھی زیادہ طویل ہو جاتا تو بھی طلبہ انتہائی مشقت کے باوجود ایک ہی انداز میں بیٹھے رہتے۔ عموماً دائیں ہاتھ کی ہتھیلی سے زمین پر ٹیک لگانے کی عادت تھی۔
احناف کے دلائل ذکر کرتے وقت قرون سابقہ کا منظر ہوتا۔ حیرت انگیز حافظے کے مالک تھے۔ آپ کے شاگرد ڈاکٹر مولانا محمود احمد غازیؒ فرماتے ہیں: ’’ حضرت پڑھاتے وقت جب کسی جگہ استشہاد کے لیے حافظ ابن حجر ؒ یا علامہ عینی کی لمبی لمبی عبارات پڑھتے تو اس وقت خیال ہوتا کہ روایت بالمعنی کے طور پر پڑھتے ہوں گے، لیکن فراغت کے بعد جب عبارات کا اصل مراجع سے تطابق کیا تو تعجب کی انتہا نہ رہی، عبارات میں من وعن الفاظ ہیں۔‘‘
حضرت شیخ کے لیل ونہار عمومی طور پر درس وتدریس میں گزرے او ر اس میدان میں آپ نے شاگردوں کی ایک پوری جماعت تیار کی، تاہم تصنیف وتالیف کے میدان میں بھی آپ کے کچھ نقوش موجود ہیں جن سے آپ کی یاد تازہ رہے گی۔
۱۔ اصول حدیث پرنہایت وقیع کتاب ’’جواہر الاصول‘‘ آپ کی گراں قدر تصنیف ہے۔ یہ کتاب پہلی بار راولپنڈی سے آپ کی زندگی ہی میں شائع ہوئی تھی۔ کتاب کے متعلق علامہ شمس الحق افغانیؒ فرماتے ہیں: ’’فقد طالعت الرسالۃ المسماۃ بجواہرالاصول لمولفہا العلام الجامع المعقول والمنقول والحاوی للفروع والاصول الشیخ المحدث عبدالرحمن المینوی‘‘۔
علامہ عبدالرحمن کیمل پوری ؒ فرماتے ہیں: حضرت مولانا عبدالرحمن مینوی ،شیخ الحدیث دارالعلوم چارسدہ کو بعض بعض مقامات سے دیکھا۔ حضرت موصوف علمی طبقہ میں خاص شہرت کے مالک ہیں۔ آپ نے نہایت عرق ریزی سے اس باب میں سعی فرما کر بکھرے ہوئے موتیوں کو یکجا جمع کردیا ہے اور اہل علم پر عظیم احسان فرمادیا ہے۔‘‘
مفتی اعظم مفتی محمد شفیع فرماتے ہیں: ’’وبعد فانی رایت الرسالۃ الغراء جواہر الاصول من مواضع عدیدۃ فوجدتھا بحمداللہ حافلۃ لما لا بد منہ‘‘۔
۲۔ بخاری شریف کے ابتدائی تین ابواب پر ’’الکوثر الجاری علیٰ ریاض البخاری‘‘ کے نام سے دو جلدوں میں آپ کی شرح ہے۔ اس شرح کی خصوصیت یہ ہے کہ احناف کے مذہب کو نہایت عمیق اور منطقی استدلال سے حل فرماتے ہیں۔ منطقی علوم میں حضرت کو امامت کا درجہ حاصل تھا۔
۳۔ حضرت عبداللہ بن زبیرؓ کی میراث والی روایت پر ایک مستقل رسالہ ’’فیضان الباری فی حدیث ابن الحواری‘‘ لکھا ہے۔ قاضی شمس الدین ؒ نے الہام الباری میں اس حدیث کی تشریح میں جو تقسیم ذکر کی ہے، اس تقسیم پر حضرت شیخ کے کچھ تحفظات تھے جس کی وجہ سے آپ نے یہ رسالہ لکھا۔ ( چند سال پہلے راقم نے اس مسودہ کو شائع کیاتھا۔)
۴۔ شدالرحال اور زیارات قبور پر بھی ایک اہم کتاب حضرت نے لکھی تھی۔ افسوس یہ ہے کہ اس کا اصل مسودہ دریافت نہ ہو سکا۔ حضرت کی ذاتی لائبریری میں مجھے اس کتاب کا ایک کتابت شدہ نسخہ مل گیا، لیکن عرصہ دراز گزرنے کی وجہ سے اس کی لکھائی بہت مدھم ہو گئی ہے جس کی وجہ سے اسے پڑھنا دشوار ہے۔
۵۔ آپ کے ترمذی شریف کے افادات پرعلاقہ دیر کے جناب مولانا اعزاز علی، پی ایچ ڈی کے لیے ’’سنن ترمذی پر مولانا عبدالرحمن المینوی کے علمی کام کا تحقیقی جائزہ‘‘ کے عنوان سے پشاور یونیورسٹی کے شعبہ اسلامیات کے تحت اپنا مقالہ لکھ رہے ہیں۔ یہ تقریر تقریباً ساڑھے سات سو صفحات پر مشتمل ہے۔ اس کے علاوہ صحاح ستہ پر آپ کے انتہائی جاندار اور محدثانہ افادات بھی آپ کے شاگردوں کے پا س محفوظ ہیں۔ حضرت شیخ کے ایک شاگرد مولانا اویس (سابق چیئر مین اسلامی ثقافت ڈنمارک) نے ان افادات پرکام کیا تھا جس کے لیے حضرت سے مسلسل رابطہ بھی رہا ۔ نہ معلوم کن وجوہات کی بنا پر یہ کام ادھورا رہ گیا۔
مولانا کا اسلوب تدریس انوکھی شان کاہوتا تھا۔ مشکل سے مشکل مقام کو آپ اتنی خوبی سے سمجھاتے کہ طالب علم کے سامنے سبق کا خلاصہ اور مغز تو آ ہی جاتا، متعلقہ بحث میں گہری بصیرت بھی حاصل ہو جاتی تھی۔ طریقہ یہ ہوتا کہ کسی بات کو شروع کرتے تو فرماتے:
اس باب میں دس عنوانات ہیں: عنوان اول: امام بخاری نے یہاں تین ابواب قائم کیے ہیں ۔ ۲۔ ان تین ابواب سے امام بخاریؒ کی غرض۔ ۳: دوسرے باب پر وارد اشکال کاحل۔ ۴: سند کا بیان۔ ۵: چند اہم سوالات کا جواب ۔ ۶: ان تعبداللہ کانک تراہ میں درجات شرک کا بیان۔ ۷: احسان کا لغوی اور اصطلاحی معنی۔ ۸: ملائکہ پر ایمان کا مطلب ۔ ۹: قیامت کی لغوی اور اصطلاحی تعریف۔ ۱۰: آیت پر وارد اشکال کا حل۔
ہرکتاب میں عنوانات کا یہ سلسلہ رہتا۔ اس اسلوب پر لکھنا شاید آسان ہو، لیکن دوران درس میں اجمال وتفصیل کے عنوانات کو لف نشرمرتب کے ساتھ بیان کرنا غیر معمولی حافظے کاپتہ دیتاہے۔
حضرت مولانا کے اساتذہ میں سب سے پہلا نام تو شیخ العرب والعجم مولانا حسین احمدمدنیؒ کاہے۔ آپ کے دوسرے اساتذہ میں شیخ الادب مولانا اعزاز علیؒ ، مولانا ابراہیم بلیاویؒ ، مفتی ریاض الدین بجنوریؒ وغیرہم ہیں۔
۱۹۷۰ء میں کینسر کے مرض میں مبتلا ہو کر حضرت شیخ اس دار فانی سے رخصت ہو گئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
مقدور ہو تو خاک سے پوچھوں کہ اے لئیم
تو نے وہ گنج ہاے گراں مایہ کیا کیے