ڈاکٹر محمود احمد غازی رخصت ہوئے۔ ایک با مقصد اور با معنی زندگی اپنے اختتام کو پہنچی۔ میری برسوں پر پھیلی یادیں اگر ایک جملے میں سمیٹ دی جا ئیں تو اس کا حاصل یہی جملہ ہے، لیکن غازی صاحب کے بارے میں ایک جملہ ایسا ہے کہ میں اس پر رشک کرتا ہوں۔ بہت سال ہو ئے جب غازی صاحب کے ایک دیرینہ رفیق نے ان کے بارے میں مجھ سے کہا: ’’میں نے علم اور تقویٰ کا ایسا امتزاج کم دیکھا ہے۔‘‘یہ بات کہنے والی شخصیت بھی ایسی ہے کہ میں ان کے علم اور تقویٰ دونوں پر بھروسہ کر تا ہوں۔ یہ گواہی وہ ہے جو یقیناًفرشتوں نے محفوظ کی ہوگی اوراللہ کے حضور میں ان شاء اللہ ان کی بلندئ درجات کا باعث بنے گی۔
غازی صاحب کے بارے میں ،میں یہ اطمینان کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ ہمارے معاشرے میں اب شاید ہی کوئی ایسا ہو جو ان کی جگہ لے سکے۔ غازی صاحب ان لوگوں میں سے تھے جوقدیم اور جدید کا ایک امتزاج تھے، تاہم ان کا جھکاؤقدیم کی طرف رہتا تھا۔ یہ ان کی احتیاط کا اظہار تھا۔ دینی تفہیم و تعبیر کے معا ملے میں وہ با لعموم اسلاف کی رائے کے قریب رہنے کو تر جیح دیتے تھے۔ یہ محتاط روش یقیناًخیر کا باعث ہو تی ہے۔ اس میں آپ کسی غلط رائے کا بار اپنے سر لینے سے محفوظ رہتے ہیں۔ تاہم ایسا بھی نہیں تھا کہ وہ کسی مو قف کو غلط سمجھتے ہو ئے اُسے محض اس وجہ سے قبول کرلیں کہ وہ اسلاف کی رائے ہے۔ مثا ل کے طورپر وہ اکثر فقہا کی طرح عورت کی گواہی کو آدھی مانتے تھے، لیکن حدود کے مقدمات میں عورت کی گواہی کو قبول کر نے کے حق میں تھے۔ اس باب میں جمہور علما کی رائے یہ ہے کہ وہ حدود میں عورت کی گوا ہی مطلقاً قبول نہیں کر تے۔
غازی صاحب ایک کثیر المطا لعہ اورہمہ جہتی علم کے حامل تھے۔ دین کے حوالے سے وہ متعدد علوم میں ایک استاد کی دسترس رکھتے تھے۔ میں نے انہیں بارہا سنا اور پڑھا۔ سیرتِ صحابہ پر وہ گفتگو کرتے تومعلوم ہو تا کہ انہوں نے حرفِ آخر کہہ دیا ہے۔ اقبال کی عالمانہ تخلیق ’’جاوید نامہ‘‘ کی انہوں نے تسہیل کی۔ یہ کتاب اقبال کے علم اور شاعری کا ایک معجزہ ہے۔ اس میں اقبال نے اپنے پیر رومی کی معیت میں ایک روحانی سفر کیا ہے جس میں وہ متعدد افلاک پر جا تے ہیں اوران شخصیات سے ہم کلام ہو تے ہیں جو دنیا سے رخصت ہو چکیں۔ یہ مختلف ادیان اور افکار کے نمائندہ لوگ ہیں۔ اب اقبال ان سے جو مکالمہ کرتے ہیں اور ان کی زبان سے جو کہلواتے ہیں، اس کی تفہیم ممکن نہیں اگر پڑھنے والا ان کے فکر اورفلسفے سے واقف نہیں۔ مثال کے طور پر وہ روس کے بڑے ادیب ٹالسٹائی کا انتخاب کرتے ہیں تو سوچنا پڑتا ہے کہ اس انتخاب کی وجہ کیا ہے۔ اسی طرح وہ ابو جہل سے ایک نو حہ کہلواتے ہیں اور اس سے معلوم ہو تا ہے کہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے وہ کیا واقعہ پیش آیا جس نے ابو جہل کی دنیا اور آخرت برباد کر دی۔ غازی صاحب نے ’’جا وید نامہ‘‘ کے مضامین کو ایک عام آدمی کے لیے سہل بنا دیا۔ اس کے مطا لعہ سے ایک عام پڑھا لکھا آدمی بھی فکرِ اقبال کی رنگا رنگی سے واقف ہو جا تا ہے۔ اسی طرح انہوں نے بین الاقوامی قانون پر لکھا اور بہت عالما نہ انداز میں اس مو ضوع کو دیکھا۔ جنوبی ایشیا کی مسلم فکر پر بھی انہوں نے قلم اٹھایا۔ ان کی آخری تصنیف عربی زبان میں شیخ احمد سرہندی پر تھی جو بیروت سے شائع ہو ئی۔ غالباً بر صغیر کی ایک بڑی شخصیت کا عربی زبان میں یہ پہلا مفصل تعارف ہے۔
فقہ سے انہیں فطری منا سبت تھی۔ یہ وہ مو ضوع ہے جس پر وہی کچھ کہنے کا مجاز ہے جو ایک طرف روایت سے اچھی طرح آگاہ ہو اور دوسری طرف اپنے عہد کے مسا ئل سے بھی واقف ہو۔ یہ ان کا منفرد اعزازہے کہ دین کے حوالے سے پا کستان میں جو اہم دستاویزات سامنے آئیں، ان میں کسی نہ کسی طرح غازی صاحب کا حصہ رہا۔ مثال کے طور پر قادیانیوں کے حوالے سے جو آئینی ترمیم کی گئی، اس کی تیاری میں وہ مو لا نا ظفر احمد انصاری کے معاون تھے۔ ضیاء الحق صاحب کے دور میں جو حدود قوانین ملک میں رائج ہو ئے، وہ بڑی حد تک ان ہی کے تحریر کردہ تھے۔ وفات سے پہلے وہ وفاقی شرعی عدالت کے جج تھے۔ اس سے پہلے وہ سپریم کورٹ کے شریعت اپیلٹ بینچ میں تھے۔ یہ ملکی قانون اور فقہ میں ان کی دسترس کا اظہار ہے۔ تدریس کے باب میں بھی ان کی خدمات بے پناہ ہیں۔ انہوں نے بہت سے شاگرد چھو ڑے ہیں جن کی حیثیت صدقہ جاریہ کی ہے۔ ان کی تعداد بہت ہے اور وہ ساری دنیا میں پائے جاتے ہیں۔ اس سال کے آ غاز تک وہ قطر کی ایک یو نیورسٹی میں پڑھا تے رہے ہیں۔
اپنی طا لب علما نہ سر گر میوں میں، میں نے با رہا ان سے رجوع کیا اور ان کے علم سے فائدہ اٹھایا۔میری کتاب ’’علم کی اسلامی تشکیل‘‘ کا مسودہ انہوں نے دیکھا اور اس کو بہتر بنا نے کے لیے مشورے دیے۔یہ ان کی شفقت کا ایک انداز تھا۔ ظاہر ہے کہ یہ محض میری ذات تک محدود نہیں۔ نہیں معلوم کتنے لوگوں نے ان کے علم سے فائدہ اٹھا یا اور آج ان کے ہاتھ اپنے پر وردگار کے حضور میں ان کی مغفرت کے لیے اٹھے ہیں۔
سچ یہ ہے کہ وہ ایک کامیاب آدمی کی طرح اس دنیا سے رخصت ہو ئے جسے قرآن مجید نفس مطمئنہ کہتا ہے۔ رات گیارہ بجے کے قریب انہیں دل کا دورہ پڑا۔ ہسپتال لے جا یا گیا ۔ چند گھنٹے بعد انہیں ہوش آیا۔اپنے بھائی محمد غزالی صاحب سے کہا کہ وہ گھر جا ئیں، میں بھی صبح تک لوٹ آؤں گا۔ فجر کی نماز کے لیے وضو کیا،بستر ہی پر نماز پڑھی اور تھوڑی دیر بعد اپنے آخری سفر پر روانہ ہو گئے۔ ہم تفہیمِ مدعا کے لیے اسے موت کہتے ہیں، لیکن یہ ایک دنیا سے دوسری دنیا میں قدم ر کھنا ہے۔ وہ اپنے جسمانی وجود کے ساتھ اب یہاں نہیں ہیں، لیکن اپنی کتابوں ، شاگردوں اور یادوں کے ساتھ یہیں ہیں، یہیں کہیں ہیں۔
لحد میں بھی یہی غیب و حضور رہتا ہے
اگر ہو زندہ تو دل نا صبور رہتا ہے
مہ و ستارہ مثالِ شرارہ یک دو نفس
مئے خودی کاابد تک سرور رہتا ہے
فرشتہ موت کا چھوتا ہے گو بدن تیرا
ترے وجود کے مر کز سے دور رہتا ہے!
(بشکریہ روزنامہ اوصاف، اسلام آباد)