ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ کا نام نامی تو خاصے عرصہ سے ذہن میں تھا اور عربی مدارس کے نظام ونصاب میں تبدیلی کے سلسلہ میں ان کے فکر انگیز خیالات بھی مطالعہ میں آئے تھے، لیکن با ضابطہ ان کی کسی تصنیف یا مجموعہ محاضرات کے مطالعہ کا اتفاق نہیں ہوا تھا۔ سرسری سی معلومات سے اتنا تو اندازہ تھا کہ فکرو نظر کے اعتبار سے موصوف کا شمار نہ صرف پاکستان بلکہ دنیائے اسلام کی چند منتخب روزگار شخصیات میں سے ہوتا ہے۔ جب ان کی وفات (۲۶ستمبر،۲۰۱۰)کے بعد مؤقر مجلہ ’الشریعہ‘ کے مدیر شہیر جناب مولانا عمار خان ناصر صاحب کا دعوت نامہ موصول ہوا کہ ڈاکٹر صاحب موصوف کی یاد میں الشریعہ کی اشاعت خصوصی کے لیے مضمون لکھوں تو راقم نے موصوف کی شخصیت اور کارناموں پر لکھنے کا عزم کرلیا اور اس مضمون کا ایک فوری فائدہ یہ ہوا کہ اس سلسلے میں ڈاکٹر صاحب کی کئی کتابیں خصوصاً محاضرات قرآنی، محاضرات حدیث اور محاضرات فقہ بالاستیعاب پڑھنے کا موقع مل گیا۔ حاصل مطالعہ کے طور پر چند معروضات پیش خدمت ہیں:
سوانح زندگی:
ڈاکٹر محمود احمد غازی (فاروقی) ۱۳؍ ستمبر ۱۹۵۰ء کوکاندھلہ مظفرنگر(ہندوستان )میں پیدا ہوئے۔ (۱) ان کے والد محمد احمد فاروقی مولانا شیخ الحدیث محمدزکریاکاندہلوی کے خلیفہ تھے۔ (۲) خاندانی تعلق مولاناتھانوی سے تھا۔ اصلاً تووہ تھانہ بھون ضلع مظفرنگرکے رہنے والے تھے، مگران کی شادی کاندھلہ کے ایک بزرگ حکیم قمرالحسن کی دخترسے ہوئی جو کہ سابق امیرتبلیغ مولانا محمداظہارالحسن کاندھلویؒ کے بڑے بھائی تھے۔ اس رشتہ کے بعد وہ کاندھلہ جاکررہنے لگے تھے۔ جب محموداحمدغازی ۶، ۷ سال کے تھے تو یہ کنبہ کراچی چلاگیا جہاں محموداحمدکو بنوری ٹاؤن کے مدرسہ میں داخل کرایاگیا۔ قرآن پاک حفظ کرنے کے بعد انھوں نے مروجہ طرز پراسلامی علوم کی تحصیل شروع کی۔ اس طرح علامہ محمدیوسف بنوریؒ سے انہوں نے پڑھا۔ کچھ عرصہ کے بعد ان کے والد راولپنڈی منتقل ہوئے توانہوں نے وہاں کے مدرسہ تعلیم القرآن میں تعلیم جاری رکھی۔ ۱۹۶۲ء میں عربی کامل کا امتحان پاس کیا اور ۱۹۶۶ء میں درس نظامی کا پورا کورس مکمل کرلیا۔ ۱۹۷۲ء میں عربی زبان میں ایم اے کیا۔ اسی کے ساتھ فارسی اور فرنچ میں ڈگریاں حاصل کیں۔ انھوں نے پنجاب یونیورسٹی سے اسلامیات میں پی ایچ ڈی کی جس کا موضوع شاہ ولی اللہ سے متعلق تھا۔ (۳)
تدریسی خدمات :
تعلیم کی تکمیل کے بعدڈاکٹر غازی صاحب نے راولپندی کے مدرسہ فاروقیہ اور مدرسہ ملیہ میں پڑھا یا۔ اس کے بعد ادار ہ تحقیقات اسلامی میں یہ خدمت انجام دی، پھر قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں اسلام کے سیاسی فکر کے ارتقا پر لیکچر دیے ۔ اس کے بعد بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد میں برسوں تک تدریس کی جہاں وہ شریعہ فیکلٹی میں پروفیسر، ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ اوریونی ورسٹی کے نائب صدر سے لے کر وائس چانسلر تک رہے۔ نیز قطر فاؤنڈیشن دوحہ میں بھی فیکلٹی آف اسلامک اسٹڈیز کے پروفیسر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔
تدریس کے علاوہ ڈاکٹر غازی اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے چےئرمین شریعہ بورڈ ، تکافل پاکستان کراچی کے شریعہ سپروائزری کمیٹی کے چیئرمین، مذہبی امور کے وفاقی وزیر (اگست ۲۰۰۲) سپریم کورٹ آف پاکستان کی شریعہ ایلپیٹ بنچ کے جج (۱۹۹۹-۱۹۹۸) اسلامی نظریاتی کونسل کے ممبر، شریعہ اکیڈمی بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے ڈائرکٹر نیز اسی یونیورسٹی کی دعوۃ اکیڈمی کے ڈائرکٹر وغیرہ جیسے اہم اور ذمہ دارانہ مناصب پر فائز رہے۔ قومی سلامتی کونسل کا رکن بھی ان کو بنایا گیا ۔ اسی طرح بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد سے نکلنے والے دو اہم علمی مجلات الدراسات الاسلامیہ (عربی)اور فکر ونظر (اردو) کاایڈیٹر بھی ان کومقررکیاگیا۔ اپنی علمی فکری اور عملی خدمات کے قومی اور بین الاقوامی سطح کے کتنے ہی اداروں کی ممبری، اور فقہی مشیر کی حیثیت سے بھی انھیں حاصل ہوئی جن میں پاکستان کے متعدد اداروں کے علاوہ ایران، شام، اسپین ، مصر اور سعودی عرب کے مؤقر و مقتدر ادارے شامل ہیں۔ اسی طرح ڈاکٹر غازی کی پوری زندگی عملی و علمی نشاط وسرگرمی سے عبارت تھی۔(۴)
علمی آثار:
اگر چہ ڈاکٹر غازی کی شہرت عام اور روایتی علما سے مختلف اور جدید اسلامی اسکالر و مفکر کے بطورزیادہ تھی، تاہم ان کی تقریریں وتحریر یں بتاتی ہیں کہ وہ راسخ العقیدہ اور متبحر عالم تھے۔ انھوں نے اسلامیات کے متعدد موضوعات پر تیس کے قریب کتابیں اور ۱۰۰ سے زیادہ مضامین ومقالات لکھے۔ ان میں بعض کتابیں در اصل ان کے محاضرات کے مجموعے ہیں جو انھوں نے ادارہ ’’الہدیٰ ‘‘کی فرمائش پر قرآن، حدیث، فقہ، سیرت اور شریعت پر دیے تھے۔ یہ تقریبا ۶۸ لیکچرز ہیں جن کو الگ الگ کتاب کی صورت میں پاکستان کے معروف ناشر ’’الفیصل‘‘ نے شائع کیا ہے۔ ڈاکٹر غازی عربی ،اردو اور انگریزی میں لکھتے تھے۔ انھوں نے اردو سے عربی اور عربی سے اردو میں علمی اور اہم کتابوں کے کامیاب ترجمے بھی کیے ہیں ۔ ان کے علاوہ ڈاکٹر صاحب کی تصنیف یا ترجمہ اور ایڈیٹنگ کی ہوئی۔ بارہ کتابیں غیر مطبوعہ ہیں۔ یہ کتابیں اردو ،عربی اور انگریزی میں ہیں اور ان میں بعض زیر طبع ہیں جن میں مجدد الف ثانیؒ کے مکتوبات کا عربی ترجمہ، اقبالؒ کے خطبات کا عربی ترجمہ، مقاصد شریعت، اسلام اور مغرب،ڈاکٹر محمد حمید اللہؒ کی سیرت نبوی پر فرنچ میں لکھی گئی کتاب کا انگریزی ترجمہ اور امام غزالیؒ کی کتاب قواعد العقائد کا انگریزی ترجمہ بھی شامل ہے۔ (۶)
ایک بہترین متکلم:
ڈاکٹر محمود احمد غازی ایک بہترین متکلم اسلام ہیں۔ قرآن و حدیث ، فقہ، سیرت اورشریعت پانچوں علوم پر انھوں نے قارئین (حاضرین) کے سامنے اہم اور ادق مسائل کو نہایت، رواں اسلوب سہل و آسان زبان میں اس طرح بیان کردیا ہے کہ تمام باتیں ذہن نشین ہوتی چلی جاتی ہیں۔ ڈاکٹر محمد حمید اللہ کے خطبات بہاولپورمیں بھی یہی انداز واسلوب ہے۔ تاہم ڈاکٹرمحمدحمیداللہؒ کاامتیازایجازہے اور اصلاً کلیات اور اہم امور کا بیان ہے اور خاص کر مختلف علوم اسلامیہ کی تدوین کی تاریخ پر ترکیز ہے، جبکہ ڈاکٹر غازی نے اپنے خطبات میں پانچوں علوم میں سے ہر علم کے اہم و مہتم بالشان اور ضرورت کے تمام مباحث نہایت جامع وبلیغ انداز میں بیان کردیے ہیں اور دوران تقریر بالکل سامنے کی آسان مثالیں دے کر بحث کو بہت آسان کردیا ہے۔ عصر حاضر میں اسلامیات پر سہل الفہم اور مفید عام کتابیں لکھنے میں سب سے زیادہ شہرت مولانا سیدابو الاعلیٰ مودودی ؒ بانی جماعت اسلامی کو ملی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ بہت سے مباحث پر ڈاکٹر غازی نے سیدمودودیؒ کی متکلمانہ بحث و گفتگو کی یاد تازہ کردی ہے۔
علوم اسلامیہ کا استحضار:
ڈاکٹر غازی کے محاضرات کے سلسلہ کو پڑھنے سے پہلا تاثر یہ قائم ہوتا ہے کہ محاضر ومقرر کا علوم اسلامی کا گہرا استحضار ہے۔ یہ محاضرات انھوں نے ادارہ ’’الہدیٰ‘‘ کی مدرسات کے آگے دیے اور محض چند نوٹس کی مدد سے دیے۔ ان کے سامعین مدرسات تھیں جن میں ظاہر ہے کہ اعلیٰ درجہ کی علمی صلاحیت کا ساتھ ہی متوسط درجہ کی صلاحیت رکھنے والی خواتین بھی ہوں گی۔ان کے سامنے امہات علوم اسلامیہ کی تفصیلات کا تعارف سلیس وسہل انداز میں پیش کرنا کارے دارد تھا،تاہم ڈاکٹر غازی اس مسئلہ سے نہایت عمدہ انداز میں عہدہ بر آ ہوئے۔محاضرات کے علاوہ بھی ان کی دوسری تحریروں میں بھی یہ صفت ظاہر ہے۔
راسخ العقیدہ عالم:
ڈاکٹر غازی اگر چہ متبحر عالم دین تھے مگر ان کی شہرت بطور ایک دانشور کے زیاد ہ تھی۔ ان کا حلقہ تعارف اور حلقۂ احباب میں بھی دانشور، اسکالرز، بین الاقوامی مسلم مشاہیر، چوٹی کے علما و مفکرین اور یونیورسٹی کے اساتذہ نیز حکومت کے ارباب حل وعقد زیادہ تھے۔ ظاہر ہے کہ وہ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے وائس چانسلر تھے، وزیر برائے امور مذہبی تھے۔اپنی ان حیثیتوں کے ساتھ ہی وہ ایک راسخ العقیدہ عالم دین تھے۔ ان کے مطالعہ میں وسعت تھی اور ہر علم سے متعلق ان کی اپنی رائے تھی، لیکن ہر رائے قرآن وسنت کے مضبوط وپائدار دلائل پر مبنی ہے۔ تاہم ان کی بعض رایوں سے اختلاف کیا جاسکتا ہے، مثلاً ایک جگہ لکھتے ہیں:
’’ یہ بات بڑی بنیادی اہمیت رکھتی ہے کہ جن اہل علم نے سب سے پہلے کلامی اورفلسفیانہ نوعیت کے یہ سوالات اٹھائے، وہ اصلاً محدثین تھے۔ مثال کے طورپر امام بخاری، امام احمد بن حنبل اور دوسرے محدثین نے ان سوالات سے بحث کی کہ کلام الٰہی قدیم ہے کہ حادث ہے۔ یہ خالص عقلی اورفلسفیانہ مسئلہ ہے، لیکن امام احمد بن حنبل نے یہ مسئلہ اٹھایاجو ایک محدث ہیں۔‘‘ (۷)
ڈاکٹرصاحب کی اس رائے سے اتفاق کرناذرامشکل ہے کیونکہ صورت حال اس کے برعکس تھی اوروہ یہ کہ مسلمانوں میں کلامی وفلسفیانہ نوعیت کے سوالات پہلے ہی سے اٹھ رہے تھے۔ ان کے محرک وہ یونانی علوم تھے جن کا ترجمہ بڑی شد ومد سے خلافت بنوامیہ کے اخیر اوربنوعباس کے آغاز میں ہورہاتھا۔اس کے علاوہ شعوبی، زندیقی، سبائی تحریکیں اوران سے متاثرفارسی ذہنیت کے نومسلم عناصرتھے۔ معتزلہ ومتکلمین نے ان سوالات کا جواب دینے کی کوشش کی۔جہاں تک محدثین کی بات ہے تو انہوں نے تومسلمان اہل علم کے کلام ومنطق اورفلسفہ یونانی میں اس انہماک کو غلط ہی سمجھا اوراس پر تنقیدکی۔ پھریہ کیسے کہاجاسکتا ہے کہ انہوں نے عقلی اورفلسفیانہ نوعیت کے سوالات سب سے پہلے اٹھائے ۔
مجتہدانہ سوچ کے مالک مفکر:
اعلیٰ درجہ کا تفکر اور تحقیقی نقطۂ نظرڈاکٹرصاحب کی ہر تحریر سے عیاں ہے۔ اس طرح وسعت مطالعہ اور مسلسل غور وفکر نے ان کی سوچ کو مجتہدانہ بنادیا تھا چنانچہ ایک عالمی فقہ کا تصور اور کسی ایک فقہ میں محصور نہ ہونا ان کی مجتہدانہ فکر کا غماز ہے۔ کا سمو پولیٹن فقہ کے ساتھ ہی حدیث کے بارے میں کہا کہ ’’علم حدیث میں ایک نیا پہلو ایسا ہے جو اس کے سائنسی مطالعہ سے عبارت ہے‘ ‘اور ’’نئے انداز سے علم حدیث کے مجموعے مرتب کرنے کی ضرورت ہے جن میں آج کے دورکے تہذیبی، تمدنی، سیاسی، معاشی، اجتماعی، اخلاقی اورروحانی ضروریات کے مطابق ابواب کی ترتیب اورمضامین کی تقسیم کی جائے اوریوں مجموعے مرتب کیے جائیں۔‘‘ (۸)۔ کتاب کے آخر میں انھوں نے حدیث پر نئے سرے سے کرنے کے کام سمجھائے اور مثالوں سے ان کی وضاحت کی۔ تدریس قرآن کے سلسلہ میں جدید تقاضوں پر گفتگو کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ ’’صحابہ کرام نے کسی فقہی، کلامی یا تفصیلی معاملہ کی طرف کسی کو دعوت نہیں دی۔ دعوت صرف دین کی دی جاتی تھی۔ دعوت شریعت یا دعوت فقہ کبھی نہیں ہوتی تھی‘‘ (۹)۔ اسی طرح ان کا یہ بھی خیال ہے کہ اسلام میں ریاست وحکومت تو براہ راست مطلوب نہیں ہے، لیکن ایک اسلامی معاشرہ اورامت مسلمہ کا قیام یقیناایک دینی فریضہ اورراست مطلوب شرعی ہے۔ (۱۰) انہوں نے مشہورمستشرق ڈاکٹر اسپرنگرکے حوالے سے یہ فکرانگیز خیال بھی ظاہرکیاکہ علم حدیث اورعلم اصول فقہ یہ دونوں اسلام کی ذہانت (geniusness) کازبردست اظہارہیں۔ ان کے الفاظ میں ’’مسلمانوں میں creative Genius کاسب سے اعلیٰ نمونہ علم اصول الفقہ ہے۔ علم حدیث مسلمانوں کی Accumulative Genius کا بے مثال نمونہ ہے۔‘‘ (۱۱)
وسعت نظری و رواداری:
ڈاکٹر صاحب ان چنیدہ صاحبان دانش میں سے ہیں جن کا مطالعہ متنوع اور وسیع ہے۔ وہ زیادہ تر عربی کتابوں کا مطالعہ کیا کرتے تھے۔ (۱۲) فرنچ جاننے کی وجہ سے ان کے مطالعہ میں مزید وسعت پیدا ہوگئی، خاص کر مستشرقین کی تحریریں راست ان کے مطالعہ میں آئیں۔ وسعت مطالعہ اور تفکر سے وسعت نظری پیدا ہوتی ہے، چنانچہ ڈاکٹر صاحب کے ہاں وسعت نظری اور رواداری پیدا ہوگئی۔ وہ حنفی تھے لیکن متشدد وکٹر قسم کے حنفی نہیں۔ان سے سوال کیاگیاکہ کیاحنفی کی نماز شافعی کے پیچھے ہوجائے گی،بعض لوگ منع کرتے ہیں۔اس سوا ل کے جواب میں وہ کہتے ہیں:
’’فقہ اسلامی میں ایساکوئی حکم موجود نہیں ہے۔ جس نے بھی ایسا کہا، فضول بات کی ہے اوربالکل غلط کہی ہے۔ جس مسلک کا امام نماز پڑھا رہا ہو، آپ بے تکلف وبے تردد اس کے پیچھے نماز پڑھ لیں۔ اگرآج امام شافعی یہاں تشریف لے آئیں تو میں کسی آدمی کو نماز پڑھانے نہیں دوں گا۔ خود بھی امام شافعی کے پیچھے نماز پڑھوں گا اور دوسروں سے بھی کہوں گا کہ امام شافعی کے پیچھے نماز پڑھیں۔‘‘ (۱۳)
اسی طرح وہ سنی تھے، راسخ العقیدہ سنی۔ ایک صاحب نے لکھا ہے کہ پی ایچ ڈی کے مقالہ میں ان کے ایک ایرانی ممتحن نے منفی رپورٹ لکھی تھی۔ اس کے باوجود وہ نہ صرف کافی حدتک مسلکی رواداری کا اظہار کرتے تھے بلکہ فقہ جعفری کے مطالعہ کا مشورہ بھی دیتے تھے۔ شیعوں کی تکفیرکے بارے میں ایک سوال کے جواب میں کہتے ہیں:
’’یہ بڑی غیر ذمہ داری کی بات ہے۔ جو لوگ یہ باتیں کہتے ہیں، اللہ تعالیٰ ان کو ہدایت دے۔ ان کو یہ باتیں نہیں کہنی چاہییں۔ یہ دنیائے اسلام میں ایک ٹائم بم رکھنے کے مترادف ہے۔ شیعہ حضرات آج سے نہیں ہیں، کم سے کم تیرہ سو برس سے چلے آرہے ہیں۔ کبھی بھی مسلمانوں نے ان کو کافر نہیں کہا۔بڑے بڑے اہل علم نے شیعہ عقائد کا مطالعہ کیا تو ان کو غلط تو کہا، ان پر تنقید تو کی اور ان کمزوریاں واضح کیں، لیکن کسی یہ نہیں کہا کہ شیعہ دائرہ اسلام سے خارج ہیں۔ لہٰذا یہ بات جو پچھلے پندرہ بیس سالوں سے پیداہوگئی ہے، اس نے دنیاے اسلام میں بڑافساد پیدا کیا ہے۔ میرے نزدیک شیعوں کے عقائد غلط ہیں، اسلام کے مطابق نہیں ہیں۔ بس، بات ختم ہوگئی۔‘‘ (۱۴)
معتدل فکرو اسلوب:
وسعت نظری اور جامعیت سے فکر میں اعتدال پیدا ہوا۔ الہدیٰ ایک ایسا ادارہ ہے جس کے تحت خواتین قرآن و حدیث کے دروس کا اہتمام کرتی ہیں۔ ان پر بعض علما نے اعتراض کیا تو اس کے جواب میں کہتے ہیں :
’’بعض علماے کرام کے بارے میں، میں نے سنا ہے کہ ان کہناہے کہ تدریس قرآن کے لیے پہلے مدرسہ کا دس سالہ نصاب مکمل کرنا بے حد ضروری ہے۔ اس کے بعد ہی تدریس قرآن میں مصروف ہونا چاہیے ۔۔۔میں اس خیال سے اتفاق نہیں کرتا۔ میں سمجھتا ہوں کہ قرآن مجید کو نہ بنیادکی ضرورت ہے نہ بے ساکھیوں کی۔ قرآن مجید خود بنیادفراہم کرتاہے، دیواریں بھی اورتعلیم کی بھی تکمیل کر دیتا ہے۔‘‘ (۱۵)
اسی طرح یہ اعتدال ان کے اسلوب تقریر وتحریر سے بھی مترشح ہوتا ہے۔ وہ اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے بھی نہایت انکساری سے کہتے ہیں: ’’میری رائے یہ ہے، ہوسکتا ہے غلط ہو‘‘۔ اسی طرح کسی شخص یا فکر کی تردید میں بھی اسلوب کا دھیماپن صاف نظر آتا ہے۔ شدت، تعصب اور تعلی ان کے قریب بھی نہیں بھٹکتی، البتہ ان کے لب ولہجہ سے علمی اعتماد ضرور ٹپکتا ہے۔ انھوں نے انصاف پسندی کا ثبوت دیا ہے کہ مستشرقین پر تنقیدیں بھی کی ہیں تو ان کی خدمات کا اعتراف بھی کیا ہے۔ (۱۶) چہرے کے پردے کے بارے میں معتدل رائے کا اظہار کیا ہے۔ (۱۷)
متحرک وفعال زندگی :
ڈاکٹر صاحب موصوف نے صرف ساٹھ سال کی عمر پائی اور علمی حیثیت سے نہایت اعلیٰ اور بڑے سے بڑے عہدے پر پہنچے۔ انھوں نے پوری زندگی اسلام کی خدمت کے لیے وقف کرر کھی تھی۔ چنانچہ علمی میدان میں اور وزارت نیز جج کے اعلیٰ عہدوں پر رہ کربھی اسلام کی خدمت کی اور دانشوری کی روایت میں ایک گوہر نایاب بن کر چمکے۔ اپنی اعلیٰ حیثیت میں انھوں نے ۱۰۰ سے زیادہ قومی و بین الاقوامی کانفرنسوں ومذاکروں میں شرکت کی اور پچاسوں ممالک کے سفر بھی کیے۔ ۱۹۸۷ سے ۱۹۹۴ تک اسلام آباد کی فیصل مسجد کے خطیب اوراسلامی سینٹرواقع فیصل مسجد کے ڈائرکٹر کے فرائض انجام دیے۔ اسی طرح نیشنل ہجرہ کونسل کے عالمی مشاورتی بورڈ کے ممبر رہے۔ (۱۸) طالب علمی کے دوران ان کا تعلق پاکستان کی معروف طلبہ تنظیم اسلامی جمعیت طلبہ سے بھی رہا جس کا فکری رشتہ جماعت اسلامی سے ہے۔ ۱۹۸۴ میں وہ اس کمیٹی کے رکن مقرر ہوئے جس نے پاکستان میں اہانت رسول کی سزاکا تعین کیا۔ وہ کچھ عرصہ جنرل ضیاء الحق کے عربی مترجم بھی رہے۔اس کے علاوہ التجمع العالمی للعلماء المسلمین(مکہ مکرمہ) کی ورکنگ کمیٹی کے ممبر نیز علامہ یوسف القرضاوی کی قیادت میں الاتحاد العالمی لعلماء المسلمین (قاہرہ مصر)کے رکن اوراسی طرح ادارہ مجمع التقریب بین المذاہب الاسلامیہ ایران کے رکن تھے۔ (۱۹)
جدید موضوعات:
علوم اسلامیہ قرآن، حدیث، فقہ وسیرت تو ان کے مطالعہ کی جولان گاہ تھے ہی، انھوں نے بالکل جدید موضوعات پر بھی قلم اٹھایا،چنانچہ گلوبلائزیشن پر عربی میں العولمۃ کے نام سے کتاب لکھی جو بیروت سے شائع ہوئی۔ انہوں نے مجدد الف ثانیؒ اور اقبالؒ کا بھی خاصا کام عربی میں کیا۔ اقبال کے خطبات اور ان کی شاعری کا عربی میں ترجمہ کیا۔ اسی طرح ’’الحرکۃ المجددیہ‘‘ کے نام سے کتاب لکھی اور مجدد ؒ صاحب کے متعدد خطوط کا بھی عربی میں ترجمہ کیا۔ برصغیر میں اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے ساتھ ہی افریقہ کی ایک اہم تحریک ’’السنوسیہ‘‘ کا تعارف بھی کرایا۔ انھوں نے اسلام کے قانون بین الاقوام اور اسلامک انٹر نیشنل لا پر کتابیں لکھیں اور اسلام میں ریاست اور قانون سازی کا تعارف کرایا۔ موجودہ زمانہ میں خلافت کے تصور کو کسی طرح عملاً برتا جاسکتا ہے، اس کا نقشہ بھی انھوں نے پیش کیا اور اس طرح اسلام کے سیاسی فکر میں اضافہ کیا۔
عالمی فقہ کا تصور:
بیسویں صدی علوم اسلامی کی نشاۃ ثانیہ کی صدی ہے۔ اس میں حدیث، تفسیر اور فقہ پر نئے انداز و اسلوب میں زبردست کام ہوئے ہیں۔ خاص کر عالم عرب میں مختلف اسلامی ممالک نے اس سلسلہ میں ایک دوسرے کے تجربات سے فائدہ اٹھایا اور نئی فقہ وجود پذیر ہونے لگی جس کا دائرہ ابھی فقہ کے ماہرین، اسکالروں اور طلبہ تک محدود ہے۔ عوام تک اس کے اثرات ابھی منتقل ہونے شروع ہوئے ہیں۔ ڈاکٹر غازی لکھتے ہیں:
’’دنیائے اسلام کے لوگوں نے ایک دوسرے سے استفادہ شروع کیا۔ ایران کے تجربات سے پاکستان نے فائدہ اٹھایا۔ پاکستان سے سوڈان نے استفادہ کیا۔ سعودی عرب سے مصر نے استفادہ کیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ فقہی مسالک کی جو حدود تھیں، وہ ایک ایک کرکے دھندلانے لگیں۔ اب وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دنیا ے اسلام میں باہمی مشاورت اور اشتراک عمل سے یہ اجتہادی کام کیا جارہا ہے۔ اسی اجتماعی اجتہاد کے نتیجہ میں فقہی مسالک کی حدود مٹ رہی ہیں۔ ایک نئی فقہ وجود میں آرہی ہے جس کو نہ حنفی فقہ کہ سکتے ہیں نہ مالکی، نہ حنبلی، نہ جعفری بلکہ اس کواسلامی فقہ ہی کہا جائے گا۔ میں اس کے لیے Cosmopolitan Fiqh یعنی عالمی یا ہر دیسی فقہ کی اصطلاح استعمال کرتا ہوں۔‘‘ (۲۰)
اس کے بعد انھوں نے بینکاری اور مالیاتی اور بین الاقوامی تجارت و کاروبار کے حوالہ سے اپنے اس تصور کی مزید وضاحت کی ہے۔ ۱۹۸۰ء میں بینکاری کے اسلامی نظام کے لیے اسلامی نظریاتی کونسل نے ایک رپورٹ پیش کی جس میں شیعہ، دیوبندی، بریلوی، اہل حدیث اور کوئی مسلک نہ رکھنے والے سب علما متفقہ طور پر شریک ہوئے تھے۔ اس پر وہ لکھتے ہیں کہ:
’’ظاہر ہے کہ یہ رپورٹ محض فقہ حنفی کی بنیاد پر نہیں ہے اور نہ اس دستاویز کو فقہ حنفی کے لٹریچرکا حصہ قرار دیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح یہ بھی نہیں کہاجاسکتا ہے کہ فقہ شافعی کی بنیاد پر تیار ہوئی ہے۔ یہ فقہ زیدی یا فقہ جعفری کی بنیاد پر بھی نہیں ہے۔ اس لیے تمام فقہا اور تما م فقہی مسالک کے ماننے والوں نے اس سے اتفاق کیا۔ اس کا عربی، ملائی ، بنگلہ اور اردو وغیر میں ترجمہ ہوا اور دنیا میں ہر جگہ اس سے استفادہ کیا گیا‘‘۔ (۲۱)
اس طرح کی اور بھی مثالیں انھوں نے دی ہیں اور اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ ’’موجودہ حالات میں کسی متعین فقہی مسلک کی پابندی پبلک کی حد تک بہت مشکل ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مختلف فقہوں میں بعض ایسے اجتہادات ہوتے ہیں جو آج کے دور میں مشکل معلوم ہوتے ہیں۔‘‘ (۲۲)
عصر جدید کے جو پیچیدہ مسائل ہیں، ان کے حل کے لیے بعض اوقات عدم تقلید اور اجتہادی صلاحیت سے کام لینا ناگزیز ہوجاتا ہے، تاہم یہ ہے انتہائی نازک اور احتیاط کا متقاضی کام اور ہر شخص کو اس کی کھلی چھوٹ نہیں دی جاسکتی ۔ اس نزاکت کاادراک ڈاکٹر صاحب کو بخوبی ہے۔ وہ کہتے ہیں:
’’ یہ اتنے بڑے اور پیچیدہ مسائل ہیں کہ کسی ایک فقہ کے دائرہ میں رہتے ہوئے ان کاحل تلاش کرنا مشکل ہے۔ بعض جگہ ایسا بھی ہوا ہے کہ چار مشہور فقہی مسلکوں کے دائرے سے نکل کر دیکھنا پڑا۔ بعض جگہ براہ راست قرآن وسنت کی نصوص سے استنباط کرکے تمام فقہا یا زیادہ تر فقہا کے نقطۂ نظر کو نظر انداز کرنا پڑا۔ یہ کام اتنا آسان نہیں کہ ہر کس وناکس اس کا بیڑا اٹھا سکے۔‘‘ (۲۳)
ظاہر ہے کہ ایسے مقامات پر اجتماعی اجتہاد تفصیلی غور و خوض، احساس ذمہ داری، تقویٰ و خدا ترسی اور از حد احتیاط کی ضرورت ہے۔ تبھی ممکن ہے کہ امت کو فقہی انار کی یا فتوے بازی کی انار کی سے نکلا جاسکے، جیسا کہ بد قسمتی سے برصغیر میں یہ .فضا بنی ہوئی ہے۔
دوبڑے چیلنج :
ڈاکٹر غازی کے نزدیک آج کے دو بڑے چیلنج ہیں: ایک چیلنج ملٹی نیشنل کمپنیوں اورمالیاتی اداروں کا ہے جس کا جواب مسلمان تیار کر چکے ہیں یا کر رہے ہیں۔ دوسراچیلنج میڈیاکا چیلنج ہے۔ میڈیاکی یلغاراتنی تیزی، شدت اور سرعت سے ہو رہی ہے کہ بیت اللہ میں بیٹھ کرآپ دنیاکے دو ڈھائی سو چینل دیکھ سکتے ہیں۔ اس لیے یہ توقع کرنا یایہ مطالبہ کرناکہ یہ چینل بند کیے جائیں اوران کو ختم کیاجائے، ایک غیرحقیقت پسندانہ مطالبہ ہے۔ آج سے پچاس برس پہلے یہ بات ممکن تھی کہ آپ اپنے گھر میں بیٹھ جائیں اوردنیاکے ہرفتنہ سے اوردین وتہذیب پر اثراندازہونے والی ہر چیز سے محفوظ ہوجائیں۔یہ تو کوئی جواب نہیں کہ آپ اپنے گھرمیں تالا لگا دیں اور پردہ ڈال کر بیٹھ جائیں۔ سیلاب پردے ڈالنے سے نہیں رکتا، تالے ڈالنے سے نہیں رکتا۔ یہ دوسراچیلنج ہے جس کا جواب دینا ابھی باقی ہے۔ مسلمانوں میں جو میڈیا کے ماہرین ہیں، ان کو اس سلسلہ میں غوروخوض کرناچاہیے۔
ایک اہم فکری نکتہ:
بیسویں صدی میں ایک نیاظاہرہ (phenomenon) دین کی سیاسی تعبیرکا پیش آیا۔ بعض مسلم مفکرین اور مصنفین کے ہاں سیاست پر بہت زیادہ زور دیا گیا۔ اس کے بعض خارجی اسباب ہیں، اس کے کچھ مثبت پہلوبھی ہیں۔ اس سلسلہ میں ڈاکٹرغازی نے اپنی رائے یوں دی ہے جس میں سبب، مثبت پہلوپرتبصرہ کے ساتھ ہی انہوں ایک گونہ اس پر نظرثانی کی دعوت بھی دی ہے:
’’سو ڈیڑھ سو سال پہلے تک ایک زمانہ ایسا تھا جب لوگوں کی زندگی میں بنیادی کردار ریاست کا ہوا کرتا تھا۔ ریاست نظریہ کی علمبرداراورمحافظ ہوتی تھی، ریاست نظریہ کو فروغ دینے کا کام کرتی تھی۔ کمیونسٹ ریاست بنی، اس نے کمیونسٹ نظریہ کو فروغ دیا۔۔۔اس زمانہ کے مسلم مفکرین کو خیال آیاکہ جس طرح مغربی ریاستیں اپنے نظریات کو پھیلارہی ہیں، اسی طرح اگرایک بڑی مضبوط اسلامی ریاست قائم کی جائے جواسلامی نظریات کو پھیلائے اور ان کو فروغ دینے کا کام کرے تو اسلامی نظریات کو بھی اسی طرح فروغ حاصل ہوجائے گا۔اس تصور کے پیش نظر بیسویں صدی کے مفکرین اسلام کے نزدیک اسلامی ریاست کو بہت اہمیت حاصل ہوگئی اوراحیاے اسلام کے عمل میں اسلامی ریاست کا قیام بنیادی حیثیت کا حامل قرار پاگیا۔ ریاست ان کی فکر کا اصل اورمرکزی نکتہ بن گئی، ان کی ساری توجہ اسلامی ریاست کے قیام پر مرکوز ہوگئی ۔۔۔ لیکن اس فکر کا ایک مثبت فائدہ یہ ہواکہ اسلامی ریاست کے بارے میں بہت سا علمی اورتحقیقی کام سامنے آگیا۔۔۔ دوسری طرف دنیا میں یہ ہواکہ ریاست کی مرکزیت ختم ہوگئی۔ سویت یونین کو زوال آگیا۔ کمیونزم ایک نظریہ کے طورپر دنیاسے ختم ہوگیا۔۔۔اب جو ادارے اپنے نظریات کو فروغ دے رہے ہیں، وہ ملٹی نیشنل کمپنیاں اوربڑے بڑے بینک ہیں۔ ورلڈ بینک اورآئی ایم ایف وہ ادارے ہیں جو غیرریاستی ادارے ہیں، لیکن مالیات اورتجارت ان کے ہاتھ میں ہے۔اس وقت دنیاکے مستقبل کو بنانے اوربگاڑنے کا یادنیائے اسلام کو کنٹرول میں کرنے کاجوسب سے بڑاذریعہ ہیں، وہ یہ ملٹی نیشنل ادارے اورکارپوریشنز ہیں ۔ان کے پاس دنیاکی معاشی زندگی کی لگامیں ہیں، ان کے پاس دنیاکے معاشی وسائل اورمالیاتی خزانوں کی کنجیاں ہیں۔۔۔ اس لیے بظاہر ایسامعلوم ہوتاہے کہ آئندہ آنے والے سالوں میں ریاست کا کرداربنیادی نہیں ہوگا، بلکہ ان اداروں کا کرداربنیادی ہوگا۔‘‘(۲۴)
خاکسار راقم یہ سمجھتا ہے کہ سیاسی اسلام کے نمائندوں کو اس رائے پر، جوان کے کسی ناقد کی طرف سے نہیں بلکہ ہمدردکی طرف سے آئی ہے، ضرور غور و فکر کرنا چاہیے۔
مصادرومراجع:
(۱) سید منصورآغا ، جدید خبر اردوروزنامہ، نئی دہلی بھارت، ۲۸ ستمبر ۲۰۱۰ء
(۲) ایضاً (۳) ایضاً (۴) یہ معلومات انٹرنیٹ سے لی گئی ہیں ۔ (۵) ایضاً (۶) ایضاً
(۷) محمود احمد غازی ،ڈاکٹر، محاضرات حدیث، الفیصل غزنی اسٹریٹ لاہور طبع دوم دسمبر ۲۰۰۵ صفحہ ۶۹
(۸) محمود احمد غازی ،ڈاکٹر، محاضرات حدیث، الفیصل غزنی اسٹریٹ لاہور طبع دوم دسمبر ۲۰۰۵ صفحہ۴۵۷
(۹) محمود احمد غازی ،ڈاکٹر، محاضرات قرآنی، الفیصل غزنی اسٹریٹ لاہور طبع جولائی ۲۰۰۴ صفحہ ۳۸۲
(۱۰) محمود احمد غازی ،ڈاکٹر،محاضرات فقہ الفیصل غزنی اسٹریٹ لاہور طبع جون ۲۰۰۵ صفحہ ۱۷۰
(۱۱) محاضرات حدیث صفحہ ۲۸۔ نیز محاضرات فقہ میں ایک جگہ لکھتے ہیں: بعض جدید مصنفین نے لکھا ہے کہ مسلمانوں کی عقلی منہاجیات یعنی intellectual methodology جس فن میں سب سے زیادہ نمایاں ہوکرسامنے آتی ہے وہ، علم اصول فقہ ہے۔ دیکھیے صفحہ ۶۰
(۱۲) محمود احمد غازی ،ڈاکٹر،محاضرات حدیث، الفیصل غزنی اسٹریٹ لاہور طبع دوم دسمبر ۲۰۰۵ صفحہ ۹۰
(۱۳) محمود احمد غازی ،ڈاکٹر،محاضرات فقہ، الفیصل غزنی اسٹریٹ لاہور طبع جون ۲۰۰۵ ص ۵۱۰
(۱۴) ایضاً (۱۵) محاضرات قرآنی، صفحہ ۴۳
(۱۶) لکھتے ہیں: ’’تیسرانقطۂ نظر یہ ہے جو مجھے بھی ذاتی دلائل وغیرہ کو دیکھ کردرست معلوم ہوتاہے۔ وہ یہ کہ چہرہ کا ڈھکنا توافضل اورعزیمت ہے، لیکن کھولنے کی اجازت ہے۔‘‘ دیکھیں محاضرات حدیث صفحہ ۴۶۴۔
(۱۷) ملاحظہ ہو ،محاضرات حدیث صفحہ۴۴۳۔
(۱۸) انٹرنیٹ سے (۱۹) انٹرنیٹ سے
(۲۰) محمود احمد غازی ،ڈاکٹر،محاضرات فقہ الفیصل غزنی اسٹریٹ لاہور طبع جون ۲۰۰۵ صفحہ ۵۳۴
(۲۱) محمود احمد غازی ،ڈاکٹر،محاضرات فقہ الفیصل غزنی اسٹریٹ لاہور طبع جون ۲۰۰۵ صفحہ ۵۳۴
(۲۲) ایضاً صفحہ ۵۳۵ (۲۳) ایضاً، صفحہ ۳۸ (۲۴) ایضاً، محاضرات فقہ صفحہ ۵۴۳