پاکستان کے بین الاقوامی اسکالر، ممتاز مفکر وعالم دین جناب ڈاکٹر محمود احمد غازی کے انتقال پر ورلڈ اسلامک فورم، برطانیہ کے زیراہتمام ایک تعزیتی اجلاس ایسٹ لندن کے معروف ادارہ ’’ابراہیم کالج ‘‘میں مولانا محمد عیسیٰ منصوری چیئرمین ورلڈ اسلامک فورم کی زیر صدارت منعقد ہوا جس میں لندن کے علاوہ برطانیہ کے مختلف شہروں سے علماے کرام، اسکالرز اور تنظیموں کے سربراہوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔
اجلاس کا آغاز مولانا محمد الیاس کی تلاوت قرآن سے ہوا۔ اس کے بعد فورم کے نائب صدر اور السلامۃ کمپیوٹر سنٹر کے ڈائریکٹر جناب مفتی برکت اللہ صاحب نے کہا کہ گذشتہ ۱۸ سال سے ڈاکٹر صاحب کا فورم کے ساتھ خصوصی تعلق تھا۔ فورم کے طرف سے جب بھی انہیں مدعو کیا گیا، وہ برطانیہ تشریف لائے۔ تہذیبوں کے تصادم کے اس دور میں ڈاکٹر صاحب کے علم وفکر سے پورا عالم اسلام رہنمائی حاصل کر رہا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ان کے انتقال سے عالم اسلام کی علمی و فکری کاوشوں کو بے پناہ نقصان پہنچا ہے۔
جامعۃ الہدیٰ نوٹنگھم کے پرنسپل مولانا رضاء الحق نے کہا کہ ڈاکٹر محمودا حمد غازی کی وفات پر یہ مقولہ صادق آتا ہے کہ ’’عالِم کی موت، عالَم کی موت‘‘ ہے۔ وہ متعدد بار جامعہ الہدیٰ میں تشریف لائے اور برطانیہ کی مسلمان بچیوں کے لیے دینی و عصری تعلیم کا نہایت موثر نصاب تعلیم مرتب کر نے میں مدد کی۔ انہوں نے کہا کہ سب سے زیادہ افسوس اس بات کا ہے کہ آپ کے بعد علمی، فکری اور تعلیمی میدان میں کوئی متبادل نظر نہیں آتا۔
مفتی عبدالمنتقم سلہٹی نے کہا: ڈاکٹر صاحب کا علمی کام مشعل راہ ہے۔ ان کی وزارت کے زمانہ میں ، میں وفد لے کر اسلام آباد ملنے گیا تو ڈاکٹر صاحب نے اپنی بے پناہ مصروفیت کے باوجود مجھ جیسے معمولی طالب علم کے لیے فقہ اسلامی کے موضوع پر کئی گھنٹے گفتگو فرمائی۔ آپ کو فقہ اسلامی اور اسلامی اقتصادیات پر بے پناہ بصیرت حاصل تھی۔
جماعت اسلامی کے رہنما جناب رضوان فلاحی نے کہا کہ ڈاکٹر محمود احمد غازی صاحب کا ایک اہم کام دینی نصاب تعلیم کو عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لیے جدوجہد کرنا ہے۔ ڈاکٹر صاحب صرف عالم دین نہیں بلکہ ایک ہمہ گیر شخصیت کے حامل تھے۔ آپ کی شخصیت اسلامی علوم وفکر میں مرجعیت کا مقام رکھتی تھی۔
ابراہیم کالج کے پرنسپل مولانا مشفق الدین نے انگریزی میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج دنیا میں علم حاصل کرنے والے تین قسم کے لوگ ہیں۔ کچھ لوگ صرف مذہبی تعلیم سیکھ کر اور عصری علوم وتقاضوں سے بے بہرہ رہ کر کنویں کی مینڈک کی طرح محدود ہو کر رہ جاتے ہیں۔ کچھ لوگ عصری علوم سیکھ کر دین ومذہبی علوم کو حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں اور اپنی دنیا بنانے میں لگ جاتے ہیں۔ ایسے لوگ بہت کم بلکہ نایاب ہیں جو دینی و عصری علوم میں گہری بصیرت حاصل کر کے ملک و ملت کو اپنے علوم و فکر سے مالا مال کرتے ہیں۔ ڈاکٹر محمود احمد غازی ان خوش نصیب لوگوں میں سے تھے جنہوں نے پوری دنیا کو مستفید کیا۔ ہمارے ابراہیم کالج کا تعلیمی خاکہ بنانے میں ڈاکٹر صاحب کا بنیادی کردار ہے۔
روزنامہ جنگ (لندن) کے سابق ایڈیٹر جناب ظہور نیازی نے کہا کہ ڈاکٹر محمود احمد غازی کی شخصیت اتنی ہمہ گیر تھی کہ تمام مکاتب فکر اور علوم کے بے شمار شعبوں کے لوگ آپ سے استفادہ کرتے تھے۔ دوست تو دوست، دشمن بھی اعتراف پر مجبور ہو جاتا تھا۔ میرے ہاتھ میں قادنیوں کی ویب سائٹ سے نکالا ہوا ایک پیپر ہے جس پر لکھا ہے کہ ڈاکٹر محمود احمد غازی نے سولہ سال کی عمر میں دینی علوم سے سند فراغت حاصل کر کے ۱۷؍ سال کی عمر میں تدریس شروع کر د ی تھی۔ بقول قادیانیوں کے ڈاکٹر صاحب ہی نے جنرل ضیاء الحق کے ذریعے منکرین ختم نبوت کے لیے قانون سازی کروائی تھی۔ ڈاکٹر صاحب علم حقیقی کے وارث تھے۔ ان کو دیکھ کر امام غزالی کی یاد تازہ ہو جاتی تھی۔ مجھے ڈاکٹرصاحب کے محاضرات نے بہت متاثر کیا۔ یہ محاضرات ہر تعلیم یافتہ شخص کے پڑھنے کے لائق ہیں۔ ضرورت ہے کہ ورلڈ اسلامک فورم ڈاکٹر صاحب کے فکر و نظر کو آگے بڑھانے کے لیے اقدامات کرے۔
جمعیۃ علماء برطانیہ کے صدر مولانا ڈاکٹر اخترالزمان غوری نے کہا یہ اسلام کا اعجاز ہے کہ ہر دور میں ایسے رجال کار پیدا ہوتے رہے جو اسلام کو عصری فہم اور زمانہ کی ذہنی سطح کے مطابق پیش کرتے رہے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کے کام اور فکر کو مشعل راہ بنانا چاہیے۔ ورلڈاسلامک فورم ڈاکٹر صاحب کی کتابوں خاص طور پر محاضرات کا انگریزی اور دیگر زبانوں میں ترجمہ کرنے کی طرف توجہ مبذول کرے۔ انھوں نے کہا کہ مولانا عیسیٰ منصوری نے یہ تعزیتی اجلاس منعقد کر کے پورے اہل برطانیہ کی طرف سے فرض کفایہ ادا کیا ہے اور ہم پر احسان کیا ہے۔
جمعیۃ اہل حدیث برطانیہ کے صدر ڈاکٹر صہیب حسن صاحب نے کہا کہ ڈاکٹر صاحب کی شخصیت ایک عبقری شخصیت تھی۔ آپ نے پوری زندگی بغیر مسلکی تعصب کے علمی ودینی خدمات انجام دیں۔ ڈاکٹر صاحب نے میرے والد مرحوم سے بھی اجازت حدیث حاصل کی تھی۔ آپ نے پاکستان میں دعوۃ اکیڈمی اور شریعۃاکیڈمی کے ڈائریکٹر کی حیثیت سے بیش بہا خدمات انجام دیں۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنی وزارت سے دینی مدارس کی حمایت میں استعفا دے دیا اور سود کے مسئلہ پر سپریم کورٹ میں مدلل تقریر کر کے صحیح فیصلہ کروایا۔
مولانا محمد عیسیٰ منصوری نے اپنے خطبہ صدارت میں کہا کہ ڈاکٹر محمود احمد غازی کی شخصیت نہ صرف پاکستان بلکہ عالم اسلام کے لیے علوم اسلامی اور فکر اسلامی کا سرچشمہ تھی۔ آپ کی ہستی بین الاقوامی کانفرنسوں و مجالس اور اعلیٰ سطح پر اسلام او ر جمہور اہل علم کی ترجمانی کرتی تھی۔ ڈاکٹر صاحب نے مملکت پاکستان کے آئینی وقانونی مسائل میں بھرپور رہنمائی دی۔ آپ کی خدمات کا دائرہ بہت وسیع بلکہ ہمہ گیر تھا۔ اسلامی نظریاتی کونسل کا فورم ہو یا بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کی دعوۃ اکیڈمی وشریعہ اکیڈمی کے ذریعے دنیا بھر میں اشاعت علوم اسلامی اور اسکالرز تیار کرنے کا مسئلہ، سپریم کورٹ میں سود کے متعلق تاریخی فیصلے کا معاملہ ہو یا اسلامی اقتصادیات وبینکنگ کا مسئلہ، قادیانیت کے متعلق متفقہ موقف کی اشاعت کی بات ہو یا اس سلسلے میں ہونے والی قانون سازی کا مسئلہ، ڈاکٹر محمود احمد غازی کی جہد مسلسل، تگ ودو اور ماہرانہ رائے کا ہر جگہ بڑا دخل رہا ہے۔ آپ نے ساؤتھ افریقہ کی غیر مسلم عدالت میں قادیانیوں کے خلاف تاریخی مقدمہ میں ملت اسلامیہ کے موقف کو غیر مسلم عدالت میں سرخرو کر کے اسے پوری دنیا کے غیر مسلم ممالک کی عدالتوں کے لیے ایک نظیر و مثال بنا دیا۔ اسی طرح پرویز مشرف کے دور میں جب امریکی ایما پر مدارس کے خلاف یلغار ہوئی تو ڈاکٹر صاحب نے خداداد صلاحیت و بصیرت اور حکمت عملی سے اسے ناکام کر دیا جو پاکستان کے دینی مدارس پر ڈاکٹر صاحب کا عظیم احسان ہے۔
مولانا منصوری نے کہ عالم اسلام میں ڈاکٹر حمیداللہ کے بعد ڈاکٹر غازی ایک ایسی شخصیت تھے جو اردو، عربی، فارسی، انگریزی اور فارسی سمیت متعدد زبانوں پر اعلیٰ درجہ کی تصنیف وخطابت کی اہلیت وملکہ رکھتے تھے۔ ان زبانوں میں ان کی تیس کے قریب تصانیف اہل علم اورنسل نو کے لیے بیش بہا تحفہ ہیں۔ آپ کے محاضرات جو قرآن، حدیث، سیرت، فقہ ، شریعت اور تجارت ومعیشت پر ہیں، پورے اسلامی کتب خانہ میں بے مثل ہیں۔ برصغیر میں ڈاکٹر صاحب کی شخصیت ایسی تھی جن کی عالمی حالات پر گہری نظر تھی اوراس تہذیبی تصادم کے دور میں مغرب کے صلیبی صیہونی گٹھ جوڑ سے عالم اسلام کو جو تہذیبی وفکری چیلنجز اور خطرات در پیش ہیں، ڈاکٹر صاحب علمی وفکری سطح پر اس کا موثر جواب دے رہے تھے۔ آپ کی وفات نظریاتی فکری کام کرنے والوں کے لیے ایک عظیم سانحہ ہے۔ ہم ایک فکری رہنما سے محروم ہو گئے۔ آپ نے بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے علاوہ ملائیشیا اور قطر کی یونیورسٹیوں میں بھی اسلامی فکر وفلسفہ کی جوت جگائی۔ ایک عرصہ سے ڈاکٹر صاحب کے فکروفلسفہ کو عام کرنے میں ورلڈ اسلامک فورم، مولانا زاہدالراشدی اور ان کا ادارہ الشریعہ اکادمی کا خاص رول رہا ہے۔ مولانا منصوری نے اعلان کیا کہ ورلڈ اسلامک فورم ان کے محاضرات کو انگریزی میں ترجمہ کروا کر شائع کرے گا، جبکہ فورم ہی کی وساطت سے برطانیہ میں ڈاکٹر صاحب کی راہنمائی میں جاری کیے جانے والے ’’ہوم اسٹڈی کورس‘‘ سے دس ہزار کے قریب طلبہ وطالبات استفادہ کر چکے ہیں ۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ملت اسلامیہ کو آپ کا نعم البدل عطا فرمائے۔ آپ کے درجات بلند فرمائے اور آپ کے پس ماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ آمین۔