تحریک سید احمد شہید رحمہ اللہ کا ایک جائزہ

ڈاکٹر محمود احمد غازی

(ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ کا ایک غیر مطبوعہ خطاب جسے سید محبوب الرحمن (ایل ایل ایم، اسلامک کمرشل لا، بین الاقوامی اسلامی یونیو رسٹی اسلام آباد) نے انگریزی سے اردو میں منتقل کیا۔)


بسم اللہ الرحمن الرحیم 

نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم

سید احمد شہید کی تحریک جہاد کا تذکرہ کرنے سے قبل ہم اس وقت کی تجدیدی تحریکوں کا سرسری جائزہ لیں گے جو کہ سترہویں، اٹھارہویں اور انیسویں صدی میں ظہور پذیر ہوئیں۔ اگر ہم ساڑھے تین صدیوں پر محیط اس عرصہ کی تاریخ پر غور کریں تو ہم مسلم تاریخ کے اس دور میں احیا، تجدید اور اصلاح کو انتہائی واضح مقصد کے طور پر پائیں گے اور ہمیں دنیا ئے اسلام میں ہرطرف ایسے افراد، افرادکے گروہ اور تحریکیں ابھرتی ہوئی نظر آئیں گی جن کا مقصد اسلام کو، مسلم معاشر ہ میں ایک سماجی اور سیاسی محرک کے طور پر بحال کرنا تھا۔ برصغیر پاک و ہند کے مجدد شیخ احمد سرہندی جو کہ مجدد الف ثانی کے نام سے معروف ہیں یعنی اسلام کے دوسرے ہزار برس کے مجدد، ان سے لے کر بیسویں صدی کے آغاز تک ہمیں مسلم دنیا میں ہر جگہ کئی تجدیدی اور اصلاحی تحریکیں نظر آتی ہیں ۔اگر ہم ان تحریکوں کا بغور جائزہ لیں تو ہم اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ ان کی تین قسمیں کی جا سکتی ہیں۔ 

پہلی قسم میں وہ تحریکیں شامل ہیں جنہیں ہم روایتی تحریکیں کہہ سکتے ہیں۔ ان تحریکوں کا بنیادی مقصد آمیزشوں اور بعد کے خارجی اضافوں سے پاک کر کے اسلام کی حقیقی اور ثابت شدہ تعلیمات کا احیا، توحید اور وحدانیت کے اصول کو اس کی سادہ اور اصلی صورت میں پیش کرنا اور تعلیمات نبو ی کی حقیقی روح اور وقار کواجاگر کرنا تھا۔ ان پہلی قسم کی تحاریک کی زیادہ دلچسپی اسی مقصدمیں تھی ۔ 

دوسری قسم کی وہ تحاریک تھیں جن کی نمائندگی ہندوستان میں علی گڑھ تحریک کے بانی سر سید احمد خاں، مصرمیں مفتی محمد عبدہ اور دیگر علاقوں میں دوسری شخصیات کر رہی تھیں اور جو مغربی استعمار کے غلبہ کی وجہ سے ان کے افکار سے بے حد متأثر تھے۔ ان کاتصور تجدید اور نظریہ اصلا ح یہ تھا کہ مسلمانوں کو مغربی انداز فکر، مغر بی نظام تعلیم اور مغربی طریقہ کار اور مہارتوں کو اپنانا چاہیے جس سے وہ سیاسی برتری حاصل کر سکیں گے اور اس طرح وہ آخر کاراپنی کھوئی ہوئی عزت ووقار اور سابقہ حالت بحال کر پا ئیں گے۔ یہ دوسری قسم تھی۔ 

ان کے ساتھ ایک تیسری قسم بھی تھی جنہوں نے کوشش کی کہ ان دونوں قسم کی تحریکوں کی خوبیاں کو اکٹھا کیا جائے اور ان کی کمزوریوں اور خامیوں سے بچا جائے۔ اس کی مثال سید جمال الدین افغانی کی مجوزہ تحریک ہے۔ سید جمال الدین افغانی بنیادی طور پر اسلامی علوم عقائد کے عالم تھے ۔ انہوں نے دنیا ئے اسلام کے متعدد سفر کیے اور انہیں مسلمانوں کو در پیش مشکلات کا براہ راست علم تھا۔ وہ عملی طور پر مسلم دنیا کے ہر حصے سے رابطہ میں تھے اوریہی وجہ تھی کہ وہ مسلم دنیا کے مسائل سے براہِ راست باخبر تھے۔ اس کے ساتھ انہوں نے بعض مغربی ممالک کا وسیع سفر کیا اور انہیں مغربی افکار اورفلسفہ تک بلا واسطہ رسائی حاصل تھی۔ اس لیے وہ ایک ایسی تحریک کے لیے غوروفکر اور اس کے خدوخال تجویز کرنے کی بہتر پوزیشن میں تھے جو ان دونوں قسم کی تحریکوں کی خوبیوں پرمشتمل ہو اور جس سے ایک طرف آلائشوں اور اضافوں سے پاک کر کے قرآ ن وسنت کی حقیقی اور اصلی تعلیمات کے احیا کے لیے کوشش کی جائے تو دوسری طرف مغربی منہج اور مہارتوں کوان کے انداز ازِ فکر سے متأثر ہوئے بغیر ایک خاص حدتک بروے کار لایا جائے، کیونکہ ان دونوں کے درمیان انتہائی باریک فرق ہے۔ مثال کے طور پر سر سید احمد خان مغربی طریقہ کار اور مغربی انداز فکر اور تصورات کے درمیان فرق نہ کر پاسکے۔ ہم دوسرے لوگوں کے طریق کار اور منہج کو جنہیں ہم پسند کریں، اپنا سکتے ہیں، لیکن ہمیں غیر اسلامی ذرائع پر مبنی انداز فکر، نظریہ اور فلسفہ کو اختیار نہیں کرنا چاہیے۔ چنانچہ جب ہم کسی قوم سے کچھ سیکھ رہے ہوں تو یہ بات مد نظر رہنی چاہیے کہ یہ دو مختلف چیزیں ہیں اور اس کی گنجائش بھی ہے۔ امام احمد بن حنبلؒ سے روایت کردہ حدیث میں ہے: یعمل فی الاسلام بفضائل الجاھلیۃ  کہ ہم اسلام میں ان اچھے معیارات کو اپنا سکتے ہیں جو دورِ جاہلیت میں رائج تھے۔ [حدیث کے معروف اور متداول مآخذ میں ان الفاظ سے کوئی روایت موجود نہیں۔ مرتب] لہٰذا اگر ہمیں کسی جاہلی معاشرے کی کوئی اچھی چیز یا کوئی بھلائی ملتی ہے تو اسے اپنانا اور اس سے مستفید ہونا ہمارے لیے جائز ہے۔ 

یہ تین قسم کی تحریکیں تھیں اور تاریخی طور پر ہم انہیں بالترتیب ہی پائیں گے۔ پہلی قسم کی تحریک سب سے پہلے، دوسری قسم دوسرے نمبر پر اور تیسری قسم آخرمیں ہے۔ اگر اس تجدیدی تحریک کا جائزہ لیا جائے جس کی ابتدا سید احمد شہیدؒ نے کی تھی تو ہم دیکھتے ہیں کہ اس کے آغاز کا مسلم برصغیر کی تاریخ سے گہر ا تعلق ہے اور برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کی تاریخ اور تاریخی طاقتوں پر ایک سرسری نظر ڈالے بغیر سید احمد شہید کی اس تحریک کے حقیقی وصف کا تعین کرنا مشکل ہو جائے گا۔ تفصیل میں جائے بغیر آپ کو یہ یاد دلا دوں کہ برصغیر میں مسلمان نسبتاً اقلیت میں ر ہے ہیں اور جب برصغیر کا لفظ بولا جائے تو اس سے مراد پورا جنوبی ایشیا ہوتا ہے جس میں موجودہ پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش، کسی حد تک برما اور افغانستان کے کچھ علاقے شامل ہیں۔ یہ سب علاقے تاریخ میں برصغیر کے نام سے مشہور ہیں۔

مسلم برادری برصغیر میں ہمیشہ اقلیت کے طور پر رہی ہے، لیکن اقلیت اور کچھ علاقوں میں انتہائی اقلیت میں ہونے کے باوجود مسلمان برصغیر پر ایک ہزار سال سے زائد عرصے تک حکمرانی کرنے میں کامیاب رہے۔ برصغیر میں مسلمانوں کی حکمرانی کا آغاز ۹۲ ہجری میں ہوااوراس کا اختتام ۱۲۷۶ ہجری کو ہوا، لہٰذا مسلمان باوجود اقلیت ہونے کے اس وسیع علاقے پر ایک ہزار برس سے زائد عرصہ برسر اقتدار رہے۔ 

مسلمانوں اور برصغیر کے اصلی باشندوں کے درمیان ہمیشہ ایک شدید اور دلچسپ مخاصمت اور اختلاف رہا ہے۔ اگر آپ ہندو ثقافت اور ہندو مذہب کا مطالعہ کریں جو کہ برصغیر میں اکثریت کا مذہب اور ثقافت ہے تو آپ دیکھیں گے کہ یہ مذہب اور تہذیب ہمیشہ حیرت انگیز طور پرجاذب رہی ہے کیونکہ باہر سے جتنے بھی نئے لوگ یہاں آئے، اس نے ا ن سب کو اپنے اندر ضم اور جذب کر لیا۔ اگر آپ برصغیر کی پچھلی پانچ ہزار سالہ تاریخ کا مطالعہ کریں تو آپ بہت زیادہ لوگوں، قوموں اور مہاجرین کو ہندوستان آتے پائیں گے جن میں ڈراو ڈینز، آریہ اور پھر مغل اور بہت سے لوگ شامل ہیں، لیکن برصغیر آنے کے فوراً بعد یہ لوگ ہندوستان کی ہندو اکثریت میں اتنی تیزی سے ضم اور جذب ہو گئے کہ خود اپنی شناخت کھو بیٹھے اور اپنی علیحدہ تہذیب، نظریہ اور نمایاں خصوصیات تک برقرار نہ رکھ سکے۔ وہ ہندو تہذیب اور ثقافت میں ضم ہوگئے اور اب انہیں ہندوؤں سے ممتاز کرنا مشکل ہو گیاہے۔ ان سب میں اگر ایک استثنا ہے تو مسلمانوں کا ہے۔ 

مسلمانوں کی آمد کے ساتھ ہی مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان اختلاف شروع ہو گیا۔ مسلمانوں نے انتہائی احساس، احتیاط اور ہوش مندی سے اپنے تشخص اور علیحدہ ثقافت اور نظریہ کی حفاظت کی۔ انہوں نے ہندوؤں کی نفوذ اور انضمام کی کوششوں پر مسلسل نظر رکھی۔ ان کی مسلسل کوشش اور نگرانی نے ان کے تحفظ اور برصغیر میں مسلسل ان کی موجودگی کو یقینی بنایا۔ یہ مخاصمت چلتی رہی اور تاریخ کے مختلف ادوار میں اس نے مختلف روپ دھارے۔ بعض اوقات ہندو خطرہ سیاسی برتری کی صورت میں پیش آیا، بعض اوقات مذہبی تحریکوں کی صورت میں اور بعض اوقات معاشرتی اصلاح کی تحریکوں کی صورت میں پیش آیا۔ 

اگر آپ ہندو تصور کی تاریخ سے واقف ہوں تو آپ چودھویں اور پندرھویں صدی عیسوی میں ہندو فکر میں اس تحریک کو یاد کرسکتے ہیں جو بھگتی تحریک کے نام سے مشہور ہے۔ ہندو بھگت برصغیر کے مختلف حصوں میں ابھرے اور ان کا مقصد دینی فلسفہ میں ایک ایسا نیا تصور پیدا کرنا تھا جو بقول ان کے مطابق برصغیر میں موجود تمام مذاہب کی اچھی خصوصیات اور خوبیوں پر مشتمل ہو۔ سکھ تحریک کا وجود میں آنا بھگتی تحریک کا براہِ راست نتیجہ تھا اور سکھ تحریک کے بانی بابا گرو نانک نے ایک نیا مذہبی فلسفہ پیش کرنے کا دعویٰ کیا جس کی بنیاد اسلام، ہندومت ، عیسائیت اور بدھ مت کی تعلیمات پر ہو۔ یہ تصور اس لیے پیش کیا گیا کہ مسلمانوں کو اس نئے فلسفہ کی طرف مائل کیا جائے تا کہ وہ ان ملتی جلتی اور مشترک چیزوں میں ضم ہو جائیں اور اپنی شناخت، اپنی علیحدہ تہذیب اور ثقافت کھو دیں، لیکن یہ تحریک جو ہندوؤں اور ہندوؤں سے ابھرنے والے دوسرے گروہ سکھوں کی تھی، مسلمانوں کو راغب کرنے میں مذہبی اور فلسفیانہ سطح پر ناکام ہوگئی لیکن سیاسی سطح پر دوبارہ سامنے آئی۔ 

اگر آپ مغلیہ سلطنت کے ظہور کے پس منظر سے واقف ہوں تو آپ دیکھیں گے کہ اس وقت بڑے پیمانے پر برصغیر میں ہندو قبائل اور ہندو لوگوں کے درمیان گٹھ جوڑ ہوا۔ انہوں نے مسلمانوں کے خلاف ایک مشترکہ لائحہ عمل تیار کیا۔ وہ راجپوت لیڈر رانا سانگا کی قیادت میں متحد ہو گئے اور انہوں نے مسلمانوں کو جڑ سے اکھاڑنے اور برصغیر سے نکال باہر کرنے کی کوشش کی اور اس وقت جب مسلمان اس حالت میں نہیں تھے کہ اپنا تحفظ کرسکیں، اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے وسطی ایشیا سے مغلوں کو بھیجا۔ بابر اپنی فوج اور عسکری قوت کے ساتھ آیا اور رانا سانگا کو شکست دے کر دوبارہ ۳۵۰ سال کے لیے مغلیہ سلطنت قائم کر دی۔ سیاسی سطح پر اس کوشش کی ناکامی کے بعد انہوں نے مسلمانوں کو اندر سے ہی منتشر کرنے کی کوشش کی۔ انہوں نے مغل بادشاہ جلال الدین اکبر کے ذہن میں یہ بات ڈال دی کہ ہندوستان ایک کثیر القومی ملک ہے اور اس نے سوچا کہ ہندوستان میں مختلف قومیں آباد ہیں اور یہ خیال اس کے ذہن میں ڈالا گیا کہ یہاں مسلمان، ہندومت اور بدھ مت کے پیروکار اور کچھ عیسائی بھی آباد ہیں۔ لہٰذا حکومت اور خاص طور پر بادشاہ کو ان تمام مذہبی عناصر کو یکجا کرنا اور تمام مذاہب کے پیروکاروں کو اپنے قریب لانا چاہیے۔ اس طرح اسلام کو دوسرے مذہبی نظریات کے ساتھ اکٹھا کرنے کا تصور اس کے ذہن میں ڈال دیا گیا۔ 

جیسا کہ آپ کو معلوم ہے کہ ہمارے ہاں ایک فقہی قاعدہ ہے : اذا اجتمع الحلال والحرام غلب الحرام (ابن نجیم، الاشباء والنظائر، ص ۱۲۱) کہ اگر حلال اور حرام اکٹھے کر دیے جائیں تو حرام غالب آئے گا یعنی حرام اور حلال کو اکٹھا کر کے جو مجموعہ بنے گا، وہ باطل ہو گا۔ اگر برائی اور اچھائی اکٹھی کر دی جائیں تو نتیجہ برائی ہی ہوگا۔ لہٰذا حق اسی صورت میں حق ہے جب خالص اور سادہ ہو اور آلودہ نہ ہوا ہو۔ اگر یہ باطل کے ساتھ آلودہ ہو جائے تو پھر یہ سارے کا سارا باطل ہوگا، پورا نظام باطل ہو گا۔ لہٰذا برصغیر میں مسلمان قائدین، مفکرین اور مسلم تجدیدی تحریکوں کی ہمیشہ سے یہ کوشش رہی ہے کہ اسلامی نظریہ کو حقیقی ، سادہ اور غیر آلودہ رکھا جائے۔ 

اکبر نے ہندوؤں، ملحدین اور منحرفین کے تعاون اور مدد سے اپنا مذہبی نظریہ پیش کر کے ایک نیا مذہبی نظام متعارف کروانے کی کوشش کی جو دین الٰہی کے نام سے مشہور ہے۔ ان کے مطابق یہ دین الٰہی برصغیر کے تمام بڑے مذاہب کے عقائد کا مجموعہ تھا، لیکن در حقیقت یہ اسلام نہیں تھا۔ یہ کچھ بھی تھا، لیکن اسلام نہیں تھا۔ اس تحریک کا مقابلہ کرنے کے لیے اور اسے ختم کرنے کے لیے وہ لوگ جو اقتدار میں تھے اور جو حلقہ حکومت کے قریب تھے، انہوں نے ایک جماعت تشکیل دی جسے فارسی میں جرگہ کہتے ہیں۔ اس جماعت کا نام ممدان اسلام یعنی اسلام کے مددگار تھا۔ یہ اسلام کے حمایتی لوگ تھے اور یہ حساس مسلم شخصیات پر مشتمل تھی۔ یہ آگے آئے اور مجدد شیخ احمد سرہندی جو مجدد الف ثانی ؒ کے نام سے مشہور ہیں، کی قیادت میں خود کو متحد کیا۔ انہوں نے اپنے ہاں سے اس ملحدانہ نظریہ کو ختم کرنے کی کوشش کی اور آخر کار اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی مدد سے وہ اسے ختم کرنے میں کامیاب ہوگئے اور اب یہ تاریخ کی کتابوں کا حصہ بن چکا ہے جہاں سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ دین الٰہی کیا تھا۔

عقلی اور مذہبی سطح پر اس تحریک کی ناکامی کے بعد ایک اور تحریک سیاسی سطح پر دوبارہ سامنے آئی۔ برصغیر میں مختلف ہندو گروہ اور قبائل پھیلے ہوئے تھے۔ اگر آپ برصغیر کے نقشے سے واقفیت رکھتے ہوں، اگرچہ میں جغرافیہ کا اچھا طالب علم نہیں، تو بر صغیر کے جنوبی حصہ پر جو گروہ غالب اور اکثریت میں تھا، وہ مرہٹوں کے نام سے مشہور تھا۔ دارالحکومت دہلی کے علاقے میں جاٹ قوم اور پنجاب میں سکھ قوم آباد تھی۔ یہ تینوں اسلام مخالف قوتیں آگے بڑھیں اور انہوں نے کوشش کی کہ اپنے علاقوں میں خود کو منظم کریں اور آخر کار مسلمانوں کو برصغیر سے نکال باہر کر کے اپنی برتری قائم کریں۔ مسلمانوں کی حالت اس وقت بہت کمزور تھی اور اختیارات بھی دارالحکومت اور ارد گرد کے علاقوں تک محدود تھے۔ اس کے علاوہ وہ برصغیر کے مختلف حصوں اور مختلف شہروں میں متفرق گروہوں کی صورت میں بکھرے ہوئے تھے اور باقی ماندہ عزت و وقار کو بحال رکھنے کی کوشش میں تھے۔ 

مرہٹے جنوبی حصے میں، جاٹ دارالحکومت کے ارد گرد اور پنجاب میں سکھ تھے۔ سکھوں نے پنجاب کے علاقے میں سیاسی قوت و برتری حاصل کر لی کیونکہ وہ آبادی میں مناسب تعداد میں تھے۔ ان کے پاس اپنی عسکری قوت تھی اور اس کے علاوہ وہ ایک قیادت کے تحت اکھٹے اور متحد تھے، جبکہ مسلمان متفرق اور بکھرے ہوئے تھے۔ چنانچہ وہ پنجاب میں اپنی سلطنت قائم کرنے میں کامیاب ہوئے اور انہوں نے مسلمانوں کو اذیتیں دینا شروع کر دیں۔ یہ اٹھارہویں صدی کے اوائل میں ہو رہا تھا جب مغلیہ سلطنت کمزور ہو چکی تھی اور مسلم برصغیر کے مختلف علاقوں میں چھوٹی چھوٹی مسلم ریاستیں، اجارہ داریاں اور حکومتیں قائم ہو چکی تھیں جو عملی طور پر ایک دوسرے سے مکمل طور پر خود مختار تھیں۔ یہ تینوں بڑی طاقتیں مسلمانوں کی سیاسی برتری بلکہ برصغیر سے مسلمانوں کے وجود کو ختم کرنے کے درپے تھیں۔ ان کا ارادہ ایک خالص ہندو بادشاہت قائم کرنے کا تھا جسے ہندو ادب میں ہندو پد بادشاہی کے نام سے جانا جاتا ہے۔ وہ برصغیر میں خالصتاً ہندو بادشاہت قائم کرنا چاہتے تھے۔ 

اس مرحلہ پر شاہ ولی اللہ دہلوی آگے بڑھے۔ انہوں نے دو جہت پر کام شروع کیا۔ پہلی یہ کہ شاہ صاحب کا خیال تھا کہ مسلمانوں کے سیاسی تنزل کا سبب ان کی معاشرتی سطح پر انحطاط پذیری ہے اور معاشرتی زبوں حالی کی وجہ ان کی اسلام کی بنیادی تعلیمات سے دوری ہے کیونکہ جب تک وہ قرآن و سنت پر نظریات سے وابستہ نہیں ہوں گے، ان کا معاشرتی ڈھانچہ سلامت نہیں رہے گا اور جب تک معاشرتی ڈھانچہ سلامت نہیں ہوگا، اس وقت تک ان کی سیاسی برتری اور عزت و وقار کی ضمانت نہیں دی جا سکتی، چنانچہ انہوں نے اولاً اس جہت پر کام کیا اور قرآن وسنت کی تعلیمات پر مشتمل نظام تعلیم کی تنظیم نو کے لیے کوشش کی۔ انہوں نے دہلی میں مدرسہ رحیمیہ کے نام سے تعلیمی ادارہ قائم کیا جس میں انہوں نے ایک اصلاح شدہ نظام تعلیم متعارف کروایا جو قرآن و سنت کی تعلیمات و احکامات پر مشتمل تھا۔ انہوں نے علما کی ایک جماعت تیار کی جنہیں انہوں نے ہندوستان کے مختلف علاقوں میں بھیجا۔ بعض کو سندھ، بعض کو لکھنو اور کچھ کو بنگال روانہ کیا۔ اس طرح انہوں نے اپنے شاگردوں کو برصغیر کے تمام حصوں میں پھیلا دیا۔ 

دوسری جہت پر انہوں نے قلیل مدتی اقدامات بھی کیے، کیونکہ تعلیمی انقلاب اور ایسی نسل تیار کرنے کے لیے جو مقصد اسلام کے لیے وقف ہو، ایک لمبا عرصہ درکار ہوتا ہے جو ایک طویل مدتی اقدام ہے۔چنانچہ قلیل مدتی اقدام کے طور پر انہوں نے مسلمانوں کو ان تین اسلام دشمن قوتوں سے بچانے کی کوشش کی۔ شاہ ولی اللہ کے دور میں ان میں سے سب سے زیادہ ناقابل برداشت اور طاقتور مرہٹے تھے۔ مرہٹے تعداد میں بہت ہی زیادہ تھے، ان کی تعداد لاکھوں میں تھی۔ وہ ایک نئے جوش اور ہمت کے ساتھ ظاہر ہوئے اور برصغیر سے مسلمانوں حتیٰ کہ اسلام کا صفایا کرنے کے درپے ہو گئے۔ وہ مسلمانوں کو اذیتیں دینے میں اتنے بے رحم تھے کہ ہندؤں میں سے صحیح العقل لوگوں نے بھی ان کے وحشیانہ پن اور مسلمانوں کو دی جانے والی اذیتوں کی مذمت کی۔مرہٹوں کی حالت اس وقت یہ تھی کہ جب کہیں وہ فتح پاتے تو پورے کے پورے قصبے اور گاؤں ملیا میٹ کر دیتے، حتیٰ کہ بچوں اور عوتوں کو بھی موت کے گھاٹ اتار دیتے اور پورے علاقے سے زندگی کا نام ونشان ختم کر دیتے تھے۔

اس وقت افغانستان میں ایک انتہائی مستعد اور بہت اچھا مسلمان حکمران تھا جو تاریخ میں شاہ احمد درانی اور ابدالی کے نام سے مشہور ہے۔ وہ ایک اچھا مسلمان ااور پکا مجاہد اور جنگ جو تھا اور وہ شاہ ولی اللہ سے رابطہ میں تھا۔ شاہ ولی اللہ نے معاشرے کے دوسرے معززین اور قائدین کے ہمراہ شاہ احمد ابدالی سے رابطہ کیا اور ان سے برصغیر میں آکر مرہٹوں کی قوت کو ختم کرنے کی درخواست کی۔ آخر کار شاہ ولی اللہ کے قائل کرنے پر وہ اپنی عسکری قوت کے ساتھ برصغیر آیا اور دہلی کے قریب ایک چھوٹے سے قصبے میں جو تاریخ میں پانی پت کے نام سے مشہور ہے اور دہلی سے تقریبا۱۲۰ میل کے فاصلہ پر ہے، اس جگہ احمد شاہ ابدالی اور مرہٹوں کے درمیان مڈ بھیڑ ہوئی۔ اللہ تعالیٰ کی توفیق سے احمد شاہ ابدالی نے مرہٹوں کے خواب کو ہمیشہ کے لیے نا ممکن بنا دیا اور صرف ایک دن میں اڑھائی لاکھ مرہٹوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا اور اس طرح ان کے خواب کو ہمیشہ کے لیے خاک میں ملا دیا۔ اس کے بعد مرہٹوں کی جانب سے نہ کبھی مزاحمت کا سامنا ہوا اور نہ کبھی وہ دوبارہ ابھر سکے۔ اب بھی وہ ایک کمزور قوت ہیں۔ مرہٹوں کو شکست دینے کے بعد شاہ احمد ابدالی بد قسمتی سے افغانستان واپس چلے گئے اور برصغیر میں ٹھہرنا اور قیام کرنا پسند نہیں کیا۔ اگر انہوں نے برصغیر میں ٹھہرنے اور دہلی میں اپنی قوت اورحکومت قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہوتاتو شاید برصغیر کی تاریخ موجودہ تاریخ سے قدرے مختلف ہوتی۔ تاہم وہ واپس چلے گئے اور دہلی میں امور اسی حالت میں چھوڑ کر چلے گئے جس طر ح وہ تھے۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سکھوں نے پنجاب میں برتری حاصل کر لی اور انہوں نے اسی حکمت عملی پر کام شروع کر دیا جس کا آغاز مرہٹوں نے کیا تھا۔ یہ صورت حال انیسویں صدی کے آغاز میں تھی۔ شاہ ولی اللہ مرہٹوں کے خلاف اپنے منصوبے کی کامیابی دیکھنے سے قبل ہی انتقال کر گئے تھے۔مرہٹوں کے خلاف پانی پت کی جنگ ۱۷۶۲ء میں لڑی گئی اور شاہ ولی اللہ کا انتقال اس حتمی معرکے سے ایک سال قبل ۱۷۶۱ء میں ہوا۔ شاہ ولی اللہ کے بعد ان کے بڑے بیٹے شاہ عبد العزیز نے تحریک کی قیادت سنبھالی اور مدرسہ رحیمیہ کے مہتمم کے طور پر ان کے جانشین بنے۔ وہ اس وقت برصغیر میں ہونے والے تمام تجدیدی کاموں کے نگران تھے۔ شاہ عبد العزیز انیسویں صدی کی پہلی تہائی گزرنے کے ساتھ بہت بوڑھے ہو چکے تھے۔ اس وقت ان کی عمر اسی برس سے زائد تھی اور اس حالت میں نہیں تھے کہ مقبول تحریک کی براہ راست خود نگرانی کر سکیں اور برصغیر کے مسلمانوں کو غلامی اور سیاسی وعسکری میدانوں میں مکمل طور پر ہتھیار ڈالنے سے محفوظ رکھ سکیں۔ انھی وجوہ کی بنا پر انہوں نے اپنے ایک شاگرد سید احمد شہید کو اس بات پر قائل کیا کہ وہ مجدد الف ثانی، شاہ ولی اللہ کی کاوشوں اور خاص طور پر اس تجدیدی اور اصلاحی نظریہ کو جسے شاہ ولی اللہ اور ان کے پیروکاروں نے پیش کیا، مد نظر رکھتے ہوئے جہاد کی اس مقبول تحریک کو دوبارہ شروع کریں۔ 

سید احمد شہید ۱۲۰۱ ہجری [نومبر ۱۷۸۶ء] میں پیدا ہوئے۔ وہ شاہ عبد العزیز کے شاگرد تھے، لیکن بنیادی طور پر مزاج اور ذہنی رجحان کے لحاظ سے ایک مجاہد اور جنگ جو تھے، نہ کہ ایک عالم۔ اس وقت وسطی بھارت میں بھوپال نامی ایک ریاست تھی جس کی باگ ڈور ایک نیک حکمران نواب امیر خان کے پاس تھی۔ وہ ایک اچھا مسلمان تھا جس نے خود کو اسلام کے مقصد کے لیے وقف کر رکھا تھا۔ اس کی یہ خواہش تھی کہ مسلمانوں کی سیاسی برتری کو دوبارہ بحال کیا جائے۔ شاہ ولی اللہؒ کے بیٹے شاہ عبدالعزیزؒ ہدایت پر پر سید احمد شہید اس کی عسکری قوت میں شامل ہو گئے اور کچھ وقت وہاں رہے۔ یہ عرصہ جو انہوں نے نواب امیر خان کے ساتھ گزارا، کئی لحاظ سے ان کے لیے مفید رہا۔ اولاً انہوں نے برصغیر کی اہم سیاسی شخصیات سے تعلقات استوار کیے جنہیں بعد ازاں انہوں نے اپنی تحریک کی کامیابی کے لیے استعمال کیا اور ثانیاً انہوں نے جنگ جوئی اور عسکری حکمت عملی کی عملی تربیت حاصل کی۔ لیکن کچھ عرصہ بعد جب انہوں نے محسوس کیا کہ نواب امیر خان برصغیر میں اسلام کی تجدیدی تحریک کے احیا کے لیے اقدام کرنے کی پوزیشن میں نہیں تو وہ اسے چھوڑ کر دہلی واپس آگے اور شاہ عبد العزیز کو اس تمام صورت حال سے آگاہ کیا۔ 

شاہ عبد العزیز سے مشاورت کے بعد اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ ایک مقبول تحریک کا آغاز کیا جانا چاہیے۔ اس مقصد کے لیے شاہ عبد العزیز کے مدرسہ رحیمیہ کے تمام علما نے سید احمد شہید کا ساتھ دیا۔ خاص طور پر دو نہایت بزرگ علما کا تذکرہ ضروری ہے۔ ان میں ایک مولانا عبد الحئی جن کا شمار برصغیر کے علما میں انتہائی بزرگ عالم کے طور پر ہوتا ہے اور وہ شاہ عبد العزیزؒ کے داماد تھے۔ دوسرے مولانا اسماعیل شہیدؒ تھے جو شاہ عبد العزیزؒ کے بھتیجے اور شاہ ولی اللہؒ کے پوتے یعنی ان کے سب سے چھوٹے بیٹے شاہ عبد الغنی ؒ کے بیٹے تھے۔ یہ دونوں بزرگ علما شاہ ولی اللہ، شاہ عبدالرحیم اور شاہ عبد العزیز کی قائم کردہ قدیم روایات کے نمائندے اور سب سے بزرگ ترین علما شمار کیے جاتے تھے۔ پورا برصغیر حتیٰ کہ شاہ عبد العزیز بھی انہیں قدرومنزلت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ سید احمد شہید کے حلقہ میں ان بزرگوں کی شمولیت سے اس تحریک کی شہرت اور وقار کو بہت زیادہ تقویت ملی۔ 

سید احمد شہید نے ان کے ہمراہ اس علاقے کا دورہ کیا جسے یو پی (United Provinces) کہتے ہیں۔ یقیناًآپ اس بات سے واقف ہوں گے کہ اسلامی دنوں میں ایک صوبہ لکھنؤ یا اودھ کے نام سے تھا اور وہاں ایک شہر بھی لکھنؤ کے نام سے ہے جو مولانا ابو الحسن علی الندوی کا شہر ہے۔ آپ مولانا ابو الحسن علی کی شخصیت سے واقف ہوں گے کہ وہ لکھنو میں رہا کرتا تھے۔ لکھنو کو اودھ بھی کہتے تھے۔ دوسرا صوبہ آگرہ تھا جو دہلی سے ۷۰ میل کے فاصلہ پر ہے۔ ان دونوں صوبوں، آگرہ اور اودھ کو اکٹھا کر دیا گیا۔ اس وجہ سے علاقہ یو پی کے نام سے مشہور ہو گیا۔ سید احمد شہید نے یو پی کے اس پورے علاقے اور اہم شہروں اور قصبوں کا سفر کیا اور شرک و بدعات کے بارے میں اپنے نظریات کی تشہیر کی اور لوگوں کو توحید کی دعوت دی۔ اس طرح لاکھوں مسلمان ان کے حلقہ میں شامل ہوگئے۔ 

ضروری کام مکمل کرنے کے بعد انہوں نے حج پر جانے کا فیصلہ کیا، کیونکہ اگر آپ بحر ہند میں جہاز رانی کی تار یخ سے واقف ہوں تو جانتے ہوں گے کہ اس وقت بحر ہند برطانیہ، فرانس اور پرتگال کے جہاز رانوں کے لیے ایک جھیل کی طرح تھی اور مسلمانوں کے لیے بحر ہند میں جہاز پر سفر کرنا خطرہ سے خالی نہ تھا۔ اس بنا پر اس وقت کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ حج اب فریضہ نہیں رہا، کیونکہ قرآن میں ہے: من استطاع الیہ سبیلاکہ حج اس شخص پر فرض ہے جو مکہ پہنچنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ چونکہ مسلمان اس حالت میں نہیں کہ مکہ جا سکیں، اس لیے حج اب فرض نہیں رہا۔ اس فاسد خیال اور رائے کو ختم کرنے کے لیے اور حج کی فرضیت کو زندہ کرنے کے لیے سید احمد شہید نے حج پر جانے کا فیصلہ کیا۔ اپنے دو یا تین سو ساتھیوں کے ہمراہ وہ اس علاقے سے بنگال کی مشرقی بندر گاہ کلکتہ تشریف لائے اور وہاں سے خلیج بنگال کے ذریعے حج کے لیے روانہ ہوئے اور وہاں آپ نے ایک سال قیام کیا۔ 

مکہ اور مدینہ میں ایک سال کے قیام کے دوران انہوں نے اسلامی تحریکوں کے سربراہوں سے رابطہ کیا اور ان کے ساتھ جہاد کے مسائل اور مستقبل کے امور پر تبادلہ خیال کیا۔ وہاں ان کا رابطہ افغانستان کے لوگوں کے ساتھ ہوا، کیونکہ اس وقت انگریزوں اور سکھوں کی موجودگی کی وجہ سے اس علاقے کے لوگوں کے ساتھ براہ راست رابطہ ممکن نہ تھا۔ چنانچہ انہوں نے عرب میں وسطی ایشیا اور افغانستان کے لوگوں سے رابطہ کیا اور آخر کار جہاد شروع کرنے کے بارے میں حکمت عملی مرتب کی۔ حج سے واپسی پر انہوں نے جہاد کے لیے تیاریاں شروع کر دیں اور جہادی تحریک کے مرکز کے لیے انہوں نے پنجاب کی دوسری جانب کا علاقہ جو آج کل شمال مغربی سرحدی صوبہ میں شامل ہے، منتخب کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس مقصد کے لیے وہ اپنے سات سو پیروکاروں کے ہمراہ ہجرت کرتے ہوئے پہلے نواب امیر خان کے پاس آپہنچے۔ وہاں سے سندھ اور سندھ سے قندھار کے راستے افغانستان پہنچے۔ پھر قندھار سے کابل اور کابل سے پشاور اور وہاں سے ضلع ہزارہ کے علاقے میں آئے اور اس علاقے کو انہوں نے کئی ایک وجوہ کی بنا پر اپنی جہادی تحریک کے مرکز کے طور پر منتخب کیا۔ 

اولاً: وہ سکھوں کی بالادستی کو ختم کرنا چاہتے تھے، کیونکہ سکھوں نے مسلمانوں کو اذیتوں میں مبتلا کر رکھا تھا جبکہ وہ پنجاب میں اقلیت اور مسلمان اکثریت میں تھے۔ اگر پنجاب کو سکھوں کی بالادستی سے آزاد کروا لیا جاتا تو مستقبل میں برصغیر کے کم از کم ایک حصے یعنی سرحد میں اسلامی نظام حکومت قائم کرنے کے لیے بہتر ثابت ہو سکتا تھا۔

ثانیاً: سرحدی صوبہ کا علاقہ وسطی ایشیا سے ملحق تھا جہاں آبادی کے لحاظ سے مسلمان غلبے میں تھے اور پیچھے کی جانب سے انھیں مدد اور حمایت فراہم کرنے کی بہتر پوزیشن میں تھے۔ 

تیسرا یہ کہ تاریخی اور روایتی لحاظ سے افغانستان اور پشاور کے مسلمان پر جوش اور سنجیدہ واقع ہوئے ہیں اور برصغیر کے باقی مسلمانوں کی نسبت اسلام کے مقصد کے ساتھ ان کی وابستگی بہت زیادہ گہری تھی۔ 

انہی وجوہ کی بنا پر انہوں نے اس علاقے کو اپنی جہادی کاوشوں کا مرکز بنانے کی کوشش کی۔ چنانچہ وہ یہاں علاقے پہنچے، مقامی آبادی جو مسلمانوں پر مشتمل تھی، ان کے ارد گرد اکٹھی ہوئی اور جہاد کے لیے ان کے ہاتھ پر بیعت کی گئی۔ وہاں ایک چھوٹا سا قصبہ تھا جو پنج دھار کے نام سے مشہور ہے۔ تاریخی اہمیت کی وجہ سے ہم اسے یاد رکھ سکتے ہیں۔ اس چھوٹے سے قصبے پنج دھار میں انھوں نے اپنا مرکزی ہیڈ کوارٹر قائم کیا۔ یہ ان کی چھوٹی سی اسلامی ریاست کا دارالحکومت بھی تھا۔ سید احمد شہید نے امامت کی بیعت بھی لی اور انہیں امیر المومنین کے طور پر منتخب کیا گیا۔ انہوں نے اپنے اس چھوٹے سے علاقے کے تمام حصوں میں قاضی اور محتسب مقرر کیے۔ اسلامی قانون کو لاگو اور شریعت کو مکمل طور رپر نافذ کیا گیا۔ ضروری تیاری مکمل کرنے کے بعد انہوں نے سکھوں کے خلاف عملی طور پر جہاد کا آغاز کیا۔ اگر آپ کو پشاور جانے کا اتفاق ہوا ہو تو شاید آپ نے دریائے سندھ کے فوراً بعد ایک چھوٹا سا قصبہ اکوڑہ خٹک دیکھا ہو جہاں ایک بڑا دینی مدرسہ بھی ہے ۔ سید احمد شہید اور سکھوں کے درمیان پہلی مڈ بھیڑ یہاں اکوڑہ خٹک میں ہوئی۔ اس مقابلے میں مسلمان سکھوں کو شکست فاش دینے میں کامیاب ہوئے اور انہوں نے سکھوں کو بھاگنے پر مجبور کر دیا۔

اس کامیابی کے بعد سید احمد شہید نے پشاور، ہزارہ اور کشمیر میں قبائلی سرداروں اور دوسرے حکمرانوں کو خطوط لکھے۔ اکثر نے مثبت رد عمل کا اظہار کیا اور اس طرح عملی طور پر شمال مغربی سرحدی صوبے کا پورا علاقہ ان کے زیر اثر آگیا اور انہوں نے ہر علاقے میں اپنے قاضی اور محتسب مقرر کیے۔ لیکن ایک بات جسے تحریک کے پر جوش کارکنان کو ہمیشہ مدنظر رکھنا چاہیے، شریعت کی بالا دستی اور اسلامی نظام قائم کرتے ہوئے جوش و جذبے میں یہ بات ہمیشہ ذہن میں ر ہنی چاہیے، لیکن انہوں نے اس بات کو ملحوظ خاطر نہیں رکھا اور مقامی لوگوں کے مقامی رواجات، مقامی روایات اور لوگوں کی پسند اور نا پسند کو مدنظر نہیں رکھا۔ ان میں کچھ لوگوں نے شریعت کو اپنانے اور قبول کرنے میں لوگوں کی صلاحیت کو اور اس بات کو مدنظر نہیں رکھا کہ وہ کس حد تک شریعت کی ذمہ داریوں کو ادا کر سکتے ہیں اور کس حد تک اسے برداشت کر سکتے ہیں۔ 

اگر آپ کسی پر بوجھ لادنے کی کوشش کر رہے ہوں تو آپ کو اس کی صلاحیت اور قابلیت کو مد نظر رکھنا چاہیے اور جب تک اس کی صلاحیت آپ کو اس بات کی اجازت نہ دے، آپ کو اس کے کندھوں پر بوجھ نہیں لادنا چاہیے۔ اس علاقے کے لوگ اس وقت شریعت کے نفاذ کا بوجھ برداشت کرنے کے لیے تجربہ اور تیاری نہیں رکھتے تھے۔ سید احمد کے پیروکاروں اور رفقا نے سوچا کہ یہ لوگ نہ صرف مسلمان ہیں بلکہ کئی صدیوں سے مسلمان ہیں اور انہیں شریعت کے نفاذ کا خیر مقدم کرنا چاہیے اور خوش آمدید کہنا چاہیے، چنانچہ انہوں نے کسی تدریج اور مرحلہ وار تعارف کے بغیر شریعت نافذ کر دی۔ مقامی آبادی کی جانب سے شدید رد عمل سامنے آیا اور خاص طور پر میں ایک مثال سے واضح کرتا ہوں۔ پشاور کے اردگرد اس علاقے میں حتیٰ کہ آج بھی لوگ اپنی خواتین کے معاملات میں بڑے حساس واقع ہوئے ہیں۔ ان کے ہاں شادی، طلاق اور خاندانی تعلقات کے بارے میں اپنی روایات ہیں اور خاندانی تعلقات اور خاندانی روایات کے تحفظ میں وہ بہت سخت ہیں۔ اگر کوئی فرد باہرکے دوسرے قبیلہ سے آ کر ان کی اندرونی زندگی میں دخل دینے کی کوشش کرے تو اسے ہر گز برداشت نہیں کیا جاتا اور اسے بغیر کسی تامل کے آج بھی موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے۔ 

انہی دنوں سید احمد شہید کے علم میں یہ بات آئی کہ چند خواتین جن کا تعلق بڑے خاندانوں سے ہے، ابھی تک غیر شادی شدہ ہیں اور ان کی عمریں بھی زیادہ ہو رہی ہیں۔ سید احمد شہید نے جب ان کے والدین اور سرپرستوں سے ان کے بارے میں پوچھا کہ وہ اپنی بیٹیوں کی شادی کیوں نہیں کرتے تو انہوں نے کہا کہ ہم ان کے لیے برابر کے مناسب رشتوں کی تلاش میں ہیں اور ایسے مناسب رشتے اور نوجوان نہیں مل رہے جن کا تعلق بڑے خاندانوں سے ہو اور دوسرے قبائل میں اپنی بیٹیوں کو نکاح میں دینے کے لیے ہم تیار نہیں۔ سید احمد شہید نے اس بات کو پسند نہیں کیا اور انہیں حکم دیا کہ وہ اپنی بیٹیوں کی شادی موجود مسلمان نوجوانوں اور ان کے ساتھ یو پی سے آئے ہوئے رفقا سے کر دیں۔ اس طرح ان کے اصحاب میں سے کچھ کو شادیوں میں لڑکیاں ملیں۔ اس پر ایک شدید رد عمل سامنے آیا اور یقیناًغیر اسلامی قوتوں اور اسلامی انقلاب اور اسلامی نظام کے مخالفین نے اسے مزید بڑھاوا دیا اور اس میں مزید ایندھن بھرا اور ایک دن ان سب نے ایک مشترکہ لائحہ عمل تشکیل دیا اور رات کے وقت تمام مجاہدین کو قتل کرنے کا منصوبہ بنا لیا۔ 

ایک رات وہ سب لوگ اپنی تلواروں، بندوقوں اور اسلحہ کے ساتھ آئے اور مسجد پر حملہ آور ہوئے۔ کچھ مجاہدین تہجد کی نماز پڑھ رہے تھے، انہیں قتل اور ہلاک کر دیا گیا۔ کچھ اپنے گھروں میں سو رہے تھے، انہیں بھی قتل کر دیا گیا۔ کچھ اپنے خیموں کی حفاظت کر رہے تھے، انہیں بھی قتل کر دیا گیا۔ سینکڑوں ہزاروں مجاہدین کو ایک رات میں خود مسلمانوں نے ہی قتل کر دیا۔ یہ شریعت کے نفاذ کا ایک رد عمل تھا۔ اس کا مسلمانوں کے کیمپ پر ایک برا اثر مرتب ہوا، سید احمد شہید شدید دل برداشتہ ہوئے اور انہوں نے اس علاقے سے جانے کا ارادہ کر لیا۔ اس وقت سوات میں ایک اچھا حکمران تھا۔ اس نے سید احمد شہید کو ہزارہ سے سوات آنے کی دعوت دی کہ وہ اپنا ہیڈ کوارٹر وہاں بنائیں اور انہیں ہر قسم کی مدد اور مزید جہاد کے لیے بنیاد فراہم کرنے کا وعدہ کیا۔ چنانچہ وہ پانچ سے سات سو کے قریب مجاہدین کے ہمراہ ہزارہ سے سوات کی جانب چل دیے۔ جب وہ سوات کی جانب جا رہے تھے تو وادی کاغان کے علاقے میں ایک قصبے سے جو بالا کوٹ کے نام سے مشہور ہے، گزرے ۔ بالا کوٹ اس طرح ہے کہ اس کی ایک جانب دریائے کنہار ہے جب کہ دوسری طرف ایک بڑا پہاڑ ہے اور ان کے درمیان بالا کوٹ کا علاقہ ہے۔ سید احمد شہید اور ان کے مجاہدین نے سوات جاتے ہوئے اس علاقے میں پڑاؤ ڈالا۔ معلوم نہیں سکھوں، ہندوؤں، مقامی مسلمانوں یا مخالفین میں سے کسی نے سکھ فوج کویہ بات پہنچا دی کہ سید احمد شہید اپنے مجاہدین کے ہمراہ اس علاقے میں خیمہ زن ہیں اور وہ سوات کی طرف جا رہے ہیں جسے وہ اپنا ہیڈ کوارٹر بنانا چاہتے ہیں تاکہ وہاں سے سکھوں کے خلاف جہاد شروع کریں۔ 

سکھ فوج پہاڑ کے اوپر کی جانب سے آئی اور یک دم بغیر کسی اطلاع کے مسلمانوں پر حملہ آور ہو گئی۔ یہ ۶؍ مئی ۱۸۳۱ء کی بات ہے، جبکہ مسلمان جنگ کے لیے قطعا تیار نہیں تھے اور انہیں اس طرف سے کسی حملے کی توقع بھی نہیں تھی، لیکن پھر بھی ان کے پاس ہتھیار اور اسلحہ موجود تھا اور وہ ایک ہزار کے لگ بھگ تھے۔ سید احمد نے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ سکھوں کے حملے کا جواب دینے کا فیصلہ کیا ۔ جنگ کا علاقہ اس طرح تھا کہ اس کی پچھلی جانب دریا اور سامنے کی طرف پہاڑ تھا اور پہاڑ کے اوپر کی جانب سے سکھ فوج آ رہی تھی۔ آخر کار جنگ شروع ہوئی۔ سید احمد شہید، مولانا اسماعیل شہید سب سے آگے تھے اور مجاہدین ان کے ہمراہ تھے۔ حملے کا آغاز نماز فجر کے فوراً بعد یا کچھ دیر بعد ہوا۔ سید احمد شہید اور مولانا اسماعیل شہید نماز ظہر سے قبل ہی اللہ کی راہ میں اپنی جانیں پیش کر چکے تھے۔ باقی سینکڑوں مجاہدین کو سکھوں نے قتل کر دیا۔ اس طرح جہادی تحریک کے اس مرحلے کا اختتام ہو گیا۔ یہ اس جہادی تحریک کا اختتام تھا جس کا آغاز ۱۸۲۶ء میں اور اختتام ۱۸۳۱ء میں ہوا۔ پانچ سال کو محیط اس عرصے میں وہ اپنی اسلامی ریاست قائم کرنے میں کامیاب ہوئے جہاں ان کے خلاف بغاوت اور غداری ہوئی اور انہیں وہ علاقہ چھوڑنا پڑا اور پھر دوبارہ ان کے خلاف مسلمانوں کی طرف سے غداری ہوئی جس کی وجہ سے انہیں اپنی جانوں سے ہاتھ دھونا پڑ گیا۔ 

مولانا اسماعیل شہید کی قبر تو معروف ہے اور ہر ایک جانتا ہے، لیکن سید احمد شہید کی میت نہ مل سکی حتی کہ ان کا سر بھی نہ مل سکا، لہٰذا ہمیں یہ معلوم نہیں کہ ان کی میت کو ختم کر دیا گیا یاوہ محفوظ رہی۔ تاہم بالا کوٹ میں ایک قبر ہے جسے سید احمد شہید کی طرف منسوب کی جاتا ہے، لیکن یہ بات ثابت نہیں۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ان کی نعش دریا میں بہہ گئی تھی اور کچھ کا خیال ہے کہ ان کی نعش تو محفوظ رہی، لیکن سر دریا میں بہہ گیا تھا۔ اس بارے میں بہت زیادہ روایات اور کہانیاں ہیں ۔ اس طرح یہ اس مرحلہ کا اختتام تھا۔ سید احمد شہید کی شہادت کے بعد ان کے جانشین اکٹھے ہوئے اور شیخ ولی محمد چلتی کو اپنا قائد منتخب کر لیا۔ اس کے بعد تحریک چلتی رہی اور وہ سوات چلے گئے اور کچھ جہاد بھی کیا، لیکن تحریک کا مرکزی اور بنیادی مرحلہ سید احمد شہید کی وفات کے ساتھ ختم ہو گیا۔ 

شخصیات

(جنوری و فروری ۲۰۱۱ء)

جنوری و فروری ۲۰۱۱ء

جلد ۲۲ ۔ شمارہ ۱ و ۲

حرفے چند
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ ۔ حیات و خدمات کا ایک مختصر خاکہ
ادارہ

شیخ الحدیث حضرت مولانا عبد الرحمٰن المینویؒ (ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ کے استاذ حدیث)
مولانا حیدر علی مینوی

میری علمی اور مطالعاتی زندگی ۔ (ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ کا ایک غیر مطبوعہ انٹرویو)
عرفان احمد

بھائی جان
ڈاکٹر محمد الغزالی

بھائی محمود
مولانا نور الحسن راشد کاندھلوی

ہمارے بابا
ماریہ غازی

ایک معتمد فکری راہ نما
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

ایک عظیم اسکالر اور رہنما
مولانا محمد عیسٰی منصوری

ڈاکٹر محمود احمد غازی مرحوم
محمد موسی بھٹو

ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ : ایک اسم با مسمٰی
جسٹس سید افضل حیدر

ایک باکمال شخصیت
پروفیسر ڈاکٹر علی اصغر چشتی

ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ - نشانِ عظمتِ ماضی
ڈاکٹر قاری محمد طاہر

مولانا ڈاکٹر محمود احمد غازی ۔ کچھ یادیں، کچھ تأثرات
مولانا مفتی محمد زاہد

ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ ۔ چند خوشگوار یادیں
محمد مشتاق احمد

معدوم قطبی تارا
ڈاکٹر شہزاد اقبال شام

میرے غازی صاحب
ڈاکٹر حیران خٹک

علم و تقویٰ کا پیکر
قاری خورشید احمد

میری آخری ملاقات
ڈاکٹر محمد افتخار کھوکھر

مرد خوش خصال و خوش خو
مولانا سید حمید الرحمن شاہ

ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ ۔ کچھ یادیں، کچھ باتیں
ڈاکٹر محمد امین

ایک بامقصد زندگی کا اختتام
خورشید احمد ندیم

اک دیا اور بجھا!
مولانا محمد ازہر

ایک معتدل شخصیت
مولانا محمد اسلم شیخوپوری

ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ، ایک مشفق استاد
شاہ معین الدین ہاشمی

روئے گل سیر نہ دیدم و بہار آخر شد
ڈاکٹر حافظ سید عزیز الرحمن

یاد خزانہ
ڈاکٹر عامر طاسین

ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ ۔ چند تاثرات
محمد عمار خان ناصر

ڈاکٹر محمود احمد غازی علیہ الرحمۃ
ڈاکٹر حافظ صفوان محمد چوہان

ڈاکٹر غازیؒ ۔ چند یادداشتیں
محمد الیاس ڈار

ایک ہمہ جہت شخصیت
ضمیر اختر خان

اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا
محمد رشید

آفتاب علم و عمل
مولانا ڈاکٹر صالح الدین حقانی

شمع روشن بجھ گئی
مولانا سید متین احمد شاہ

علم کا آفتاب عالم تاب
ڈاکٹر حسین احمد پراچہ

دگر داناے راز آید کہ ناید
حافظ ظہیر احمد ظہیر

ایک نابغہ روزگار شخصیت
سبوح سید

تواریخ وفات ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ
مولانا ڈاکٹر خلیل احمد تھانوی

ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ ۔ تعزیتی پیغامات و تاثرات
ادارہ

ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ ۔ فکر و نظر کے چند نمایاں پہلو
ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی

ڈاکٹر غازی مرحوم ۔ فکر و نظر کے چند گوشے
ڈاکٹر محمد شہباز منج

کاسموپولیٹن فقہ اور ڈاکٹر غازیؒ کے افکار
محمد سلیمان اسدی

آتشِ رفتہ کا سراغ
پروفیسر محمد اسلم اعوان

اسلام کے سیاسی اور تہذیبی تصورات ۔ ڈاکٹر محمود احمد غازی کے افکار کی روشنی میں
محمد رشید

سلسلہ محاضرات: مختصر تعارف
ڈاکٹر علی اصغر شاہد

’’محاضراتِ قرآنی‘‘ پر ایک نظر
حافظ برہان الدین ربانی

ڈاکٹر غازیؒ اور ان کے محاضرات قرآن
سید علی محی الدین

’’محاضرات فقہ‘‘ ۔ ایک مطالعہ
چوہدری محمد یوسف ایڈووکیٹ

محاضراتِ معیشت و تجارت کا ایک تنقیدی مطالعہ
پروفیسر میاں انعام الرحمن

تحریک سید احمد شہید رحمہ اللہ کا ایک جائزہ
ڈاکٹر محمود احمد غازی

اسلام میں تفریح کا تصور
ڈاکٹر محمود احمد غازی

اسلام اور جدید تجارت و معیشت
ڈاکٹر محمود احمد غازی

ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ سے ایک انٹرویو
مفتی شکیل احمد

ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ ۔ منتخب پیش لفظ اور تقریظات
ادارہ

مختلف اہل علم کے نام ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ کے چند منتخب خطوط
ڈاکٹر محمود احمد غازی

مکاتیب ڈاکٹر محمد حمیدؒ اللہ بنام ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ
ادارہ

ڈاکٹر غازیؒ کے انتقال پر معاصر اہل علم کے تاثرات
ادارہ

ریجنل دعوۃ سنٹر کراچی کے زیر اہتمام تعزیتی ریفرنس
آغا عبد الصمد

ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ کی یاد میں رابطۃ الادب الاسلامی کے سیمینار کی روداد
ادارہ

ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ ۔ ورلڈ اسلامک فورم کے زیر اہتمام تعزیتی نشست
ادارہ

ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ ۔ رسائل و جرائد کے تعزیتی شذرے
ادارہ

ایک نابغہ روزگار کی یاد میں
پروفیسر ڈاکٹر دوست محمد خان

تلاش

Flag Counter