صبح سویرے میرے موبائل کی گھنٹی بجی۔ ہمارے ایک دوست سید قمر مصطفی شاہ کی غم میں ڈوبی ہوئی آواز نے خبر دی کہ ڈاکٹر محمود احمد غازی ہمیں چھوڑ گئے۔ میں لاہور میں تھا۔ جنازہ میں شریک نہ ہو سکنے کا افسوس ہوا۔ کئی دن تک یقین نہ آیاکہ وہ ہمارے درمیان نہیں رہے، بلکہ اب تک یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ ہمارے پاس ہی ہیں۔ کئی ایسے دوست جو زندگی میں کبھی ان سے نہیں ملے، مجھ سے افسوس کا اظہار کرتے رہے جیسے میرا کوئی عزیز رخصت ہو گیا ہے۔ میں اپنے پروگراموں کے لیے جہاں جہاں بھی گیا، ان کے لیے خصوصی دعا کا اہتمام کرتا رہا۔
وزارت صنعت وپیداوار سے وزارت مذہبی امور میں بطور جائنٹ سیکرٹری میرے تبادلے سے کچھ دیر پہلے ڈاکٹر صاحب وزارت کو خیر باد کہہ چکے تھے، مگران کی خوشگوار یادیں وزارت کے ماحول میں رچی بسی تھیں۔ سید قمر مصطفی شاہ ان کے سیکرٹری رہے، مگر ان سے وہ نہایت قریبی دوست اور گھر کے ایک فرد کی حیثیت سے ملتے تھے۔ اتفاق کی بات ہے کہ شاہ صاحب غازی صاحبؒ کے جانے کے بعد وزارت خارجہ میں واپس جانے کی بجائے وزارت مذہبی امورمیں رہ گئے اور زکوٰۃ ونگ میں میرے ساتھ ڈپٹی سیکرٹری رہے۔ جس محبت سے وہ ڈاکٹر صاحب ؒ کی باتیں بتاتے، اس سے انداز ہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے ساتھیوں سے کس قدر اپنائیت اور برابری کا سلوک کرتے تھے۔
وزارت کے چھوٹے ملازم بھی ان کا ذکر نہایت محبت اور احترام سے کرتے۔ دفتر میں داخل ہوتے ہی ہر چھوٹے بڑے ملازم کو بڑے احترام سے ملتے اور سلام کرنے میں پہل کرتے۔ ہمیشہ ڈرائیور کے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھتے۔ چونکہ حافظ قرآن تھے، اس لیے پورا راستہ قرآن کی تلاوت کرتے رہتے۔ ان کے اور ان کے بھائی ڈاکٹر محمد الغزالی کے اکثر بچے حافظ قرآن ہیں۔ دونوں بھائی ایک ہی گھر میں الگ الگ حصوں میں رہتے تھے۔ انہوں نے بچوں کی تربیت اس طرح کی تھی کہ ہرمہمان خواہ وہ دفتر کا ڈرائیور یا نائب قاصد ہی کیوں نہ ہو، بچے اس سے احترام سے پیش آتے۔ اگرچہ اکثر سوٹ کا استعمال بھی کرتے تھے، لیکن سادہ لباس کو پسند کرتے تھے۔ کھانا بہت سادہ تناول کرتے اور مرغن کھانے پسند نہیں کرتے تھے۔ جن لوگوں نے انہیں قریب سے دیکھا، وہ بتاتے ہیں کہ ان کی عادات بے حد درویشانہ تھیں۔ وہ دین کو صرف بیان نہیں کرتے تھے بلکہ عالم باعمل بھی تھے۔ کسر نفسی کا یہ عالم تھا کہ اکثر مہمانوں کے جوتے سیدھے کر دیتے تھے۔ بعض اوقات تو یونیورسٹی یا وزارت کا کوئی معمولی ملازم اگر ملنے جاتا وہ شرمندہ ہوتا کہ ڈاکٹر صاحب ؒ اس کے جوتے اٹھا کر سامنے رکھ رہے ہوتے۔ کسی صاحب نے بتایا کہ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے صدر ہونے کے زمانے میں اپنی ہی یونیورسٹی کے ایک پروفیسر کو کہتے کہ ڈاکٹر صاحب! مجھے آپ سے بہت محبت ہے۔ ان کا یہ طریقہ تھاکہ اچھے لوگوں سے صرف محبت ہی نہیں کرتے تھے بلکہ کھل کر اس کا اظہار بھی کرتے تھے۔
ڈاکٹر صاحب ؒ نے وزارت اس وقت چھوڑی جب ایک متکبر آمر اپنی تمام رعونتوں کے ساتھ موجود تھا اور اس کے جانے کا دور دور تک کوئی امکان نہیں تھا۔ ہمارے ملک میں لوگ ہر ذلت سہتے ہیں، لیکن استعفا دینے کا نام نہیں لیتے۔ قمر مصطفی شاہ صاحب بتاتے ہیں کہ وہ یہ بات ذہن میں لے کر آئے تھے کہ دین اورملک کی کوئی خدمت کر سکیں، لیکن جب ان کو محسوس ہوا کہ سارے کا سارا ٹولہ کسی اور سانچے میں ڈھلا ہوا ہے تو انہوں نے وزارت سے علیحدگی کا فیصلہ کر لیا۔ مگر جب تک وزارت میں رہے، شب وروز اپنے فرائض کی بجاآوری میں لگے رہے اور سیاسی وزرا جو کام کئی سالوں میں نہیں کرتے، وہ چند ماہ میں کر گئے۔ زکوٰۃ کی بہتری کے لیے کئی کنونشن کیے، نئی زکوۃ کمیٹیاں بنوائیں، نئی زکوٰۃ اسکیمیں شروع کیں۔ حج وفد میں گئے تو اکیلے گلیوں اور محلوں میں گھوم پھر کر حاجیوں کی مشکلات حل کرنے کا سوچتے رہے۔ سعودی حج منسٹر سے تفصیلی ملاقات کی، کئی ملکوں کے حج وفود سے ملاقاتیں کیں۔ مدارس کے متعلق دین بیزار جرنیلوں سے اعتراف کروایا کہ ہمارے مدارس دنیا کی سب سے بڑی تعلیمی این جی او ز ہیں اور نہایت مفید خدمت سرانجام دے رہے ہیں۔ چونکہ خود دینی مدرسہ کے فارغ التحصیل تھے، اس لیے مدارس کی خدمات کو نمایاں کرنے میں ہر وقت کوشاں رہے۔ علما اور وفاق المدارس ؍ تنظیمات المدارس کے ذمہ داروں سے ملنے کے لیے ہر وقت تیار رہتے تھے۔ مختلف مسالک کے علما کے پاس حاضر ہو کر ان کا نقطہ نظر معلوم کرتے اور بہتری کی تجاویز کو عملی جامہ پہنانے کی بھرپور کوشش کرتے۔ مختلف دینی معاملات میں آخر وقت تک کابینہ اور حکومت کی رہنمائی کرتے رہے۔
ان کی دیانت کا یہ عالم تھا کہ آخری دن روانہ ہوتے وقت انہوں نے دفتر کی گاڑی بھی استعمال نہیں کی بلکہ گھر سے اپنی گاڑی منگوائی۔ دفتر کی اسٹیشنری انتہائی کفایت سے استعمال کرتے تھے۔ مثلاً استعمال شدہ کاغذوں کے پچھلے حصے کا رف کاغذ کے طور پر استعمال کرتے۔ فون کا بل ایک سیکشن افسر کے بل سے بھی کم ہوتا۔ وزارت کی مراعات ہر گز استعمال نہیں کرتے تھے۔ وزیروں کے لیے مختص رہائش گاہ کی بجائے اپنے اور اپنے بھائی کے زیر استعمال چھوٹے سے گھر میں رہتے رہے۔
وزارت کی فائلوں میں ان کا ایک تفصیلی خط پڑھنے کو ملا جو انہوں نے صوبائی گورنروں کو عشر نافذ کرنے کے لیے لکھا تھا۔ مجھے بتایا گیاکہ یہ خط لکھنے کے بعد وہ خود بھی گورنروں سے ملنے گئے، لیکن جو فضول دلائل زرعی ٹیکس سے بچنے کے لیے دیے جاتے ہیں، ویسے ہی عشر کے سلسلہ میں دیے گئے۔ ملک میں بے شمار دوسرے قوانین کی طرح زکوٰۃ وعشر کا قانون موجود ہے، مگر قانون نافذ کرنے والوں کی بدنیتی اس ملک کا سب سے بڑا روگ ہے۔ اس سلسلے میں ایک ضمنی بات یہ ہے کہ شریعت کے نفاذ کی بات ہو تو مغربیت کے پاکستانی اسیروں سے لے کر پورے مغرب اور امریکہ میں ایک اضطراب کی لہر دوڑ جاتی ہے، لیکن ہماری دینی سیاسی جماعتوں کو اس بات کا اندازہ نہیں کہ پاکستان کے آئین اور قوانین میں اتنا زیادہ اسلامی مواد پہلے سے ہی موجود ہے کہ اس کا نفاذ شریعت ہی کا نفاذ ہوگا او ر اس کے نافذ کرنے کے مطالبہ پر رگیں پھڑکنے کا مظاہرہ بھی کم ہوگا، کیونکہ اس طرح ہم آئین اور قانون کے نفاذ کے مطالبے سے بے دین طبقے کی بدنیتی نمایاں کر رہے ہوں گے اور وہ بھی ان کے اپنے میدان فکر میں۔
وزارت میں مجھے زکوٰۃ سے حج ونگ کا انچارج بنا دیا گیا تواسی دوران دعوت ونگ کے جائنٹ سیکرٹری رخصت پر چلے گئے۔ ان کاکام بھی اضافی طور پر میرے سپرد ہوا۔ اسی ونگ میں رویت ہلال کے سلسلہ میں ایک میٹنگ ہوئی جس میں مرکزی اور صوبائی رویت ہلال کمیٹیوں کے سرکردہ افراد، متعلقہ محکموں کے سرکاری افسران اور خصوصی دعوت پر ڈاکٹر صاحب شریک ہوئے۔ وزیر مذہبی امور صدارت کر رہے تھے کہ انہیں اور سیکرٹری مذہبی امور کو وزیر اعظم ہاؤس سے فوری حاضر ہونے کا بلاوا آ گیا۔انہوں نے میٹنگ جاری رکھنے کا کہا۔ کافی حضرات کے دلائل سننے کے بعد ڈاکٹر صاحب ؒ نے کہا کہ انہیں کسی اور جگہ جانا ہے، اس لیے اگر انہیں بات کرنے کی اجازت دے دی جائے تو ان کے لیے آسانی رہے گی۔ ان کی سادگی، دوسروں کے لیے احترام اور موثر خطاب آج بھی میرے احساسات میں موجود ہے۔ انہوں نے تمام معاملے کے دینی اور تکنیکی پہلوؤں کو جس انداز سے بیان کیا، اگر ہمارے بھائیوں میں وسعت قلبی ہوتی تو رویت ہلال کے اختلافات ختم کر چکے ہوتے۔
اسلامی یونیورسٹی کے فاضل پروفیسر ڈاکٹر طفیل صاحب نے ایک دفعہ مجھے بتایا کہ ڈاکٹر صاحب ؒ کو ان کی زندگی کے آخری سالوں میں اعلیٰ انتظامی عہدوں کی پیش کش ہوئیں مگر انہوں نے صرف پی ایچ ڈی کے طلبہ کو پڑھانے اورعلمی کام کرنے کو ترجیح دی۔ فیڈرل شریعت کورٹ میں شمولیت سے پہلے میری اطلاع کے مطابق آپ قطر اور ملائشیا کی یونیورسٹیوں کے نصاب مرتب کرنے میں مصروف رہے۔ آخر اس درجہ کے اسکالر ہم کہاں سے لائیں گے جو قومی اور بین الاقوامی سطح پر یکساں مقبول ہوں۔ اس کے باوجود انکساری کا یہ عالم تھا کہ چھوٹے بڑے سب کے سامنے عاجزی کا اظہار کرتے تھے۔ ان کے چھوٹے بھائی ڈاکٹر محمد الغزالی، جو خود اعلیٰ پائے کے اسکالر اور سپریم کورٹ کے شریعت اپیلیٹ بنچ کے جج ہیں، ڈاکٹر انیس احمد کے بقول نجی محفلوں میں ڈاکٹر غازی سے بھی چھیڑ چھاڑ سے پرہیز نہ کرتے، لیکن ڈاکٹر غازی صاحبؒ کبھی اپنے بڑے ہونے کا حق استعمال نہ کرتے بلکہ ان کی خوش مزاجی سے محظوظ ہوتے۔ ڈاکٹر صاحب! اب آپ کس کو لطیفے سنائیں گے اور اس پایے کا بھائی کہاں سے تلاش کریں گے؟ ہمارے جیسے لوگ جو ڈاکٹر غازی سے بہت کم ملے، اپنے دل میں ان کی جدائی کا غم آج تک محسوس کرتے ہیں مگر دونوں بھائی تو ایک ہی مکان کے دو حصوں میں اکٹھے رہتے تھے۔ آخروہ اوران کے بچے کس حال میں ہوں گے؟ ہم کمزور بندوں کی دعائیں ان کے ساتھ ہیں۔
وزارت مذہبی امور میں ان کاایک اہم کام تین ماڈل دینی مدارس کاقیام تھا۔ ان مدارس کے سلسلہ میں ڈاکٹر غازی صاحب کا ذہن پڑھنے کے لیے انہی کی تحریر کا ایک اقتباس پیش کیا جاتا ہے۔ الشریعہ اکادمی کے زیر اہتمام ایک لیکچر میں دینی مدارس کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے فرمایا:
’’نہ وسائل دستیاب تھے، نہ حکومتی سرپرستی دستیاب تھی اور نہ وہاں کے فارغ شدہ حضرات کے لیے قیادت کے مناصب موجود تھے۔ معاشرہ ان کی قیادت کو ماننے اور ان سے رہنمائی لینے کے لیے تیار نہیں تھا۔ ان کی رہنمائی مسجد اور مدرسہ کے خاص دائرے تک محدود تھی، اس لیے انہو ں نے جو کچھ کیا، اللہ تعالیٰ ان کو جزائے خیر دے گا اور جتنا دین موجود ہے، انہی کی کاوش سے موجود ہے۔ لیکن اب ضرورت اس بات کی ہے کہ جو دین موجود ہے اس کو زندگی کے روزمرہ معاملات سے relate کیا جائے اور اس کو معاشرے میں فعال قائدانہ کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں لایا جائے۔ اس مقصد کے لیے ضروری ہے کہ اہل دین کے پاس دینی علوم کا تخصص بھی موجود ہو اور جس دنیا اور جس معاشرے میں انہیں قیادت فراہم کرنی ہے، اس کے بارے میں بھی قائدانہ اور ناقدانہ واقفیت انہیں حاصل ہو۔‘‘ (دینی مدارس اور عصر حاضر: مرتب شبیر احمد میواتی، ص ۱۴۷)
انہوں نے ڈاکٹر ایس ایم زمان کے ساتھ مل کر ایک سیٹ اپ قائم کیا اور ماڈل دینی مدارس کے لیے جدوجہداور قدیم علوم پر مشتمل ایک نہایت عمدہ نصاب مرتب کیا۔ میرے پاس حج ونگ کی ذمہ داری تھی اور مدارس سے متعلقہ جائنٹ سیکرٹری جو پولیس کے ڈی آئی جی ہونے کے باوجود بیوروکریسی کے غلط رویوں سے بچے ہوئے تھے اور اپنی مرضی سے اس وزارت میںآئے تھے ، انہوں نے تجویز کیا کہ مجھے ماڈل دینی مدرسہ، اسلام آباد کے پرنسپل کا اضافی چارج دے دیا جائے۔ چند ہفتوں کے بعد وزیر مذہبی امور ایک یورپی وفد کے ساتھ اس مدرسہ کے دورے پر آئے۔ انہوں نے اس کی بدلی ہوئی حالت دیکھی اور کہا کہ کراچی اور سکھر والے مدارس بھی میرے زیر نگرانی دے دیے جائیں۔ اس طرح مجھے تینوں ماڈل دینی مدارس کا مہتمم بنا دیا گیا۔ ایک سال کے اندر اندر ان مدارس کے سٹاف کو متحرک کرکے ہم نے ان کی حالت اس طرح بدل دی کہ ہر طرف سے ’’ بند کرو‘‘ کی آوازیں آنا بند ہو گئیں ۔ طلبہ وطالبات کی تعداد دوسو سے بڑھ کر ایک ہزار ہو گئی۔ غریب طلبہ کے لیے زکوٰۃ فنڈ سے وظائف مقرر کیے گئے۔ امتحانات کا ایک نظام وضع کیا گیا اور ان کو امتحانات کے لیے اسلامی یونیورسٹی سے منسلک کر دیا گیا، وغیرہ وغیرہ۔ یہ خبریں ڈاکٹر صاحب ؒ تک بھی پہنچتی رہیں اور خوش ہوتے رہے۔
ایک دن صاحبزادہ ڈاکٹر ساجدالرحمن (موجودہ ڈائریکٹر جنرل دعوہ اکیڈمی) کا فون آیا کہ وہ سیرت پر ڈاکٹر غازی صاحب کے محاضرات کروا رہے ہیں اورمجھے اس میں شامل ہوناچاہیے۔ باوجود حج کی انتظامی ذمہ داریوں کے ، میں نے بارہ میں سے آٹھ نو محاضرات میں شرکت کی۔ اس دوران چائے کی میز پر صاحبزادہ صاحب نے میرا تعارف کروایا توبہت خوش ہوئے ۔ مدارس کے حوالے سے وہ میرے کام سے واقف تھے۔ انہوں نے کہا: ڈار صاحب ! کم از کم تین ماڈل دینی مدارس اور قائم کر دیں۔ آپ اس وزارت سے چلے گئے تو یہ کام رہ جائے گا۔ آپ کا خدشہ درست ثابت ہوا۔ تقریباً دو سال ماڈل دینی مدارس کی خدمت کرنے کے بعد میرا تبادلہ ہوگیا اور مجھے ایک تربیتی ادارے کا ڈائریکٹر جنرل بنادیا گیا۔
ڈاکٹر صاحبؒ کے قرآن، حدیث، سیرت، فقہ، شریعت اور معیشت وتجارت پر چھ محاضرات شائع ہو چکے ہیں۔ ان کے تفصیلی تعارف کے لیے تو ایک الگ مضمون کی ضرورت ہے، لیکن ایک بات جس کا تذکرہ ضروری ہے اور ہمارے علما اور سکالرز کی رہنمائی کے لیے بہت اہم ہے، وہ ان محاضرات کی ہر مکتبہ فکر میں مقبولیت ہے۔ مختلف مسالک کے علما کے پاس ان کی کوئی نہ کوئی جلد میں نے خود دیکھی ہے جواس بات کا ثبوت ہے کہ ڈاکٹر صاحب ؒ کے نزدیک قرآن وسنت اور دین کی سربلندی بنیادی اہمیت کی حامل تھی اور مسلکی اور فروعی باتوں کی حیثیت ثانوی تھی۔ ان کے ذہن میں عقیدہ وایمانیات او ر تزکیہ واحسان سمیت کچھ اور موضوعات پر بھی محاضرات کا نقشہ تھا، لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ اگر صرف ان محاضرات کے مواد ہی کو دیکھا جائے تو ان کے علم وفکر کی وسعتیں نظر آتی ہیں، لیکن انہوں نے تمام عمر علم کی خدمت کی اورایک عظیم علمی ذخیرہ اہل ذوق کی تسکین کے لیے چھوڑا ہے۔ ان کی تقریر وتحریر یکساں پر تاثیر تھیں۔ علم دین کے لیے ان کی یکسوئی اور قدیم وجدید مسائل سے ان کی آگاہی ان کی کثیرالجہات شخصیت کی آئینہ دار ہیں۔
ہم نے دعوت فاؤنڈیشن پاکستان کا بیڑہ اٹھایا تو ہمارے ذہن میں کام کا یہ نقشہ تھا کہ مختلف مسالک اور دینی جماعتوں کی نمایاں شخصیات کو اس کے تعلیمی بورڈ میں شامل کیا جائے تاکہ اس کے پروگراموں سے استفادہ کرنے والوں کے ذہن میں کوئی جھجک نہ رہے۔ اس کے تعلیمی پروگراموں کا نصاب قدیم وجدید مصنفین کی کاوشوں پرمشتمل ہو، کم فرصت والے خواتین وحضرات کے لیے ایک باسہولت پروگرام ہو اور گھر بیٹھے علم دین سیکھنے کا بندوبست ہو۔ کام کے آغاز کے وقت ڈاکٹر صاحب ؒ کا نام ہمارے ذہن میں تھا لیکن جب بھی رابطہ کیا تو وہ بیرون ملک ہوتے تھے۔ جب وہ شریعت کورٹ کے جج بن گئے تو ہم نے سوچا کہ اب ان کے لیے ہمارے ساتھ شامل ہونا مشکل ہوگا۔ گذشتہ شعبان میں گوجرانوالہ میں علامہ زاہد الراشدی کی خدمت میں حاضر ہوا کہ وہ دعوت فاؤنڈیشن کے تعلیمی بورڈ کی رکنیت قبول فرمالیں۔ انہوں نے میری گزارش کو شرف قبولیت بخشا جس کے لیے ہم ان کے ممنون ہیں۔ اس حاضری کے دوران انہوں نے فرمایا کہ ڈاکٹر غازی کو بھی اس میں ضرور شامل کریں۔ گذشتہ رمضان میں سیدقمر مصطفی شاہ کے ساتھ ان کے گھر پر حاضر ہو ا تو وہ نہایت خندہ پیشانی سے ملے۔ ہمارے پروگرام کا طویل ڈرافٹ اور ۷۵ کتب پر مشتمل دو ضمیمہ جات انہوں نے ہمارے سامنے نہایت توجہ سے پڑھے۔ اس کے بعد انہوں نے پروگرام کی اتنی تعریف کی اور اتنی دعائیں دیں کہ ہمارے وہم و گمان میں نہیں تھا ۔ بعدازاں انہوں نے ہرقسم کے تعاون کا یقین دلایا اور بے شمار نیک تمناؤں کے ساتھ ہمیں رخصت کیا۔ میں نے ضمناً عرض کیا کہ اگلے محاضرات دعوت فاؤنڈیشن کے پلیٹ فارم پر ہونے چاہئیں تو فرمانے لگے کہ ایک دفعہ نہیں، اپنی تمام مصروفیات کے باوجود ،جتنی دفعہ بھی آپ کہیں گے اور جہاں بھی کہیں گے، میں حاضر ہو جاؤں گا۔ان کی سنجیدگی کا اندازہ اس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ ہمارے ایک مشترکہ جاننے والے بزرگ عیدا لفطر کے موقعہ پر عید گاہ میں ان سے ملے اور دعوۃ فاؤنڈیشن سے تعاون کے لیے کہا توانہوں نے فرمایا کہ میری طرف سے ڈار صاحب کو کہیں کہ وہ ایک میٹنگ بلائیں تاکہ ہم سب بتا سکیں کہ اپنی استطاعت کے مطابق ہم دعوۃ فاؤنڈیشن کے لیے کیا کر سکتے ہیں۔ ان کے سامنے بھی انہوں نے کہا کہ یہ ایک بہت بڑا کام ہے اور پھر ڈھیر ساری دعائیں دیں۔ ڈاکٹر صاحب !اس سب کچھ کے لیے ہم آپ کو کہاں تلاش کریں؟ ہم آپ کی دعاؤں اور تمناؤں کی آغوش میں ہیں۔
ہمیں یقین ہے کہ وہ اپنی اس شاندار زندگی سے ایک ایسی زندگی میں داخل ہو گئے ہیں جہاں فرشتے ان کواہلاً وسہلاً مرحبا کہہ رہے ہیں، رب کے انوار ان کااحاطہ کیے ہوئے ہیں اور ان کے شایان شان ان کا اکرام ہو رہا ہوگا۔ ان کی یہ مختصر زندگی ، ایک طویل اور پرمسرت زندگی کا نقطہ آغاز تھی۔وہ ایک ایسی زندگی میں داخل ہو گئے ہیں جو خالدین فیہا کی تصویر ہے۔ بقول علامہ اقبال ؒ
تو اسے پیمانہ امروز وفردا سے نہ ناپ
جاوداں، پیہم رواں، ہردم جواں ہے زندگی