حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ نے ’’حجۃ اللہ البالغہ‘‘ کے مقدمہ میں لکھا ہے کہ قرآن کریم کے اعجاز کا یہ پہلو کہ فصاحت و بلاغت میں اس جیسا کلام لانا انسانی دائرۂ اختیار میں نہیں ہے، اس پر نہ صرف ہر دور کے علما کرام نے دلائل و براہین کے ساتھ بات کی ہے بلکہ قرآن کریم کے وحی الٰہی ہونے سے انکار کرنے والے کسی بھی دور کے فصحاء و بلغاء اس چیلنج کا سامنا کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ جبکہ اسی اعجاز کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانی سوسائٹی کی فلاح و بہبود اور ترقی و کامیابی کے لیے جو اصول و قوانین اور احکام و ضوابط بیان فرمائے ہیں، انسانی سوسائٹی اپنی تمام تر کاوشوں کے باوجود ان جیسا کوئی اصول یا حکم پیش کرنے سے قاصر ہے۔ حضرت شاہ صاحبؒ کا ارشاد ہے کہ ان کے بعد آنے والا دور قرآن کریم اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اعجاز کے اس پہلو کے اظہار کا دور ہے اور وہ اپنی کتاب ’’حجۃ اللہ البالغہ‘‘ سے اسی علمی و فکری دور کا آغاز کر رہے ہیں۔
اسی بات کو فیلسوف مشرق علامہ محمد اقبالؒ نے ایک اور انداز میں بیان کیا ہے کہ آج کے دور کا مجدد وہ ہوگا جو اسلامی قوانین و احکام کا دنیا کے مروجہ قوانین و احکام اور معاشرتی اصول و ضوابط کے ساتھ موازنہ و تقابل کر کے اسلامی قوانین کی برتری اور افادیت و ضرورت کو ثابت کرے گا۔
اب سے دو صدیاں قبل ’’انقلاب فرانس‘‘ سے خالصتاً انسانی فکر کی بنیاد پر معاشرہ و تمدن کی تشکیل کے جس دور کا آغاز ہوا تھا وہ اپنے نقطۂ عروج پر پہنچ کر اب واپسی کے راستے تلاش کر رہا ہے اور آسمانی تعلیمات کی ضرورت و اہمیت اور وحی الٰہی کی افادیت و تاثیر ایک بار پھر نسل انسانی کو اپنی طرف متوجہ کرتی نظر آنے لگی ہے۔
اس تناظر میں جن مسلم علماء نے اسلام کے معاشرتی کردار، اسلامی نظام و قانون کی ضرورت و افادیت، وحی الٰہی کی اہمیت و برتری اور عصر حاضر میں اسلام کے نفاذ و ترویج کی عملی صورتوں کو اجاگر کرنے کے لیے علمی و فکری محاذ پر کام کیا ہے اور حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ کی علمی و فکری تحریک میں عملی طور پر شریک ہوئے ہیں، ان میں ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ کا نام اپنے معاصرین میں بہت ممتاز نظر آتا ہے اور ان کی علمی کاوشیں اس محاذ پر نئی نسل کے لیے یقیناً سنگ میل اور مشعل راہ ثابت ہوں گی۔
حضرت ڈاکٹر صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ اس شاہراہ پر ہمارے رفیق سفر تھے، مشفق راہنما تھے اور ہمدرد و معاون بھی تھے۔ ان کی جدائی نے تنہائی کے احساس کو اور زیادہ گہرا کر دیا ہے اور رکاوٹوں کی سنگینی فزوں تر دکھائی دینے لگی ہے۔ مگر سفر تو جاری ہے جو ان شاء اللہ تعالیٰ جاری رہے گا اور اس میں قدم قدم پر ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ کی یاد دل کو ستاتی رہے گی۔ اللہ تعالیٰ ان کی حسنات کو قبولیت سے نوازیں اور سیئات سے درگزر کرتے ہوئے جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔
آئے عشاق گئے وعدۂ فردا لے کر
اب انہیں ڈھونڈ چراغ رخ زیبا لے کر