ایک معتدل شخصیت

مولانا محمد اسلم شیخوپوری

بیس بائیس سال پہلے یہ ناچیز ماہنامہ ’’الاشرف‘‘ کا مدیر تھا۔ یہ ادارت اسے اتفاق سے مل گئی تھی، ورنہ وہ اس کا ہرگز اہل نہ تھا۔ الاشرف کے انتظامی معاملات کی دیکھ بھال مولانا محمد شاہد تھانوی رحمہ اللہ کیا کرتے تھے۔ اچانک عارضہ دل میں مبتلا ہوگئے اور پھر اسی مرض میں ان کا انتقال ہوگیا۔ تعزیت کے لیے ان کے گھر حاضر ہوا تو وہاں مہمانوں کا جمگھٹا لگا ہوا تھا۔ ان مہمانوں میں سے ایک کے بارے میں بتایا گیا کہ یہ شاہ فیصل مسجد اسلام آباد کے خطیب ہیں۔ کاندھلہ کے مشہور علمی خانوادے سے ان کا تعلق ہے۔ انٹرنیشنل لیکچرار اور مبلغ ہیں۔ سات بین الاقوامی زبانوں پر انہیں عبور حاصل ہے۔ درسِ نظامی کے ساتھ پنجاب یونیورسٹی سے ماسٹر اور پی ایچ ڈی کی ڈگری بھی حاصل کررکھی ہے۔ مدارس کی مخصوص فضا میں نشوونما پانے والے اس ’’ملا‘‘ نے جب اس خطیب اور مبلغ کے سراپا پر نظر ڈالی تو اسے کوئی ایسی نمایاں چیز دکھائی نہ دی جس کی وجہ سے وہ علامہ فہامہ جیسے القاب کے حقدار ٹھہرتے ہوں۔ دل ہی دل میں وسوسہ آیا: ’’خاندانی نسبت بھی کیا چیز ہے جو صاحبزادوں کے سرپر عزت اور شہرت کا تاج رکھ دیتی ہے، اگرچہ وہ مطلوبہ صلاحیت سے محروم ہی کیوں نہ ہوں۔‘‘

پروفیسروں، مسٹروں اور ڈاکٹروں کے بارے میں دل میں یہ خیال جاگزیں تھا کہ یہ علمی تصلب اور علمی پختگی سے خالی ہوتے ہیں اور عوام پر اپنا رعب ودبدبہ محض ڈگریوں اور جدید اسلوبِ گفتگو میں مہارت کی وجہ سے قائم رکھتے ہیں۔ جن شخصیت کا تعزیتی اجتماع میں تعارف کرایا گیا تھا، انہیں بجائے شیخ الحدیث، شیخ التفسیر اور ماہر علوم عقلیہ ونقلیہ کے ڈاکٹر محمود احمد غازی کے نام سے یاد کیا جاتا تھا۔ میں نے سوچا یہ بھی ویسے ہی ڈاکٹر اور پروفیسر ہوں گے جیسے اس قبیلے کے دوسرے افراد ہوتے ہیں۔ بات بات پر مغرب کی ترقی کے حوالے دینے والے، قدیم علما کو حقارت کی نظر سے دیکھنے اور اپنی علمیت کے بارے میں دھوکا کھا جانے والے، لیکن جب انہیں براہِ راست سننے اور ان کی کتابیں دیکھنے کا موقع ملا تو اپنی عاجلانہ سوچ اور وساوس پر سخت افسوس ہوا۔

حقیقت یہ ہے کہ وسعت مطالعہ، ذکاوت اور حافظہ قدیم وجدید کے اجتماع، اظہار مافی الضمیر کی قدرت، اسلام دشمن تحریکوں اور فتنوں سے آگاہی، تدریس، تقریر اور تحریر میں یکساں مہارت جیسی صفات جو باری تعالیٰ نے ڈاکٹر صاحب میں جمع کردی تھیں، ان صفات کے حامل موجودہ دور میں دوچار ہی دکھائی دیتے ہیں۔ ویسے تو پچیس کے قریب تصنیفات میں سے ان کی ہر تصنیف ہی ان کی متانت وثقاہت اور علمیت اور وسعتِ نظر کا شاہکار ہے، مگر چھ جلدوں میں ان کے جو محاضرات شائع ہوئے ہیں، کم ازکم اس عاجز کے علم میں ایسی ایسی کتابوں کے حوالے ہیں جن کا مطالعہ ہمارے ہاں متروک ہوچکا ہے اور ایسی ایسی معلومات ہیں کہ ذوقِ مطالعہ رکھنے والا انسان وجد میں آجاتا ہے۔ اس قسم کے متعدد محاضرات اور خطبات عربی اور اُردو میں شائع ہوچکے ہیں، مگر ان میں سے اکثر حقیقت میں وہ مقالات ہیں جنہیں پہلے حرف بہ حرف لکھا گیا اور پھر کسی علمی اجتماع میں یہ مقالات پڑھ کر سنادیے گئے مگر جناب غازی صاحب کے جو محاضرات طبع ہوئے ہیں، وہ ان کے ایسے لیکچر ہیں جو انہوں نے خواتین وحضرات کے منتخب اجتماع میں مختصر یادداشتوں کی بنا پر زبانی ارشاد فرمائے اور پھر صوتی تسجیل سے انہیں صفحہ قرطاس پر منتقل کیا گیا۔ یہ محاضرات چھ ضخیم جلدوں میں شائع ہوئے ہیں۔ ہر جلد ۱۲ خطبات پر مشتمل ہے۔ ان چھ جلدوں میں قرآن، حدیث، سیرت، فقہ، تصوف اور معیشت وتجارت کے مختلف پہلو زیربحث لائے گئے ہیں۔ 

ان محاضرات سے جہاں غازی رحمہ اللہ کے بے مثال حافظہ، وسعتِ فکرونظر اور علمی گہرائی کا اندازہ ہوتا ہے وہیں ان کی صفتِ اعتدال بھی نکھر کر سامنے آتی ہے اور اعتدال ایسی صفت ہے جو اہمیت کے باجود مفقود ہوتی جارہی ہے۔ ہمارے ہاں ہر معاملے میں افراط وتفریط پائی جاتی ہے۔ تبلیغ ودعوت ہو یا جہاد وقتال، سیاست وقیادت ہو یا طریقت وشریعت، مدح اور منقبت ہو یا تردید اور تنفید، ذکروعبادت میں انہماک ہو یا کسبِ معاش میں مشغولیت، ابلاغ کے جدید وسائل سے استفادے کا معاملہ ہو یا اختلافی مسائل میں بحث ومناظرہ کا، ہر جگہ اور ہر شعبہ میں افراط وتفریط آگئی ہے۔ کوئی اتنا تنگ نظر ہے کہ اس کے نزدیک دین نام ہے چند فرقہ ورانہ مسائل میں تشدد کرنے اور ظاہری شکل وصورت کو ’’باشرع‘‘ بنانے کا۔ کوئی ایسا وسیع الظرف ہے کہ وہ کفروایمان کا فرق بیان کرنے کو بھی فرقہ واریت سمجھتا ہے اور ظاہری اعمال کی اس کے نزدیک کچھ بھی اہمیت نہیں۔ تعریف اور تنقید کو دیکھیں تو بعض حضرات جب تک اپنے مخالفوں کو ابن اُبی اور ابولہب سے بدتر اور اپنے گروہ کے مشائخ کو ابن تیمیہ اور ابن قیم سے برتر ثابت نہ کردیں، انہیں چین ہی نہیں آتا، جبکہ ڈاکٹر صاحب فکرونظر اور کردار وعمل کے اعتبار سے انتہائی معتدل شخصیت تھے۔ اپنے دعوے کی تائید میں صرف دو مثالیں ذکر کرنے پر اکتفا کرتا ہوں۔

جب ڈاکٹر صاحب نے سیرت پر محاضرات پیش کرتے ہوئے ’’مطالعہ سیرت۔ پاک وہند‘‘ کے عنوان سے خطاب کیا تو اس میں انہوں نے یوپی کے لیفٹیننٹ گورنر سر ولیم میور کی کتاب ’’Life of Muhammad‘‘ اور اس کے جواب میں سرسید احمد خاں نے جو کتاب لکھی تھی، اس کا انہوں نے ذکر کیا۔ اس جواب کے لکھنے میں سرسید احمد خاں نے جو قربانیاں دی تھیں، ان قربانیوں کا بھی انہوں نے تفصیل سے ذکر کیا۔ انصاف کا تقاضا بھی یہی تھا کہ یہ سب کچھ بلاکم وکاست بیان کردیا جاتا، لیکن یہ سب کچھ بیان کرنے کے بعد انہوں نے دوٹوک الفاظ میں کہا: ’’بطورِ سیرت کے ایک ادنیٰ طالب علم کے مجھے یہ کہنے میں کوئی تامل نہیں کہ سرسید کے بہت سے بیانات سے اتفاق کرنا مشکل ہے۔ کئی جگہ انہوں نے ایسی باتیں کہہ دی ہیں جو اسلامی نقطہ نظر کے مطابق نہیں ہیں۔‘‘ اس خطاب کے اختتام پر ان سے سوال کیا گیا: ’’کیا سرسید احمد خاں منکر حدیث تھے؟‘‘ انہوں نے جواب دیا: ’’یہ تو مجھے معلوم نہیں کہ وہ منکر حدیث تھے یا نہیں، لیکن ان کے بہت سے مذہبی خیالات سے اہلِ علم کو اتفاق نہیں تھا۔ یہ خیالات کمزور دلائل اور مغرب سے مرعوبیت کے نتیجے میں اختیار کیے گئے تھے۔ خود مجھے بھی ان خیالات سے اتفاق نہیں۔‘‘

اسی طرح ایک موقع پرا ن سے سوال کیا گیا تھا: ’’جن معاملات میں فقہا کے مابین اختلاف پایا جاتا ہے، ان میں کس کی بات کو صحیح مانیں اور کس بنیاد پر؟‘‘ ڈاکٹر صاحب نے جواب دیا: ’’بنیادی بات تو یہ ہے جس بات کو آپ دلیل کی بنیاد پر زیادہ صحیح سمجھیں، اس کی پیروی کریں۔ جو چیز قرآن وسنت کے زیادہ قریب ہو، اس پر عمل کریں اور جو چیز قرآن وسنت کے حکم سے ہم آہنگ نہ ہو، اس پر عمل نہ کریں، لیکن اس کام کے لیے بڑے گہرے علم کی ضرورت ہے۔ یا تو وہ گہرا اور عمیق علم ہمارے پاس ہو اور اگر ہمارے پاس اس درجے کا علم نہ ہو تو جس کے علم پر ہمیں اعتماد ہو، اس سے پوچھ کر عمل کریں۔‘‘

(ہفت روزہ ضرب مومن کراچی)

شخصیات

(جنوری و فروری ۲۰۱۱ء)

جنوری و فروری ۲۰۱۱ء

جلد ۲۲ ۔ شمارہ ۱ و ۲

حرفے چند
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ ۔ حیات و خدمات کا ایک مختصر خاکہ
ادارہ

شیخ الحدیث حضرت مولانا عبد الرحمٰن المینویؒ (ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ کے استاذ حدیث)
مولانا حیدر علی مینوی

میری علمی اور مطالعاتی زندگی ۔ (ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ کا ایک غیر مطبوعہ انٹرویو)
عرفان احمد

بھائی جان
ڈاکٹر محمد الغزالی

بھائی محمود
مولانا نور الحسن راشد کاندھلوی

ہمارے بابا
ماریہ غازی

ایک معتمد فکری راہ نما
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

ایک عظیم اسکالر اور رہنما
مولانا محمد عیسٰی منصوری

ڈاکٹر محمود احمد غازی مرحوم
محمد موسی بھٹو

ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ : ایک اسم با مسمٰی
جسٹس سید افضل حیدر

ایک باکمال شخصیت
پروفیسر ڈاکٹر علی اصغر چشتی

ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ - نشانِ عظمتِ ماضی
ڈاکٹر قاری محمد طاہر

مولانا ڈاکٹر محمود احمد غازی ۔ کچھ یادیں، کچھ تأثرات
مولانا مفتی محمد زاہد

ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ ۔ چند خوشگوار یادیں
محمد مشتاق احمد

معدوم قطبی تارا
ڈاکٹر شہزاد اقبال شام

میرے غازی صاحب
ڈاکٹر حیران خٹک

علم و تقویٰ کا پیکر
قاری خورشید احمد

میری آخری ملاقات
ڈاکٹر محمد افتخار کھوکھر

مرد خوش خصال و خوش خو
مولانا سید حمید الرحمن شاہ

ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ ۔ کچھ یادیں، کچھ باتیں
ڈاکٹر محمد امین

ایک بامقصد زندگی کا اختتام
خورشید احمد ندیم

اک دیا اور بجھا!
مولانا محمد ازہر

ایک معتدل شخصیت
مولانا محمد اسلم شیخوپوری

ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ، ایک مشفق استاد
شاہ معین الدین ہاشمی

روئے گل سیر نہ دیدم و بہار آخر شد
ڈاکٹر حافظ سید عزیز الرحمن

یاد خزانہ
ڈاکٹر عامر طاسین

ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ ۔ چند تاثرات
محمد عمار خان ناصر

ڈاکٹر محمود احمد غازی علیہ الرحمۃ
ڈاکٹر حافظ صفوان محمد چوہان

ڈاکٹر غازیؒ ۔ چند یادداشتیں
محمد الیاس ڈار

ایک ہمہ جہت شخصیت
ضمیر اختر خان

اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا
محمد رشید

آفتاب علم و عمل
مولانا ڈاکٹر صالح الدین حقانی

شمع روشن بجھ گئی
مولانا سید متین احمد شاہ

علم کا آفتاب عالم تاب
ڈاکٹر حسین احمد پراچہ

دگر داناے راز آید کہ ناید
حافظ ظہیر احمد ظہیر

ایک نابغہ روزگار شخصیت
سبوح سید

تواریخ وفات ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ
مولانا ڈاکٹر خلیل احمد تھانوی

ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ ۔ تعزیتی پیغامات و تاثرات
ادارہ

ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ ۔ فکر و نظر کے چند نمایاں پہلو
ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی

ڈاکٹر غازی مرحوم ۔ فکر و نظر کے چند گوشے
ڈاکٹر محمد شہباز منج

کاسموپولیٹن فقہ اور ڈاکٹر غازیؒ کے افکار
محمد سلیمان اسدی

آتشِ رفتہ کا سراغ
پروفیسر محمد اسلم اعوان

اسلام کے سیاسی اور تہذیبی تصورات ۔ ڈاکٹر محمود احمد غازی کے افکار کی روشنی میں
محمد رشید

سلسلہ محاضرات: مختصر تعارف
ڈاکٹر علی اصغر شاہد

’’محاضراتِ قرآنی‘‘ پر ایک نظر
حافظ برہان الدین ربانی

ڈاکٹر غازیؒ اور ان کے محاضرات قرآن
سید علی محی الدین

’’محاضرات فقہ‘‘ ۔ ایک مطالعہ
چوہدری محمد یوسف ایڈووکیٹ

محاضراتِ معیشت و تجارت کا ایک تنقیدی مطالعہ
پروفیسر میاں انعام الرحمن

تحریک سید احمد شہید رحمہ اللہ کا ایک جائزہ
ڈاکٹر محمود احمد غازی

اسلام میں تفریح کا تصور
ڈاکٹر محمود احمد غازی

اسلام اور جدید تجارت و معیشت
ڈاکٹر محمود احمد غازی

ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ سے ایک انٹرویو
مفتی شکیل احمد

ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ ۔ منتخب پیش لفظ اور تقریظات
ادارہ

مختلف اہل علم کے نام ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ کے چند منتخب خطوط
ڈاکٹر محمود احمد غازی

مکاتیب ڈاکٹر محمد حمیدؒ اللہ بنام ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ
ادارہ

ڈاکٹر غازیؒ کے انتقال پر معاصر اہل علم کے تاثرات
ادارہ

ریجنل دعوۃ سنٹر کراچی کے زیر اہتمام تعزیتی ریفرنس
آغا عبد الصمد

ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ کی یاد میں رابطۃ الادب الاسلامی کے سیمینار کی روداد
ادارہ

ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ ۔ ورلڈ اسلامک فورم کے زیر اہتمام تعزیتی نشست
ادارہ

ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ ۔ رسائل و جرائد کے تعزیتی شذرے
ادارہ

ایک نابغہ روزگار کی یاد میں
پروفیسر ڈاکٹر دوست محمد خان

تلاش

Flag Counter