ڈاکٹر محمود احمد غازی علیہ الرحمۃ

ڈاکٹر حافظ صفوان محمد چوہان

میرے والد پروفیسر عابد صدیق صاحب کا انتقال ۷؍ دسمبر ۲۰۰۰ء کو ہوا۔ وفات سے کچھ دن پہلے اُنھوں نے مجھے ایک خط لکھا جس میں دعوت و تبلیغ کی مرکزی شخصیت حضرت مولانا محمد احمد انصاری صاحب مدظلہ العالی سے متعلق معلومات فراہم کیں۔ میں اُن دنوں مولانا محمد الیاس رحمۃ اللہ علیہ کے ملفوظات کے انگریزی ترجمے (Words & Reflections of Maulana Ilyas) کے آخری حصے پر کام کر رہا تھا جس میں تبلیغ سے متعلق شخصیات کے بارے میں ضروری شخصی معلومات دی گئی ہیں۔ اِس خط کا ایک جملہ تھا: ’’مولانا محمد احمد صاحب مدظلہ ۔۔۔ جامعہ عباسیہ [بہاول پور] میں ۔۔۔ ۱۹۴۲ء میں دورۂ حدیث مکمل کرنے کے بعد نسبت قدیم قائم رکھنے کے لیے دوبارہ دورۂ حدیث کے لیے دارالعلوم دیوبند چلے گئے۔۔۔۔‘‘ ’’نسبت قدیم‘‘ تو بڑی چیز ہے، اِس کے ذروں اور خوشبو کی تلاش میں، میں بھی پھرتا رہا ہوں اور پھرا کرتا ہوں۔ ایسے کئی اسفار میں بھائی سید ذوالکفل مرحوم کی معیت بھی نصیب رہی۔ چنانچہ ہم لوگ ایک بار وقت نکال کر محمد سہیل عمر صاحب اور مرحوم ڈاکٹر محمود احمد غازی صاحب کے ہاں بھی گئے۔ غازی صاحب سے یہ نسبت میرے اور میرے خاندان کے لیے بڑی سعادت ہے۔ برسبیل تذکرہ عرض ہے کہ ’’نسبت قدیم‘‘ اردو کے اُن حسین مرکبات میں سے ہے جس کا مناسب انگریزی ترجمہ کم سے کم مجھ سے نہیں ہوسکا۔ 

محمود غازی صاحب سے اِس نابکار آید کا رابطہ اُن کے ایک خط سے شروع ہونا یاد پڑتا ہے جو اُنھوں نے اِس صدی کے ابتدائی دو تین سالوں میں سہ ماہی ’الزبیر‘ میں چھپنے والے میرے مضمون ’’اردو شاعری میں عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ کو پڑھ کر مجھے لکھا تھا۔ میں تو اُنھیں جانتا تک نہ تھا۔ اُن جیسے مصروف آدمی کا یہ عنایت نامہ اُن کی ذرہ نوازی تھی۔ میں نے جواب بھی دیا اور فون بھی کیا۔ بس یہیں سے اللہ نے تعلق بنا دیا جو بحمداللہ اُن کے دمِ واپسیں تک ٹیلی فون، خط، کتابوں اور رسائل کے تبادلے کی صورت میں قائم رہا۔ وہ اب یاد آتے ہیں تو دل میں ایک کھوہ سی پڑنے لگتی ہے۔ اللہ اُن کے درجات کو بلند فرمائے۔ 

اِس پہلے خط کے جوابی ٹیلی فون میں (یا شاید کچھ بعد میں) اُنھوں نے مجھ سے میرے والد صاحب کا کلام اور مضامین کا مجموعہ طلب فرمایا۔ میں نے کتب ارسال کیں تو چند روز بعد اُنھوں نے فون پر میرے والد صاحب کے مضمون ’’محسن کاکوروی کی نعتیہ شاعری‘‘ کے بارے میں فرمایا کہ یہ میری خاص دلچسپی کا موضوع ہے۔ اِس مضمون کو کہیں الگ سے چھپوا دیجیے کہ شاید محسن کی شاعری پر بات چیت شروع ہو جائے۔ میں نے اُنھیں بتایا کہ میرے والد صاحب افسوس کے ساتھ فرمایا کرتے تھے کہ محسن کی شاعری کو ہر تذکرے سے بھلا دیا گیا ہے حالانکہ وہ صاحب طرز شعرا میں سے ہیں۔ غازی صاحب نے محسن کاکوروی کی نعت گوئی پر اور برعظیم کے اُس وقت کے کلچر پر کئی باتیں بتائیں اور خصوصاً اُن کے ڈکشن پر میرے والد صاحب کے نکات کو سراہا۔ میں نے یہ مضمون ’الزبیر‘ کی کسی قریبی اشاعت میں چھپوایا۔ ڈاکٹر صاحب نے مدیر ’الزبیر‘ ڈاکٹر شاہد حسن رضوی کو اِس کی بابت خط بھی لکھا جو شائع ہوا۔ یہ اُن کا مزاج تھا کہ بس ذرا چھیڑ دیجیے، وہ تاریخ اور ثقافت کی کوئی نہ کوئی اہم بات ضرور ذکر کر دیا کرتے تھے۔

یہ مضمون تعزیتی نوعیت کا ہے، لیکن مناسب ہے کہ اِسی موقع پر غازی صاحب سے اپنی واحد ملاقات کا ذکر کردیا جائے۔ فون پر تو سالہاسال باتیں ہوئیں اور کئی خط بھی آئے اور گئے، لیکن ملاقات کا موقع صرف ایک بار بنا۔ بھائی ذوالکفل اور میں غالباً ۲۰۰۶ء کے اوائل میں کسی وقت اُن کے ہاں گئے تھے۔ رسمی تعارف تو پہلے بھی تھا، لیکن بھائی ذوالکفل کے سعودیہ میں عرب زمین زادوں کو انگریزی پڑھانے کے موضوع سے بات چیت شروع ہوئی اور ذرا ہی دیر میں یہ مجلس کشت زعفران بن گئی۔ غازی صاحب نے بچوں کو بنیادی تعلیم انگریزی میں دینے کے مضمرات کو ذکر کیا اور وہ پرانا لطیفہ سنایا کہ ایک بچے کو My Friend کا مضمون یاد تھا، لیکن امتحان میں My Father پر مضمون لکھنے کو کہا گیا۔ اب اُس نے جو لکھا، وہ یوں تھا: I have many fathers but Aslam is my best father. He is my class-fellow...۔ اب جو قہقہہ چھوٹا تو بھائی ذوالکفل نے فرمایا کہ دوسری زبان میں تعلیم دینے کی تو الگ رہی، بنیادی بات معیارِ تعلیم کی ہے۔ وہ لطیفہ بھی تو آپ نے سنا ہوگا کہ ایک طالب علم نے مضمون فٹ بال میچ کا آنکھوں دیکھا حال رٹ لیا۔ امتحان میں ریل کا سفر پوچھ لیا گیا۔ اب اُس نے ریل گاڑی میں بیٹھنے سے متعلق دو جملے لکھے اور انجن کو خراب کرکے ریل گاڑی کو ایک ویرانے میں لا کھڑا کیا جہاں کھلے میدان میں لڑکے فٹ بال کھیل رہے تھے۔ آگے فٹ بال میچ شروع ہوگیا۔ ابھی ہمیں غازی صاحب کے ساتھ بیٹھے پانچ منٹ بھی نہیں ہوئے ہوں گے کہ قہقہے تھے کہ کمرے سے باہر بھی سنائی دینے لگے ہوں گے۔ 

مجھے فون پر ہونے والی گفتگوؤں سے اندازہ تھا کہ وہ اونچی آواز میں ہنسنے والے آدمی نہیں ہیں لیکن یہ ملاقات اِس خیال کی نفی کرگئی۔ دو عالی نسبت، بڑے خاندانی لوگوں کی اِس کھلی ڈلی گفتگو سے میرا جھاکا بھی اتر گیا تھا۔ انگریزی کو نظامِ تعلیم میں بالجبر ٹھونس دینے سے پیدا ہونے والی آدھی تیتیریت آدھی بٹیریت کا ذکر کرتے ہوئے میں نے عرض کیا کہ ابھی چند دن پہلے میری چھوٹی بیٹی بریرہ کو سکول میں ایک انگریزی مضمون My School حفظ کرایا گیا جس میں دس جملے تھے۔ تیسرا جملہ تھا: There are many teachers in my school.۔ میں نے اُس جملے میں teachers سے پہلے ایک شرارتی سا اسم صفت لگا کر یاد کرا دیا۔ اُس نے یہ مضمون کلاس میں سنایا تو پورے سکول میں حال حال پڑگئی۔ شکایت ہوئی جو بہت دور تک گئی۔ 

القصہ غازی صاحب کے مزاج کی یہ جہت ہم پر پہلی ملاقات میں اور پہلی بار کھلی۔ یہاں سے ہماری باتوں کا رخ تخلیقی تحریر اور رٹالائزیشن (Creative Writing & Rote Learning) کی طرف مڑ گیا۔ یہ ذکر ہوا کیا کہ ہمارے موجودہ نظامِ تعلیم سے ایسے پیڑ اُگ رہے ہیں جن کی شاخیں بالکل لنڈ منڈ ہوکر رہ گئی ہیں۔ غازی صاحب نے بصیرت افروز باتیں کیں اور خاص طور سے زور دیا کہ ہم اساتذہ کو پڑھاتے ہوئے جہاں موقع ملے، اپنے مذہبی کلچر اور تاریخ سے مثالیں لانے سے گریز نہیں کرنا چاہیے۔ یہ بھی فرمایا کہ ہم پڑھے لکھے لوگوں کو مذہب اور مسلک میں فرق رکھنا چاہیے۔ مذہب غیرتِ دینی کا سبق دیتا ہے اور مسلک رواداری کا۔ 

اِس ملاقات میں اُن کے ایک مضمون پر جو ’الشریعہ‘ میں اُنہی دنوں چھپا تھا، بہت دیر تک گفتگو رہی۔ اِس مضمون کا مرکزی نکتہ یہ تھا کہ مغرب بڑی گہری حکمت عملی کے ساتھ دنیا بھر کے مسلمانوں کو (علی الخصوص نان ایشوز میں) مصروف (Engage) رکھتا ہے اور کیا ہماری حکومتیں، زعما، اہل ثروت اور علمی اشرافیہ اور کیا ہمارے عوام151 ہم سب کے سب لوگ مغرب کے فراہم کردہ اور طے کردہ ایجنڈے پر کام کرنے کے لیے ایک طرح سے مجبورِ محض ہیں۔ میں نے یہ مضمون بھائی عمار ناصر صاحب سے منگواکر کئی دوستوں کو اِی میل اور ڈاک سے بھیجا۔ غازی صاحب کے اِس جملے کی بات اب بھی چلتی رہتی ہے۔ کراچی کے بھائی سلمان سعد خاں نے پچھلے دنوں میڈیا پر سیلاب کی خبریں چلنے پر کہا تھا کہ یہ اُسی وقت تک چلیں گی جب تک مائی باپ کی طرف سے کوئی نیا ایجنڈا میڈیا فلیش کے لیے مہیا نہیں ہوتا۔ بھٹہ مزدور آسیہ کے توہین رسالت کیس کے سامنے آتے ہی مجھے احساس ہوا تھا کہ آئندہ چند ہفتوں کے لیے دھماچوکڑی کا بندوبست ہوگیا ہے اور جیسے پچھلے سال ایک لڑکی کو کوڑے مارنے والی ویڈیو سے کچھ فوری مقاصد حاصل کیے گئے تھے، اُسی طرح اِس کیس سے وسیع تر اہداف حاصل کیے جائیں گے۔ 

مغرب والوں کی سپاہِ دانش ہمیں مصروف رکھنے کے لیے ایسے موضوعات سوچتی ہے اور ہمارے لیے پیدا کی جانے والی یہ مصروفیت وقتی یا فوری نہیں ہوتی بلکہ شیطان کی آنت کی طرح کبھی نہ ختم ہونے والی ازلی و ابدی لم یلد ولم یولد قسم کی ہوتی ہے۔ مثلاً کچھ عرصے سے حجاب اور برقع عالمی میڈیا میں زیر بحث لایا گیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب فرماتے تھے کہ اِس کے نتائج بہت برے نکلیں گے۔ آج وہ ہوتے تو دیکھتے کہ یورپ کی بہت سی پارلیمانوں نے حجاب کو خلافِ قانون قرار دے دیا ہے۔ اور ابھی تو یہ آغاز ہے، آگے آگے دیکھیے کیا ہوتا ہے۔ وقتی لہروں میں بہہ جانے اور انتہائی غیر مستقل کاموں میں کود کر لگ جانے میں ہمارا کوئی ثانی نہیں ہے۔ بحیثیت مجموعی مسلمانوں کی حالت سوکھے پتے کی ہے کہ ہوا جہاں چاہے اُڑالے جائے، اِلا ماشاء اللہ۔ اسلام کے لیے ایسے ایسے حسن بن صباح پیدا ہوچکے ہیں کہ خدا ہی خیر کرے۔ میرے منہ میں خاک کہ آسیہ والے کیس کے چڑھتے دریا میں بہہ کر انجامِ کار کہیں توہین رسالت کا قانون سمندر میں نہ اتر جائے۔ 

اوپر ذکر کی گئی ویڈیو کو دیکھ کر میں نے بھائی ذوالکفل سے کہا تھا کہ یہ لڑکی کوڑے کھاکر جس سہولت سے اٹھی ہے اور کوڑے مارنے والے نے جس سہج سے کوڑے مارے ہیں، اُسے دیکھ کر مجھے فیضؔ کا شعر یاد آتا ہے:

کس قدر پیار سے اے جانِ جہاں رکھا ہے
دل کے رخسار پہ اِس وقت تیری یاد نے ہاتھ

یہ کوڑے ویسے لگے ہیں جیسے دل کے رخسار پہ یاد نے ہاتھ رکھا ہو۔ اِسی بات کو میں نے غازی صاحب سے بھی ذکر کیا اور داد پائی۔ یہ ویڈیو میں نے سب سے پہلے جنابِ افتخار عارف کے ساتھ دیکھی تھی اور دیکھتے ہی کہا تھا کہ اِس میں تین مقامات ایسے ہیں جن کی وجہ سے یہ ویڈیو جعلی ہے۔ اِس سلسلے کی تازہ ترین خبر یہ ہے کہ اب تک تین لڑکیاں یا عورتیں وہ لڑکی ہونے کا دعویٰ کرچکی ہیں جسے کوڑے لگے تھے۔ اِس ویڈیو پر اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل بانکی مون نے ایکشن لیا تھا۔ اُنھیں چاہیے کہ اب پھر ایکشن لیں۔

دعوت و تبلیغ کے تیسرے امیر حضرت جی مولانا محمد انعام الحسن رحمۃ اللہ علیہ ڈاکٹر محمود احمد غازی کی والدہ کے ماموں زاد بھائی تھے۔ اُن کے اِس رشتے کا ذکر مجھ سے تبلیغ کی مرکزی شوریٰ کے رکن، لارڈ ردرفورڈ کی زیر نگرانی پی ایچ ڈی کرنے والے واحد مسلمان سائنسدان، پاکستان کے پہلے چیف سائنٹسٹ اور ستارۂ امتیاز ڈاکٹر مظہر محمود قریشی نے کیا تھا۔ میں نے غازی صاحب سے ذکر کیا کہ مجھے حضرت جی مولانا محمد انعام الحسن رحمۃ اللہ علیہ سے بیعت کی سعادت حاصل ہے اور میں نے اُن سے مجمع میں نہیں بلکہ الگ سے بیعت کی تھی۔ گفتگو کا رخ غازی صاحب کے دودمانِ عالی شان کی طرف ہوگیا۔ اُنھوں نے اپنے خاندان سے متعلق کئی باتیں بتائیں۔ بھائی سید ذوالکفل نے اپنے نانا امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری کی مولانا محمد الیاس رحمۃ اللہ علیہ سے اُن کی زندگی کے آخری دنوں میں ہونے والی ملاقات (اپریل ۱۹۴۴ء) کے حوالے سے کچھ باتیں کیں۔ میرے والد صاحب کا ذکر بھی آیا۔ غازی صاحب نے فرمایا کہ مجھے عابد صاحب کے کچھ مضامین سے مولانا جعفر شاہ پھلواری کی ’’اسلام اور موسیقی‘‘ یاد آتی ہے۔ جب ہم واپس ہونے لگے تو مصافحہ کرتے وقت اُنھوں نے اِس بیعت کی نسبت سے میرا ہاتھ چوم لیا۔ میں اِس کیفیت کو کبھی نہیں بھول سکتا۔ آج غازی صاحب کے بھائی محمد الغزالی صاحب سے بھی فون پر بات ہوئی۔ اللہ اُنھیں سلامت رکھے۔ 

ایک بات اور یاد آئی۔ کچھ سال سے مغرب نے ہمیں ’’بین المذاہب مکالمہ‘‘ نام کی مصروفیت دے رکھی ہے۔ جب اِس منصوبے کا آغاز ہوا تو شہزادہ چارلس پاکستان آیا۔ اُس کے فیصل مسجد کے دورے کے موقع پر بغیر لاؤڈ اسپیکر کے اذان دی گئی۔ اِس پر بڑی لے دے ہوئی۔ اخبارات اور انٹرنیٹ پر خبروں سے جب معاملہ خوب پخ گیا تو میں نے براہِ راست معلومات حاصل کرنے کے لیے غازی صاحب کو فون کیا۔ فرمایا کہ بات اِتنی نہ تھی جتنی کہ بڑھائی گئی۔ چارلس کو تکلیف نہ تھی کہ اذان لاؤڈ اسپیکر سے ہوتی۔ یہ تو ہمارے چند بے حمیت لوگوں کا Guilty conscious تھا جو شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار ہوتے ہیں۔ یہ ایک نان ایشو تھا جسے خوامخواہ کھڑا کیا گیا۔ (عرض ہے کہ چارلس کے بارے میں بات کرتے ہوئے میں نے اُسے ’’لیڈی ڈیانا کا نصف بدتر‘‘ کہا تھا۔ غازی صاحب بہت محظوظ ہوئے۔ اِس مضمون کی فضا ذرا مختلف ہے، لیکن چونکہ بات متعلق ہے اِس لیے ذکر کی۔) 

غازی صاحب میڈیا پر آنے کے سخت خلاف تھے۔ میڈیا اُن کے نزدیک ریڈیو یا اخبار کے انٹرویو کی حد تک تو بکراہت جائز تھا، بشرطیکہ اِس میں تصویریں نہ اتاری جائیں۔ تصویر سے اُنھیں انقباض ہوتا تھا۔ فرماتے تھے کہ اِس سے روحانیت کا بیڑہ غرق ہوجاتا ہے۔ میڈیا کی نحوستوں کا بتاتے ہوئے اُنھوں نے ایک بار یہ جملہ دوہرایا تو میں نے امِ حبیبہ نام کی خاتون کا ذکر کیا جو ایک مدرسہ پڑھانے والے اللہ والے کی بیٹی ہے اور جسے میڈیا نعتوں کے راستے سے ریڈیو اور پھر ٹی وی پر لایا۔ اب وہ بے پرد نظر آتی ہے۔ لوگوں کو یاد ہوگا کہ پرانے زمانے میں ٹی وی پر امِ حبیبہ کی نعت آتی تھی تو سکرین پر ایک پھول دکھایا جاتا تھا۔ اب تو نعتوں کے سلسلے میں بھی بڑی ترقی ہوگئی ہے۔ ہمیں یہ دن بھی دیکھنا تھے۔ انگریزی محاورے کے الفاظ میں تیز روشنی میں رہنے والے لوگوں کے لیے میڈیا سے جان بچانا بہت مشکل ہوا کرتا ہے۔ غازی صاحب مرحوم اپنے عمل سے یہ کرکے دکھا گئے ہیں۔ 

جن دنوں یورپ میں ساحل پر نہانے کا تین کپڑوں پر مشتمل باپردہ لباس ’’برقنی‘‘ متعارف ہوا، ایک بار فون پر غازی صاحب سے باتوں باتوں میں پردے کا ذکر آیا ۔ میں نے عرض کیا کہ پردے کے بارے میں میرے والد صاحب فرماتے تھے کہ اللہ نے مردوں اور عورتوں کو الگ الگ آیات میں نگاہیں نیچی رکھنے کا حکم دیا ہے اور ہر دو کو الگ الگ ہدایات دی ہیں اور اللہ نے مردوں کو حکم نہیں دیا کہ وہ عورتوں سے پردہ کرائیں۔ جو عورت پردہ نہیں کرتی، وہ اللہ کی گناہگار ہے نہ کہ اپنے مرد کی۔ ڈاکٹر صاحب نے فرمایا کہ یہ بات بالکل ٹھیک ہے۔ مرد کے ذمے یہ ضرور ہے کہ وہ ایسا ماحول بنائے رکھے جس میں پردہ کرنا اور شریعت پر چلنا آسان ہو اور اللہ کے حکم سے روگردان ہونا مشکل ہو، کیونکہ اُسے عورتوں پر فوقیت اور افضلیت دی گئی ہے۔ جو عورت پردہ توڑتی ہے، وہ اللہ کا حکم توڑتی ہے اور اِس حکم عدولی پر وہ اللہ کو براہِ راست جوابدہ ہے۔ پھر مجھے اپنا ایک مضمون ’’اسلام میں ادارۂ خاندان اور اُس کی اہمیت‘‘ پڑھنے کو فرمایا۔ یہ مضمون اُن کے محاضرات کے کسی مجموعے میں ہے۔ یہ مضمون بھی میں نے بہت سے دوستوں کو پڑھوایا ہے۔ وہ لوگ جو مذہب کے نام پر خاندانی اور علاقائی روایات کا پرتشدد پرچار کرتے ہیں، اُنھیں چاہیے کہ کھلے ذہن کے ساتھ اللہ کے احکامات اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم اور اُن کے صحابہ علیہم الرضوان کا اِن احکامات پر عمل ملاحظہ فرمائیں۔ صرف یہی ایک نہیں بلکہ محاضرات میں بہت سے مضامین ایسے ہیں جنھیں بار بار پڑھنا چاہیے۔ 

پچھلے سال بھائی سید ذوالکفل کا انتقال ہوا تو غازی صاحب نے حج کے کچھ روز کے بعد فون کرکے مجھ سے تعزیت کی اور اُن کے حادثے کی تفصیل معلوم کی۔ اُن سے ملاقات کا اور اُن کی خوبیوں کا بہت دیر تک ذکر کرتے رہے۔ فرماتے رہے کہ اُن کے حسن خاتمہ پر رشک آتا ہے۔ 

۲۴؍ اکتوبر ۲۰۱۰ء کو غازی صاحب اللہ کے حضور حاضر ہوئے تو میں نے سب سے پہلے ششماہی ’’السیرہ‘‘ والے بھائی ڈاکٹر سید عزیزالرحمن سے اور پھر بھائی عمار ناصر سے تعزیت کی۔ مجھے بھائی عزیزالرحمن کے غم کا کچھ اندازہ تھا۔ ۱۷؍ جولائی ۲۰۱۰ء کو یونی کیرئنز انٹرنیشنل نے جامعہ کراچی میں اردو لغت بورڈ کی ’’اردو لغت (تاریخی اصول پر)‘‘ کی تکمیل پر تقریب سپاس منعقد کی تھی جس میں مجھے بھی بلایا گیا۔ اگلے روز دعوۃ ریجنل اکادمی کراچی میں غازی صاحب کا لیکچر تھا جس کے لیے بھائی عزیزالرحمن نے مجھے دعوت دی۔ اُن کا فون آیا تو میں اُس وقت ڈاکٹر جمیل جالبی صاحب کے یہاں سے ہوائی اڈے کی طرف نکل رہا تھا، اِس لیے حاضر نہ ہوسکا اور اِس موقع سے فائدہ نہ اٹھا سکا۔ اِس کا ہمیشہ افسوس رہے گا۔ بھائی عزیزالرحمن نے غازی صاحب پر لکھے اپنے مضمون بھی مجھے ارسال فرمائے۔ 

فون پر باتوں میں، میں نے غازی صاحب سے کسی کی غیبت نہیں سنی اور نہ اُنھیں کسی پر تبصرہ کرتے پایا۔ کسی کے بارے میں بات کرتے تو ہمیشہ بھلائیوں کا تذکرہ کرتے۔ نماز کے نہایت سختی سے پابند تھے۔ دنیا کی چیزوں کے بارے میں للچاہٹ اُن میں نہ تھی۔ بے حد نرم دل تھے۔ ۸؍ اکتوبر ۲۰۰۵ء کو زلزلہ آیا تو میں ہری پور سے ایبٹ آباد، گڑھی حبیب اللہ، بالاکوٹ اور مظفر آباد گیا۔ مجھ سے وہاں کے حالات سنے تو باقاعدہ روتے رہے اور دعا کرتے رہے۔ علم کے ساتھ تقویٰ اور فروتنی، بڑے عہدے کے ساتھ انکسار، تونگری کے ساتھ سادگی، تصنع سے کوسوں دوری151 یہ سب صفاتِ حمیدہ اُن کی ذات میں بڑے احسن طریقے سے جمع ہوگئی تھیں۔ 

غازی صاحب سے فون پر استفسارات اور معلومات کے تبادلے کی اجازت مجھے حاصل تھی۔ ہر سوال کا جواب ہمیشہ بہت تفصیل سے اور نواحی معلومات کے ساتھ ملتا۔ بعض اوقات حوالہ دیکھ کر بتاتے۔ اِنٹرنیٹ کی ایک سائٹ پر کسی نے قرآنِ پاک کے موجودہ متن کو ناقابل اعتبار بتانے کے لیے نسخہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے کچھ صفحات کے عکس رکھے اور اِی میلوں کے سیلاب کے ذریعے لوگوں کو اِس بحث میں الجھایا کہ تقابلی مطالعہ کرکے دیکھ لیں کہ آج جو قرآن پڑھا جارہا ہے، وہ متذکرہ نسخے سے مختلف ہے۔ میں نے ایک ایسی اِی میل اور کچھ صفحات کا پرنٹ آؤٹ غازی صاحب اور عبدالجبار شاکر صاحب کو بھیجا۔ غازی صاحب نے اِس پر بہت افسوس کا اظہار کیا کہ یہ خالص علمی بحث ہے، اِسے عوام میں چلانے کی کوئی ضرورت نہ تھی۔ پھر اِس سائٹ کے کرتا دھرتا سے بات کرنے، سمجھانے بجھانے اور اِسے بند کرانے تک کی ساری کارروائی میں اُنھوں نے فعال کردار ادا کیا۔ یہ نیکی بھی اُن کے توشے میں ہے۔ لیکن فون پر کیے گئے استفسارات میں سے دو باتیں تشنہ رہ گئیں۔ ایک بار میں نے قرآنِ پاک میں موجود وقوف کی صورتوں کے بارے میں دریافت کیا کہ مثلاً وقف لازم، وقف منزل، وقف النبی صلی اللہ علیہ وسلم اور وقف جبریل کی تو سمجھ آتی ہے، یہ وقفِ غفران کیا ہے؟ اِسی طرح قرآنِ پاک کو تیس سپاروں میں کس نے تقسیم کیا؟ فرمایا کہ ابھی ذہن میں نہیں ہے اور نہ ہی یہ یاد پڑتا ہے کہ اِن باتوں کا کبھی نظر سے گزر ہوا ہو۔ کسی وقت میں دیکھ کر بتاؤں گا۔ یہاں اِن دونوں باتوں کو اِس لیے ذکر کیا ہے کہ اگر کوئی صاحب جانتے ہوں تو مجھے ضرور بتا دیں۔ 

غازی صاحب سے رابطہ ہوتے ہی الشریعہ کا حوالہ ازخود درمیان میں آگیا۔ راقم کے نزدیک الشریعہ کی مثال ایک طرح کے اسلامی ہائیڈ پارک کی ہے۔ میں نے بڑی مدت سے ایسے مولوی صاحبان نہیں دیکھے تھے جو مسلمان کے مسلمان سے اختلاف کو اسلام کا اختلاف نہ سمجھتے ہوں۔ اللہ کے ایسے بندے مجھے تبلیغ والوں میں نظر آئے، پھر عطاء المحسن شاہ صاحب اور سید محمد ذوالکفل بخاری، اور اب مولانا زاہدالراشدی اور اُن کا الشریعہ۔ الشریعہ ایک تحریک ہے جس نے مختلف الخیال مسلمانوں کو اپنا اپنا نقطۂ نظر برقرار رکھتے ہوئے باہم گفتگو کا موقع، سلیقہ اور حوصلہ دیا ہے۔ الشریعہ کے بارے میں یہی بات غازی صاحب بھی کیا کرتے تھے۔ اس حوالے سے اُن کے ایک خط کے آخری جملے پر یہ تحریر ختم کرتا ہوں۔ 

’’الشریعہ‘‘ کے بارہ میں میرے تاثرات بھی وہی ہیں جو آپ کے ہیں۔ اس کا سارا کریڈٹ مولانا زاہدالراشدی صاحب کو جاتا ہے۔‘‘

یہ مضمون صرف حافظے سے لکھا ہے۔ ممکن ہے کہ ذکر کی گئی کوئی بات اپنے محل سے ذرا آگے یا پیچھے ہوگئی ہو، لیکن اِس سے مطالب پر اِن شاء اللہ کوئی زد نہیں آتی۔)

اتوار: ۱۹/ دسمبر ۲۰۱۰ء

مطابق: ۱۲/ محرم الحرام ۱۴۳۲ھ

شخصیات

(جنوری و فروری ۲۰۱۱ء)

جنوری و فروری ۲۰۱۱ء

جلد ۲۲ ۔ شمارہ ۱ و ۲

حرفے چند
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ ۔ حیات و خدمات کا ایک مختصر خاکہ
ادارہ

شیخ الحدیث حضرت مولانا عبد الرحمٰن المینویؒ (ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ کے استاذ حدیث)
مولانا حیدر علی مینوی

میری علمی اور مطالعاتی زندگی ۔ (ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ کا ایک غیر مطبوعہ انٹرویو)
عرفان احمد

بھائی جان
ڈاکٹر محمد الغزالی

بھائی محمود
مولانا نور الحسن راشد کاندھلوی

ہمارے بابا
ماریہ غازی

ایک معتمد فکری راہ نما
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

ایک عظیم اسکالر اور رہنما
مولانا محمد عیسٰی منصوری

ڈاکٹر محمود احمد غازی مرحوم
محمد موسی بھٹو

ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ : ایک اسم با مسمٰی
جسٹس سید افضل حیدر

ایک باکمال شخصیت
پروفیسر ڈاکٹر علی اصغر چشتی

ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ - نشانِ عظمتِ ماضی
ڈاکٹر قاری محمد طاہر

مولانا ڈاکٹر محمود احمد غازی ۔ کچھ یادیں، کچھ تأثرات
مولانا مفتی محمد زاہد

ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ ۔ چند خوشگوار یادیں
محمد مشتاق احمد

معدوم قطبی تارا
ڈاکٹر شہزاد اقبال شام

میرے غازی صاحب
ڈاکٹر حیران خٹک

علم و تقویٰ کا پیکر
قاری خورشید احمد

میری آخری ملاقات
ڈاکٹر محمد افتخار کھوکھر

مرد خوش خصال و خوش خو
مولانا سید حمید الرحمن شاہ

ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ ۔ کچھ یادیں، کچھ باتیں
ڈاکٹر محمد امین

ایک بامقصد زندگی کا اختتام
خورشید احمد ندیم

اک دیا اور بجھا!
مولانا محمد ازہر

ایک معتدل شخصیت
مولانا محمد اسلم شیخوپوری

ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ، ایک مشفق استاد
شاہ معین الدین ہاشمی

روئے گل سیر نہ دیدم و بہار آخر شد
ڈاکٹر حافظ سید عزیز الرحمن

یاد خزانہ
ڈاکٹر عامر طاسین

ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ ۔ چند تاثرات
محمد عمار خان ناصر

ڈاکٹر محمود احمد غازی علیہ الرحمۃ
ڈاکٹر حافظ صفوان محمد چوہان

ڈاکٹر غازیؒ ۔ چند یادداشتیں
محمد الیاس ڈار

ایک ہمہ جہت شخصیت
ضمیر اختر خان

اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا
محمد رشید

آفتاب علم و عمل
مولانا ڈاکٹر صالح الدین حقانی

شمع روشن بجھ گئی
مولانا سید متین احمد شاہ

علم کا آفتاب عالم تاب
ڈاکٹر حسین احمد پراچہ

دگر داناے راز آید کہ ناید
حافظ ظہیر احمد ظہیر

ایک نابغہ روزگار شخصیت
سبوح سید

تواریخ وفات ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ
مولانا ڈاکٹر خلیل احمد تھانوی

ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ ۔ تعزیتی پیغامات و تاثرات
ادارہ

ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ ۔ فکر و نظر کے چند نمایاں پہلو
ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی

ڈاکٹر غازی مرحوم ۔ فکر و نظر کے چند گوشے
ڈاکٹر محمد شہباز منج

کاسموپولیٹن فقہ اور ڈاکٹر غازیؒ کے افکار
محمد سلیمان اسدی

آتشِ رفتہ کا سراغ
پروفیسر محمد اسلم اعوان

اسلام کے سیاسی اور تہذیبی تصورات ۔ ڈاکٹر محمود احمد غازی کے افکار کی روشنی میں
محمد رشید

سلسلہ محاضرات: مختصر تعارف
ڈاکٹر علی اصغر شاہد

’’محاضراتِ قرآنی‘‘ پر ایک نظر
حافظ برہان الدین ربانی

ڈاکٹر غازیؒ اور ان کے محاضرات قرآن
سید علی محی الدین

’’محاضرات فقہ‘‘ ۔ ایک مطالعہ
چوہدری محمد یوسف ایڈووکیٹ

محاضراتِ معیشت و تجارت کا ایک تنقیدی مطالعہ
پروفیسر میاں انعام الرحمن

تحریک سید احمد شہید رحمہ اللہ کا ایک جائزہ
ڈاکٹر محمود احمد غازی

اسلام میں تفریح کا تصور
ڈاکٹر محمود احمد غازی

اسلام اور جدید تجارت و معیشت
ڈاکٹر محمود احمد غازی

ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ سے ایک انٹرویو
مفتی شکیل احمد

ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ ۔ منتخب پیش لفظ اور تقریظات
ادارہ

مختلف اہل علم کے نام ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ کے چند منتخب خطوط
ڈاکٹر محمود احمد غازی

مکاتیب ڈاکٹر محمد حمیدؒ اللہ بنام ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ
ادارہ

ڈاکٹر غازیؒ کے انتقال پر معاصر اہل علم کے تاثرات
ادارہ

ریجنل دعوۃ سنٹر کراچی کے زیر اہتمام تعزیتی ریفرنس
آغا عبد الصمد

ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ کی یاد میں رابطۃ الادب الاسلامی کے سیمینار کی روداد
ادارہ

ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ ۔ ورلڈ اسلامک فورم کے زیر اہتمام تعزیتی نشست
ادارہ

ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ ۔ رسائل و جرائد کے تعزیتی شذرے
ادارہ

ایک نابغہ روزگار کی یاد میں
پروفیسر ڈاکٹر دوست محمد خان

تلاش

Flag Counter