۲۶ ستمبر ۲۰۱۰ء کو میرے موبائل پر میسج ابھرا کہ ڈاکٹر محمود احمد غازی وفات پاگئے ہیں۔ میسج کیا ابھرا کہ مجھے اپنا دل ڈوبتا ہوا محسوس ہوا۔ دُکھ اور محرومی کا ایک گہرا احساس روح میں اترتا ہوا محسوس ہوا۔ مملکت پاکستان جس پر آج کل چہار اطراف سے آفات حملہ آور ہیں،ان حالات میں وہ کتنے بڑے نقصان سے دوچار ہوگئی ہے، یہ سوچ کر ہی دل میں درد کی ٹیسیں اٹھتی ہیں۔
جن علمی و دینی شخصیات کی علمی کاوشوں سے ہم استفادہ کرتے رہے ہیں، ان میں سے سال ۲۰۱۰ء میں یہ دوسری علمی و دینی شخصیت ہے جن کی وفات ذاتی نقصان کی طرح دکھی و پریشان کرگئی۔اگرچہ ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم و مغفور کی وفات پر بھی دل پر ایک چوٹ پڑی، روح کی گہرائیوں میں چھناکے سے ہوتے ہوئے محسوس ہوئے لیکن ڈاکٹر محمود احمد غازی کی وفات نے تو محض دکھی ہی نہیں کیا، دل سخت بے چینی وکرب سے بھی دوچار ہوگیا۔ یہ بات واقعتا ہمارے لیے بھی خاصی حیران کن تھی کہ جس شخص سے ہم زندگی میں ایک بار بھی نہیں ملے ، اس کی وفات پر دُکھ کا ایسا احساس تھا کہ آنسو اندر ہی اندر گلے سے اتر کر دل کے پار ہوتے ہوئے محسوس ہو رہے تھے۔
ڈاکٹر غازی صاحب سے ہماری پہلی غائبانہ ملاقات ان کی کتاب ’’محاضراتِ قرآن‘‘ میں ہوئی۔ ان کی یہ کتاب پڑھ کر ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ وہ ایک مخلص، ذہین، علوم پر گہری دسترس رکھنے والے، ابلاغ کی قوت سے مالا مال، بات کو عام فہم اور سلیس انداز سے سامع تک پہنچانے والے، علم و تحقیق سے شغف رکھنے والے ، جدید پڑھے لکھے انسان کے سامنے دین کو پیش کرنے کی صلاحیتوں سے مالا مال ایک سادہ اور حلیم طبیعت کے مالک انسان ہیں۔
ڈاکٹر غازی صاحب سے ہماری دوسری غائبانہ ملاقات قدرے مختلف تاثرات کی حامل ثابت ہوئی۔ ہوا یوں کہ ہمیں ’’علم حدیث‘‘ پر جدید محققین کے کام اور آرا کا مطالعہ کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی تو ہم نے ڈرتے ڈرتے اور کسی قدر خوف و امید کے ملے جلے تاثرات کے ساتھ ڈاکٹر غازی صاحب کی کتاب ’’محاضرات حدیث‘‘ کا مطالعہ شروع کیا۔ ہمیں ڈریہ تھا کہ ڈاکٹر غازی صاحب کے بارے میں ہمارا جو تاثر بن چکا تھا، وہ کہیں اس کتاب کے مطالعہ سے ٹوٹ نہ جائے۔ غازی صاحب جیسا فطین اور عبقری شخص حدیث پر بحث کرتے ہوئے کہیں راہ اعتدال سے ہٹ نہ جائے جیسا کہ آج کل کے ذہین لوگوں کا المیہ ہم نے مشاہدہ کیا ہے کہ اچھے بھلے دین پر چلتے چلتے ’’منکرین حدیث‘‘ کے ’’پرویزی حیلوں‘‘ میں ایسے پھنستے ہیں کہ ان کے دماغ کو لاکھ اس گورکھ دھندے اور دلدل سے نکالنے کی کوشش کرو، ’’ذہانت اور فطانت‘‘ کا فتنہ انہیں اس جال سے نکلنے ہی نہیں دیتا۔خیر! ہم جوں جوں اس کتاب کے مطالعے میں آگے بڑھتے گئے، قدرے مختلف گہرے تاثرات میں پھنستے چلے گئے۔ کتاب پڑھنے کے بعد ہم اس خوشگوار تاثر سے ہم کنار ہوئے کہ عصر ی مغربی علوم پر گہری نظر رکھنے والا، جدید دنیا میں رہنے والا، جدید دنیا کے پڑھے لکھے انسانوں سے میل جول رکھنے والا ایک ذہین اور فطین انسان حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کہیں بھی معذرت خواہی یا کجی کا مظاہرہ نہیں کرتا۔
ہم پر ایک اور انکشاف ہوا کہ ڈاکٹر صاحب کو اللہ تعالیٰ نے ایسی زبردست صلاحیتوں سے نوازا ہے کہ وہ امت مسلمہ کی چودہ سوسالہ تاریخ کی علمی و تحقیقی کاوشوں کو موثر اور سلیس انداز میں پیش کرنے کاایسا ملکہ رکھتے ہیں کہ جدید دور کا انسان متاثر اور مبہوت ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ ڈاکٹر صاحب کی یہ وہ خوبی ہے جو انہیں موجودہ دور کے قدیم و جدید علوم کے تمام علما سے بہت بلند، منفرداور نمایاں مقام عطا کرتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ڈاکٹرغازی صاحب کو پڑھ کو ہمیں پہلی دفعہ ’’علمی اور عقلی‘‘ سطح پر اپنے اسلاف پر فخر محسوس ہوا، ورنہ عام طور پر مذہبی علوم کے علما اسلاف کے علمی ورثے کو جس ’’انداز‘‘ سے پیش کرتے ہیں، اس سے جدید تعلیم یافتہ انسان متاثر تو کیا ہو، اسے ایک قسم کا توحش اور اجنبیت سی محسوس ہونے لگتی ہے۔ ڈاکٹرغازی صاحب کی اس دوسری کتاب کو پڑھ کر ہمیں یہ بھی محسوس ہوا کہ وہ ’’عقائداوربنیادی فکر‘‘ کے معاملہ میں مولویوں سے زیادہ پختگی، اعتدال اور توازن پر کاربند ہیں۔
ڈاکٹر غازی صاحب کی تحریریں پڑھ کر کچھ اورخوبیوں کا تاثر دل پر پڑا، لیکن خدشہ ہوا کہ اگر ڈاکٹر صاحب سے ملاقات ہوئی تو شاید یہ تاثر ٹوٹ نہ جائے۔ اس لیے شدید خواہش کے باوجود ڈاکٹر صاحب سے ملاقات کی ہمت ہی نہیں ہوئی۔ ان کی اچانک وفات کے بعد مورخہ ۲۰۱۰ء/۹/۲۸ کو روزنامہ اسلام میں ڈاکٹر سید عزیز الرحمن نے ان الفاظ میں ان کی شخصیت کا نقشہ کھینچا: ’’ڈاکٹر صاحب حد درجہ متقی شخص تھے۔ برس ہا برس کا مشاہدہ ہے کہ سرکاری و دفتری ذمے داریوں میں سرکاری مراعات سے کبھی ذاتی فائدہ نہیں اٹھایا۔ ڈاکٹر صاحب کا وجود عالم اسلام کے لیے بساغنیمت تھا۔ بین الاقوامی فورم پر اسلام اور پاکستان کی نمائندگی کا جو سلیقہ ڈاکٹر صاحب کو حاصل تھا، اس کی مثال کم ملے گی۔ پھر علم و فضل اور دینی حمیت و تصلب کے ساتھ ساتھ حسن تکلم و حکمت کی دولت سے آراستہ تھے۔‘‘
اسی طرح مورخہ ۳۰؍ ستمبر کے روزنامہ اسلام میں مولانا ازہر نے ان الفاظ میں ان کی شخصیت کا نقشہ کھینچا: ’’راقم السطور کو دوچار مرتبہ حضرت ڈاکٹر صاحب کی مجلس میں بیٹھنے اور کسی حد تک استفادہ کی سعادت نصیب ہوئی ہے۔ غیر معمولی علمی مقام کے باوجود ان کے عجز و انکسار، سادگی، نرم مزاجی اور دھیمے پن نے احقر کو بہت متاثر کیا۔ ڈاکٹر صاحب کی گفتگو سلاست، بلاغت، متانت اور فقاہت کا مرقع ہوتی تھی۔‘‘
یہ گواہیاں پڑھ کر جہاں ڈاکٹر غازی صاحب کے بارے دل جو گواہی دے رہا تھا، اس کی تصدیق ہوگئی، وہاں ان سے ملاقات سے محرومی کا احساس بھی سوا ہو گیا۔
روزنامہ اسلام میں پڑھ کر سخت حیرت ہوئی کہ ڈاکٹر غازی صاحب کا خاندانی و تعلیمی پس منظر خالصتاً مولویانہ اور مذہبی ہے۔حیرت ہے، سخت حیرت پر حیرت ہے کہ ۲۰۱۰ء کے اس سخت زوال و تباہی کے دور میں بھی مدرسہ و خانقاہ کا پس منظر رکھنے والی ایک شخصیت علم و کردار کی ان بلندیوں پرپہنچ جاتی ہے کہ قدیم و جدید علوم کے بڑے سے بڑے ماہرین بھی اس کے سامنے ہیچ نظر آتے ہیں۔اے کاش ! ہمارے مدرسہ و خانقاہ کے نظام میں ایسی کوئی اصلاح ہو جائے کہ وہ ڈاکٹر غازی صاحب جیسی ہستیاں پیدا کرنے لگ جائے تونوع انسانی میں ایک بہت بڑے تعمیری انقلاب اور مثبت تبدیلی کی بنیاد ڈالی جاسکتی ہے۔ ہمارے سیاسی و مذہبی ہردوراہنماؤں کویہ بات پلے باندھ لینا چاہیے کہ دینی حمیت و تصلب کے ساتھ ساتھ حسن تکلم و حکمت ،عجز و انکسار، سادگی، نرم مزاجی،سلاست، بلاغت اور متانت کردار کی وہ بنیادی خوبیاں ہیں جس کے بغیر رہنمائی اور قیادت ایک خواب اور سراب ہے اور جس کے بغیر تعمیری انقلاب اور مثبت تبدیلی کی خواہش کبھی حقیقت کا روپ نہیں دھار سکتی۔
دل کی گہرائیوں سے یہ ندانکل رہی ہے کہ اے کاش! اس امت میں بہت سے ’’ڈاکٹر محمود غازی‘‘ پیدا ہونا شروع ہو جائیں۔ ہمارے بے چین اور مضطردل کی یہ دعاہے۔ مضطر اور بے چین کی پکار بھلا کون سنتا ہے۔۔۔ صرف اللہ۔