ڈاکٹر محمود احمد غازی بھی راہئ ملک عدم ہوئے اور اتنے اچانک کہ ابھی تک یقین نہیں آتا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ یہ غالباً ۱۹۹۳ء کی بات ہے، جب ہم مرحوم ڈاکٹر غلام مرتضیٰ ملک صاحب کے ساتھ ایک نیم سرکاری تعلیمی فاؤنڈیشن میں ڈائریکٹرنصابیات کے طور پر کام کرتے تھے۔ہم نے اڑھائی تین سال کی محنت سے پہلی سے بارہویں تک کے نصاب کو از سر نو اسلامی تناظر میں مدون کیا۔ اب اس نصاب کے مطابق نصابی کتب مدون کرنے کا مرحلہ درپیش تھا، لیکن ٹرسٹیوں اور ملک صاحب میں اختلافات کے پیش نظر کام ٹھپ ہو کر رہ گیا۔ ہم نے چند ماہ انتظار کیا، لیکن جب دیکھاکہ اونٹ کسی کروٹ نہیں بیٹھتا تو بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے ’’ادارہ تحقیقات اسلامی‘‘ کے سربراہ اور اپنے مہربان ڈاکٹر ظفر اسحق انصاری صاحب سے اس کا ذکر کیا کہ کسی دوسری مصروفیت کا متلاشی ہوں۔
چند دن بعد ان کا فون آگیا کہ ڈاکٹر محمود احمد غازی صاحب سے آکر ملو۔ وہ ان دنوں ڈائریکٹر جنرل دعوۃ اکیڈیمی تھے۔ میں جا کر ان سے ملا۔ سانولا رنگ، لمبا قد اور لباس میں قدیم و جدید کا امتزاج یعنی سوٹ کے ساتھ نکٹائی لیکن سر پہ جناح کیپ اور چھوٹی داڑھی۔ خندہ پیشانی سے پیش آئے اور پوچھنے لگے کہ آپ کی زیادہ تردلچسپی اسلامیات کے کن شعبوں سے ہے؟ میں نے کہا: ’’مزاجاً دعوت سے، لیکن تعلیمی اسناد کے لحاظ سے اسلامی قانون سے‘‘۔ کہنے لگے خیر، ان شاء اللہ دونوں اپنے بس میں ہیں۔ (وہ ان دنوں شریعہ اکیڈیمی کے انچارج بھی تھے)۔ چنانچہ انہوں نے میری تعیناتی شریعہ اکیڈیمی میں بطور اسسٹنٹ پروفیسر کرا دی۔ وہاں سول اور ایڈیشنل ڈسٹرکٹ ججوں کی اسلامی قانون میں تربیت کے علاوہ شریعہ میں تالیف و تدوین کا شعبہ بھی میرے سپرد تھا۔ وہ ان شعبوں میں میری تجاویز اور رپورٹوں پر عموماً من و عن صاد کر دیتے۔ ایسے ہی ایک موقع پر میں نے نوٹ لکھا کہ مجھے ان کاموں کا کوئی تجربہ نہیں اور یہاں کوئی ایسے ساتھی بھی نہیں جن سے مشاورت کی جاسکے اور یہ بڑے بڑے علمی منصوبے ہیں اور آپ بلابحث و ادنیٰ تغیر ان پر صادکردیتے ہیں۔ جواب میں ’’من تواضع للہ رفعہ‘‘ کا مختصر جواب لکھ کر یہ باب بند کردیا۔ مطلب یہ کہ وہ اپنے ساتھیوں پر اعتماد کرتے تھے، ان کی حوصلہ افزائی کرتے تھے اور ان کی علمی ترقی پر خوش ہوتے تھے۔
ان دنوں میری فیملی لاہور میں تھی، لہٰذا میرے پاس کافی وقت بچ جاتا اور میں نے نوائے وقت میں ہفتہ وار کالم ’’فکر و نظر‘‘ لکھنا شروع کردیا۔ ایک دفعہ میں مساجد میں اسلامی تعلیم کے موضوع پر کالم لکھنا چاہتا تھاتو میں نے بعض معلومات کے لیے ایک جاننے والے صاحب کو وفاقی وزارت تعلیم میں فون کیا تو انہوں نے بتایا کہ جنرل ضیاء الحق صاحب نے ایک سروے کرایا تھا جس سے پتہ چلا کہ ہماری مساجد میں سے صرف ۲۵ فیصدایسی ہیں جہاں باقاعدہ سند یافتہ امام ہیں جو عوام کو قرآن و حدیث کا درس دے سکتے ہیں۔ یہ اعداد و شمار چونکا دینے والے تھے۔ اتفاق سے اسی شام کسی وجہ سے مجھے ڈاکٹر غازی صاحب کے گھر جانا پڑا۔میں نے انہیں بتایا کہ مجھے اپنے کالم کے سلسلے میں یہ اعداد و شمار ملے ہیں۔کہنے لگے، اس بات کو ہرگز اپنے کالم میں نہ لکھنا کیونکہ اس سے علما کی ہوا خیزی ہوگی اور علما چونکہ ہمارے معاشرے میں دین کے نمائندے ہیں، لہٰذا اس سے دین کی بھی ہوا خیزی ہوگی۔
اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے ایک سالہ قیام کے دوران ہی مجھے یہ آئیڈیا سوجھا کہ اسلامی مشاورتی کونسل چونکہ غیر فعال ہے، لہٰذاکیوں نہ پرائیویٹ سطح پر مختلف مسالک کے علماے کرام اور اسلامی سکالرز پر مشتمل ایک علمی مجلس ایسی بنائی جائے جو معاشرے کو درپیش مسائل میں اسلامی حوالے سے غور کرکے اپنی سفارشات عوام اور حکومت کے سامنے لائے تاکہ اگر وہ چاہیں تو اس سے استفادہ کرلیں۔ میں یونیورسٹی میں نیا اور ناتجربہ کار تھا اورغازی صاحب کا جونیئرتھا، لیکن اس کے باوجود انہوں نے اس معاملے میں میری بھرپور حوصلہ افزائی کی اوراس منصوبے کو آگے بڑھانے میں میرے ساتھ مل کر کام کیا۔ مجوزہ ادارے کی تشکیل کے لیے بلائے گئے ہر اجلاس میں پرجوش طریقے سے شریک ہوتے بلکہ بہاول پور یونیورسٹی سے آئے ہوئے اپنے برادر نسبتی ڈاکٹر یوسف فاروقی صاحب کو بھی اپنے ساتھ لاتے۔(اس معاملے میں معروف اہل حدیث عالم مولانا عبدالغفار حسن مرحوم نے بھی ہمارا بھرپور ساتھ دیا) لیکن برا ہو ’’معاصرت‘‘ کا کہ یونیورسٹی کی ایک سینئر اسلامی شخصیت نے اس کام میں اس طرح مداخلت کی کہ اسے کامیاب نہ ہونے دیا۔ اللہ ان کو بھی معاف فرمائے اور ہمیں بھی۔ (ہماری اس دیرینہ خواہش کی مظہر ’’مجلس فکر و نظر‘‘ تھی جو ہم نے جامعہ پنجاب کے دوران قیام تشکیل دی اور اب ’ملی مجلس شرعی‘ہے جوسارے دینی مکاتب فکر کے علماے کرام کا متحدہ پلیٹ فارم ہے)۔
غازی صاحب مرحوم کی ایک خوبی یہ تھی کہ وہ دینی فکر و عمل میں معتدل مزاج تھے۔ نہ تجمدکے قائل تھے اور نہ تجدد کے۔ یوں ہمارے معاشرے میں جو اصحاب و طبقات تجمدکی طرف میلان رکھتے ہیں، وہ ان کے ناقد تھے اور جو اصحاب تجدد کی طرف میلان رکھتے ہیں، وہ بھی انہیں ناپسند کرتے تھے لیکن ہمارے نزدیک ان کا معتدل رویہ قابل تعریف تھابلکہ وہ جدید و قدیم کے امتزاج کا بہترین نمونہ تھے۔ کراچی یونیورسٹی میں ہمارے دوست خالد جامعی صاحب جو جدیدیت کے خلاف تیغ براں ہیں، وہ غازی صاحب کا شمار بھی تجدد زدہ لوگوں میں کرتے ہیں۔ جب انہوں نے اس کا اظہار اپنے جریدے ’’ساحل‘‘ میں کیااور غازی صاحب کے خلاف لکھنے کا ارادہ ظاہر کیاتو ہم نے دوستانہ اختلاف کرتے ہوئے انہیں مشورہ دیا کہ وہ ایسانہ کریں کیونکہ ہماری رائے میں غازی صاحب اس عتاب کے مستحق نہ تھے، چنانچہ انہوں نے وقتی طور پر ہماری درخواست قبول فرما لی۔ (گوجامعی صاحب اپنے نظریات میں بہت پختہ ہیں اور اپنی رائے پر اب بھی قائم ہیں)۔
ہمارے نزدیک فکری رویوں کے بڑے بڑے دائرے ہیں اور ہر دائرے کا ایک سنٹر ہوتا ہے اور جو لوگ اس سنٹر سے تھوڑا دائیں یا بائیں ہوتے ہیں، ان کا شماربھی اسی دائرے میں ہونا چاہیے، خواہ وہ اس دائرے کی مین اسٹریم سے تھوڑے دور اورمختلف ہی کیوں نہ ہوں۔ مثلاً متجد دین کے دائرے میں برصغیر کی دینی روایت کے لحاظ سے سرسید، چکڑالوی، امرتسری، غلام احمد پرویز،جاوید احمد غامدی صاحب وغیرہ ہیں لیکن اقبالؒ ، مولانا مودودیؒ اورڈاکٹرغازی صاحب کو اس دائرے میں شامل کرنا ہمارے نزدیک زیادتی ہے۔ ہماری غازی صاحب سے اس موضوع پر کئی دفعہ بات ہوئی، لیکن انہوں نے کبھی اس طبقہ متجددین کے حق میں کلمۂ خیر نہیں کہا۔ مغرب کے حوالے سے جو ان کی اپروچ تھی، ضروری نہیں ہے اس سے خالد جامعی صاحب جیسے اصحاب بھی مطمئن ہوں، لیکن اس کے باوجود انہیں مغرب زدہ نہیں کہا جاسکتا۔ اسی طرح بلاشبہ وہ حلقہ دیوبند کے قریب تھے (بلکہ مولانا اشرف علی تھانوی صاحب کے خاندان میں سے تھے) لیکن ہمارے علم اور مشاہدے کی حد تک وہ اس میں بھی معتدل مزاج تھے اور ہرگز متشدد نہ تھے۔ یہ الگ بات ہے کہ بریلوی بھائیوں کو ان کا یہ اعتدال نہ بھاتا ہواور وہ انہیں حکومت میں ایک دیوبندی وزیر سمجھ کر ان کی مخالفت کرتے ہوں۔
وزارت سے یاد آیا کہ بعض لوگ ان پر اعتراض کرتے ہیں کہ انہوں نے جنرل پرویز مشرف کی حکومت میں وزیر مذہبی امور کی ذمہ داری کیوں قبول کی؟ جس زمانے میں یہ واقعہ پیش آیا، ہم لاہور میں تھے۔ ایک دفعہ کسی مظلوم کی مدد کے سلسلے میں ان کے ہاں حاضر ہوا تو انہوں نے بھرپور معاونت کی، لیکن ان کی باتوں سے اندازہ ہوا کہ وہ حکومت میں خاصے غیر مطمئن تھے اور اپنے آپ کو misfit محسوس کرتے تھے اور اسے چھوڑنے کا ارادہ رکھتے تھے، لیکن اب انہیں کمبل نہیں چھوڑتا تھا۔ ناچار انہوں نے پبلک بیان دے دیا کہ وہ فلاں مہینے وزارت چھوڑ دیں گے اور پھر چھوڑ بھی دی۔ یار لوگ کہیں گے کہ قبول ہی کیوں کی تھی؟ ہم سمجھتے ہیں کہ غازی صاحب اپنی اہلیت کے بل پر بڑے سے بڑے منصب کے اہل تھے، لیکن ہمارے معاشرے کی بدقسمتی یہ ہے کہ وہ ہر اس شخص کو جو داڑھی رکھتا، ٹوپی پہنتااور عربی اسلامیات میں مہارت رکھتا ہو، اسے مولوی سمجھتا اور بطور مولوی ٹریٹ کرتا ہے (خواہ وہ روایتی ’مولویت‘ سے دور ہی کیوں نہ ہو)۔ اس طرح باصلاحیت لوگوں کو ان کی صلاحیتوں کے اظہار و استعمال کے موزوں مواقع میسر نہیں آتے اور ان میں ردعمل کی ایک نفسیات پیدا ہوجاتی ہے اور پھر جب انہیں کوئی موقع ملے تو وہ اسے قبول کرلیتے ہیں، خواہ اس کی ’’موزونیت‘‘ کچھ مشکوک ہی کیوں نہ ہو۔ ویسے بھی معتدل مزاج ہونے کی وجہ سے غازی صاحب اپنی افتاد طبع میں اینٹی اسٹیبلشمنٹ آدمی نہ تھے۔ پھر ملت کا درد رکھنے اور معاشرے کے دینی مستقبل کے حوالے سے سوچنے والے شخص کی حیثیت سے ان کے ذہن میں کئی منصوبے تھے۔ ان کا خیال ہوگا کہ وہ اقتدار میں آکر ان منصوبوں میں سے بعض پر عمل کرسکیں گے، لیکن غالباً حکومت میں جانے کے بعد جلد ہی انہیں اندازہ ہوگیا کہ ہمارا سیاسی نظام اور بیوروکریسی کا نظام نمک کی وہ کان ہے جس میں جانے والا خود نمک ہوجاتاہے اور اس کا اپنا میٹھا پانی بھی کھاری ہونے لگتا ہے، چہ جائیکہ وہ وہاں کے پانی کو میٹھا کرنے کے کسی منصوبے پر عمل کرے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ وزارت میں زیادہ دیر نہ ٹک سکے اور باہر آگئے۔ غازی صاحب کے وزارت قبول کرنے کے حوالے سے ہم نے جو کچھ ابھی کہا، وہ ہمارا ذاتی تجزیہ ہے جس سے اختلاف کا حق ہر صاحب فکر و نظر کو ہے۔
پھر ہم نے اخبارات میں پڑھا کہ وہ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے صدر ہوگئے ہیں۔ یہ ان کی محبت اور بڑا پن تھا کہ انہوں نے خود فون کرکے مجھے کہا کہ میرے پاس اسلام آباد آجاؤ، یہاں کام کے بڑے مواقع ہیں اور ترقی کے بھی۔ ایک یونیورسٹی کے زیرک سربراہ کی حیثیت سے انہیں خوب اندازہ تھا کہ یونیورسٹی بڑی بڑی بلڈنگوں کانام نہیں ہوتی بلکہ جتنے بڑے اہل علم اس سے وابستہ ہوں، یہ اتنی ہی بڑی ہوتی ہے اور جب اس میں کام کرنے والے بونے ہوں تو یونیورسٹی کی عظیم الشان بلڈنگیں اسے عظمت نہیں بخش سکتیں۔ چنانچہ جب وہ یونیورسٹی کے صدر نہ رہے اور ان کا واسطہ بونوں سے پڑا تو وہ خاموشی سے یونیورسٹی چھوڑ گئے اور جامعہ قطر چلے گئے کیونکہ وہ لڑنے والے آدمی تھے ہی نہیں۔ ہاں! تو ہم عرض کر رہے تھے کہ غازی صاحب نے ہمیں اسلام آباد یونیورسٹی آنے کی دعوت دی، لیکن ہم وہ راجپوت ہیں جن کا راج نہیں رہا، لیکن بھوت باقی رہ گیا ہے چنانچہ ہم نے تحریک اصلاح تعلیم اور نئے رول ماڈل تعلیمی اداروں کے قیام کے محاذ سے نہ ہٹنے کی ضد میں ان سے معذرت کرلی۔ یہ الگ بات ہے کہ ہم کوئی قلعہ فتح نہیں کرسکے، لیکن ہمارے نزدیک وفاداری بشرط استواری ہی اصل ایماں ہے۔ چنانچہ ہم اپنی ہٹ پہ قائم ہیں کہ غازی نہ بن سکے، شہید تو ہوں گے اور شہید بھی نہ ہوئے تو شہادت کی تمنا تو ہے۔ ہم معرکۂ کارزار میں تو ہیں، ہاتھ پاؤں تو چلا رہے ہیں __ اورممکن ہے ہمارے رب کو ہماری یہی ادا پسند آجائے۔
جب ہم نے پنجاب یونیورسٹی جوائن کی تو سرکاری ضرورت کے تحت ایک سال ہم نے جوغازی صاحب کے ساتھ اسلامی یونیورسٹی میں کام کیا تھا، اس کاتجربے کا سرٹیفکیٹ بھجوانے کی ان سے درخواست کی۔ انہوں نے سرکاری خط بھجوانے کے ساتھ جو ذاتی خط مجھے لکھا، وہ پڑھ کر میری آنکھوں میں آنسو آگئے اور میں نے اپنے بیٹوں سے کہا کہ میں مرجاؤں تو یہ خط میری قبر میں رکھ دینا کہ یہ ایک مسلمان کی دوسرے کے بارے میں بے ریا شہادت ہے۔ شاید اللہ اسے قبول فرمالے۔ اللھم اغفرلہ وادخلہ مدخلاً کریما وارزقہ جنۃ الفردوس۔ (بشکریہ ’البرہان‘ لاہور)