استاذی ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ خالص مدارس عربیہ سے فیض یافتہ تھے۔ عصری تعلیم کے لیے کبھی بھی کسی سکول، کالج، یونیورسٹی میں نہیں گئے، بلکہ علوم نبوت کی برکت سے پرائیویٹ طور پر عصری علوم میں ممتاز کامرانیاں حاصل کیں۔ دورہ حدیث شریف کاآخری امتحان جامعہ تعلیم القرآن راجہ بازار راولپنڈی سے مکمل کیا۔ اس وقت طلبہ کی اکثریت پشتو زبان بولنے والوں کی ہوتی تھی تو تدریس بھی پشتو زبان میں ہوتی تھی۔ جب استاذ ی ڈاکٹر صاحبؒ نے دورہ حدیث شریف میں قدم رکھا تو ان کے اساتذہ کرام نے فرمایا کہ ’’ محمود‘‘ آپ کو پشتو زبان بولنا ، سمجھنا نہیں آتی۔ آپ کیا کریں گے؟‘‘ فوراً بلاتاخیر اپنے عظیم استاذ سے عرض کیا کہ حضرت! آپ تدریس کے لیے عربی زبان کو اپنا لیں تو انہوں نے بشاشت اور خوشی سے قبول فرما کر اس کو عملاً نافذ کر دیا۔ اس طرح آخری سال دور ہ حدیث کی تعلیم کو قرآن حکیم، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اہل جنت کی زبان عربی میں مکمل کیا۔ میری اس تحریر سے استاذی ڈاکٹر صاحبؒ کی شان میں اضافہ تو نہیں ہوگا، مگر امید ہے کہ ان کے تذکرہ کی وجہ سے میری تحریر کی شان دوبالا ہو جائے گی۔ جس طرح حضرت حسان بن ثابتؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قصیدہ لکھتے ہوئے فرمایا:
ما ان مدحت محمدا بمقالتی لکن مدحت مقالتی بمحمد۔
’’میں نے اپنے اس مقالہ کے ساتھ حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف نہیں کی مگر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی وجہ سے اپنے مقالہ کی تعریف کر لی ہے‘‘۔
ڈاکٹر صاحب علمی اعتبار سے اتنے عظیم اور بلند تر تھے کہ الفاظ میں بیان کرنا میرے جیسے بے بضاعت انسان کے بس کی بات نہیں ہے۔ جس موضوع پر بھی لب کشائی فرماتے تھے اس کے متعلق احساس ہوتا تھا کہ اب اس عنوان کی تمام جہات کو اپنی انتہا پر پہنچا کر ہی یہ سمندر کی موج واپس پلٹے گی۔ اس علمی بہاؤ میں جس شان کو قرآن کریم نے ذکر کیا ہے وہی ان میں صاف نظر آیا کرتی تھی۔ ارشاد الٰہی ہے: انما یخشی اللّٰہ من عبادہ العلماء (فاطر۳۵: ۲۸) ’’بے شک اللہ تعالیٰ سے اس کے وہی بندے ڈرتے ہیں جو علم رکھتے ہیں‘‘۔ علم کے جس موضوع کو بھی شروع فرماتے تھے، اس کے ہمہ پہلوؤں کو خوب اجاگر کرتے۔ ان کی اپنی کتاب ’’ محاضرات قرآنی‘‘ جو مئی ۲۰۰۸ء میں شائع ہوئی اس کے پیش لفظ کے آغاز میں ہے:
’’ قرآن کریم ، تاریخ وتدوین قرآن کریم اور علوم القرآن کے چند پہلوؤں پر یہ خطبات اپریل ۲۰۰۳ء میں خواتین مدرسات قرآن کے روبرو دیے گئے ، ان خطبات کی ضرورت کا احساس سب سے پہلے میری بہن محترمہ عذرا نسیم فاروقی کو ہوا۔ جو اگرچہ عمر میں مجھ سے کم لیکن دینی حمیت، اخلاص اور للٰہیت میں مجھ سے بہت آگے اور میرے جیسے بہت سوں کے لیے قابل رشک ہیں‘‘ (محاضرات قرآنی: ص:۷)
کہ قرآن کریم کے متعلق ان محاضرات میں انتہائی وقیع اور عمدہ معلومات ہیں۔ کتاب میں بارہ خطبے شامل ہیں جن میں قرآن کے اکثر علوم پر مدلل گفتگو ہے۔ پہلاخطبہ ’’ تدریس قرآن مجید ایک منہاجی پہلو ‘‘ کے عنوان پر ہے۔ دوسرا خطبہ ’’قرآن مجید: ایک عمومی تعارف‘‘، تیسرا خطبہ ’’تاریخ نزول قرآن مجید‘‘، چوتھا خطبہ ’’جمع وتدوین قرآن مجید‘‘، پانچواں خطبہ ’’علم تفسیر: ایک تعارف‘‘، چھٹا خطبہ ’’تاریخ اسلام کے چند عظیم مفسرین قرآن‘‘، ساتواں خطبہ ’’مفسرین قرآن کے تفسیری مناہج‘‘، آٹھواں خطبہ ’’اعجاز القرآن‘‘، نواں خطبہ ’’علوم القرآن: ایک جائزہ ‘‘، دسواں خطبہ ’’ نظم قرآن اور اسلوب قرآن‘‘، گیارھواں خطبہ ’’قرآن مجید کا موضوع اور ا س کے اہم مضامین‘‘، بارہواں خطبہ ’’ تدریس قرآن مجید دورجدید کی ضروریات اور تقاضے‘‘ کے عنوان سے معنون ہے۰
مذکورہ خطبات مختصر نوٹس کی مدد سے زبانی دیے گئے ہیں جو ڈاکٹر صاحب کی ذہانت اور علمی وجاہت پر دال ہیں۔ نمونہ کے طور پر ان خطبات میں ایک اقتباس یہ ہے:
’’ اگر آپ نے بطور مدرس قرآن درس کے پہلے دن لٹھ مارنے کے انداز میں یہ کہہ دیا کہ اے فلاں فلاں لوگو! تم شرک کاارتکاب کررہے ہو اور اے فلاں فلاں لوگو! تم بدعت کا ارتکاب کر رہے ہو اور تم ایسے ہو اور تم ایسے ہوتو اس سے نہ صرف ایک شدید رد عمل پیدا ہوگا، بلکہ اس کے امکانات بہت کمزور ہو جائیں گے کہ آپ کامخاطب آپ کے پیغام سے کوئی مثبت اثر لے۔ اس انداز بیان سے مضبوط گروہ بندیاں تو جنم لے سکتی ہیں، کوئی مثبت نتیجہ نکلنا دشوار ہے۔‘‘ (محاضرات قرآنی : ص۳۴)
مذکورہ بالا عبارت سے پتہ چلتا ہے کہ مدرس اپنے درس کے ذریعے امت میں اتحاد پید اکرنے اور گروہ بندیوں سے محفوظ رکھنے کی کس طرح سعی کر سکتاہے۔ درس قرآن تعلیمات قرآن کے عین مطابق ہو، اخلاص نیت سے ہو، پھر اس درس سے باہمی عداوت، بغض، عناد اور حسد جیسی تمام بیماریاں ختم ہو جائیں گی اور تعصب وعصبیت جڑ سے اکھڑ جائیں گی۔ ان خطبات سے عامی اپنی اہلیت کے مطابق آسانی سے کثیر فوائد حاصل کرکے اپنی زندگی کو قرآن کی تعلیم کے مطابق استوار کر سکتا ہے، رضاے الٰہی حاصل کر سکتا ہے، دینی و دنیوی کامرانیاں حاصل کر سکتا ہے۔ علما بھی ان خطبات سے استفادہ کر کے اپنے علم میں رسوخ پیدا کر سکتے ہیں۔
جس طرح محاضرات قرآنی کے عنوان سے علوم قرآن، تاریخ قرآن مجید اور تفسیر سے متعلق موضوعات پر خطبات آئے، اسی طرح محاضرات حدیث میں علوم حدیث، تاریخ تدوین حدیث اور مناہج محدثین پر بارہ خطبات بہت ہی اہم ہیں۔ ان محاضرات کی اصل مخاطب خواتین تھیں جو خالص اہل علم تھیں۔
محاضرات کی تیسری جلد فقہ اسلامی کے اہم پہلوؤں پر با رہ خطبات پر مشتمل ہے۔ فقہ اسلامی ایک بحرناپیدا کنار ہے جس کی وسعتوں ایک جلد کیا، بیسیوں جلد وں میں سمیٹنا بھی ممکن نہیں۔ ہمارے اسلاف نے فقہ کے علوم پر ان گنت کتب تحریر فرمائی ہیں۔ اس جلد میں فقہ اسلامی کے اہم مضامین، بنیادی مباحث،اساسی تصورات اور اہم پہلوؤں کو آسان زبان میں جدید تعلیم یافتہ طبقہ کو پیش نظر ر کھ کر بیان کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے فقہ اسلامی کا اردو زبا ن میں مطالعہ کرنے والے طبقہ کے لیے تین قسم کے لوگوں کو مدنظر رکھا ہے۔ اولاً شعبہ قانون ووکالت سے تعلق رکھنے والے، دوسرے وہ علما جو فقہ یا افتا کی ذمہ داریاں انجام دیتے ہیں، تیسرے یونیورسٹیوں اور جدید تعلیم کے اداروں سے وابستہ حضرات یا وہ لوگ جو فقہ اسلامی کا عمومی اور سرسری سا مطالعہ کیا کرتے ہیں۔ یہ کتاب نہ صرف فقہ اسلامی کے طلبہ، وکلا اور قانون دان حضرات کے لیے مفید اور دلچسپ ہے بلکہ عام تعلیم یافتہ حضرات بھی اس کے ذریعے بہت سے معلومات میں فقہی معاملات کو ان کے صحیح پس منظر میں سمجھ سکتے ہیں۔
محاضرات سیرت صلی اللہ علیہ وسلم، محاضرات کی چوتھی جلد ہے۔ یہ خطبات سیرت طیبہ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مبا رکہ سے نہیں بلکہ علم سیرت سے متعلق ہیں۔ سیرت طیبہ پر ہزاروں کتب موجود ہیں جو بے شمار کتب خانوں کی زینت ہیں۔ ایک سے ایک بڑھ کر ہیں۔ اردو زبان میں تاریخ سیرت، تدوین سیرت اور مناہج سیرت پر نسبتاً کم مواد ہے۔ ہمارا جدید تعلیم یافتہ طبقہ مغربی مستشرقین کے پیش کردہ شبہات اور اعتراضات سے بہت جلد متاثر ہو جاتا ہے اور اب اس طبقہ کے اثرات قرآن حکیم،حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، فقہ اسلامی اور سیرت طیبہ کے ذخائر پر عدم اعتماد تک پہنچ گئے ہیں۔ ان حالات میں فن سیرت کی ابتدائی تدوین، تاریخ اور مناہج کے بارے میں مستند معلومات کی پہلے کی نسبت انتہائی زیادہ ضرورت ہے۔ اس صورت حال کے مدنظر محاضرات سیرت کے خطبات پیش کیے گئے اور ان میں مشرق ومغرب سے اٹھنے والے بے شمار اعتراضات کو موضوع سخن بنایا گیا ہے۔
محاضرات کی پانچویں جلد محاضرات شریعت ہے۔ اس میں شریعت اسلامیہ کا جامع تعارف کروایا گیا ہے اور شریعت اسلامیہ کے عناصر اور اہم جزئیات کو اس طرح پیش کیا گیا ہے جیسا کہ تاریخ اسلام کے مستند، معتمد اور معتبر فقہا، متکلمین اور اصحاب تزکیہ یعنی سلوک واحسان نے اسے سمجھا اور ارشاد فرمایا ہے۔ شریعت کی تعلیم وتفہیم اور اس کے قواعد وضوابط اور احکام کے بارے میں جو کج فہمیاں، غلط فہمیاں یا شکوک وشبہات پائے جاتے ہیں، اس کتاب میں انھیں دور کرنے کی بہت خوبصورت انداز میں کوشش کی گئی ہے۔ شریعت اسلامیہ کو عام فہم انداز میں پیش کیا گیا ہے اور جامع تعارف کے ساتھ عالمگیر سطح پر امت مسلمہ کی رہنمائی کی گئی ہے۔ اہم موضوعات میں اسلامی شریعت کا تعارف، خصائص، مقاصد اور حکمت، امت مسلمہ اور مسلم معاشرہ، تہذیب اخلاق، تدبیر منزل ومدن، تزکیہ واحسان وغیرہ شامل ہیں۔ آخر میں ’’اسلامی شریعت کا مستقبل اور امت مسلمہ کا تہذیبی ہدف کیا ہے‘‘ کے اہم موضوع پر نہایت وقیع خطبہ ہے جس کے محاسن اور خوبیوں کا اندازہ مطالعہ کے بعد ہی ہو سکتا ہے۔ یہ خطبات اسلام آباد اور دوحہ(قطر) کی مختلف مجالس میں پیش کیے گئے اور دوران خطبات میں وقفے لمبے اور زیادہ رہے، سامعین بھی تبدیل ہوتے رہیجس کی وجہ سے ان میں تکرار موجود ہے۔
محاضرات کی چھٹی اور آخری جلد معیشت وتجارت سے متعلق اہم خطبات پر شامل ہے۔ عصر حاضر میں معیشت وتجارت اور مالیات کی بہت زیادہ اہمیت ہو گئی ہے۔ اگر معیشت وتجارت کرنے کے ذرائع صحیح اور شریعت اسلامی کے احکام کے مطابق ہیں تو ان کا انسانی ذہن پر مثبت اثر ہوتا ہے، کیونہ لقمہ حلال سے بننے والے خون میں وہ جذبات ہوتے ہیں جو انسان کو اللہ کی مرضیات پر چلنے پر مجبور کرتے ہیں۔ اس کے برعکس لقمہ حرام سے بننے والے خون کے جذبات انسان کو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی پر اکساتے ہیں۔ ان میں اعلیٰ ترین نافرمانی انتہائی بے حمیتی اور بے غیرتی پر منتج ہوتی ہے جس کی بین مثال عصر حاضر کا یورپ ہے۔ ڈاکٹر صاحبؒ نے عالمگیریت اور گلوبلائزیشن کے اس دور میں بین الاقوامی تجارت اور عالمی اقتصادی نظام کے مسائل کی اہمیت کے پیش نظر وقیع اور اہم خطبات پیش فرمائے ہیں جن سے انسان صحیح اور اسلامی اصولوں کے مطابق اپنی معیشت وتجارت اور مالیاتی مسائل کے لیے صحیح سمت کا انتخاب کرکے مرضیات خداوندی کو اپنا ہدف بنا کر دارین کی سعادتیں حاصل کر سکتا ہے۔
اسلا م کے مقابل دیگر مغربی معاشی نظام، کمیونزم اور سرمایہ داری وغیرہ اپنی موت آپ مر چکے ہیں۔ انسانیت قلبی سکون کی تلاش میں ہے جو دولت وحکومت یا دنیا کی کسی اور چیز سے میسر نہیں ہو سکتا۔ وہ اگر کسی کو مل سکتا ہے یا اس کو تلاش کیا جا سکتا ہے تو صرف اور صرف اسلام اور اسلام کے اصول اصول تجارت اور اصول مالیات وغیرہ میں ہی ملنا ممکن ہے۔ مغربی معیشت ایسی مشکلات میں پھنس چکی ہے جن سے نکلنے کے لیے انھیں کوئی راستہ دکھائی نہیں دے رہا۔ تمام دنیا کی نظریں اس وقت ان مشکلات کے حل کی طرف لگی ہوئی ہیں۔
محاضرات کی تمام جلدوں کی تقدیم یا پیش لفظ میں ڈاکٹر صاحب نے تمام کرم فرماؤں کا شکریہ اس انداز سے ادا فرمایا کہ اس سے ان کی اپنی شخصیت میں اسلام کی تعلیمات کا ایک اہم اور ضروری پہلو جس سے انسان انسانیت کی معراج پرپہنچ جاتا ہے، انتہائی نمایاں نظر آتا ہے۔ وہ اہم پہلو تواضع ہے جس کا حدیث ’’من تواضع للہ رفعہ اللہ‘‘ میں ذکر ہے۔ تواضع اور انکسار کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ڈاکٹر صاحب کو وہ مقام عطا فرمایا جوان کے معاصرین میں سے کسی کو نہ مل سکا۔
ڈاکٹر صاحب کی دینی اور علمی خدمات محاضرات کی شکل میں اس وقت دنیا میں موجود ہیں۔ عصر حاضر میں علوم کے اعتبا ر سے علوم نبوت کے ورثا یعنی علماے کرام اور عصر ی تعلیم کے ماہرین ڈاکٹر صاحب کے محاضرات سے انتہائی متاثر ہیں۔ آخری خطبہ یعنی محاضرات کی آخری کڑی ’’تاریخ حدیث اور صحاح ستہ کا مقام و مرتبہ‘‘ آپ نے ۲۴؍ جولائی ۲۰۰۸ء کو جامعہ اسلامیہ امدادیہ فیصل آباد میں ارشاد فرمایا جو محرم الحرام ۱۴۳۲ھ میں طبع ہوا۔ اس سے قبل یہ خطبہ ’’تحقیقات حدیث‘‘ میں بھی چھپ چکا ہے۔ مگر اس وقت میرے سامنے جو خطبہ موجود ہے، وہ خود ڈاکٹر صاحب ؒ کی طرف سے نظر ثانی و نظر ثالث شدہ خطاب ہے جس میں مجلہ ’’ تحقیقات حدیث‘‘ میں شائع شدہ مضمون پر اضافات بھی شامل ہیں۔ اس میں، جیسا کہ نام سے واضح ہے، علم حدیث کی اہمیت اور علوم حدیث اور طالبان حدیث کی خدمات عظیمہ کا تذکرہ ہے۔
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ڈاکٹر صاحبؒ کی تمام حسنات کو اعلیٰ درجے میں قبول فرما کر ان کے تمام علمی محاضرات کو ان کے لیے صدقہ جاریہ بنا دے۔ اللہ تعالیٰ ان کو اعلیٰ علیین میں جگہ دے اور جنت الفردوس میں اپنے شایان شان مقام رفیع عطا فرمائے۔ آمین۔