شعبان/رمضان ۱۴۲۷ھ بمطابق ستمبر /اکتوبر ۲۰۰۶ء میں جامعۃ الرشید کراچی میں دورۂ اسلامی بنکنگ ہوا۔ اختتامی تقریب سے ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ (۱۹۵۰ء-۲۰۱۰ء) نے معیشت اور اسلامی بنکاری پر تقریباً دو اڑھائی گھنٹے مفصل خطاب فرمایا۔ جامعۃ الرشید سے واپسی پر ڈاکٹر صاحب کو ایئر پورٹ پہنچانے کے لیے راقم الحروف او رمفتی احمد افنان ہمراہ تھے۔ راقم کو ڈاکٹر صاحب سے مختلف وجوہ سے تعلق او رقلبی لگاؤ تھا۔ اسلام آباد میں ڈاکٹر صاحب کے لیکچرز، بیانات، محاضرات اور مختلف تقریریں سننے کا موقع ملا۔ مختلف سیمیناروں اور کانفرنسوں میں ان سے ملاقات کا شرف بھی حاصل ہوا۔ اسی طرح جب ڈاکٹر صاحب کی رہائش ایف سیکس ون اسلام آباد میں تھی تو ہمارے جامعہ محمدیہ (ایف سکس فور) میں پڑوس کی وجہ سے جامعہ کے مختلف پروگراموں میں شرکت فرماتے اور بیانات بھی فرماتے۔ان تعلقات کی بنا پر ڈاکٹر صاحب بہت شفقت فرماتے۔ انھوں نے ڈاکٹر حمید اللہ صاحب کے رسالہ ’’عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے اصول سیاست‘‘ پر احقر کی تعلیقات کے شروع میں تقدیم بھی لکھی۔ اس لیے راقم نے اس موقع کو غنیمت جانا اور ڈاکٹر صاحب سے مختلف سوالات کر کے ان کو قلم بند کر لیا جو قارئین کی دلچسپی او ر استفادہ کے لیے پیش خدمت ہیں۔ڈاکٹر صاحب سے آخری ملاقات اسی رمضان المبارک ۲۰۱۰ء میں فیڈرل شریعت کورٹ میں ہوئی۔
سوال :ایک چیز مصر میں جائز ہوتی ہے اور پاکستان میں ناجائز، اس کا کیا حل ہے ؟
جواب: معاملات بین الاقوامیت میں جا رہے ہیں تو یکسانیت کے لیے ایک نظام بنانا پڑے گا۔ دنیائے اسلام کا ایک مشترکہ شریعہ بورڈ ہو۔ اسلامی ترقیاتی بنک نے اس کی کوشش کی تھی، لیکن امریکہ سے ڈرتے ہیں ۔
سوال:ڈاکٹر صاحب! تقریر میں آپ نے فرمایا کہ مرابحہ میں جو طریقہ استعمال ہوتا ہے کہ عمیل کو ہی وکیل بالقبض بنا دیا جاتا ہے، یہ بہت رکیک حیلہ ہے اور آپ نے فرمایا کہ پاکستان میں اسلامی بنکاری کا سو فیصد نہیں تو ستانوے فیصد کاروبار مرابحہ پر ہی ہو رہا ہے تو کیا یہ حیلہ آپ کی نظر میں جائز نہیں ہے؟
جواب : یہ حیلہ شرعاً جائز ہے اور اس کی وجہ سے ہونے والا عقد بھی درست ہے ۔
سوال:اور اس طرح حاصل ہونے والا نفع کیا حلال ہوگا؟
جواب: ہاں !حلال ہوگا ۔
سوال : جب حکومت کسی فیصلے کے ذریعے سے آپ کی کسی محنت کو ختم کر دیتی ہے جس طرح کہ ربا کیس میں ہوا، میں اس لیے عرض کر رہا ہوں کہ جب ہم کو اس قدر تکلیف ہوتی ہے تو جنہوں نے براہ راست محنت کی ہے، ان کو کس قدر تکلیف ہوتی ہوگی؟
جواب:میں ایسے موقع پر حضرت نوح علیہ السلام کی عمر کو یاد کر لیتا ہوں کہ انھوں نے ساڑھے نو سو سال محنت کی۔ اللہ تعالیٰ نے کسی اور نبی کی عمر کو ذکر نہیں فرمایا۔ میرا خیال ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام کی عمر اس لیے بتائی گئی تاکہ اس سے تسلی حاصل کی جاسکے اور آدمی مایوس نہ ہو اور حوصلہ کم نہ ہو۔ ان کی عمر بیان کرنے سے مقصود یہ ہی معلوم ہوتا ہے کہ بس کام میں لگے رہنا چاہیے۔ تیمور لنگ جب ہار گیا تو کوہستان کے کسی غا ر میں آرام کے لیے پناہ لی۔ ایک چیونٹی سو مرتبہ گری اور پھر چڑھی جس سے وہ آخر کار کامیاب ہو گئی۔ اس سے اس نے سبق حاصل کر کے فوج کو ازسر نو مرتب کیا او رحملہ کر دیا اور کامیاب ہو گیا۔ اس سے سبق ملتا ہے کہ ہمت نہیں ہارنا چاہیے اور کام میں لگے رہنا چاہیے۔
سوال :(از مفتی احمد افنان صاحب)ڈاکٹر صاحب! میں درس قرآن دیتا ہوں، اس کے لیے کس طرح تیاری کروں؟
جواب: تین ،چار تفاسیر کو مطالعہ میں رکھیں اور مولانا عبد الماجد دریا آبادی کی تفسیر ماجدی ضرور مطالعہ کریں۔ اس میں جدید شبہات اور مغربی مصنفین کے قرآن پر اشکالات کا ذکر کر کے جواب دیا گیا ہے۔درس قرآن جاری رکھنا چاہیے۔ بنگلہ دیش میں مولانا دلاور صاحب کا پندرہ روزہ درس قرآن ہوتا ہے۔ انھوں نے اسٹیڈیم (غالباً اسٹیڈیم ہی فرمایا) بک کروایا ہوتا ہے۔ اس میں آٹھ نو لاکھ افراد ہوتے ہیں اور عشا سے فجر تک چلتا ہے جس میں تمام قرآن کریم کا خلاصہ ذکر کر دیا جاتا ہے۔
سوال : ڈاکٹر صاحب! اگر آپ اسلام آباد میں درس قرآن شروع فرمائیں تو بہت لوگ آئیں گے کیونکہ لوگ آپ کے بیان کو بہت پسند کرتے ہیں۔
جواب : (کچھ دیر توقف کیا اور پھر فرمایا:) قرآن کریم کے بارے میں کچھ کہتے ہوئے ڈر لگتا ہے۔
سوال : ہمارے مدارس کے جو طلبہ بنکوں اور دیگر عصری اداروں میں چلے جاتے ہیں تو ان کی تربیت میں بھی کمی آجاتی ہے، وہ پہلا سا تدین بھی باقی نہیں رہتا اور اعمال میں بھی سستی ہو جاتی ہے، اس کی کیا وجہ ہے ؟
جواب : بنک اور دیگر عصری اداروں کا اپنا ایک ماحول ہوتا ہے اور وہاں کے لوگ اس وضع قطع او رہیئت کو پسند نہیں کرتے تو یہ کشمکش میں مبتلا ہو جاتا ہے اور بالآخر اس وضع قطع اور ہیئت کو ترک کر دیتا ہے۔ تربیت کا سلسلہ تو بہر حال برقرار رہنا چاہیے، لیکن اگر یہ طالب علم اپنے نظریات اور سوچ کے اعتبار سے پختہ ہے تواس میں اس تبدیلی کو بھی میں اتنا برا نہیں سمجھتا، کیونکہ ہزاروں ملحدوں اور بے دینوں سے بہر حال یہ بہتر ہے جن کی سوچ او رفکر ہی بے دینی کی ہے۔ سوچ اور نظریات کی گمراہی بہت بڑی ہے ۔
سید عبد اللہ صاحب عالم تھے اور اردو اد ب کے نقادوں میں شمار ہوتے ہیں۔ ان کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ حضرت مولا نا احمد علی لاہوری ؒ کے درس قرآن میں شریک ہوتے تھے اور اسلام آباد میں ہوتے تو مولانا غلام اللہ خانؒ صاحب کے درس میں ضرور شریک ہوتے۔ وہ اپنا حال سناتے تھے کہ میں حضرت لاہوریؒ کے درس میں پیچھے بیٹھتا تھا۔ ایک دن افراد کم تھے تو میں قریب بیٹھا اور اپنا چہرہ رومال سے چھپا لیا۔ حضرت لاہوری نے فرمایا: عبد اللہ! قریب ہو جاؤ۔ (یہ سناتے ہوئے ڈاکٹر سید عبد اللہ رو پڑتے تھے)۔ پھر حضرت لاہوری نے فرمایا : ’’سپاہی دو طرح کے ہوتے ہیں۔ ایک باوردی اور دوسرا بے وردی۔ ضرورت کے وقت وردی اتار دی جاتی ہے۔ بس کام کرنا چاہیے۔ تم کام میں لگے رہو۔ اگر اس طرح کام ہوتا ہے تو اس طرح کام کرتے رہو۔‘‘
سوال: ڈاکٹر صاحب! حافظہ کے لیے آپ کیا استعمال کرتے ہیں؟ کیونکہ تقریر کے دوران آپ نے پاکستان کی معیشت و بنکاری سے متعلق تیس چالیس سال کی تاریخ بیان کی۔ تاریخیں، دن اور وقت تک بیان کیا جس سے ہمیں بھی تعجب ہو رہا تھا۔
جواب : کوئی چیز استعمال نہیں کرتا۔ پہلے میرا حافظہ کافی اچھا تھا، اب شوگر کی وجہ سے کمزور ہو گیا ہے۔ انڈیا سے ایک چورن ملتاہے جسے مہا سرسوتی کہتے ہیں جس کا مطلب ہے علامہ کبیر، یعنی جو اس کو کھاتا ہے، اس کا حافظہ تیزہو جاتا ہے اور وہ ہندوؤں کا علامہ کبیر اور مہا سرسوتی بن جاتا ہے۔ میں نے اپنے ایک رشتہ دار کو وہاں سے لانے کے لیے کہا تھا، لیکن وہ اب تک نہیں ملا۔
سوال: خمیرہ گاؤ زبان استعمال نہیں کرتے؟
جواب: ہے تو بہت مفید اگر اصلی ملے، مگر اس میں شوگر وغیرہ میٹھا استعمال کیا جاتا ہے اور میں شوگر کے مرض کی وجہ سے استعمال نہیں کر سکتا۔ صدر مشرف جب انڈیا گیا تو وہاں ایک حکیم صاحب نے ان کو جوش عقیدت میں پانچ کلو خمیرہ گاؤ زبان کا ڈبہ دیا۔ مشرف صاحب جب اسلام آباد آئے تو کیبنٹ میں وزرا وغیرہ جمع ہوئے اور ان کو دورہ کے حالات بتائے۔ جب اٹھنے لگے تو آخر میں کہا کہ ایک بات میں بھول گیا کہ ایک حکیم صاحب نے پانچ کلو کا ڈبہ دیا تھا۔ اس پر کوئی عربی نام لکھا تھا،پتہ نہیں کیا نام تھا۔ سیکرٹری صاحب نے جیب سے پرچی نکال کر بتایا کہ خمیرہ گاؤ زبان تھا۔ صدر صاحب نے کہا کہ ڈاکٹر صاحب (ڈاکٹر غازی صاحب) کو عربی سے تعلق ہے، عربی جانتے ہیں، ان کو دے دو۔ بعد میں معلوم کیا تو پتہ چلا کہ اس ڈبے کو پھینک دیا گیا ہے۔
سوال: ڈاکٹر حمید اللہ صاحب کے رسالہ ’’عہد نبوی کے اصول سیاست‘‘ پر میں نے کچھ کام کیا ہے، اس میں ڈاکٹر صاحب نے ایک لفظ استعمال کیا ہے ’’بدرقہ‘‘۔ اس کا معنی اردو لغت میں ’’وہ شخص جو راستے میں مسافر کی حفاظت کرے، قافلہ کا راہنما، نگہبان، محافظ‘‘ ہے۔ کتاب میں کون سا معنی مراد ہے ؟
جواب لغت والے معنی ہی یہاں مراد ہیں۔
سوال : اسی طرح لکھا ہے کہ گوروں کی ’’لنچنگ‘‘ پر اتر آنے والی ننگ انسانیت قوم۔ لنچنگ کے معنی کیا ہیں؟
جواب: یہ لفظ ’’لنچنگ‘‘ (Lunching) نہیں ہے، بلکہ یہ انگریزی لفظ Lynching ہے اور اس کا معنی ہے کسی کو لاٹھیاں مار مار کر ہلاک کرنا۔ گورے دنیا کے جس ملک میں بھی گئے، انھوں نے کالوں کو نفرت اور حقارت کی نگاہ سے دیکھا اور جہاں تک بن پڑا، کالوں کو بلا جواز و بلا قانون لاٹھیاں مار مار کر ہلاک کر دیا، خواہ گورے امریکہ میں گئے خواہ آسٹریلیاوغیرہ میں گئے۔
سوال : آ پ نے بنوری ٹاؤن میں بھی پڑھا ۔ کیا حضرت بنوری ؒ سے بھی کچھ پڑھنے کابھی موقع ملا؟
جواب: ہمارے اصول الشاشی کے استاد مولانا عبد اللہ کاکا خیل صاحب مدینہ یونیورسٹی چلے گئے (جو بعد میں اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد میں پروفیسرہو گئے) تو ان کے جانے کے بعد حضرت بنوری ؒ نے باقی اصول الشاشی پڑھائی۔
سوال: اس کے علاوہ کسی اور بڑے عالم دین سے کچھ پڑھا ہو؟
جواب: حضرت مدنی کے شاگرد حضرت مولانا قاری محمد امین صاحب ؒ راولپنڈی کے ورکشاپی محلہ میں رہتے تھے۔ ان کا وہاں مسجد و مدرسہ بھی ہے، ان سے حماسہ پڑھی تھی ۔
سوال: آپ نے دورۂ حدیث شریف کہاں سے او ر کس سنہ میں کیا؟
جواب: ۱۹۶۶ء میں تعلیم القرآن راجہ بازار سے کیا۔
سوال: پھرتو شیخ القرآن مولانا غلام اللہ خان صاحب سے بھی استفادہ کا موقع ملا ہوگا؟
جواب: مولانا اس وقت مہتمم تھے، لیکن ان سے استفادہ کا موقع نہیں مل سکا۔
سوال : تعلیم القرآن میں کن اساتذہ سے استفادہ کیا؟
جواب: مولانا عبد الشکور صاحب ،مولانا عبد الرشید صاحب اور مولانا انور شاہ صاحب سے استفادہ کا موقع ملا۔